ٹریفک حادثات میں اضافہ
سرکاری افسروں کی غلطیوں، کوتاہیوں اور فرض ناشناسی ملک کے شہریوں پر بہت بھاری پڑ رہی ہے
پاکستان میں ٹریفک حادثات میں مرنے والوں کے اعداد وشمار اکٹھے کیے جائیں تو یہ تعداد دہشت گردی کی وارداتوں میں مرنے والوں کی تعداد سے کئی گنا زیادہ ہو گی۔ ٹریفک حادثوں کا شکار ہو کر عمر بھر کے لیے معذور ہونے والوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہو گی۔
پاکستان میں شاید ٹریفک حادثات میں مرنے والوں کا ڈیٹا جمع کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی، کوئی ٹی وی اینکر، تجزیہ کار یا کالم نگار بھی اس پر بات کرنے یا لکھنے کو زیادہ اہم نہیں سمجھتا۔ اس لیے حکومت پر بھی اس حوالے سے دباؤ نہیں بنتا، پر وہ کسی بڑے ٹریفک حادثے کے بعد رنج وغم کا لگا بندھا پیغام پریس کو جاری کر دیتے ہیں اور اس کے بعد زندگی رواں دواں رہتی ہے لیکن بعض ٹریفک حادثے کسی خاندان کے لیے زندگی بھر کا روگ بن جاتے ہیں۔
ملک میں بین الصوبائی شاہراہوں، شہروں، قصبوں اور دیہات کی سڑکوں پر آئے روز حادثات ہوتے ہیں، شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جس دن کوئی ٹریفک حادثہ نہ ہوتا اور انسانی جان ضایع نہ ہوتی ہو۔ گزشتہ روز پنجاب کے دو کاروباری اور صنعتی شہروں گوجرانوالہ اور فیصل آباد کے قریب دو ہولناک ٹریفک حادثات ہوئے ہیں۔
میڈیا کی اطلاعات کے مطابق ان دونوں حادثات میں خواتین و بچوں سمیت 17 افراد جاں بحق ہوئے ہیں جب کہ 10 زخمی ہوگئے ،میڈیا نے جو تفصیلات بتائی ہیں ان کے مطابق حافظ آباد روڈ پر واقعہ ایک قصبے کوٹ لدھا کے قریب دو مسافر ویگنوں اور ڈمپر میں خوفناک تصادم ہوا، اس تصادم کے نتیجے میں 6 خواتین، ایک معصوم بچی سمیت 12 افراد جان بحق ہو گئے جب کہ 8 مسافر زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس حادثے میں جاں بحق ہونے والے11 افرادکا تعلق ایک ہی خاندان سے تھا ، دو مسافر وینز سرگودھا سے گوجرانوالہ کی طرف آرہی تھیں، تمام مسافر سرگودھا سے ایک درگاہ کی زیارت کے بعد گھر واپس لوٹ رہے تھے، ان وینز کا ایک ڈمپر سے خوفناک تصادم ہو گیا، بتایا گیا ہے کہ ڈمپر کے ڈرائیورکی تیزرفتاری اورغفلت کے باعث یہ المناک حادثہ رونما ہوا ہے۔
ادھر فیصل آباد سمندری روڈ پر بائی پاس کے قریب ایک آئل ٹینکر موٹرسائیکل رکشہ سے ٹکرا گیا جس کے نتیجے میں 3 بہن بھائیوں سمیت ایک ہی خاندان کے 5 افراد جاں بحق جب کہ باپ بیٹا زخمی ہو گئے۔اس حادثے کے بارے میں بھی کہا گیا ہے کہ یہ بھی آئل ٹینکر کی تیز رفتاری کی وجہ سے ہوا۔
ان حادثات میں قصوروار آئل ٹینکر اور ڈمپر ڈرائیور کی غفلت اور تیزرفتاری ہے یا وینز ڈرائیور اور موٹرسائیکل چلانے والے کی غلطی ہے، اس کے بارے میں حقیقت تو اس وقت سامنے آئے گی جب تحقیقات مکمل ہو جائیں گی لیکن پاکستان میں جو کلچر پروان چڑھ چکا ہے، اس کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو حکومت وقت اور سرکاری افسران اور اہلکار زیادہ قصوروار نظر آئیں گے۔ یہ اس لیے کہ ہیوی، لائٹ وہیکلز کے ڈرائیورز کی مہارت اور ذہانت کو جانچنے کا اختیار سرکاری ملازمین کو ہے۔
اصول اور قانون کے مطابق ٹریفک پولیس ڈرائیونگ لائسنس جاری کرنے کی مجاز ہے۔ پولیس اہلکار ہی ڈرائیورز کا ڈرائیونگ ٹیسٹ لیتے ہیں، اس لیے اگر ہیوی وہیکلز کا ڈرائیور قانون اور قاعدے کے مطابق ہیوی وہیکلز نہیں چلاتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈرائیونگ لائسنس جاری کرنے سے پہلے اس کی مہارت اور ذہانت کو مسلمہ معیار کے مطابق چیک نہیں کیا جا سکا۔ اگر اسے معیار کے مطابق چیک کیا جاتا تو وہ ایسا حادثہ نہ کرتا جس سے بآسانی بچا جا سکتا تھا۔
پوری دنیا میں ٹریفک حادثات ہوتے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ اور مہذب ممالک میں ان حادثات کی بڑی گہرائی اور باریک بینی سے تحقیقات کی جاتی ہیں۔ اس کے بعد اس رپورٹ کو جاری کیا جاتا ہے اور مستقبل میں ان وجوہات کو دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جن کی وجہ سے کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے۔
ترقی یافتہ ملکوں میں ٹریفک حادثات عام طور پر ناگہانی فنی خرابی کی وجہ سے ہوتے ہیں مثلاً ہائی ویز پر سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی وہیکل کا اچانک ایکسل ٹوٹ جائے، سٹیئرنگ جام ہو جائے، بریک فیل ہو جائیں یا کسی وجہ سے ٹائر پھٹ جائے لیکن ایسے حادثے شاز ونادر ہی ہوتے ہیں جن میں ڈرائیور کی غلطی ہو۔
پاکستان میں ٹریفک حادثے ڈرائیورز کی ٹریفک رولز سے لاعلمی، ٹریفک سائنز کو نہ سمجھنا، لائن اور لینز کے فرق کو نہ سمجھنا، ٹریفک سگنلز کی پرواہ نہ کرنا، سیٹ بیلٹ نہ باندھنا وغیرہ کے باعث ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ زیادہ بڑی خرابی کی ذمے داری سرکاری محکموں پر عائد ہوتی ہے۔
سرکاری افسروں اور ملازموں کو جو تنخواہیں اور دیگر سہولتیں و مراعات مل رہی ہیں، وہ ٹیکس پیئرز کے پیسوں سے مل رہی ہیں۔ غیرملکی مالیاتی اداروں سے ریاست جو قرض لیتی ہے، وہ بھی اس ملک کے شہریوں کے نام پر لیتی ہے کیونکہ شہری ہی ریاست کی نمایندگی کرتے ہیں۔ پاکستان میں نوکرشاہی ہی خود کو عقل کل اور مختارِ کل سمجھتی ہے اور خود کو قانون سے بالاتر طبقہ خیال کرتی ہے۔
پاکستان میں ڈرائیونگ لائسنس لینا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ سفارش، تعلق اور پیسہ ہو تو بغیر ڈرائیونگ ٹیسٹ کے گھر بیٹھے لائسنس مل جاتا ہے۔ دوسرا ڈرائیور کے لیے کسی قسم کا کوئی معیار مقرر نہیں ہے۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں ٹریکٹر ٹرالی، موٹرسائیکل رکشہ چلانے والوں کے پاس کوئی ڈرائیونگ لائسنس نہیں ہوتا۔ شہروں کی بھی تقریباً یہی صورت حال ہے۔
شہروں میں موٹرسائیکل حادثات بہت زیادہ ہوتے ہیں اور زیادہ اموات بھی موٹرسائیکل حادثوں میں ہوتی ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنا انتہائی مشکل کام ہوتا ہے۔ انتہائی محنت، مہارت اور ذہانت کا مظاہرہ کر کے ہی کوئی ڈرائیور لائسنس حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ زیادہ دور نہیں بلکہ متحدہ عرب امارات، قطر، عمان اور سعودی عرب کے نظام کو ہی دیکھ لیں، ان ملکوں میں لائسنسنگ اتھارٹی کے اہلکار انتہائی سخت ڈسپلن کے مالک ہوتے ہیں۔
کوئی شخص انھیں رشوت کا لالچ دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا اور نہ ہی وہ کسی ڈرائیور کو کسی بھی پہلو پر معمولی سی بھی رعایت نہیں دیتے۔ اسی طرح ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کے حوالے سے بھی سرکاری افسروں اور ملازموں کا طرزعمل بے لچک ہوتا ہے۔ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے کو کسی بھی طرح رعایت نہیں مل سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان سے دوسرے ممالک میں گئے ہوئے ڈرائیور حضرات غیرمعمولی مہارت اور ذہانت کا مظاہرہ کر کے ڈرائیونگ کرتے ہیں۔ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔
پاکستان میں حالت یہ ہے کہ اچھے خاصے تجربہ کار ڈرائیور اپنی گاڑی کو درست طریقے سے پارک نہیں کر سکتے۔ پاکستان میں ہیوی وہیکلز چلانے والے ڈرائیور حضرات ماہر ڈرائیور ہوتے ہیں لیکن جن کمپنیوں کے وہ ملازم ہوتے ہیں، وہ ان سے کام زیادہ کراتے ہیں۔ کئی کئی گھنٹے مسلسل ڈرائیونگ کی وجہ سے ان پر نیند کا غلبہ بھی طاری ہوتا ہے اور عصابی نظام بھی مفلوج ہو جاتا ہے جس کا نتیجہ جان لیوا حادثے کی شکل میں نکلتا ہے۔ ایسی بس کمپنیوں اور ٹرالر کمپنیوں کے مالکان کو چاہیے کہ وہ اپنے ڈرائیورز کی صحت کا خیال رکھیں اور ان کے اوقات کار میں کمی کریں تاکہ ڈرائیور ذہنی اور جسمانی طور پر فٹ ہو۔
ٹریفک پولیس اور دیگر ایسے محکمے جن کا کام ڈرائیور کی صلاحیت کو چیک کرنا، انھیں ڈرائیونگ لائسنس جاری کرنا، گاڑیوں کی فٹنس کو چیک کرنا ہے، ان کے افسروں اور اہلکاروں کے احتساب کا نظام بنایا جائے تاکہ انھیں پتہ ہو کہ اگر انھوں نے اپنے فرائض قانون کے مطابق ادا نہ کیے تو ان کو سزا یا بھاری جرمانہ ہو سکتا ہے۔ سزا اور جزا کا نظام بنایا ہی اسی لیے گیا ہے کہ کوئی ریاست منظم انداز میں آگے بڑھ سکے۔ اگر سزا اور جزا کا نظام یکطرفہ ہو جائے تو پھر ایسی ہی صورت حال جنم لیتی ہے جیسے اب پاکستان میں ہے۔
سرکاری افسروں کی غلطیوں، کوتاہیوں اور فرض ناشناسی ملک کے شہریوں پر بہت بھاری پڑ رہی ہے۔ ان کے احتساب کا نظام بھی بہت پیچیدہ ہے اور کئی جگہ تو کسی اعلیٰ عہدیدار کا احتساب ممکن ہی نہیں ہے۔ ایسے قوانین بنا دیے گئے ہیں جو صرف ریاست اور اس کے اعلیٰ عہدیداروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہیں۔ ان کے احتساب کا کوئی میکنزم نہیں ہے۔ جب تک اعلیٰ ریاستی اور سرکاری عہدیداروں اور عوام کے درمیان بطور پاکستانی شہری تقسیم ختم نہیں ہو گی، اس وقت تک پاکستان میں ٹریفک حادثات ختم تو کیا کم بھی نہیں ہوں گے اور نہ ہی لاقانونیت، جرائم اور دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں شاید ٹریفک حادثات میں مرنے والوں کا ڈیٹا جمع کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی، کوئی ٹی وی اینکر، تجزیہ کار یا کالم نگار بھی اس پر بات کرنے یا لکھنے کو زیادہ اہم نہیں سمجھتا۔ اس لیے حکومت پر بھی اس حوالے سے دباؤ نہیں بنتا، پر وہ کسی بڑے ٹریفک حادثے کے بعد رنج وغم کا لگا بندھا پیغام پریس کو جاری کر دیتے ہیں اور اس کے بعد زندگی رواں دواں رہتی ہے لیکن بعض ٹریفک حادثے کسی خاندان کے لیے زندگی بھر کا روگ بن جاتے ہیں۔
ملک میں بین الصوبائی شاہراہوں، شہروں، قصبوں اور دیہات کی سڑکوں پر آئے روز حادثات ہوتے ہیں، شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جس دن کوئی ٹریفک حادثہ نہ ہوتا اور انسانی جان ضایع نہ ہوتی ہو۔ گزشتہ روز پنجاب کے دو کاروباری اور صنعتی شہروں گوجرانوالہ اور فیصل آباد کے قریب دو ہولناک ٹریفک حادثات ہوئے ہیں۔
میڈیا کی اطلاعات کے مطابق ان دونوں حادثات میں خواتین و بچوں سمیت 17 افراد جاں بحق ہوئے ہیں جب کہ 10 زخمی ہوگئے ،میڈیا نے جو تفصیلات بتائی ہیں ان کے مطابق حافظ آباد روڈ پر واقعہ ایک قصبے کوٹ لدھا کے قریب دو مسافر ویگنوں اور ڈمپر میں خوفناک تصادم ہوا، اس تصادم کے نتیجے میں 6 خواتین، ایک معصوم بچی سمیت 12 افراد جان بحق ہو گئے جب کہ 8 مسافر زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس حادثے میں جاں بحق ہونے والے11 افرادکا تعلق ایک ہی خاندان سے تھا ، دو مسافر وینز سرگودھا سے گوجرانوالہ کی طرف آرہی تھیں، تمام مسافر سرگودھا سے ایک درگاہ کی زیارت کے بعد گھر واپس لوٹ رہے تھے، ان وینز کا ایک ڈمپر سے خوفناک تصادم ہو گیا، بتایا گیا ہے کہ ڈمپر کے ڈرائیورکی تیزرفتاری اورغفلت کے باعث یہ المناک حادثہ رونما ہوا ہے۔
ادھر فیصل آباد سمندری روڈ پر بائی پاس کے قریب ایک آئل ٹینکر موٹرسائیکل رکشہ سے ٹکرا گیا جس کے نتیجے میں 3 بہن بھائیوں سمیت ایک ہی خاندان کے 5 افراد جاں بحق جب کہ باپ بیٹا زخمی ہو گئے۔اس حادثے کے بارے میں بھی کہا گیا ہے کہ یہ بھی آئل ٹینکر کی تیز رفتاری کی وجہ سے ہوا۔
ان حادثات میں قصوروار آئل ٹینکر اور ڈمپر ڈرائیور کی غفلت اور تیزرفتاری ہے یا وینز ڈرائیور اور موٹرسائیکل چلانے والے کی غلطی ہے، اس کے بارے میں حقیقت تو اس وقت سامنے آئے گی جب تحقیقات مکمل ہو جائیں گی لیکن پاکستان میں جو کلچر پروان چڑھ چکا ہے، اس کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو حکومت وقت اور سرکاری افسران اور اہلکار زیادہ قصوروار نظر آئیں گے۔ یہ اس لیے کہ ہیوی، لائٹ وہیکلز کے ڈرائیورز کی مہارت اور ذہانت کو جانچنے کا اختیار سرکاری ملازمین کو ہے۔
اصول اور قانون کے مطابق ٹریفک پولیس ڈرائیونگ لائسنس جاری کرنے کی مجاز ہے۔ پولیس اہلکار ہی ڈرائیورز کا ڈرائیونگ ٹیسٹ لیتے ہیں، اس لیے اگر ہیوی وہیکلز کا ڈرائیور قانون اور قاعدے کے مطابق ہیوی وہیکلز نہیں چلاتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈرائیونگ لائسنس جاری کرنے سے پہلے اس کی مہارت اور ذہانت کو مسلمہ معیار کے مطابق چیک نہیں کیا جا سکا۔ اگر اسے معیار کے مطابق چیک کیا جاتا تو وہ ایسا حادثہ نہ کرتا جس سے بآسانی بچا جا سکتا تھا۔
پوری دنیا میں ٹریفک حادثات ہوتے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ اور مہذب ممالک میں ان حادثات کی بڑی گہرائی اور باریک بینی سے تحقیقات کی جاتی ہیں۔ اس کے بعد اس رپورٹ کو جاری کیا جاتا ہے اور مستقبل میں ان وجوہات کو دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جن کی وجہ سے کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے۔
ترقی یافتہ ملکوں میں ٹریفک حادثات عام طور پر ناگہانی فنی خرابی کی وجہ سے ہوتے ہیں مثلاً ہائی ویز پر سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی وہیکل کا اچانک ایکسل ٹوٹ جائے، سٹیئرنگ جام ہو جائے، بریک فیل ہو جائیں یا کسی وجہ سے ٹائر پھٹ جائے لیکن ایسے حادثے شاز ونادر ہی ہوتے ہیں جن میں ڈرائیور کی غلطی ہو۔
پاکستان میں ٹریفک حادثے ڈرائیورز کی ٹریفک رولز سے لاعلمی، ٹریفک سائنز کو نہ سمجھنا، لائن اور لینز کے فرق کو نہ سمجھنا، ٹریفک سگنلز کی پرواہ نہ کرنا، سیٹ بیلٹ نہ باندھنا وغیرہ کے باعث ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ زیادہ بڑی خرابی کی ذمے داری سرکاری محکموں پر عائد ہوتی ہے۔
سرکاری افسروں اور ملازموں کو جو تنخواہیں اور دیگر سہولتیں و مراعات مل رہی ہیں، وہ ٹیکس پیئرز کے پیسوں سے مل رہی ہیں۔ غیرملکی مالیاتی اداروں سے ریاست جو قرض لیتی ہے، وہ بھی اس ملک کے شہریوں کے نام پر لیتی ہے کیونکہ شہری ہی ریاست کی نمایندگی کرتے ہیں۔ پاکستان میں نوکرشاہی ہی خود کو عقل کل اور مختارِ کل سمجھتی ہے اور خود کو قانون سے بالاتر طبقہ خیال کرتی ہے۔
پاکستان میں ڈرائیونگ لائسنس لینا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ سفارش، تعلق اور پیسہ ہو تو بغیر ڈرائیونگ ٹیسٹ کے گھر بیٹھے لائسنس مل جاتا ہے۔ دوسرا ڈرائیور کے لیے کسی قسم کا کوئی معیار مقرر نہیں ہے۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں ٹریکٹر ٹرالی، موٹرسائیکل رکشہ چلانے والوں کے پاس کوئی ڈرائیونگ لائسنس نہیں ہوتا۔ شہروں کی بھی تقریباً یہی صورت حال ہے۔
شہروں میں موٹرسائیکل حادثات بہت زیادہ ہوتے ہیں اور زیادہ اموات بھی موٹرسائیکل حادثوں میں ہوتی ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنا انتہائی مشکل کام ہوتا ہے۔ انتہائی محنت، مہارت اور ذہانت کا مظاہرہ کر کے ہی کوئی ڈرائیور لائسنس حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ زیادہ دور نہیں بلکہ متحدہ عرب امارات، قطر، عمان اور سعودی عرب کے نظام کو ہی دیکھ لیں، ان ملکوں میں لائسنسنگ اتھارٹی کے اہلکار انتہائی سخت ڈسپلن کے مالک ہوتے ہیں۔
کوئی شخص انھیں رشوت کا لالچ دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا اور نہ ہی وہ کسی ڈرائیور کو کسی بھی پہلو پر معمولی سی بھی رعایت نہیں دیتے۔ اسی طرح ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کے حوالے سے بھی سرکاری افسروں اور ملازموں کا طرزعمل بے لچک ہوتا ہے۔ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے کو کسی بھی طرح رعایت نہیں مل سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان سے دوسرے ممالک میں گئے ہوئے ڈرائیور حضرات غیرمعمولی مہارت اور ذہانت کا مظاہرہ کر کے ڈرائیونگ کرتے ہیں۔ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔
پاکستان میں حالت یہ ہے کہ اچھے خاصے تجربہ کار ڈرائیور اپنی گاڑی کو درست طریقے سے پارک نہیں کر سکتے۔ پاکستان میں ہیوی وہیکلز چلانے والے ڈرائیور حضرات ماہر ڈرائیور ہوتے ہیں لیکن جن کمپنیوں کے وہ ملازم ہوتے ہیں، وہ ان سے کام زیادہ کراتے ہیں۔ کئی کئی گھنٹے مسلسل ڈرائیونگ کی وجہ سے ان پر نیند کا غلبہ بھی طاری ہوتا ہے اور عصابی نظام بھی مفلوج ہو جاتا ہے جس کا نتیجہ جان لیوا حادثے کی شکل میں نکلتا ہے۔ ایسی بس کمپنیوں اور ٹرالر کمپنیوں کے مالکان کو چاہیے کہ وہ اپنے ڈرائیورز کی صحت کا خیال رکھیں اور ان کے اوقات کار میں کمی کریں تاکہ ڈرائیور ذہنی اور جسمانی طور پر فٹ ہو۔
ٹریفک پولیس اور دیگر ایسے محکمے جن کا کام ڈرائیور کی صلاحیت کو چیک کرنا، انھیں ڈرائیونگ لائسنس جاری کرنا، گاڑیوں کی فٹنس کو چیک کرنا ہے، ان کے افسروں اور اہلکاروں کے احتساب کا نظام بنایا جائے تاکہ انھیں پتہ ہو کہ اگر انھوں نے اپنے فرائض قانون کے مطابق ادا نہ کیے تو ان کو سزا یا بھاری جرمانہ ہو سکتا ہے۔ سزا اور جزا کا نظام بنایا ہی اسی لیے گیا ہے کہ کوئی ریاست منظم انداز میں آگے بڑھ سکے۔ اگر سزا اور جزا کا نظام یکطرفہ ہو جائے تو پھر ایسی ہی صورت حال جنم لیتی ہے جیسے اب پاکستان میں ہے۔
سرکاری افسروں کی غلطیوں، کوتاہیوں اور فرض ناشناسی ملک کے شہریوں پر بہت بھاری پڑ رہی ہے۔ ان کے احتساب کا نظام بھی بہت پیچیدہ ہے اور کئی جگہ تو کسی اعلیٰ عہدیدار کا احتساب ممکن ہی نہیں ہے۔ ایسے قوانین بنا دیے گئے ہیں جو صرف ریاست اور اس کے اعلیٰ عہدیداروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہیں۔ ان کے احتساب کا کوئی میکنزم نہیں ہے۔ جب تک اعلیٰ ریاستی اور سرکاری عہدیداروں اور عوام کے درمیان بطور پاکستانی شہری تقسیم ختم نہیں ہو گی، اس وقت تک پاکستان میں ٹریفک حادثات ختم تو کیا کم بھی نہیں ہوں گے اور نہ ہی لاقانونیت، جرائم اور دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔