عزت دولت شہرت
دنیا میں آج دیکھ لیں جن کے پاس روپیہ پیسہ نہیں تھا، انھوں نے ہی دنیا میں عظیم کارنامے سر انجام دیے
کراچی:
ہر دور کا انسان اپنی زندگی کو دوام بخشنے کے لیے زندگی کے تین ٹارگٹس عزت ، شہرت اور دولت میں کامیابی حاصل کرنے کا خواہش مند رہتا ہے اور یہ اس کی فطرت اور اس کی شخصی نفسیات کا حصہ ہے۔
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ انسان کی طبیعت اور مزاج سب انسانوں سے قدرے مختلف ہوتی ہے۔ کوئی عزت کا متلاشی رہتا ہے،کوئی شہرت کی حسرت دل میں لیے زندگی کا ہم سفر رہتا ہے اور کچھ ایسے بھی ہیں جنھیں نہ اپنی عزت کی پرواہ نہ ہی شہرت کی۔ وہ صرف اور صرف دولت سمیٹنے میں اپنی زندگی وقف کر دیتے ہیں اور یوں ان کا کہنا ہے دولت ہی معاشرے میں عزت اور شہرت کا باعث ہے۔ دولت کے حصول کے لیے وہ ہمیشہ شارٹ کٹ اور خطرات مول لینے سے بھی عار محسوس نہیں کرتے۔ ان کا یہ شوق جنون کی بلندیوں کو چھونے لگتا ہے۔
مانا پیسہ ہر دور کی بنیادی ضرورت رہی ہے۔ مادیت پرستی کے اس دور میں اب ہر شخص پیسے کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ جائز نا جائز کا فرق ختم ہو چکا ہے ۔اب ہر مشکل چیز روپے پیسے کی بل بوتے پر با آسانی حا صل کی جا سکتی ہے۔ ملک میں صنعتوں کا جال بچھانے کی کیا ضرورت ہے، صنعتوں کا جال بچھے گا لوگوں کو محنت کرنی پڑے گی۔ ترقی یافتہ دنیا ہماری طاقت اور صلاحیتوں کو مفلوج کرنے کے در پے ہیں وہ اس لیے کہ اگر ہم ترقی کی بلندیوں تک پہنچ گئے تو انھیں اپنی سلامتی کا خطرہ پڑ جائے گا۔
رمضان کے مہینے میں راشن پیکیج کا رواج عروج پکڑ چکا ہے۔ فلاحی کاموں میں لوگ بڑھ چڑھ کرحصہ لے رہے ہیں ،اس کے باوجود شہر کا کوئی ایسا حصہ نہیں ملے گا جہاں کاروباری گداگر موجود نہ ہوں ۔ کیوں نہ ہوں ان کو راہ گیر حصول ثواب کے لیے دس روپے کی رقم بطور ہدیہ دیتے ہیں اور یوں ان کی روزانہ کی دو، چار ہزار روپے کی دیہاڑی لگ جاتی ہے۔ اسی حوالے سے گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر انجمن سادات امروہہ کے مشیر نشر و اشاعت جمیل حسن نجمی کا ایک بیان وائرل ہوا، کہ'' جس کو غریب سمجھ کر امداد کرو، وہ اپنا حق سمجھنے لگتا ہے اور پھرپوری زندگی غریبی کا لبادہ اوڑھے دوسرے سے روپے پیسے کی حاجت طلب کر تا رہتا ہے۔''
علاج معالجہ جیسی بنیادی انسانی ضروریات بھی خطیر رقم کی متقاضی ہیں۔ آج ہر شخص اسٹریٹ کرائمز کا شکوہ کرتے ہوئے سنائی دے گا۔ جب معاشرہ میں دولت کی تقسیم غیر منصفانہ ہوجائے اور بنیادی حقوق سے محرومی ہو جائے، کسی کو انصاف نہ ملے تو معاشرے میں نا انصافی، وراثت میں خرد برد، قتل و غارت گری، ڈکیتی، اشیائے خوردنی میں ملاوٹ، نا جائز منافع خوری، جیسے عوامل جنم لینے لگتے ہیں، جو تمام کے تمام اسی ناجائز دولت کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ایک زمانہ تھا جب دولت کی ہوس کا نام و نشان تک نہ تھا لوگ اپنے کام کی طرف متوجہ رہتے تھے یہی وجہ تھی کہ ان کے کام کا ایک معیار تھا۔ وہ عزت کے ساتھ شہرت کے بھی حقدار ٹھہرائے جاتے تھے۔
یہ قانون فطرت ہے کہ ہر انسان کو چاہے وہ ذہنی یا جسمانی معذوری کا شکار ہے ، اس کو اللہتعالی کوئی نہ کوئی وصف عطا کرتا ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ خداداد صلاحیتوں کے طفیل انسان اس وصف کو کس انداز میں استعمال کرتا ہے۔ کسی دانا کا قول مشہور ہے کہ ''محنت میں عظمت ہے '' محنت تو بے زبان جانور گدھا بھی بہت کرتا ہے اور تمام دن مالک کی فرماں برداری کرتا ہے۔ انسان اور جانور میں یہی فرق ہے کہ انسان کو ان تمام حیوانات پر برتری دی گئی، عقل و شعور دیا گیا۔
سو محنت کی جائے عقل و شعور کے ساتھ۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو غریب پیدا نہیں کرتا ، غریب وہ اپنی حرکتوں سے ہوتا ہے۔ میرے آباو اجداد جد ی پشتی زمیندار اور حویلیوں کے مالک تھے، مگر اس نوخیز مملکت کی محبت میں اپنے بڑوں کا تمام اثاثہ چھوڑ کر پاکستان آگئے۔ کوئی کلیم نہیںکیا اور زندگی کا کافی عرصہ بے گھر رہے، ان میں خود داری تھی۔ کبھی کسی سے اپنی غربت کا رونا نہیں رویا، جو تھا اسی میں گذر اوقات کی۔ انھوں نے اپنی تمام تر توانائی ہمیں تربیت کے ساتھ ایک اچھا انسان بنانے پر خرچ کر دی۔ اس کے برعکس جو غریبی کا لبادہ اوڑھ کر دوسروں کے دست نگر رہتے تھے وہ آج بھی ویسے ہی ہیں اور یہ سلسلہ نسل در نسل قائم ہے۔
ہمیں یاد ہے کہ کمانے والا ایک اور کھانے والے گھر کے آٹھ افراد تھے۔گھر میں بجلی اور گیس نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ میرے والد صبح کی نوکری کے علاوہ پارٹ ٹائم بھی کیا کرتے تھے ، گھر اور دفتر ہمیشہ پیدل سفر کیا کرتے تھے، مگر انھوں نے تنگ دستی کے باوجود ہماری تعلیم کے حصول میں کسی بھی قسم کی لاپرواہی برداشت نہیں کی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ بھوکے رہ لو ،مگر تعلیم پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ یا مصلحت کا شکار نہ ہو۔ میں اس قابل کہا ں تھا کہ اللہ نے اپنی نعمتوں سے فیض یاب کیا۔ انھوں نے ہمیشہ ایمانداری کا سبق سکھایا، حالانکہ وہ ایسے سرکاری محکمہ میں تھے جہاں رشوت باآسانی لی جا سکتی تھی، انھوں نے محنت و مشقت سے رزق حلال پر فوقیت دی۔
ملائیشیا کے سابق صدر مہاتیر محمد نے اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ'' انسان کو مچھلی مت کھلائو بلکہ مچھلی پکڑنے کا فن سکھائو۔'' ظاہر ہے فن سیکھے گا، روزگار پیدا ہو گا جو نہ صرف اپنی اور اپنے اہل خانہ کی معاشی مدد کا ذریعہ ہوگا بلکہ دوسروں کے لیے بھی روزگار کا سبب بنے گا۔ اس لیے خیرات و صدقات کو چھوڑیے۔کارپوریٹ کے معاشی تصور کو اجاگر کریں،یہ کام فلاحی ریاستوں کا ہے، مگر افسوس عوام کا اپنی ریاست پر بھروسہ ختم ہو چکا ہے۔
انسان کی صحت ہی سب سے بڑی اور منفرد دولت ہے۔ دنیا میں آج دیکھ لیں جن کے پاس روپیہ پیسہ نہیں تھا، انھوں نے ہی دنیا میں عظیم کارنامے سر انجام دیے۔ان کا کمال تھا کہ انھوں نے صرف اپنی ذات کا نہیں سوچا بلکہ پوری مخلوق انسانی کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دیں اور دنیا اور آخرت میں سر خرو ہوگئے۔ دنیا میں بہت سے ایسے کام بھی ہیں جن کو سر انجام دینے میں کوئی روپیہ پیسہ خرچ نہیں ہوتا، ہم تو وہ بھی نہیں کرتے کیوں ؟ کیونکہ ہم غریب ہیں، آج کا نام نہاد غریب اپنا سرمایہ پان ، گٹگا اور سگریٹ نوشی میں ضایع کر تا ہے اور اپنی صحت بھی گنواتا ہے۔
ہر دور کا انسان اپنی زندگی کو دوام بخشنے کے لیے زندگی کے تین ٹارگٹس عزت ، شہرت اور دولت میں کامیابی حاصل کرنے کا خواہش مند رہتا ہے اور یہ اس کی فطرت اور اس کی شخصی نفسیات کا حصہ ہے۔
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ انسان کی طبیعت اور مزاج سب انسانوں سے قدرے مختلف ہوتی ہے۔ کوئی عزت کا متلاشی رہتا ہے،کوئی شہرت کی حسرت دل میں لیے زندگی کا ہم سفر رہتا ہے اور کچھ ایسے بھی ہیں جنھیں نہ اپنی عزت کی پرواہ نہ ہی شہرت کی۔ وہ صرف اور صرف دولت سمیٹنے میں اپنی زندگی وقف کر دیتے ہیں اور یوں ان کا کہنا ہے دولت ہی معاشرے میں عزت اور شہرت کا باعث ہے۔ دولت کے حصول کے لیے وہ ہمیشہ شارٹ کٹ اور خطرات مول لینے سے بھی عار محسوس نہیں کرتے۔ ان کا یہ شوق جنون کی بلندیوں کو چھونے لگتا ہے۔
مانا پیسہ ہر دور کی بنیادی ضرورت رہی ہے۔ مادیت پرستی کے اس دور میں اب ہر شخص پیسے کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ جائز نا جائز کا فرق ختم ہو چکا ہے ۔اب ہر مشکل چیز روپے پیسے کی بل بوتے پر با آسانی حا صل کی جا سکتی ہے۔ ملک میں صنعتوں کا جال بچھانے کی کیا ضرورت ہے، صنعتوں کا جال بچھے گا لوگوں کو محنت کرنی پڑے گی۔ ترقی یافتہ دنیا ہماری طاقت اور صلاحیتوں کو مفلوج کرنے کے در پے ہیں وہ اس لیے کہ اگر ہم ترقی کی بلندیوں تک پہنچ گئے تو انھیں اپنی سلامتی کا خطرہ پڑ جائے گا۔
رمضان کے مہینے میں راشن پیکیج کا رواج عروج پکڑ چکا ہے۔ فلاحی کاموں میں لوگ بڑھ چڑھ کرحصہ لے رہے ہیں ،اس کے باوجود شہر کا کوئی ایسا حصہ نہیں ملے گا جہاں کاروباری گداگر موجود نہ ہوں ۔ کیوں نہ ہوں ان کو راہ گیر حصول ثواب کے لیے دس روپے کی رقم بطور ہدیہ دیتے ہیں اور یوں ان کی روزانہ کی دو، چار ہزار روپے کی دیہاڑی لگ جاتی ہے۔ اسی حوالے سے گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر انجمن سادات امروہہ کے مشیر نشر و اشاعت جمیل حسن نجمی کا ایک بیان وائرل ہوا، کہ'' جس کو غریب سمجھ کر امداد کرو، وہ اپنا حق سمجھنے لگتا ہے اور پھرپوری زندگی غریبی کا لبادہ اوڑھے دوسرے سے روپے پیسے کی حاجت طلب کر تا رہتا ہے۔''
علاج معالجہ جیسی بنیادی انسانی ضروریات بھی خطیر رقم کی متقاضی ہیں۔ آج ہر شخص اسٹریٹ کرائمز کا شکوہ کرتے ہوئے سنائی دے گا۔ جب معاشرہ میں دولت کی تقسیم غیر منصفانہ ہوجائے اور بنیادی حقوق سے محرومی ہو جائے، کسی کو انصاف نہ ملے تو معاشرے میں نا انصافی، وراثت میں خرد برد، قتل و غارت گری، ڈکیتی، اشیائے خوردنی میں ملاوٹ، نا جائز منافع خوری، جیسے عوامل جنم لینے لگتے ہیں، جو تمام کے تمام اسی ناجائز دولت کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ایک زمانہ تھا جب دولت کی ہوس کا نام و نشان تک نہ تھا لوگ اپنے کام کی طرف متوجہ رہتے تھے یہی وجہ تھی کہ ان کے کام کا ایک معیار تھا۔ وہ عزت کے ساتھ شہرت کے بھی حقدار ٹھہرائے جاتے تھے۔
یہ قانون فطرت ہے کہ ہر انسان کو چاہے وہ ذہنی یا جسمانی معذوری کا شکار ہے ، اس کو اللہتعالی کوئی نہ کوئی وصف عطا کرتا ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ خداداد صلاحیتوں کے طفیل انسان اس وصف کو کس انداز میں استعمال کرتا ہے۔ کسی دانا کا قول مشہور ہے کہ ''محنت میں عظمت ہے '' محنت تو بے زبان جانور گدھا بھی بہت کرتا ہے اور تمام دن مالک کی فرماں برداری کرتا ہے۔ انسان اور جانور میں یہی فرق ہے کہ انسان کو ان تمام حیوانات پر برتری دی گئی، عقل و شعور دیا گیا۔
سو محنت کی جائے عقل و شعور کے ساتھ۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو غریب پیدا نہیں کرتا ، غریب وہ اپنی حرکتوں سے ہوتا ہے۔ میرے آباو اجداد جد ی پشتی زمیندار اور حویلیوں کے مالک تھے، مگر اس نوخیز مملکت کی محبت میں اپنے بڑوں کا تمام اثاثہ چھوڑ کر پاکستان آگئے۔ کوئی کلیم نہیںکیا اور زندگی کا کافی عرصہ بے گھر رہے، ان میں خود داری تھی۔ کبھی کسی سے اپنی غربت کا رونا نہیں رویا، جو تھا اسی میں گذر اوقات کی۔ انھوں نے اپنی تمام تر توانائی ہمیں تربیت کے ساتھ ایک اچھا انسان بنانے پر خرچ کر دی۔ اس کے برعکس جو غریبی کا لبادہ اوڑھ کر دوسروں کے دست نگر رہتے تھے وہ آج بھی ویسے ہی ہیں اور یہ سلسلہ نسل در نسل قائم ہے۔
ہمیں یاد ہے کہ کمانے والا ایک اور کھانے والے گھر کے آٹھ افراد تھے۔گھر میں بجلی اور گیس نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ میرے والد صبح کی نوکری کے علاوہ پارٹ ٹائم بھی کیا کرتے تھے ، گھر اور دفتر ہمیشہ پیدل سفر کیا کرتے تھے، مگر انھوں نے تنگ دستی کے باوجود ہماری تعلیم کے حصول میں کسی بھی قسم کی لاپرواہی برداشت نہیں کی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ بھوکے رہ لو ،مگر تعلیم پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ یا مصلحت کا شکار نہ ہو۔ میں اس قابل کہا ں تھا کہ اللہ نے اپنی نعمتوں سے فیض یاب کیا۔ انھوں نے ہمیشہ ایمانداری کا سبق سکھایا، حالانکہ وہ ایسے سرکاری محکمہ میں تھے جہاں رشوت باآسانی لی جا سکتی تھی، انھوں نے محنت و مشقت سے رزق حلال پر فوقیت دی۔
ملائیشیا کے سابق صدر مہاتیر محمد نے اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ'' انسان کو مچھلی مت کھلائو بلکہ مچھلی پکڑنے کا فن سکھائو۔'' ظاہر ہے فن سیکھے گا، روزگار پیدا ہو گا جو نہ صرف اپنی اور اپنے اہل خانہ کی معاشی مدد کا ذریعہ ہوگا بلکہ دوسروں کے لیے بھی روزگار کا سبب بنے گا۔ اس لیے خیرات و صدقات کو چھوڑیے۔کارپوریٹ کے معاشی تصور کو اجاگر کریں،یہ کام فلاحی ریاستوں کا ہے، مگر افسوس عوام کا اپنی ریاست پر بھروسہ ختم ہو چکا ہے۔
انسان کی صحت ہی سب سے بڑی اور منفرد دولت ہے۔ دنیا میں آج دیکھ لیں جن کے پاس روپیہ پیسہ نہیں تھا، انھوں نے ہی دنیا میں عظیم کارنامے سر انجام دیے۔ان کا کمال تھا کہ انھوں نے صرف اپنی ذات کا نہیں سوچا بلکہ پوری مخلوق انسانی کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دیں اور دنیا اور آخرت میں سر خرو ہوگئے۔ دنیا میں بہت سے ایسے کام بھی ہیں جن کو سر انجام دینے میں کوئی روپیہ پیسہ خرچ نہیں ہوتا، ہم تو وہ بھی نہیں کرتے کیوں ؟ کیونکہ ہم غریب ہیں، آج کا نام نہاد غریب اپنا سرمایہ پان ، گٹگا اور سگریٹ نوشی میں ضایع کر تا ہے اور اپنی صحت بھی گنواتا ہے۔