پاک امریکا تعلقات
بھارت کا افغانستان میں داخل ہونا پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو خراب کرنے کا اصل سبب تھا
کیا ہم امریکا سے دشمنی کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں، اس لیے کہ ہمارا ملک غریب ہے جس کے وسائل کم اور مسائل زیادہ ہیں۔ جب ملک آزاد ہوا ہم مشکل ترین معاشی حالات سے گزر رہے تھے۔ پاکستان جن علاقوں پر مشتمل ہے اس وقت زیادہ تر حصے پسماندہ تھے۔
دراصل انگریزوں نے جان بوجھ کر ان علاقوں کو پسماندہ رکھا تھا کیونکہ ان علاقوں میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ تھی۔ چنانچہ قیام پاکستان کے بعد سے ہی ہمیں غیر ملکی امداد کی ضرورت تھی اور اس سلسلے میں امریکا واحد ملک تھا جس نے ہماری بھرپور مدد کی۔ اس کی مدد صرف معاشی شعبے تک ہی محدود نہیں تھی اس نے ہمارے دفاعی نظام کو بھی مضبوط کیا البتہ یہ بات ضرور ہے کہ اس نے ہمارے ساتھ جو مہربانیاں کیں اس میں اس کا اپنا مفاد بھی مخفی تھا۔
خوش قسمتی سے پاکستان جغرافیائی لحاظ سے انتہائی بہترین محل وقوع کا حامل ہے۔ دنیا کے دو بڑے طاقتور ملک چین اور روس ہمارے پڑوس میں واقع ہیں جنھیں امریکی حکومت شروع سے ہی اپنا حریف مانتی ہے۔ اس نے روس کی مخالفت میں ہمیں اپنا دوست قرار دیا اور ہمیں جدید ترین فوجی ساز و سامان مہیا کیا ہماری فوج کی تربیت بھی کی۔ اس کی فوجی امداد کی وجہ سے ہی ہم اس قابل ہوئے کہ اپنے سے کئی گنا طاقتور دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے رہے۔
امریکا نے ہماری کشمیر پالیسی کا بھی دفاع کیا جب بھی کبھی کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں پیش ہوا اس نے کھل کر کشمیریوں کے حق خود اختیاری کی وکالت کی مگر روس کے ویٹو کی وجہ سے یہ مسئلہ حل نہ ہو سکا۔ روس بھارت کے کہنے پر ہی کشمیریوں کے حق خود اختیاری کے خلاف ویٹو استعمال کرتا رہا۔ اس وقت بھارت مکمل طور پر روس کا پٹھا بنا ہوا تھا جب کہ امریکا نے ہمیشہ ہمیں اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر بنائے رکھا۔
امریکا نے ہم سے سرد جنگ کے زمانے میں تو مکمل تعاون جاری رکھا مگر جب سوویت یونین ٹوٹ گیا اور اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی کئی ریاستوں کو آزاد کردیا تو وہ عالمی سپرپاور نہ رہا پھر بھارت بھی اس کا پہلے جیسا فرمانبردار ساتھی نہ رہا۔ روس اپنی روز بہ روز بگڑتی معاشی حالت کی وجہ سے امریکا کیا یورپی ممالک کی نظر میں بھی اپنی ساکھ کھو بیٹھا۔ اس کی ٹوٹ پھوٹ اور معاشی بدحالی کی اصل وجہ اس کا افغانستان پر حملہ تھا۔
یہ حملہ اسے بہت مہنگا پڑا کیونکہ افغانوں کی مزاحمت میں وہ بہت کچھ کھو بیٹھا مگر اسے کچھ حاصل نہ ہو سکا۔ افغانستان سے روس کو نکالنے میں افغانوں کو امریکی مدد حاصل تھی، پاکستان نے بھی امریکا کا بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا۔ اس جنگ میں مدد کرنے سے امریکی حکومت نے ہماری معاشی اور عسکری سطح پر دل کھول کر مدد کی۔ امریکی جدید ہتھیاروں، ٹینکوں اور جنگی طیاروں کی مدد سے ہم نے بھارت جیسے بڑے ملک سے دو مرتبہ ٹکر لی اور ان میں بھارت کو سبق سکھایا۔
امریکا نے ہماری فضائیہ کو اتنا مضبوط کردیا تھا کہ سن65 کی جنگ میں اس کے فائٹر 104 طیاروں کے ذریعے ہم نے بھارتی فضائیہ کو مفلوج کرکے رکھ دیا تھا۔ ماضی میں امریکا نے ہماری نہ صرف خود معاشی مدد کی بلکہ اپنے حلیف یورپی ممالک سے بھی ہماری مدد کرائی۔
اس کے حلیف یورپی ممالک اس کی سب سے بڑی طاقت ہیں اور تمام عالمی مالی اداروں پر امریکا اور یورپی ممالک کا کنٹرول ہے، اب جب کہ سرد جنگ کا زمانہ ختم ہو چکا ہے اب بھی یورپی ممالک کے علاوہ کینیڈا، آسٹریلیا اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک اسی کا دم بھر رہے ہیں۔
امریکا سے دشمنی کا مطلب اس کے حلیفوں سے بھی دشمنی مول لینے کے مترادف ہے۔ اس وقت پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں سرد مہری پائی جاتی ہے یہ دراصل امریکا کے افغانستان پر حملے کے بعد سے شروع ہوئی تھی گوکہ پاکستان نے امریکا کی افغانستان میں بھرپور مدد کی۔ اس کے پلان کو کامیاب بنانے کے لیے طالبان سے دشمنی مول لی جس کا پاکستان کو بھاری خمیازہ بھگتنا پڑا۔
دراصل بھارت کا افغانستان میں داخل ہونا پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو خراب کرنے کا اصل سبب تھا۔ بھارت وہاں صرف پاکستان دشمنی میں داخل ہوا تھا۔ اس نے طالبان کے کچھ گروپوں اور کچھ پاکستانی باغیوں کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کا بازار گرم کردیا تھا۔ امریکا وہاں طالبان کو دبا کر امن و امان بحال کرانا چاہتا تھا تاکہ افغان حکومت کی عمل داری مضبوط ہوسکے مگر بھارت چاہتا تھا کہ وہاں مار دھاڑ اور دہشت گردی کا دور چلتا رہے تاکہ وہ وہاں دہشت گردوں کو تیار کرکے پاکستان کے خلاف استعمال کرتا رہے۔
اس وقت امریکا بھارت کو روسی اثرو رسوخ سے باہر نکالنے کے لیے اس کی ہر طرح دل جوئی کر رہا تھا گوکہ افغانستان میں موجود امریکی جرنلز کو یہ بات معلوم تھی کہ بھارت کی وجہ سے امریکا طالبان پر قابو نہیں پا رہا ہے مگر وہ یہ حقیقت اپنی حکومت سے چھپا رہے تھے کیونکہ بھارت نے کمال ہوشیاری سے انھیں اپنے سنہری جال میں جکڑ لیا تھا۔ وہ حقیقت کے برعکس طالبان کی پشت پناہی کا جھوٹا الزام پاکستان پر لگا رہے تھے۔ چنانچہ امریکی حکومت پاکستان پر بار بار ''ڈو مور'' کے تازیانے برسا رہی تھی۔
امریکی حکومت اس وقت بھارت کے اس قدر فیور میں تھی کہ ممبئی میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعے کی ذمے داری بھی پاکستان کو قبول کرنے پر مجبور کردیا تھا اور اس وقت کی پاکستانی حکومت نے امریکی دباؤ میں آ کر اس ناکردہ گناہ کو اپنے سر لے لیا تھا۔ اس کے بعد پاکستان کو عالمی سطح پر ایک دہشت گرد ملک کے طور پر دیکھا جانے لگا تھا جب کہ حقیقت یہ تھی کہ اس حملے میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں تھا بعد میں یہ بات یورپی اور امریکی تجزیہ کاروں اور محققین نے بھی تسلیم کی۔ ایک جرمن محقق و مصنف نے ممبئی حملے پر ایک ضخیم تحقیقی کتاب شایع کی جس میں اس نے ثابت کیا کہ ممبئی حملہ خود بھارت کے اپنے دہشت گردوں نے کیا تھا۔
اس وقت دنیا کے حالات بہت بدل چکے ہیں بھارت امریکی پٹھو بنتے بنتے اب پھر روس کی جانب پلٹ گیا ہے۔ امریکی سرد مہری کی وجہ سے سابق پاکستانی حکومت روسی حلیف بننے کی طرف مائل ہو چکی تھی مگر روس کی جانب پاکستان کے جھکاؤ کی وجہ سے عالمی مالیاتی اداروں نے پاکستان پر شکنجہ مزید سخت کردیا ہے۔
ایف اے ٹی ایف میں پہلے ہی پاکستان گرے لسٹ میں موجود ہے ادھر آئی ایم ایف نے بھی آنکھیں پھیر رکھی ہیں یوں امریکی دشمنی ہمارے لیے بہت مہنگی پڑ رہی ہے۔ اب پھر بھارت کے روس کی جانب پلٹنے سے پاکستان امریکا کے لیے بہت اہمیت اختیار کرگیا ہے ہمیں بھی اب امریکا کی جانب توجہ دینا چاہیے کیونکہ ہمارے معاشی مسائل کے حل کی کنجی اسی کے پاس ہے۔
دراصل انگریزوں نے جان بوجھ کر ان علاقوں کو پسماندہ رکھا تھا کیونکہ ان علاقوں میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ تھی۔ چنانچہ قیام پاکستان کے بعد سے ہی ہمیں غیر ملکی امداد کی ضرورت تھی اور اس سلسلے میں امریکا واحد ملک تھا جس نے ہماری بھرپور مدد کی۔ اس کی مدد صرف معاشی شعبے تک ہی محدود نہیں تھی اس نے ہمارے دفاعی نظام کو بھی مضبوط کیا البتہ یہ بات ضرور ہے کہ اس نے ہمارے ساتھ جو مہربانیاں کیں اس میں اس کا اپنا مفاد بھی مخفی تھا۔
خوش قسمتی سے پاکستان جغرافیائی لحاظ سے انتہائی بہترین محل وقوع کا حامل ہے۔ دنیا کے دو بڑے طاقتور ملک چین اور روس ہمارے پڑوس میں واقع ہیں جنھیں امریکی حکومت شروع سے ہی اپنا حریف مانتی ہے۔ اس نے روس کی مخالفت میں ہمیں اپنا دوست قرار دیا اور ہمیں جدید ترین فوجی ساز و سامان مہیا کیا ہماری فوج کی تربیت بھی کی۔ اس کی فوجی امداد کی وجہ سے ہی ہم اس قابل ہوئے کہ اپنے سے کئی گنا طاقتور دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے رہے۔
امریکا نے ہماری کشمیر پالیسی کا بھی دفاع کیا جب بھی کبھی کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں پیش ہوا اس نے کھل کر کشمیریوں کے حق خود اختیاری کی وکالت کی مگر روس کے ویٹو کی وجہ سے یہ مسئلہ حل نہ ہو سکا۔ روس بھارت کے کہنے پر ہی کشمیریوں کے حق خود اختیاری کے خلاف ویٹو استعمال کرتا رہا۔ اس وقت بھارت مکمل طور پر روس کا پٹھا بنا ہوا تھا جب کہ امریکا نے ہمیشہ ہمیں اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر بنائے رکھا۔
امریکا نے ہم سے سرد جنگ کے زمانے میں تو مکمل تعاون جاری رکھا مگر جب سوویت یونین ٹوٹ گیا اور اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی کئی ریاستوں کو آزاد کردیا تو وہ عالمی سپرپاور نہ رہا پھر بھارت بھی اس کا پہلے جیسا فرمانبردار ساتھی نہ رہا۔ روس اپنی روز بہ روز بگڑتی معاشی حالت کی وجہ سے امریکا کیا یورپی ممالک کی نظر میں بھی اپنی ساکھ کھو بیٹھا۔ اس کی ٹوٹ پھوٹ اور معاشی بدحالی کی اصل وجہ اس کا افغانستان پر حملہ تھا۔
یہ حملہ اسے بہت مہنگا پڑا کیونکہ افغانوں کی مزاحمت میں وہ بہت کچھ کھو بیٹھا مگر اسے کچھ حاصل نہ ہو سکا۔ افغانستان سے روس کو نکالنے میں افغانوں کو امریکی مدد حاصل تھی، پاکستان نے بھی امریکا کا بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا۔ اس جنگ میں مدد کرنے سے امریکی حکومت نے ہماری معاشی اور عسکری سطح پر دل کھول کر مدد کی۔ امریکی جدید ہتھیاروں، ٹینکوں اور جنگی طیاروں کی مدد سے ہم نے بھارت جیسے بڑے ملک سے دو مرتبہ ٹکر لی اور ان میں بھارت کو سبق سکھایا۔
امریکا نے ہماری فضائیہ کو اتنا مضبوط کردیا تھا کہ سن65 کی جنگ میں اس کے فائٹر 104 طیاروں کے ذریعے ہم نے بھارتی فضائیہ کو مفلوج کرکے رکھ دیا تھا۔ ماضی میں امریکا نے ہماری نہ صرف خود معاشی مدد کی بلکہ اپنے حلیف یورپی ممالک سے بھی ہماری مدد کرائی۔
اس کے حلیف یورپی ممالک اس کی سب سے بڑی طاقت ہیں اور تمام عالمی مالی اداروں پر امریکا اور یورپی ممالک کا کنٹرول ہے، اب جب کہ سرد جنگ کا زمانہ ختم ہو چکا ہے اب بھی یورپی ممالک کے علاوہ کینیڈا، آسٹریلیا اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک اسی کا دم بھر رہے ہیں۔
امریکا سے دشمنی کا مطلب اس کے حلیفوں سے بھی دشمنی مول لینے کے مترادف ہے۔ اس وقت پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں سرد مہری پائی جاتی ہے یہ دراصل امریکا کے افغانستان پر حملے کے بعد سے شروع ہوئی تھی گوکہ پاکستان نے امریکا کی افغانستان میں بھرپور مدد کی۔ اس کے پلان کو کامیاب بنانے کے لیے طالبان سے دشمنی مول لی جس کا پاکستان کو بھاری خمیازہ بھگتنا پڑا۔
دراصل بھارت کا افغانستان میں داخل ہونا پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو خراب کرنے کا اصل سبب تھا۔ بھارت وہاں صرف پاکستان دشمنی میں داخل ہوا تھا۔ اس نے طالبان کے کچھ گروپوں اور کچھ پاکستانی باغیوں کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کا بازار گرم کردیا تھا۔ امریکا وہاں طالبان کو دبا کر امن و امان بحال کرانا چاہتا تھا تاکہ افغان حکومت کی عمل داری مضبوط ہوسکے مگر بھارت چاہتا تھا کہ وہاں مار دھاڑ اور دہشت گردی کا دور چلتا رہے تاکہ وہ وہاں دہشت گردوں کو تیار کرکے پاکستان کے خلاف استعمال کرتا رہے۔
اس وقت امریکا بھارت کو روسی اثرو رسوخ سے باہر نکالنے کے لیے اس کی ہر طرح دل جوئی کر رہا تھا گوکہ افغانستان میں موجود امریکی جرنلز کو یہ بات معلوم تھی کہ بھارت کی وجہ سے امریکا طالبان پر قابو نہیں پا رہا ہے مگر وہ یہ حقیقت اپنی حکومت سے چھپا رہے تھے کیونکہ بھارت نے کمال ہوشیاری سے انھیں اپنے سنہری جال میں جکڑ لیا تھا۔ وہ حقیقت کے برعکس طالبان کی پشت پناہی کا جھوٹا الزام پاکستان پر لگا رہے تھے۔ چنانچہ امریکی حکومت پاکستان پر بار بار ''ڈو مور'' کے تازیانے برسا رہی تھی۔
امریکی حکومت اس وقت بھارت کے اس قدر فیور میں تھی کہ ممبئی میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعے کی ذمے داری بھی پاکستان کو قبول کرنے پر مجبور کردیا تھا اور اس وقت کی پاکستانی حکومت نے امریکی دباؤ میں آ کر اس ناکردہ گناہ کو اپنے سر لے لیا تھا۔ اس کے بعد پاکستان کو عالمی سطح پر ایک دہشت گرد ملک کے طور پر دیکھا جانے لگا تھا جب کہ حقیقت یہ تھی کہ اس حملے میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں تھا بعد میں یہ بات یورپی اور امریکی تجزیہ کاروں اور محققین نے بھی تسلیم کی۔ ایک جرمن محقق و مصنف نے ممبئی حملے پر ایک ضخیم تحقیقی کتاب شایع کی جس میں اس نے ثابت کیا کہ ممبئی حملہ خود بھارت کے اپنے دہشت گردوں نے کیا تھا۔
اس وقت دنیا کے حالات بہت بدل چکے ہیں بھارت امریکی پٹھو بنتے بنتے اب پھر روس کی جانب پلٹ گیا ہے۔ امریکی سرد مہری کی وجہ سے سابق پاکستانی حکومت روسی حلیف بننے کی طرف مائل ہو چکی تھی مگر روس کی جانب پاکستان کے جھکاؤ کی وجہ سے عالمی مالیاتی اداروں نے پاکستان پر شکنجہ مزید سخت کردیا ہے۔
ایف اے ٹی ایف میں پہلے ہی پاکستان گرے لسٹ میں موجود ہے ادھر آئی ایم ایف نے بھی آنکھیں پھیر رکھی ہیں یوں امریکی دشمنی ہمارے لیے بہت مہنگی پڑ رہی ہے۔ اب پھر بھارت کے روس کی جانب پلٹنے سے پاکستان امریکا کے لیے بہت اہمیت اختیار کرگیا ہے ہمیں بھی اب امریکا کی جانب توجہ دینا چاہیے کیونکہ ہمارے معاشی مسائل کے حل کی کنجی اسی کے پاس ہے۔