سود کے خاتمے کے لیے تاریخی فیصلہ
ملک کے دیگر اداروں اور جماعتوں کو بلا لحاظ وابستگی اس کار خیر میں حکومت کا دست و بازو بننا چاہیے
وفاقی شرعی عدالت کے سود کے خاتمے سے متعلق اہم ترین اور تاریخی فیصلے پر عوام اور خاص طور پر دینی حلقوں کی جانب سے بھرپور تائید اور خوشی کا اظہارکیا جا رہا ہے۔
وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اور مرکزی بینک اس اہم فیصلے کو غور سے پڑھے گا اور اس سلسلے میں شریعت کورٹ سے اس کے اطلاق اور اقدامات کے لیے رہنمائی حاصل کی جائے گی ، لیکن اس فیصلے پر سیاستدانوں ، معاشی ماہرین ، پالیسی سازوں اور صنعت کاروں و سرمایہ کاروں اور ان کی تنظیموں کی جانب سے کوئی گرم جوشی دیکھنے میں نہیں آ رہی ہے۔
سود کے خلاف اس طویل ترین قانونی جنگ میں مختلف ادوار کی حکومتوں کا کردار انتہائی مایوس کن اور شرم ناک رہا ہے۔ جنھوں نے اپیل در اپیل دائر کرکے یا دائرکروا کے 32 سال تک اس حکم خداوندی کے راستے میں رکاوٹیں حائل کیں۔
سودی نظام کے خلاف پہلی پٹیشن 30جون 1990 کو شریعت کورٹ میں دائر کی گئی تھی۔ 14 نومبر 1991 کو اس کا فیصلہ ہوا جس میں اس کے نفاذ کے لیے 30 اپریل 1992 تک کی مہلت دی گئی تھی جس کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کردیا گیا جس کا فیصلہ 23 دسمبر 1992 کو آیا اور شریعت کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے اسے 30 جون 2000 تک نافذ کرنے کا حکم دیا گیا لیکن حکومت نے 24 جون 2000 کو پھر فیصلے پر نظرثانی کرنے کی درخواست دائر کردی جس پر وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے ربا کی تعریف پیش کرنے کے لیے واپس شرعی عدالت کو بھیج دیا گیا جہاں اس کی سماعت میں مزید 19سال کا عرصہ بیت گیا اس دوران 9 چیف جسٹس صاحبان اپنی مدت ملازمت پوری کرکے اپنے گھروں کو سدھار گئے لیکن اللہ اللہ کرکے پچھلے ہفتے اس کا فیصلہ سنا دیا گیا جس میں اصل رقم سے زائد رقم کی وصولی کو سود قرار دیا گیا اور سود کی سہولت کاری کرنے والے تمام قوانین کو غیر شرعی قرار دے کر انھیں اسلامی روح کے مطابق بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
1966 میں بھی اسلامی نظریاتی کونسل نے سودی قوانین کو اسلامی بنانے کے لیے اس وقت کے صدر ایوب خان کو رپورٹ پیش کی تھی۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ نصف صدی سے زائد جاری کاوشوں اور جدوجہد کے نتیجے میں حالیہ فیصلہ سامنے آیا ہے۔
اس مقدمے کی طویل المدت کارروائی کے دوران بڑی باریک بینی و عرق ریزی سے اس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے لیے قرآن و حدیث و فقہ کے علاوہ ملکی و غیر ملکی قانون و شریعت کے ماہرین، علما کرام، دانشوروں، معاشی ماہرین، بینکرز سے مشاورت کی گئی انھیں سوال نامے دیے گئے تاکہ ان کا نقطہ نظر اور ماہرانہ رائے کو مدنظر رکھا جائے وہ معاونت اور مشاورت کے لیے عدالتوں میں بھی پیش ہوئے اس سلسلے میں انٹرسٹ ایکٹ، منی لانڈرنگ آرڈیننس، بینکنگ کمپنی آرڈیننس، اسٹیٹ بینک ایکٹ، ریکوری آرڈیننس، کوآپریٹیو سوسائٹی ایکٹ اور سول پروسیجر کوڈ جیسے لاتعداد قوانین کی ورق گردانی کی گئی اور ان کی ان شقوں کو کھنگالا گیا جو سود سے متعلق تھیں اس طویل تر تحقیق اور محنت شاقہ کے بعد یہ فیصلہ سامنے آیا ہے جس کی بھرپور ستائش کی جانی چاہیے۔
حکمرانوں کی سابقہ روش دیکھتے ہوئے عوام اور خاص طور پر دینی حلقوں کے اذہان میں بہت سے تحفظات پائے جاتے ہیں کہ حکومت ان پانچ سالوں کے دوران اس فیصلے پر عملدرآمد کرنے کے بجائے کوئی نیا تعطل پیدا نہ کردے ، کیونکہ سود کا مسئلہ محض دینی ہی نہیں بلکہ ملک و معیشت اور اقتصادیات کے حوالے سے بڑی اہمیت کا حامل اور وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
اس وقت ملکی بجٹ کا نصف سے زائد حصہ قرضوں کے سود کی ادائیگی پر خرچ ہو رہا ہے۔ گوکہ سودی نظام کو اسلامی نظام میں ڈھالنا ایک بڑا ٹارگٹ ہے ، حکومت کو چاہیے کہ سودی نظام کے خاتمے کے لیے اسلامی معیشت کے ماہرین، علمائے کرام، قانونی ماہرین، مذہبی اسکالرز اور ربا فری بینک چلانے والے لوگوں کے تجربات سے فائدہ اٹھائے۔ اس کے پاس 5 سال سے زیادہ وقت موجود ہے غیر سودی نظام کے رول ماڈل بھی اس کے سامنے ہیں۔
عدالتوں اور ماہرین کی رائے، مشاورت اور معاونت اس کے سامنے اور ساتھ موجود ہے۔ اس کے نفاذ کے لیے صرف اخلاص نیت، احساس ذمے داری اور خوف خدا کی ضرورت ہے گزشتہ 32 سالہ عدالتی کارروائیوں کے دوران اگر حکومت اپنے طور پر سودی نظام کے خاتمے سے متعلق پیشگی منصوبہ بندی کرلیتی تو 5 سال سے پہلے یہ فریضہ سرانجام دیا جاسکتا تھا۔
سودی نظام کے خاتمے سے متعلقہ فیصلے پر عملدرآمد کا جائزہ اور مستقبل کا لائحہ عمل مرتب کرنے کے لیے جماعت اسلامی نے علمائے کرام، معاشی ماہرین اور عدالتی جدوجہد کے شرکا پر مشتمل مشاورتی اجلاس منعقد کیا جس سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ فیصلہ عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرتا ہے۔ حکومت نے اب تاخیری حربے استعمال کیے تو قوم متحد ہو کر 1977 جیسی تحریک چلائے گی۔ حکومت فوری اقدامات کرے اور عوام کو واضح روڈ میپ دیا جائے۔ عدالتی فیصلے کے بعد حکمرانوں کا امتحان شروع ہو چکا ہے۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جماعت کے رہنما ڈاکٹر فرید پراچہ نے کہا کہ حکمران جان لیں کہ سودی نظام کے دفاع کی صورت میں انھیں سخت عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا، انھوں نے کہا کہ اگر کسی بینک نے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کی تو قوم اس کا بائیکاٹ کرے گی۔ جماعت اسلامی مختلف چیمبرز آف کامرس اور کاروباری شخصیات سے ملاقات کا آغاز کر چکی ہے تاکہ انھیں اسلامی طرز معیشت اپنانے کی طرف راغب کیا جائے۔ عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کی صورت میں حکومت سے بھرپور تعاون کریں گے اور اس کے دست و بازو بنیں گے۔
ملک کے دیگر اداروں اور جماعتوں کو بلا لحاظ وابستگی اس کار خیر میں حکومت کا دست و بازو بننا چاہیے اور حکومت پر اس کے نفاذ کے لیے دباؤ بھی برقرار رکھنا چاہیے۔
وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اور مرکزی بینک اس اہم فیصلے کو غور سے پڑھے گا اور اس سلسلے میں شریعت کورٹ سے اس کے اطلاق اور اقدامات کے لیے رہنمائی حاصل کی جائے گی ، لیکن اس فیصلے پر سیاستدانوں ، معاشی ماہرین ، پالیسی سازوں اور صنعت کاروں و سرمایہ کاروں اور ان کی تنظیموں کی جانب سے کوئی گرم جوشی دیکھنے میں نہیں آ رہی ہے۔
سود کے خلاف اس طویل ترین قانونی جنگ میں مختلف ادوار کی حکومتوں کا کردار انتہائی مایوس کن اور شرم ناک رہا ہے۔ جنھوں نے اپیل در اپیل دائر کرکے یا دائرکروا کے 32 سال تک اس حکم خداوندی کے راستے میں رکاوٹیں حائل کیں۔
سودی نظام کے خلاف پہلی پٹیشن 30جون 1990 کو شریعت کورٹ میں دائر کی گئی تھی۔ 14 نومبر 1991 کو اس کا فیصلہ ہوا جس میں اس کے نفاذ کے لیے 30 اپریل 1992 تک کی مہلت دی گئی تھی جس کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کردیا گیا جس کا فیصلہ 23 دسمبر 1992 کو آیا اور شریعت کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے اسے 30 جون 2000 تک نافذ کرنے کا حکم دیا گیا لیکن حکومت نے 24 جون 2000 کو پھر فیصلے پر نظرثانی کرنے کی درخواست دائر کردی جس پر وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے ربا کی تعریف پیش کرنے کے لیے واپس شرعی عدالت کو بھیج دیا گیا جہاں اس کی سماعت میں مزید 19سال کا عرصہ بیت گیا اس دوران 9 چیف جسٹس صاحبان اپنی مدت ملازمت پوری کرکے اپنے گھروں کو سدھار گئے لیکن اللہ اللہ کرکے پچھلے ہفتے اس کا فیصلہ سنا دیا گیا جس میں اصل رقم سے زائد رقم کی وصولی کو سود قرار دیا گیا اور سود کی سہولت کاری کرنے والے تمام قوانین کو غیر شرعی قرار دے کر انھیں اسلامی روح کے مطابق بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
1966 میں بھی اسلامی نظریاتی کونسل نے سودی قوانین کو اسلامی بنانے کے لیے اس وقت کے صدر ایوب خان کو رپورٹ پیش کی تھی۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ نصف صدی سے زائد جاری کاوشوں اور جدوجہد کے نتیجے میں حالیہ فیصلہ سامنے آیا ہے۔
اس مقدمے کی طویل المدت کارروائی کے دوران بڑی باریک بینی و عرق ریزی سے اس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے لیے قرآن و حدیث و فقہ کے علاوہ ملکی و غیر ملکی قانون و شریعت کے ماہرین، علما کرام، دانشوروں، معاشی ماہرین، بینکرز سے مشاورت کی گئی انھیں سوال نامے دیے گئے تاکہ ان کا نقطہ نظر اور ماہرانہ رائے کو مدنظر رکھا جائے وہ معاونت اور مشاورت کے لیے عدالتوں میں بھی پیش ہوئے اس سلسلے میں انٹرسٹ ایکٹ، منی لانڈرنگ آرڈیننس، بینکنگ کمپنی آرڈیننس، اسٹیٹ بینک ایکٹ، ریکوری آرڈیننس، کوآپریٹیو سوسائٹی ایکٹ اور سول پروسیجر کوڈ جیسے لاتعداد قوانین کی ورق گردانی کی گئی اور ان کی ان شقوں کو کھنگالا گیا جو سود سے متعلق تھیں اس طویل تر تحقیق اور محنت شاقہ کے بعد یہ فیصلہ سامنے آیا ہے جس کی بھرپور ستائش کی جانی چاہیے۔
حکمرانوں کی سابقہ روش دیکھتے ہوئے عوام اور خاص طور پر دینی حلقوں کے اذہان میں بہت سے تحفظات پائے جاتے ہیں کہ حکومت ان پانچ سالوں کے دوران اس فیصلے پر عملدرآمد کرنے کے بجائے کوئی نیا تعطل پیدا نہ کردے ، کیونکہ سود کا مسئلہ محض دینی ہی نہیں بلکہ ملک و معیشت اور اقتصادیات کے حوالے سے بڑی اہمیت کا حامل اور وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
اس وقت ملکی بجٹ کا نصف سے زائد حصہ قرضوں کے سود کی ادائیگی پر خرچ ہو رہا ہے۔ گوکہ سودی نظام کو اسلامی نظام میں ڈھالنا ایک بڑا ٹارگٹ ہے ، حکومت کو چاہیے کہ سودی نظام کے خاتمے کے لیے اسلامی معیشت کے ماہرین، علمائے کرام، قانونی ماہرین، مذہبی اسکالرز اور ربا فری بینک چلانے والے لوگوں کے تجربات سے فائدہ اٹھائے۔ اس کے پاس 5 سال سے زیادہ وقت موجود ہے غیر سودی نظام کے رول ماڈل بھی اس کے سامنے ہیں۔
عدالتوں اور ماہرین کی رائے، مشاورت اور معاونت اس کے سامنے اور ساتھ موجود ہے۔ اس کے نفاذ کے لیے صرف اخلاص نیت، احساس ذمے داری اور خوف خدا کی ضرورت ہے گزشتہ 32 سالہ عدالتی کارروائیوں کے دوران اگر حکومت اپنے طور پر سودی نظام کے خاتمے سے متعلق پیشگی منصوبہ بندی کرلیتی تو 5 سال سے پہلے یہ فریضہ سرانجام دیا جاسکتا تھا۔
سودی نظام کے خاتمے سے متعلقہ فیصلے پر عملدرآمد کا جائزہ اور مستقبل کا لائحہ عمل مرتب کرنے کے لیے جماعت اسلامی نے علمائے کرام، معاشی ماہرین اور عدالتی جدوجہد کے شرکا پر مشتمل مشاورتی اجلاس منعقد کیا جس سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ فیصلہ عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرتا ہے۔ حکومت نے اب تاخیری حربے استعمال کیے تو قوم متحد ہو کر 1977 جیسی تحریک چلائے گی۔ حکومت فوری اقدامات کرے اور عوام کو واضح روڈ میپ دیا جائے۔ عدالتی فیصلے کے بعد حکمرانوں کا امتحان شروع ہو چکا ہے۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جماعت کے رہنما ڈاکٹر فرید پراچہ نے کہا کہ حکمران جان لیں کہ سودی نظام کے دفاع کی صورت میں انھیں سخت عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا، انھوں نے کہا کہ اگر کسی بینک نے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کی تو قوم اس کا بائیکاٹ کرے گی۔ جماعت اسلامی مختلف چیمبرز آف کامرس اور کاروباری شخصیات سے ملاقات کا آغاز کر چکی ہے تاکہ انھیں اسلامی طرز معیشت اپنانے کی طرف راغب کیا جائے۔ عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کی صورت میں حکومت سے بھرپور تعاون کریں گے اور اس کے دست و بازو بنیں گے۔
ملک کے دیگر اداروں اور جماعتوں کو بلا لحاظ وابستگی اس کار خیر میں حکومت کا دست و بازو بننا چاہیے اور حکومت پر اس کے نفاذ کے لیے دباؤ بھی برقرار رکھنا چاہیے۔