یادوں کا سندر بن

مذکورہ کتاب میں درج مضامین ان کی علمیت، قابلیت کا منہ بولتا ثبوت تھے

nasim.anjum27@gmail.com

فرحت پروین ملک کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔ ادبی حلقوں میں اپنی تحریروں کے حوالے سے اپنی شناخت بنا چکی ہیں۔ حال ہی میں ان کی دوسری کتاب ''یادوں کا سندر بن'' شایع ہوئی ہے۔ اس سے قبل ''دربارِ ادب'' کے عنوان سے کتاب منظر عام پر آئی۔

مذکورہ کتاب میں درج مضامین ان کی علمیت، قابلیت کا منہ بولتا ثبوت تھے۔ ''یادوں کا سندر بن'' خاکے، مضامین و سفرنامہ پر مشتمل ہے۔ کتاب پر پروفیسر سجاد حسین اور تجزیہ نگار زاہد رشید کی آرا درج ہیں۔ زاہد رشید عرصہ دراز سے کوچۂ ادب سے وابستہ ہیں، ان کے تنقیدی مضامین پڑھنے کا اتفاق ہوا۔

فرحت پروین ملک نے اپنی کتاب کا انتساب اپنے شوہر نامدار کے نام لکھا ہے۔ ''نظیر صدیقی کے نام، جو میری پہلی دعا تھے'' ان کے ایک جملے سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ مصنفہ کے لکھنے کا انداز اچھوتا بھی ہے اور دلکش بھی۔گویا

خط کا مضمون بھانپ لیتے ہیں لفافہ دیکھ کر

تمام ہی خاکے و مضامین مکمل ذمے داری اور تحقیق کے بعد لکھے گئے ہیں، کتاب میں 21 خاکے ،پانچ مضامین اور ایک سفر نامہ شامل ہے، تقریباً تین سو صفحات پر یہ کتاب مشتمل ہے اور میڈیا گرافکس کراچی سے شایع ہوئی ہے۔ پروفیسر حسن سجاد نے ''فرحت پروین ملک کی خاکہ نگاری'' کے عنوان سے جو مضمون لکھا ہے اسی تحریر سے چند سطور۔

'' ان کا سب سے شاندار اور کامیاب خاکہ وہ ہے جو انھوں نے اپنے میاں (نظیر احمد صدیقی) پر لکھا ہے ،اس خاکے نے عصمت چغتائی کے ''دو رخی'' کی یاد میں تازہ کردی۔ اگرچہ دونوں کے اسلوب میں نمایاں فرق ہے مگر طنز آمیز حقیقت نگاری دونوں میں مشترک ہے۔ غالب نے اپنے آپ کو آدھا مسلمان کہا تھا مگر فرحت ملک پروین نے یہ دو لفظی ترکیب وہاں سے مستعار لی کہ ان دو الفاظمیں نظیر صدیقی کی پوری شخصیت اور اس کے تضاد کی تصویر کھنچ جاتی ہے۔

نظیر صدیقی کا خاکہ دراصل کہی ان کہی، التفات و گریز، خوب و ناخوب، امید و یاس اور نشاطِ غم کی ایک ایسی داستان ہے جس کا سارا مواد فرحت پروین ملک نے اپنی ازدواجی زندگی سے لیا ہے اور جس کو رقم کرنے کے لیے محض خیال آرائی کی نہیں بلکہ دل کے نہاں خانے میں چھپے ہوئے درد کے تاروں کو چھیڑنے کی ضرورت تھی'' فرحت پروین ملک کے تخلیق کردہ جملوں کی کاٹ سچائی کے خار زاروں سے مزین ہے۔ اپنے قارئین کو اس طرح معلومات فراہم کی ہیں کہ میرے ساتھ یہ ہوا کہ ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا،میں نے شادی ''شہرت کی خاطر'' جیسی کتاب کے خالق سے کی تھی مگر وہ اندر سے پکے مولوی نکلے، انھوں نے محبت کو فرض بنا لیا تھا (اور میں نے فرض کو محبت) سو گزارا ہو گیا۔

فہرست کے اعتبار سے پہلا خاکہ ''انجلا حیدری کون؟'' کے عنوان سے ہے۔ یہ خاکہ دراصل پروین ملک کی اپنی ذات اور شوہر کے ہاتھوں بیوی کی ناقدری اور حوصلہ شکنی کے حوالے سے ہے۔ سچ ہے بیویاں اپنے شوہر کی خوشنودی کے لیے جان بھی قربان کردیں، شوہر کو احساس تک نہیں ہوتا ہے بلکہ اپنی انا کے بت کو استحکام بخشنے کے لیے دن رات ایک کرکے بیوی پر جانے انجانے میں طنز کے نشتر چلاتا ہے۔

جب شادی کے بعد فرحت پروین ملک نے اپنے شوہر کو جوکہ شہرت یافتہ قلم کار اور نقاد تھے اپنی تحریریں دکھائیں جو انھوں نے شادی سے قبل لکھی تھیں، تو فرمایا لکھنا پڑھنا تمہارے بس کا کام نہیں۔ لکھنے والی لڑکیاں بہت مل جاتی ہیں، کھانا پکانا سیکھو اور اچھی بیوی بننے کی کوشش کرو، گھر میں تنقیدی فضا نے بقول پروین ملک کے میری خود اعتمادی کو بری طرح مجروح کیا، اچھی بیوی بننے کی کوشش میں پتا نہیں میں کیا بن گئی ''کوئلہ رہی ،نہ راکھ'' ان دنوں میری ذہنی حالت وہی ہے جو ناصر کاظمی نے کہا:

بھولتے جاتے ہیں ماضی کے دیار

یاد آئیں بھی تو سب یاد نہیں

اللہ نے میری پہلی سانس میں نظیر صدیقی کا نام رکھ دیا تھا ان کے بغیر میں کچھ بھی نہیں۔ بے شک فرحت پروین ملک کی تحریریں پڑھ کر اس بات کا اندازہ بہ خوبی ہو جاتا ہے کہ ہر قدم پر ان کے جذبات اور احساسات کا قتل ہوا۔ لیکن ہر طرح کے حالات میں انھوں نے خوب نباہ کیا، جب کہ وہ خود تعلیم یافتہ خانوادے سے تعلق رکھتی تھیں، انھیں علم و ادب ورثے میں ملا تھا لیکن وہ شوہر کی مرضی کے خلاف اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کارنہ لاسکیں لیکن ان کے انتقال کے بعد دماغ میں پکنے والا لاوا باہر آگیا اور انھوں نے جم کر لکھا اور سب کو حیران کردیا۔

''ایک تھی پارو'' کے عنوان سے لکھا ہوا خاکہ بھی اپنی مثال آپ ہے، بہت محبت کے ساتھ لکھا گیا ہے ان کی یہ شاہکار تحریر مدتوں یاد رکھی جائے گی انھیں پروین شاکر سے دلی محبت تھی وہ اس کی شاعری کی قدر دان اور اس کے حالات زندگی پر انھیں دکھ تھا، یہ دکھ ان کی تحریر میں در آیاہے، فرحت پروین نے صدیق سالک مرحوم کے بارے میں لکھا ہے کہ انھوں نے پروین شاکر کے CSS امتحان کے لیے عمر کے اعتبار سے آسانیاں پیدا کیں۔ جنرل ضیا الحق مرحوم نے ان کے ساتھ تعاون کیا۔

دوسرے مجموعہ کلام ''صد برگ'' کا نام پروین شاکر نے ''ہوا برد'' رکھا تھا جسے نظیر صدیقی صاحب نے رد کر دیا اور کہا لوگ اسے دریا برد کردیں گے۔ پروین شاکر کی قبر پر ان کا یہ شعر کندہ ہے:

مر جائیں گے تو لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے

پروین شاکر اپنی حادثاتی موت کی پیش گوئی اپنے اس شعر میں کرچکی تھیں:

رونق بازار و محفل کم نہیں ہے آج بھی
سانحہ اس شہر میں کوئی مگر ہونے کو ہے

''زوجہ صمد شاہین اور خاوند ممتاز شیریں'' اس عنوان کے تحت مصنفہ نے ممتاز شیریں کے آخری دنوں کی عکاسی بے حد درد مندی اور خلوص کے ساتھ کی ہے، درد بھری تحریر اور درد بھرا منظر نامہ قاری کو غمزدہ اور ممتاز شیریں سے ہمدردی کرنے کے لیے کافی ہے۔ مضمون سے چند جملے۔ وہ اردو ادب کے پیڑ پر پت جھڑ کے آخری پتے کی طرح اٹکی ہوئی تھیں۔ مجازی خدا قہر میں خدا سے بھی دو ہاتھ بڑھ گیا۔'' خدا ظالم ہرگز نہیں ہے پر بندے نافرمان ہیں۔ عذاب و ثواب بھی اسی حوالے سے آئے گا۔

''ایک دن ہم بھی بہت یاد کیے جائیں گے'' یہ خاکہ ممتاز شاعر اقبال عظیم کا ہے جلتی بجھتی یادوں کے سہارے لکھا گیا ہے اور بہت سی معلومات بہم پہنچاتا ہوا خاکہ ہے۔ پروین ملک کے خاکے ہوں، مضامین یا سفرنامہ ان کی تمام تحریروں میں ماضی کے دکھ، اپنوں سے بچھڑنے کا احساس جاگزیں ہے۔

زاہد رشید کے مضمون سے ''یادوں کا سُندر بن'' سے چند جملے جن میں بے ساختگی بھی ہے اور سچائی بھی۔ یہی وہ خاص وصف ہے جس کی بنا پر فرحت پروین ملک کی دونوں کتابیں اہل علم و ادب کے دل و دماغ میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ کاش آصف فرخی کی بیوی کا دل بھی حسین ہوتا، آپ کہتے ہیں تو نہیں کھاؤ گی (آپ کہتے ہیں تو نہیں جیوں گی جیسا انداز) زوجہ صمد شاہین اور خاوند ممتاز شیریں۔)
Load Next Story