حکومت کے بڑے چیلنجز
ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادیوں نے حکومت تولے لی لیکن شاید ملک کی معاشی صورتحال کا بہتر ادارک نہیں کرسکے
عمران خان کی حکومت کا خاتمے کے بعد مسلم لیگ ن اوران کے اتحادیوں کی نئی حکومت کو ابتدا ہی میں کئی محاذ پر سیاسی اورمعاشی چیلنجز کا سامنا ہے ۔
مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادیوں کی نئی حکومت کو اس وقت پانچ بڑے چیلنجز کا سامنا ہے ۔ اول ، ملک کو معاشی استحکام دینا اور عوام کو معاشی ریلیف دینا تاکہ عوام میں حکومت کی ساکھ بہتر رہے۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادیوں نے حکومت تو لے لی لیکن شاید ملک کی معاشی صورتحال کا بہتر ادارک نہیں کرسکے اورنہ ہی اس کے پاس کوئی شارٹ ٹرم پلان موجود ہے ۔دوئم ،عمران خان کی مزاحمتی سیاست اختیار کرنا اورفوری نئے انتخابات کے مطالبہ کا توڑ کیسے کیا جائے۔
سوئم۔ مسلم لیگ ن، اتحادی جماعتوں بشمول پیپلزپارٹی پر اپنا معاشی اور سیاسی بوجھ کیسے تقیسم کرے۔ کیونکہ اتحادی جماعتوں کی سیاست کا تجزیہ یہی بتاتا ہے کہ یہ لوگ حکومت کے اتحادی اہم عہدوں یا وزارتوں کی بندر بانٹ میں شامل ہوتے ہیں لیکن حکومتی مشکلات یا ناکامی میں اس کے ساتھ نہیں کھڑے ہوتے۔
چہارم اس وقت جو ملک میں خطرناک حد تک سیاسی تقسیم بن چکی ہے، اس میں وہ خود کیسے محفوظ بناسکتی ہے اور اگلے عام انتخابات میں اس کی سیاسی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے اورکیا وہ اتحادیوں کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لے گی یا تن تنہا سیاسی میدان میں مقابلہ کرے گی ۔ پنجم اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ تعلقات کار میں حکومت او ربالخصوص مسلم لیگ ن کہاں کھڑی ہوگی بالخصوص نواز شریف اورمریم نواز کا کیا کردار ہوگا؟
مسلم لیگ ن میں ایک ایسا گروپ موجود ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ عمران خان کی حکومت کو وقت سے پہلے گرانے کی ہماری حکمت عملی پارٹی مفاد میں نہیں تھی او رہم بلاوجہ اسٹیبلیشمنٹ سمیت پیپلزپارٹی یا آصف زرداری کی سیاست کاحصہ بنے ۔یہ گروہ سمجھتا ہے کہ مسلم لیگ ن پیپلزپارٹی کے ہاتھوں سیاسی طور پر ٹریپ ہوئی ہے اور آصف زرداری کا سیاسی نشانہ بھی مسلم لیگ ن ہی ہے۔ یہ جو لندن میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی سربراہی میں اجلاس منعقد ہوا ہے، اس کے پیچھے بھی یہ ہی سیاسی تقسیم ہے۔
لندن اجلاس نے یہ بھی ثابت کردیا کہ مسلم لیگ ن میں اصل فیصلے کی طاقت نواز شریف کے پاس ہی ہے۔ ممکن ہے نواز شریف یہ بھی محسوس کرتے ہوں کہ حالیہ تبدیلی میں ان کا اوران کی بیٹی مریم نواز کا کردار محدود ہے ۔معاشی معاملات میں بھی اگرچہ معاملات مفتاع اسماعیل کے پاس ہیں مگر اسحاق ڈار بھی پس پردہ کام کررہے ہیں۔
مسلم لیگ ن کا بڑا سیاسی محاذ پنجاب کی سیاست ہے ۔ پی ٹی آئی بھی پنجاب میں طاقت رکھتی ہے اور دونوں سیاسی قوتوں کا اصل مرکز پنجاب ہے اس لیے حالیہ حکومت میں مسلم لیگ ن کو جہاں معاشی طور پر ڈیلور کرنا ہے وہیں اپنی پارٹی کی پنجاب کی انتخابی پوزیشن کو بھی مستحکم رکھنا ہے ۔مسئلہ یہ ہے کہ پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت مشکل میں ہے کیونکہ یہ حکومت پی ٹی آئی کے باغی ارکان پر کھڑی ہے۔
اگر ان باغی لوگوں کے خلاف کوئی قانونی فیصلہ آتا ہے تو یہ مسلم لیگ ن کی حکومت کو ایک بڑا سیاسی دھچکا دیگا ۔مرکز میں مسلم لیگ ن کی حکومت پیپلزپارٹی اورجے یو آئی کے سہارے پر کھڑی ہے اور آصف زرداری کی سیاسی مہارت مسلم لیگ ن کے مقابلے میں زیادہ ہے ۔ پیپلزپارٹی کو اندازہ ہے کہ اس وقت مسلم لیگ ن کیونکہ مشکل صورتحال میں ہے تو وہ پنجاب میں بھی جگہ بنا سکتی ہے ۔
مسلم لیگ ن او ران کی اتحادی جماعتوں کے سامنے ایک بڑا چیلنج عمران خان کا سیاسی بیانیہ ہے ۔ یہ بیانیہ درست ہے یا غلط لیکن ان کا بیانیہ فی الحال مقبول ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ عمران خان کے مقابلے میں ان کا سیاسی بیانیہ کیا ہوگا کیونکہ اسی بیانیہ کی بنیاد پر ہی وہ عمران خان کو دباو میںلاسکتے ہیں۔لیکن فی الحال مسلم لیگ ن او ران کے اتحادیوں کو عمران خان کے مقابلے میں بیانیہ کی تلاش میں ہے ۔یہ کیسے ممکن ہوگا او رکب ممکن ہوگا او رکیسے عوامی مقبولیت حاصل کرے گا، اہم سوال ہے۔
پیپلزپارٹی فوری انتخابات کی حامی نہیں ۔مگر جو دباو عمران خان کا ہے او رجو آوازیں مسلم لیگ ن کے اندر سے فوری انتخابات کے حق میں اٹھ رہی ہیں اس کا نتیجہ کیا برآمد ہوتا ہے ۔انتخابی اصلاحات میں ایک اہم مسئلہ اورسیز پاکستانیوں کو ووٹ دینے کا حق ہے ۔ پیپلزپارٹی او رمسلم لیگ ن سمیت دیگر حکومتی جماعتیں اس حق کو ختم کرنا چاہتی ہیں اور اگر وہ ایسا کرتی ہیں تو ان کو ایک بڑا سیاسی دھچکہ دیگر ممالک میں موجود پاکستانیوں کی مزاحمت کی صورت میں ملے گا ۔
اس وقت مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں نرم رویہ رکھتی ہیں لیکن دیکھنا ہوگا کہ یہ موقف کب تک باقی رہتا ہے کیونکہ حالیہ دنوں میں مریم نواز کے بعض بیانات نے بھی اسٹیبلیشمنٹ کے حلقوں میں تشویش پیدا کی اور عمران خان کے بہت سے بیانات نے بھی اسٹیبلیشمنٹ کے لیے مسائل پیدا کیے۔
مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادیوں کی نئی حکومت کو اس وقت پانچ بڑے چیلنجز کا سامنا ہے ۔ اول ، ملک کو معاشی استحکام دینا اور عوام کو معاشی ریلیف دینا تاکہ عوام میں حکومت کی ساکھ بہتر رہے۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادیوں نے حکومت تو لے لی لیکن شاید ملک کی معاشی صورتحال کا بہتر ادارک نہیں کرسکے اورنہ ہی اس کے پاس کوئی شارٹ ٹرم پلان موجود ہے ۔دوئم ،عمران خان کی مزاحمتی سیاست اختیار کرنا اورفوری نئے انتخابات کے مطالبہ کا توڑ کیسے کیا جائے۔
سوئم۔ مسلم لیگ ن، اتحادی جماعتوں بشمول پیپلزپارٹی پر اپنا معاشی اور سیاسی بوجھ کیسے تقیسم کرے۔ کیونکہ اتحادی جماعتوں کی سیاست کا تجزیہ یہی بتاتا ہے کہ یہ لوگ حکومت کے اتحادی اہم عہدوں یا وزارتوں کی بندر بانٹ میں شامل ہوتے ہیں لیکن حکومتی مشکلات یا ناکامی میں اس کے ساتھ نہیں کھڑے ہوتے۔
چہارم اس وقت جو ملک میں خطرناک حد تک سیاسی تقسیم بن چکی ہے، اس میں وہ خود کیسے محفوظ بناسکتی ہے اور اگلے عام انتخابات میں اس کی سیاسی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے اورکیا وہ اتحادیوں کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لے گی یا تن تنہا سیاسی میدان میں مقابلہ کرے گی ۔ پنجم اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ تعلقات کار میں حکومت او ربالخصوص مسلم لیگ ن کہاں کھڑی ہوگی بالخصوص نواز شریف اورمریم نواز کا کیا کردار ہوگا؟
مسلم لیگ ن میں ایک ایسا گروپ موجود ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ عمران خان کی حکومت کو وقت سے پہلے گرانے کی ہماری حکمت عملی پارٹی مفاد میں نہیں تھی او رہم بلاوجہ اسٹیبلیشمنٹ سمیت پیپلزپارٹی یا آصف زرداری کی سیاست کاحصہ بنے ۔یہ گروہ سمجھتا ہے کہ مسلم لیگ ن پیپلزپارٹی کے ہاتھوں سیاسی طور پر ٹریپ ہوئی ہے اور آصف زرداری کا سیاسی نشانہ بھی مسلم لیگ ن ہی ہے۔ یہ جو لندن میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی سربراہی میں اجلاس منعقد ہوا ہے، اس کے پیچھے بھی یہ ہی سیاسی تقسیم ہے۔
لندن اجلاس نے یہ بھی ثابت کردیا کہ مسلم لیگ ن میں اصل فیصلے کی طاقت نواز شریف کے پاس ہی ہے۔ ممکن ہے نواز شریف یہ بھی محسوس کرتے ہوں کہ حالیہ تبدیلی میں ان کا اوران کی بیٹی مریم نواز کا کردار محدود ہے ۔معاشی معاملات میں بھی اگرچہ معاملات مفتاع اسماعیل کے پاس ہیں مگر اسحاق ڈار بھی پس پردہ کام کررہے ہیں۔
مسلم لیگ ن کا بڑا سیاسی محاذ پنجاب کی سیاست ہے ۔ پی ٹی آئی بھی پنجاب میں طاقت رکھتی ہے اور دونوں سیاسی قوتوں کا اصل مرکز پنجاب ہے اس لیے حالیہ حکومت میں مسلم لیگ ن کو جہاں معاشی طور پر ڈیلور کرنا ہے وہیں اپنی پارٹی کی پنجاب کی انتخابی پوزیشن کو بھی مستحکم رکھنا ہے ۔مسئلہ یہ ہے کہ پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت مشکل میں ہے کیونکہ یہ حکومت پی ٹی آئی کے باغی ارکان پر کھڑی ہے۔
اگر ان باغی لوگوں کے خلاف کوئی قانونی فیصلہ آتا ہے تو یہ مسلم لیگ ن کی حکومت کو ایک بڑا سیاسی دھچکا دیگا ۔مرکز میں مسلم لیگ ن کی حکومت پیپلزپارٹی اورجے یو آئی کے سہارے پر کھڑی ہے اور آصف زرداری کی سیاسی مہارت مسلم لیگ ن کے مقابلے میں زیادہ ہے ۔ پیپلزپارٹی کو اندازہ ہے کہ اس وقت مسلم لیگ ن کیونکہ مشکل صورتحال میں ہے تو وہ پنجاب میں بھی جگہ بنا سکتی ہے ۔
مسلم لیگ ن او ران کی اتحادی جماعتوں کے سامنے ایک بڑا چیلنج عمران خان کا سیاسی بیانیہ ہے ۔ یہ بیانیہ درست ہے یا غلط لیکن ان کا بیانیہ فی الحال مقبول ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ عمران خان کے مقابلے میں ان کا سیاسی بیانیہ کیا ہوگا کیونکہ اسی بیانیہ کی بنیاد پر ہی وہ عمران خان کو دباو میںلاسکتے ہیں۔لیکن فی الحال مسلم لیگ ن او ران کے اتحادیوں کو عمران خان کے مقابلے میں بیانیہ کی تلاش میں ہے ۔یہ کیسے ممکن ہوگا او رکب ممکن ہوگا او رکیسے عوامی مقبولیت حاصل کرے گا، اہم سوال ہے۔
پیپلزپارٹی فوری انتخابات کی حامی نہیں ۔مگر جو دباو عمران خان کا ہے او رجو آوازیں مسلم لیگ ن کے اندر سے فوری انتخابات کے حق میں اٹھ رہی ہیں اس کا نتیجہ کیا برآمد ہوتا ہے ۔انتخابی اصلاحات میں ایک اہم مسئلہ اورسیز پاکستانیوں کو ووٹ دینے کا حق ہے ۔ پیپلزپارٹی او رمسلم لیگ ن سمیت دیگر حکومتی جماعتیں اس حق کو ختم کرنا چاہتی ہیں اور اگر وہ ایسا کرتی ہیں تو ان کو ایک بڑا سیاسی دھچکہ دیگر ممالک میں موجود پاکستانیوں کی مزاحمت کی صورت میں ملے گا ۔
اس وقت مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں نرم رویہ رکھتی ہیں لیکن دیکھنا ہوگا کہ یہ موقف کب تک باقی رہتا ہے کیونکہ حالیہ دنوں میں مریم نواز کے بعض بیانات نے بھی اسٹیبلیشمنٹ کے حلقوں میں تشویش پیدا کی اور عمران خان کے بہت سے بیانات نے بھی اسٹیبلیشمنٹ کے لیے مسائل پیدا کیے۔