پاکستانی فلمیں سینما مالکان کی بے رخی کا شکار

غیر ملکی فلموں کے حوالے سے بہتر پالیسی بنانے کی ضرورت ہے

غیر ملکی فلموں کے حوالے سے بہتر پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل

سید نور پاکستان فلم انڈسٹری میں اتھارٹی کا درجہ رکھتے ہیں، ان کا شمار ان کامیاب پاکستانی فلم ڈائریکٹرزمیں ہوتا ہے جو پاکستانی فلموں کے زوال کے اس دور میں بھی فلمیں بنا رہے ہیں اور ان کی بیشتر فلمیں عوام میں مقبولیت کا درجہ بھی حاصل کر رہی ہیں۔

نوے کی دہائی میں فلم انڈسڑی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی تھی، اس دور میں بھی سید نور اور شمیم آراء نے جیوا، سنگم، گھونگھٹ، ہاتھی میرے ساتھی اور منڈا بگڑا جائے بنا کر بابر علی، سعود، ریمبو، ریشم، میرا اور ریما جیسے نئے چہروں سے انڈسٹری کے تن مردہ میں جان ڈالنے کی کوشش کی۔

فلم انڈسٹری کے لئے اپنا خون پسینہ ایک کرنے والے سید نور اس عید الفطر پر اس وقت دلبرداشتہ نظر آئے جب مسعود بٹ کی فلم ''گوگا لاہوریا ''کے ساتھ ان کی فلم ''تیرے باجرے دی راکھی '' کو بھی پنجابی فلمیں ہونے کی وجہ سے ملٹی پلیکس سنیما گھروں میں شوز کرنے کی اجازت نہ مل سکی۔

سید نور نے پروڈیوسر صفدر ملک،راحیل ملک،حسن عسکری، اچھی خان، چوہدری اعجاز کامران،افتخار ٹھاکراور اچھی خان کے ہمراہ پریس کانفرنس میں ملٹی پلیکس سینماز میں پنجابی فلمیں نہ لگنے کا شکوہ بھی کیا۔

سید نور کے مطابق اگر میں چاہوں تو میرے پاس تمام تفصیلات ہیں کہ کہاں کہاں سے میری فلم اتاری گئی اور کہاں نہیں لگائی گئی لیکن میں یہاں صرف احساس دلانا چاہتا ہوں کہ ہم بھی پاکستان فلم انڈسٹری سے ہیں اور کئی سالوں سے اس کے لئے جدو جہد کررہے ہیں ،کبھی میں فلم بنا رہوں تو کبھی مسعود بٹ اور کبھی حسن عسکری،ہم فلمیں بناتے چلے جارہے ہیں اور یہ لوگ ہمیں ناکامیاں دیتے چلے جا رہے ہیں۔

سید نور نے سوال اٹھایا کہ اگر بھارت کی پنجابی فلمیں ہمارے سینما گھروں میں چل سکتی ہیں تو ہماری پنجابی فلموں کو کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے، اگر فلم سینما گھر میں لگے گی نہیں یا اسے کوئی دیکھنے نہیں آئے گا تو آہستہ آہستہ سب لوگ فلمیں بنانا ہی بند کردیں گے، حسن عسکری کہتے ہیں کہ آئین کے مطابق غیر ملکی فلموں کو30 فیصد سے زیادہ شو نہیں دیئے جا سکتے،اس قانون پر بھی عمل نہیں ہو رہا۔

ابھی پنجابی فلموں کی ملٹی پلیکس سینما گھروں میں شوز نہ چلنے کی بازگشت کم نہ ہوئی تھی کہ پاکستانی فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن نے بھی سینما مالکان سے شکوہ کر دیا، اردو فلموں کے پروڈیوسرز، ہدایتکار اور اداکاروں کے مطابق ملک بھر کے سینما مالکان مقامی فلموں کے بجائے ہولی وڈ سائنس فکشن فلم کو ترجیح دے رہے ہیں، عید الفطر پر ریلیز ہونے والی پاکستانی فلموں 'چکر، گھبرانا نہیں ہے، دم مستم، پردے میں رہنے دو اور تیرے باجرے دی راکھی' کے بجائے ہولی وڈ فلم 'ڈاکٹر اسٹرینجاینڈ دی ملٹی ورس آف میڈنیس' کو زیادہ ترجیح دے رہے ہیں۔

اداکار جاوید شیخ، اداکار و ہدایت کاریاسر نواز، ندا یاسر، عدنان صدیقی،وجاہت روف، شازیہ وجاہت، امجد رشید اور بدر اکرام خاصے برہم دکھائے دیئے،فلم "دم مستم'' کے پروڈیوسر عدنان صدیقی نے کہا کہ ہالی ووڈ فلم '' ڈاکٹر اسٹرینج'' کو چند دنوں بعد بھی ریلیز کیا جا سکتا تھا۔ ہماری انڈسٹری کی فلمیں دو سال کے وقفے کے بعد ریلیز ہوئی ہیں، اب ہماری انڈسٹری کو ہالی ووڈ فلموں کی نمائش سے نقصان پہنچے گا اور ہمارا سنیما ہائی جیک ہوجائے گا۔

انہوں نے وزیراعظم اور مریم اورنگزیب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بتائیں ہم کس طرح اپنے سنیما کو ترقی کی جانب لے جاسکیں گے۔یاسر نواز کا کہنا تھا کہ فلم کی پروموشن میں دن رات ایک کردئیے، ہماری فلم اتار کر ہالی ووڈ فلم لگادی، اس سے بہتر ہم ڈرامہ بنالیتے اور ایکٹنگ کرتے۔فلم "پردے میں رہنے دو'' کے پروڈیوسر وجاہت رؤف نے کہا کہ کسی بھی فلم کو بین نہیں کرانا چاہتے، ریگولیٹ کرانے کے خواہشمند ہیں۔


اداکار جاوید شیخ نے وزیر اعظم شہباز شریف سے معاملے پر ایکشن لینے کا مطالبہ کردیا۔انہوں نے کہا کہ اپنے پیسے کسی اور چیز میںلگاسکتے ہیں وہ سینما میں لگارہے ہیں رسک لے رہے ہیں۔ چیئرمین پاکستان فلم پروڈیوسر ایسوسی ایشن امجد رشید کے مطابق سارے معاملے پر مریم اورنگزیب کو خطوط بھی لکھے مگر کوئی حل نہ نکل سکا۔

اگر حقائق کے آئینے میں دیکھا جائے تو پاکستان کی فلم انڈسڑی پہلے ہی زوال کا شکار ہے، لاہور سمیت پورے ملک میں قدیم سینما گھر ختم ہو رہے ہیں اور جو رہ گئے ہیں وہاں محض پرانی فلموں کا کاروبار نہ ہونے کے برابر ہے۔ تقسیم ہند کے وقت جو سینما تھے ان کی اکثریت اپنا وجود کھو بیٹھی ہے۔

لاہور میں تقسیم ہند سے قبل جو سینما موجود تھے ان میں ریوالی ، پلازہ، رتن ، اوڈین ، ایروز ، نشاط ، پیرا ماونٹ، ملک تھیٹر، پاکستان ٹاکیز، ناولٹی، صنوبر، کیپیٹل ،امپیریل اورپیلس سینما شامل ہیں۔پھر جوں جوں پاکستانی فلم انڈسٹری ترقی کرتی رہی فلمیں کامیاب ہوتی گئیں لاہور میں نئے سینماؤں کی تعداد بھی تیزی سے بڑھنے لگی۔

1960سے لے کر 1980 کی دہائی تک جن نئے سینماؤں کا اضافہ ہوا ان میں میکلوڈروڈ اور ایبٹ روڈ پر میٹروپول ،گلستان، نغمہ، مبارک، محفل، شبستان اورخیام سینما بنے جبکہ لاہور کے مختلف علاقوں میں جو سینما گھر تعمیر ہوئے ان میں فیروز پور روڈ پر انگولا ،شمع، شیش محل، گلیکسی، ارم، صنم اورکوہ نور بنے جبکہ گلبرگ میں لبرٹی ،اوریگا اور شاہدرہ میں سنگیت اورساحل سینما گھر بنے اسی طرح مصری شاہ میں نیلم اور صغیر سینما بنے۔

راوی روڈ پر سٹی سینما نائیلہ، ملتان روڈ پر وینس، لیرک، الممتاز اور کرشن نگر میں فردوس ،گڑھی شاہو میں کراؤن، تاج سینماالحمراء مال روڈ پر ریگل، پلازہ اور الفلاح سینما بنے۔ کینٹ میں افشاں اور پاک فورسنز بنے۔جی ٹی روڈ پر شالیمار اور شبنم سینما بنے۔ پھر حالات نے کروٹ لی فلم انڈسٹری زوال کی طرف چل پڑی۔ سینماؤں کابزنس کم ہونے لگا۔پھر پہلے میکلوڈروڈ پر ریجنٹ سینما، پیلس سینما نے پلازوں اور پٹرول پمپ کی شکل اختیار کر لی۔رتن سینما خاندانی جھگڑوں کی نذر ہو کر بند ہو گیا۔

نشاط سینما کی جگہ ہوٹل نے لے لی، نغمہ سینما کاروں کا شوروم بن گیا، محفل سینما تھیٹر ہال میں تبدیل ہوگیا، مبارک سینما طویل عرصہ بند رہا، پھر اسے شادی گھر میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ جو مزید سینماز اپنا وجود کھو بیٹھے ان میں وینس سینما، فردوس سینما، لیرک سینما ،کیپری، الممتاز، شمع، شیش محل، گلیکسی، سنگیت ،ساحل ،کوہ نور، نائیلہ، نگار، پیرا ماؤنٹ ،سٹی ایروز، ناولٹی، ریوالی، الحمراء، کیپری لبرٹی، صنم، انگولا، نیا گرہ، نیلم، صغیر، شبنم، شالیمار اورانگوری سینما ختم ہو گئے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دور میں سینما تعمیر کرنے والوں کے لیے حکومتی سطح پر قانون نافذ کیا گیا تھا کہ سینما کی جگہ سینما ہی تعمیر ہوگا مگر اس قانون کو تیزی سے پامال کر دیا گیا۔اب ایک اور مسئلہ جو اہم ہے کہ جب جدید ڈیجیٹل سینما تعمیر ہونا شروع ہوئے کروڑوں روپے کی پرانی مشینری کوڑے کا ڈھیر بن گئی، فلم نیگیٹو سے کیمرے پر منتقل ہو گئی ہے۔لہذا اب جدید سینماؤں کا جدید فلموں کی وجہ سے کچھ بزنس چل رہا ہے جبکہ پرانے سینما والے پرانی فلموں کی نمائش کر کے خسارے سے دوچار ہیں۔

گزشتہ عیدالفطر پر پنجابی اور اردو فلموں کا بننا خوش آئند ضرور ہے ، اس سے نہ صرف پاکستان فلم انڈسٹری کے تن مردہ میں جان ڈالنے میں مدد ملے گی بلکہ شائقین کو بھی ایک بار پھر تفریح کے مواقع میسر آئے ہیں، سینما مالکان کو بھی چاہیے کہ اپنی ملک کی فلموں کو ترجیح دیں، بزنس کرنے والی پاکستانی فلموں کو اتار کر غیر ملکی فلم لگانا کسی طرح بھی حب الوطنی نہیں، حکومت کو اس کا نوٹس لیتے ہوئے ایسی پالیسی بنانا چاہیے جس کے تحت اگر کوئی پاکستانی فلم ریلیز ہورہی ہو تو اس کے مقابلے پر غیر ملکی فلم نہ لگائی جائے۔

پاکستانی فلم میکرز کو بھی چاہیے کہ وہ ایک ساتھ اتنی فلمیں ریلیز نہ کریں کیونکہ اب پہلے والا ماحول نہیں ہے کہ جب عید پر آٹھ آٹھ فلمیں ریلیز ہوتی تھیں، سینما مالکان اور فلم میکرز باہمی مشاورت سے اس بارے میں کوئی ایسا لائحہ عمل تیار کریں جس سے ان کی فلمیں بھی ریلیز ہوتی رہیں اور سینما مالکان کی کمائی میں بھی فرق نہ پڑے۔
Load Next Story