شرح خواندگی بڑھانے کے لیے تعلیم بالغاں کی ضرورت

خواندہ افراد کی کارکردگی ہی ہر شعبے میں بہتر ہوتی ہے


مالک خان سیال March 02, 2014
فیکٹریوں اور زرعی فارمز میں تعلیم بالغاں کے مراکز کھولے جائیں۔ فوٹو: فائل

بلاشبہ نوجوان کسی بھی ملک کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ اگر وہ پڑھے لکھے، صحت مند اور پیداواری صلاحیتوں کے مالک ہوں تو وہ ملک کی اقتصادی ترقی میں ممد ومعاون ثابت ہوتے ہیں اور اس ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔

اس کے برعکس اگر وہ ناخواندہ، بیماریوںکا شکار اور پیداواری صلاحیتوں سے عاری ہوں تو وہ قوم پر بوجھ ثابت ہوتے ہیں۔ دنیا کے وہ ممالک جنہوں نے اس حقیقت کو پاتے ہوئے تعلیم کو فروغ دیا، ملک سے ناخواندگی دور کرنے کو سب کاموں پر فوقیت دی اور اس کے لیے وسائل مختص کیے، وہ صنعتی اور زرعی اعتبار سے ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کا فرمان ہے ''تعلیم پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ دنیا اتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے کہ اگر ہم نے تعلیمی میدان میں خاطر خواہ ترقی نہیں کی تو نہ صرف یہ کہ ہم دوسرے ملکوں سے پیچھے رہ جائیں گے بلکہ شاید ہمارا وجود ہی قائم نہ رہے''۔ افسوس! کہ ہمارے قائد نے جو ویژن ہمیں67 سال پہلے دیا تھا، ہم آج تک اسے کسی خاطر میں نہ لائے۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم کے میدان میں ہماری حالت انتہائی قابل رحم ہے۔ خوشحال پاکستان کا خواب اسی وقت پورا ہو گا جب ہمارا فوکس تعلیم پر ہو گا اور ہماری سو فیصد آبادی زیور تعلیم سے آراستہ ہو گی۔ اس وقت زمینی حقائق یہ ہیں کہ صوبہ پنجاب میں سکول داخل نہ کروائے جانے والے بچوں کی شرح 61 فیصد ہے جبکہ سندھ میں 53فیصد،خیبر پختونخوا میں 51 فیصد اور بلوچستان میں47 فیصد ہے۔ ان بچوں کو سکول میں لانا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔

وطن عزیز میں ہمیشہ سے ہمارے ارباب اختیار کی ترجیحات میں تعلیم کا شعبہ انتہائی نچلے درجے پر رہا ہے۔ اب دیر آید درست آید کے مصداق وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس شعبہ کے لیے بجٹ میں ماضی کے مقابلے میں خاطر خواہ وسائل مختص کیے ہیں، جو حکومتی اعلانات دعووں اور وعدوں کی حد تک تو انتہائی پر کشش اور سحر انگیز دکھائی دیتے ہیں، مگر تعلیمی شعبہ میں انقلاب کے لئے ہمیں ان پر سختی سے علمدرآمد کی ضرورت ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہمارے ملک کی چار کروڑ آبادی ناخواندہ ہے اور آبادی کے مسلسل اضافے کے باعث اس میں ہر سال 10لاکھ کا اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔اس لیے ناخواندگی کو دور کرنا پاکستان کا ایک اہم مسئلہ ہے اور اس اہم مسئلہ کو حل کرنے کے لیے ہمارے اوپر لازم ہے کہ ہم اپنی کوششیں تیز کر دیں۔

 photo Pic8_zps8d71ee0a.jpg

ناخواندگی کی شرح ملک کے مختلف حصوں میں مختلف ہے لیکن سب سے زیادہ ناخواندگی دیہات میں دیکھنے میں آتی ہے، جہاں اکثر عورتیں لکھنا پڑھنا نہیں جانتیں۔ آج پاکستان کے شہروں میں اگرچہ بیداری کی نئی لہر دوڑ چکی ہے لیکن ملک کا اہم حصہ یعنی دیہات اب بھی خواب غفلت میں محو ہیں۔ اگر ہم تیزی سے ترقی کرتی قوموں کے حالات کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اپنی ناکامیوں سے سبق سیکھا اور خود احتسابی کے عمل کو جاری رکھتے ہوئے کبھی اپنی غلطیوں کو نہیں دوہرایا۔ ماہرین کے مطابق تعلیمی میدان میں ہماری ناکامیوں اور زوال کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے اساتذہ زیادہ تر غیر تدریسی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں، کبھی پولیو مہم، کبھی ڈینگی آگاہی مہم، کبھی امتحانات اور الیکشن میں ڈیوٹیاں یا پھر کوئی اور سرکاری کام، جس کی وجہ سے بچوں کی پڑھائی بری طرح متاثر ہو تی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اساتذہ کو کسی بھی غیر تدریسی عمل میں شریک کرنے کے بجائے ان کاموں کے لیے الگ سے بھرتیاں کی جائیں تا کہ اساتذہ اپنے کام پر پوری توجہ دے سکیں، ورنہ ہمارا معیار تعلیم پست سے پست ہو تا چلا جائے گا۔

مغربی ممالک کی اقتصادی میدان میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی کا راز اس بات میں مضمر ہے کہ انہوں نے بیسویں صدی کے اوائل میں ہی ناخواندگی کا قلع قمع کر دیا۔ ان ممالک میں کھیتوں میں کام کرنے والے کسان اور کارخانوں میں کام کرنے والے کاری گر سب تعلیم یافتہ ہیں۔ ایسے افراد جو بچپن میں کسی وجہ سے سکولوں سے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کر سکے، انہیں ضروری تعلیم دے کر معاشرے کے مفید افراد بنانا تعلیم بالغاں کہلاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے تعلیم بالغاں کی بدولت خواندگی کی شرح کو سو فیصد تک کر لیا ہے، جس کی وجہ سے وہ قومیں ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکی ہیں۔ تعلیم بالغاں کی بدولت افراد کو ضروری تصورات کی تفہیم کے ساتھ مختلف فنون سکھائے جاتے ہیں تا کہ وہ کار آمد افراد بن کر ملک وقوم کے لیے مفید بن سکیں۔ ان پڑھ بالغ افراد کو تعلیم دینا کہ وہ اپنے کھیتوں کو سرسبز بنا سکیں یا کارخانوں میں بہتر کاریگر ثابت ہوں، اس بات کی دلیل ہے کہ کسی بالغ شخص کو تعلیم دینا دولت اور محنت کا ضیاع نہیں ہے۔

 photo Pic7_zps1ecdb7c0.jpg

ضرورت اس امر کی ہے کہ چھوٹی عمر کے ان تمام بچوں کو جو کسی وجہ سے سکول نہیں جا رہے، ان کا سکول میں داخلہ یقینی بنانے کے ساتھ ایسے والدین جو بچوں کو سکول نہیں بھیج رہے کی نشاندہی کر کے انہیں تعلیم کا شعور دیا جائے۔ میٹرک تک تعلیم نہ صرف بالکل مفت ہو بلکہ غریب بچوں کو وظائف، جوتے اورکپڑے وغیرہ بھی دیے جائیں۔ ساتھ ہی ساتھ بالغ افراد کی تعلیم کا خصوصی اہتمام کیا جائے تا کہ ایسے افراد جو بچپن میں کسی بھی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر سکے تعلیم کی بدولت کار آمد افراد بن سکیں۔ ہمارے ملک میں مختلف حکومتوں نے تعلیم بالغاں کی طرف کچھ خاص توجہ نہیں دی۔ انہوں نے اگرچہ اس تعلیم کے لیے سفارشات تو بہت پیش کیں، لیکن ان سفارشات کو عملی جامہ نہیں پہنایا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں خواندگی کی شرح کم ہی رہی۔ تعلیم بالغاں کے لیے جامع اور مکمل درسی مواد وسیع پیمانے پر ترتیب دینا اور تیار کرنا ضروری ہے۔ تعلیم بالغاں معاشرتی استحکام پیدا کرنے اور سیاسی شعور بیدار کرنے میں نمایاں کردار ادا کر سکتی ہے اور پاکستان کے ان پڑھ باشندوں کو اس قابل بنا سکتی ہے کہ وہ پورے وثوق سے اپنی شہری ذمہ داریوں سے نبرد آزما ہو سکیں۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ پاکستان کے ہر شہر اور دیہات میں خواندگی کے لئے جامع منصوبہ بندی کرے۔ ملک کے تمام مدارس، فیکٹریوں، زرعی فارموں، یونین کونسلوں اور دیگر معاشرتی اداروں میں تعلیم بالغاں کے مراکز کھولے جائیں اور روایتی طریقہ ہائے تدریس کے ساتھ ساتھ جدید رجحانات سے بھی استفادہ کیا جائے جیسے ٹی وی، ریڈیو، نمائش، سیمینار، چارٹ، ماڈل اور پوسٹرز وغیرہ۔ تعلیم بالغاں کے ان مراکز کے لیے ضروری ہے کہ اساتذہ کی سلیکشن کی جائے اور انہیں ابتدائی تربیت دی جائے۔ تعلیم بالغاں کے پروگرام میں فیکٹریوں کے مزدوروں، دیہی علاقوں کے کسانوں، کاریگروں اور دیگر بالغ افراد جنہوں نے سکولوں میں تعلیم حاصل نہیں کی شامل کیا جائے تاکہ وہ کامیاب زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں۔ خاص طور پر خواتین کو تعلیم سے آراستہ کرنا از حد ضروری ہے تا کہ وہ بہتر انداز میں گھریلو زندگی گزار سکیں۔ تعلیم بالغاں کے فروغ کے دوران کچھ مسائل درپیش آسکتے ہیں کیوں کہ بالغ افراد کو تعلیم حاصل کرنے پر آمادہ کرنا خاصا مشکل امر ہے۔ اکثر افراد کا پہلا اعتراض یہی ہو گا کہ ہماری پڑھنے کی عمر اب کہاں رہی ہے، ہمارے اوپر ذمہ داریاں بہت ہیں وغیرہ وغیرہ۔

بہر حال ان تمام مسائل کو کافی حد تک حل کیا جا سکتا ہے جیسے انہیں اس بات پر قائل کیا جا سکتا ہے کہ پڑھائی کے بعد نہ صرف وہ اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن پوری کر سکتے ہیں بلکہ بڑھاپے یا جوانی میں کسی پر بوجھ بھی نہیں بنیں گے۔ اگر بالغوں کی تعلیم کے لیے بہتر ماحول پیدا کیاجائے اور انہیں ایسی چیزیں پڑھائی جائیں جن کا ان کی زندگی کے ساتھ براہ راست واسطہ ہو تو وہ یقیناً اس عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے۔ جس طرح حکومت نے سرکاری سکولوں میں کتابیں اور کاپیاں مفت فراہم کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے اسی طرح حکومت کو تعلیم بالغاں کے لیے بھی ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ بہت سے لوگ صرف اس لیے تعلیم حاصل نہیں کرتے کہ گھر کاگزر بسر کیسے ہو۔ لہٰذا مفت کتابیں، کاپیاں اور تعلیم ان کی اس مشکل کو نہ صرف کم کر سکتی ہے بلکہ کافی حد تک ختم بھی کر سکتی ہے۔ تعلیم بالغاں سے مراد صرف نا خواندہ لوگوں کو اس حد تک خواندہ بنانا نہیں کہ وہ محض دستخط کرنا سیکھ جائیں بلکہ اس کے ذریعے نا خواندہ لوگوں اور بالخصوص دیہی آبادی کی زندگی کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرنا ہے۔ مثلاً اس میں ان کی تعلیم، صحت، طرز رہائش، عام رسم و رواج، اقتصادی اور مالی حالت کو بہتر بنانے کی کوششیں شامل ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں