تعلیم کے لیے بجٹ کا 4 فی صد مختص ہونا چاہیے

پرائمری سے کالج تک بھی ایچ ای سی جیسے ادارے کا قیام عمل میں لایا جائے

ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہائیرایجوکیشن کمیشن پروفیسر مختار احمد کا ’’ایکسپریس‘‘ سے اظہارخیال۔ فوٹو: ظفر اسلم راجہ/ایکسپریس

اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے کوشاں ہائرایجوکیشن کمیشن کے قیام کو 10 سال سے زیادہ ہو چکے ہیں، اس ادارے نے جونتائج دیئے، وہ نہ صرف قابل ستائش بلکہ قابل تقلید بھی ہیں۔

گزشتہ دس سال کے دوران اعلیٰ تعلیم کے میدان میں جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، وہ پاکستان کے قیام سے لے کراس ادارے کے قیام تک نہیںہوسکی تھیں۔ ایچ ای سی کے قیام سے قبل یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن (یوجی سی) کا ادارہ تھا، جس کی کارکردگی ایک سوالیہ نشان تھی۔ ایچ ای سی 2002ء میں قائم کیا گیا اور اول روز سے یہ ادارہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ ادارے کے قیام میں جن افراد نے حصہ لیا، ان میںایچ ای سی کے موجودہ ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر مختار احمد بھی شامل ہیں۔ پاکستان میں شعبہ تعلیم خصوصاً اعلیٰ تعلیم کے فروغ میں انہوں نے موثر کردار ادا کیا۔''ایکسپریس'' نے ان کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا، جس کی تفصیل قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔

اپنے تعلیمی سفر کی کہانی بتاتے ہوئے ڈاکٹر مختار احمد کہنا تھا کہ ''میرا تعلق حضرو(اٹک) سے ہے۔ ابتدائی تعلیم ٹاٹ سکول میں حاصل کی، والدکی پوسٹنگ مظفرآباد ہوگئی سو وہاں ایف ایس سی کی لیکن جب میڈیکل کالج میںداخلہ لیا تو والد اللہ کو پیارے ہو گئے اور مجھے واپس حضرو آنا پڑا۔ اب پڑھائی کے ساتھ فیکٹری میںکام بھی کرنا شروع کردیا، یوں بی ایس سی مکمل کی۔ اس موقع پر چچا نے زور دیا کہ تعلیم کا ریگولر سلسلہ شروع کرو، چنانچہ فیصل آباد کی زرعی یونی ورسٹی میںداخلہ لے لیا۔ اس دوران امریکا سے کچھ سکالرشپس آئے، لیکن میں جونیئر ہونے کی وجہ سے میعار پر پور انہیں اتر رہا تھا، مگر سکالرشپس کے لیے جوطریقہ کارتھا، اس پرمیرے سوا کوئی پورا نہیں اترتا تھا۔ میں نے تمام مطلوبہ ٹیسٹ پاس کر رکھے تھے، سو مجبوراً مجھے ہی بھجوانے کا فیصلہ ہوا، ہدایت یہ کی گئی کہ میں میڈیسن پلانٹس کے علاوہ بزنس کی کلاسیں بھی لوں، چنانچہ میں نے ایک ہی کانووکیشن میں دو ڈگڑیاں حاصل کیں۔ واپس آنے سے قبل مجھے کیلی فورنیا یونی ورسٹی میں ملازمت کی پیش کش ہوگئی مگر میں نے وطن کو ترجیح دی اور راول پنڈی آکر زرعی یونی ورسٹی میں کام شروع کردیا۔

یہاں میں نے شام کو بزنس سکول کی کلاسیں بھی شروع کروادیں، اس شعبے پر توانائی صرف کرنے میں، میں نے بخل نہیں کیا، اس کی کارکردگی کو 65 فی صد تک پہنچایا جو آج بھی وہیں برقرار ہے۔ بعدازاں اسی ماڈل کو فیصل آباد اور پشاور میں بھی متعارف کروایا گیا۔ پھر میں ہمدرد یونی ورسٹی سے منسلک ہوگیا اور اس کا اسلام آبادکیمپس بنایا۔ پھر کامسیٹس کا پہلا پروفیسر ہونے کا اعزاز حاصل کیا اور یہاں بھی بزنس کی تعلیم کا آغازکیا اور واہ کینٹ میں اس کا کیمپس قائم کیا۔ اسی دوران ایچ ای سی میں ایک پوسٹ آئی، کامسیٹس کے جنید زیدی نے جوائن کرنے کا مشورہ دیا۔ یہاں میں ممبر آپریشنل اور پھر ممبرپلاننگ بن گیا۔2011ء میں اسلامی ممالک کی تنظیم آئسیسکو میں ڈپٹی ڈی جی کی پوسٹ نکلی، یہاں ایک دوست نے قسمت آزمائی کا مشورہ دیا۔ رکن ممالک میںسے ایک سو اسی درخواستوں آئیں، شارٹ لسٹ میں میرا نام بھی آیا، ووٹنگ ہوئی تو مراکش کے امیدوار کے ساتھ ٹائی پڑ گئی۔ رکن ممالک مراکش کے خلاف تھے، لہٰذا دوسری ووٹنگ میں سب ووٹ مجھے پڑے اور میں تنظیم کا ڈپٹی ڈی جی بن گیا۔ بعدازاں ایچ ای سی میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی آسامی آئی تو آخری روز اس کے لئے درخواست دی تواس عہدے کے لئے مجھے منتخب کر لیا گیا''۔




میڈیا میں ایچ ای سی کے حوالے سے مختلف کہانیاں زیرگردش ہیں، حقیقت پوچھنے پر ایگزیکٹو ڈائریکٹرنے بتایاکہ ''ایچ ای سی کو ارکان پارلیمنٹ کی ڈگریوں کے حوالے سے سیاست میں گھسیٹا گیا، جس سے اسے شدید نقصان پہنچا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ڈگریوںکی تصدیق کاعمل بالابالا مکمل کرکے الیکشن کمیشن یا سپریم کورٹ کو بھجوادیا جاتا۔ دوسرا اگر ادارہ کے معاملات درست نہیں تو ایچ ای سی کا احتساب بھی ہونا چاہیے۔ ایچ ای سی نے ملک میںجس قدرشعور پیدا کیا، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک کے دوردراز علاقوں کے طلبہ نے اعلیٰ تعلیمی اداروںکا رخ کیا، جس کے انرولمنٹ میں آٹھ فی صد تک اضافہ ہوا ہے جب کہ یہ امرافسوس ناک ہے کہ 92 فی صد فی الحال محروم ہیں، مگر چوںکہ ہم انتہائی نچلے درجے سے اوپرجا رہے ہیں اس لیے کارکردگی بہتر ہے۔ تعلیم کے لے بجٹ کا کم از کم چارفی صد تو مختص ہونا ہی چاہیے، موجودہ حکومت نے اس کا وعدہ کر رکھاہے اور حالیہ بجٹ میں اس کی ایک جھلک بھی نظرآئی''۔

شعبہ تعلیم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے پروفیسر مختار احمد نے کہا'' ایچ ای سی نے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے جوکام کیاہے، اس کودیکھتے ہوئے اب ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ اسی طرزکے ادارے کا قیام پرائمری سے کالج کی سطح تک بھی عمل میں لایا جائے، جب تک نرسری پرتوجہ نہیں دی جاتی، معیاری تعلیم کا فروغ ممکن نہیں، اس کے علاوہ پرائمری اساتذہ کی استعداد بڑھانا بھی ضروری ہے۔ پاکستان میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ بھی صوبوںکو سونپ دیا گیا ہے مگرترقی یافتہ ممالک کی طرح صحت اورتعلیم کے شعبوںکے حساس موضوعات وفاق کے پاس رہنے چاہییں، جن میںنصاب قابل ذکرہے۔ نصاب کی تیاری وفاقی سطح پرکرنے کے بعد اس کی تعلیم مادری زبان میںدی جائے''۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ''ایچ ای سی کو سب سے زیادہ نقصان فنڈز نہ ملنے سے پہنچا، ترقیاتی کام اور بیرون ملک سکالرشپس کی رقوم وقت پرنہ بھجوانے سے طلبہ میںبے چینی بڑھی اور یہاں شکالرشپس کے پروگرام غیرضروری تاخیرکا شکارہوگئے۔

ایچ ای سی کی جاری کی گئی یونی ورسٹیوں کی رینکنگ پر بہت سی شکایات سامنے آئیں، جن پر خصوصی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی دوماہ میںرپورٹ پیش کرے گی۔ سرکاری خرچ پربیرون ملک تعلیم مکمل کرنے والے ایسے سکالرز، جومعاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہیں، ان کے خلاف دوران تعلیم اٹھنے والے اخراجات کے علاوہ 25 فی صدپینلٹی وصول کی جاتی ہے، کئی سکالر واپس لائے گئے اور متعدد سے اخراجات وصول کیے جارہے ہیں۔ ایچ ای سی کی کاکردگی کومزید بہترکیاجاسکتاہے بہ شرطے کہ ادارے کابجٹ تین سال کے لیے مختص کر دیا جائے اور اس میں تعطل نہ لایاجائے۔ حکومت نے تعلیم کو ترجیح قرار دیا تواس کے ثمرات نظرآئیں گے''۔ ڈاکٹرمختاراحمدنے ایسی خبروں کی سختی سے تردیدکی کہ ماضی میںایچ ای سی کی فنڈنگ روکنے کاتعلق پارلیمینٹیرینزکی ڈگریوںکی تصدیق سے ہے۔ ''حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے پاس فنڈز نہیں تھے۔

حکومت کوچاہیے کہ بجٹ کی منظوری دے تو پھر اس میں کٹوتی نہ کرے کیوںکہ اس سے منصوبے تاخیرکا شکار ہوںگے۔ ایچ ای سی کومتعد دتعلیمی اداروں سے شکایات موصول ہونے اوربالخصوص قائداعظم یونی ورسٹی کے واقعے کے بعدخواتین کوجنسی طورپرہراساں کیے جانے کی بڑھتی ہوئی شکایات کے پیش نظرتمام جامعات کوخصوصی کمیٹی کے قیام کے احکامات جاری کیے گئے ہیں، فنڈزکی کمی اورملازمت پرپابندی کی وجہ سے ایچ ای سی میں اہم آسامیاں دوسال سے خالی پڑی ہیں، جن پرتقرری کی فوری ضرورت ہے۔ اس ضمن میں وزیراعظم کوسمری بھی ارسال کر دی ہے۔ ایچ ای سی کے چیئرمین کا عہدہ چند روزمیں پرکرلیاجائے گا۔ ہمارے ہاںکا ٹیلنٹ کسی سے کم نہیں مگراچھی گورننس نہ ہونے سے یہ ضائع ہونے کاخدشہ ہے۔'' ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ''ملک بھرمیں غیرملکی تعلیمی اداروںکے اشتراک اورجامعات کے کیمپسزمشروم کی طرح پھیل رہے تھے جس سے معیارتعلیم متاثر ہورہاتھا، ہم نے لگ بھگ تین سوغیرٖمعیاری کیمپسزبندکیے گئے''۔

ڈاکٹرمختار احمد کا کہنا تھا '' صوبائی ہائیر ایجوکیشن کمیشن بنانے سے پہلے ایک ٹاسک فورس بنانی چاہیے، صوبے ایچ ای سی کی کارکردگی کاجائزہ لیں اوران کی تجاویزکی روشنی میں فیصلے کریں، جیسے ایچ ای سی کے قیام سے قبل ٹاسک فورس نے ایک سال اس کے مختلف پہلوؤںکاجائزہ لیا تھا۔ تعلیم ایک ایساشعبہ ہے جس سے کئی ممالک نے ترقی کی ہے اوریہ درست ہے کہ نالج پاورہے۔ یہ ایسی سرمایہ کاری ہے جس کے ثمرات فوراً نہیں ملتے البتہ کچھ عرصے بعد ملکی معیشت بہتربنانے میںمعاون ہوتے ہیں''۔ ڈاکٹرمختار احمد نے کہاکہ تعلیم میںہونے والی تحقیق کوسماجی اورصنعتی سیکٹرکی ترقی میں استعمال کیا جانا چاہیے تاکہ مستقبل میںپانی کی کمی، فوڈسکیورٹی، بیماریوںکے تدارک کے لیے استفادہ کیاجائے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں انتظامی خامیوں کودورکرنے اورگڈگورننس کویقینی بنانے کے لیے یونی ورسٹیوں کے 3500 نان فیکلٹی سٹاف کی تربیت کے لیے خصوصی پروگرام شروع کیاگیاہے''۔
Load Next Story