بے دریغ شکار اور آب گاہوں کی تباہی سے مہاجر پرندوں کی تعداد میں کمی

نقل مکانی کرنے والے پرندوں کی بڑی تعداد ہرسال پاکستان آتی ہے اور شدید مشکلات کی شکار ہے

پاکستانی آب گاہوں تک نقل مکانی کرنے والے پرندوں کی تعداد میں کمی واقع ہورہی ہے۔ فوٹو: فائل

MALAKAND:
فضائی اور آبی آلودگی،آب گاہوں (ویٹ لینڈز)کےخشک ہونے اورغیرقانونی شکارکی وجہ سے ہرسال پاکستان کارخ کرنیوالے مہاجرپرندوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔ ماہرین کے مطابق نقل مکانی کرنے والے پرندے اپناروٹ اورقیام گاہیں تبدیل کررہے ہیں ، یہ مہاجرپرندے ماحولیاتی توازن برقراررکھنے میں اہم کرداراداکرتے ہیں۔

ہرسال اکتوبرمیں لاکھوں مہاجرپرندے سائبریاسے اڑان بھرتے ہیں جوہزاروں کلومیٹرکاسفرکرکے آذربائیجان،افغانستان ،ایران اورپھرپاکستان پہنچتے ہیں۔عالمی سطح پرپرندوں کے اس روٹ کو انڈس فلائی وے یاگرین روٹ کہاجاتاہے۔ پاکستان میں چندماہ قیام کے بعد یہ مہمان پرندے مارچ میں واپسی کے لئے اڑان بھرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے مختلف عوامل کی بناپرہرسال پاکستان آنیوالے مہمان پرندوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔

پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ حیاتیات کے سربراہ پروفیسرڈاکٹرذوالفقارعلی کہتے ہیں مہاجرپرندے ہرسال 3 سے چارہزارکلومیٹرکاسفرطے کرکے پاکستان آتےہیں اوریہاں مختلف آب گاہوں، جھیلوں اورویٹ لینڈ پرقیام کرتے ہیں۔ پاکستان میں آبی پرندوں کی 700 اقسام ہیں جن میں سے 380 اقسام مہاجرپرندوں کی ہیں جوہرسال پاکستان آتے ہیں۔ لیکن یہاں آب گاہوں میں پانی کی قلت، آلودگی ،غیرقانونی شکار کی وجہ سے ان کی تعداد کم ہورہی ہے۔


پاکستان میں مجموعی طورپر 250 آب گاہوں جن میں سے 19 آب گاہوں کا عالمی درجہ حاصل ہے جنہیں رامسرسائٹس کہتے ہیں۔رامسرسائٹس ایسے آبی علاقوں کو کہتے ہیں جہاں ایک وقت میں 20 ہزار یا اس سے زائد مہاجر پرندے قیام کرتے ہوں۔

پاکستان میں مہاجر پرندوں کی 20 موسمی آماجگاہیں موجود ہیں جن میں سے سندھ میں 10، خیبر پختونخوا میں 2، پنجاب میں 3 جب کہ بلوچستان میں 5 ہیں۔ انہوں نے بتایا ان پرندوں میں تلور، کونج، بھگوش، چارو، چیکلو، لال سر، بنارو، چھوٹی بطخیں اور دوسرے بے شمار پرندے شامل ہیں۔

جنگلی حیات کے ماہربدرمنیرکہتے ہیں یہ پرندے ہمارے ماحول کے لیے بہت سود مند ثابت ہوتے ہیں۔ یہ ماحول کے لیے غیر موزوں، نقصان دہ اور ناپسندیدہ کیڑے مکوڑے کھاتے ہیں۔ ایسی مچھلیاں، پودے اور گھاس کھاتے ہیں جن کا حد سے زیادہ بڑھنا ماحول کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ گویا یہ بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ یہ ہمارے ماحول کو متوازن رکھتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان آنیوالے پرندے چونکہ افغانستان سے گزرکریہاں آتے تھے توافغانستان میں کئی برس جاری رہنے والی جنگ کی وجہ سے بھی ان پرندوں کی تعداد میں کمی آئی ہے اس کے بعد یہاں ان کا بے دریغ شکاراس مہمانوں پرندوں کی ناراضگی کی وجہ بنتاجارہاہے

بین الاقوامی ادارے برڈ لائف انٹرنیشنل کے مطابق دنیا میں مہاجر پرندوں کی 40 فیصد سے زائد اقسام کی کمی واقع ہو چکی ہے۔ گزشتہ 30 برس کے دوران مہاجر پرندوں کی آبادی میں بھی نمایاں کمی ہوئی ہے۔ اور ان میں سے تو بہت سے پرندے اب معدومی کا شکار ہیں۔ مزید براں دنیا کے 90 فیصد سے زائد مہاجر پرندے انسانی سرگرمیوں کے باعث غیر محفوظ صورتحال سے دوچارہیں، مہاجر پرندوں کی تعداد میں کمی، ان کے قدرتی مسکن کی تنزلی، ہجرت کے لئے استعمال ہونے والے فضائی راستوں کے غیر محفوظ ہونے اور مہمان علاقوں میں درپیش خطرات کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کروانے کے لئے2006 سے ہر سال مئی کے دوسرے ہفتے کو مہاجر پرندوں کے عالمی دن کے طورپر منایا جاتا ہے۔
Load Next Story