کون سا انقلاب
ایک اعلیٰ نظریہ جس کی آبیاری انسانی خون سے کی جاتی ہے
ملکی سیاست کا منظر نامہ بڑی سرعت سے ہر دم تبدیل ہو رہا ہے۔ کوئی سیاسی پنڈت یا رہنما قیافہ نہیں لگا سکتا کہ دو چار ماہ کے بعد حالات کیا ہونگے۔ مگر یہی وہ کڑا وقت ہے جس میں غیر متعصب تجزیہ کرنا ضروری ہے۔
یہ کسی بھی لکھاری پر قرض بھی ہوتا ہے کہ وہ بلا خوف و خطر اپنی بات لوگوں تک پہنچانے کی کوشش ضرور کرے۔ پہلی بات تو یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ملک میں کوئی انقلاب ' خانہ جنگی یا انارکی کی کیفیت نہیں ہے اور نہ ہی مستقبل میں اس کا کوئی امکان ہے۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ کوئی بھی سخت کوش عوامی انقلابی تحریک کسی نظریہ یا مقصد کو حاصل کرنے کے لیے چلتی ہے۔
ایک اعلیٰ نظریہ جس کی آبیاری انسانی خون سے کی جاتی ہے۔ ہمارے چند محترم ساتھی' ہر دم انقلاب فرانس یا انقلاب روس کے متعلق بات کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ دونوں انقلاب جوہری طور پر ایک دوسرے سے حد درجہ مختلف تھے۔ ان کی فکری اساس بھی کافی حد تک متضاد تھی۔
دونوں ممالک کی داخلی صورتحال ایک دوسرے سے بہت زیادہ دوری پر تھی۔ ہاں ایک بات مشترک ضرور تھی۔ فرانس اور روس'دونوں ممالک میں حد درجہ امیر بادشاہت موجود تھی جس کا عوام سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ عوامی نفرت دونوں جگہ ایک جیسی نہیں تھی۔ فرانس کے اندر' ایک بھرپور فلسفہ موجود تھا جس میں ان کے قد آور دانشور' پوری دنیا کو نیا سبق دے رہے تھے۔ آزادی اظہار' انسانی حقوق' سماجی انصاف پرمبنی معاشرہ ' صرف اور صرف فرانس ہی سے شروع ہوا تھا۔ Rousseau,Johu Lockeاور Montesquieu دو فکری جنات تھے جنھوںنے عوام کو آزادی سے روشناس کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
اس کے برعکس روس میں دو مختلف افواج کے درمیان جنگ ہوئی تھی۔ جس میں Bolshevicksجیت گئے تھے۔ یہ کسانوں اور محنت کشوں پر مبنی ایک سول وار تھی۔ ہمارے ملک میں ایک بھی پرتاثیر انقلابی سوچ کا رہنما' دانشور اور لیڈر موجود نہیں ہے۔
جو عام انسانوں میں فکری بیداری کا شعور پیدا کر سکے۔ ہمارے پاس ہر جماعت کی طرف سے سوشل میڈیا کے مجاہد' اور ذاتی مصائب پر گھبرا جانے والی اکثریت ہے۔ جو انقلاب میں خون دینا تو کیا' انگلی تک کٹوانا نہیں چاہتے۔ ہاں' باتوں اور تقاریر میں وہ روسو اور لینن کو مات دیتے ضرور دکھائی دیتے ہیں۔جب فکری اثاثہ ہی موجود نہ ہو' تو آپ کسی بھی انقلاب کی بات کیونکر کر سکتے ہیں۔
ایک دوسری عرض بھی کرنا چاہوںگا۔ جو شاید اکثریت کو پسند نہ آئے ۔ روس اور فرانس کی مزاحمتی تحریکوں کا کسی بھی مذہب سے تعلق نہیں تھا۔ باریک بینی سے دیکھا جائے تو دونوں ملکوں کے بادشاہ ' راسخ العقیدہ عیسائی تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ مذہب کو ڈھال بنا کرعوامی استحصال کر رہے تھے تو بے جا نہ ہو گا۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ روس اور فرانس کا انقلاب ' مذہب کے خلاف بھی تھا۔ بعد میں جو بھی حکومتیں قائم کی گئیں۔
ان کا کسی مذہب سے دور دور تک تعلق نہیں تھا۔ اس ذہنی تبدیلی کے محرکات بہرحال ایک دوسرے سے حد درجہ مختلف تھے۔ ہمارے ہاں صورت حال بالکل مختلف ہے۔ ہمارے لیڈران ' حد درجہ آسائش کے ساتھ ' عوامی رہنمائی کرنے کے عادی ہیں۔ اپوزیشن ہو یا حکومتی رہنما' یہ جدید ترین جیٹ طیارے' قیمتی ترین گاڑیاں' بہترین ملبوسات اور مہنگے ترین ذرایع ابلاغ استعمال کرتے ہیں۔ یہ اپنے فائدے کے لیے ہمیں یعنی عوام کو صرف ''چارے'' کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
کسی بھی جلسے پر اٹھنے والے اخراجات کا تخمینہ لگایئے۔ اس پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ ہمارے لیڈر ' اپنی جیب سے تو ایک دھیلا بھی خرچ نہیں کرتے۔ اس لیے دونوں اطراف' دولت خرچنے والے بیوپاری بیٹھے ہوئے ہیں۔ جو ایک کروڑ جلسے پر خرچ کر کے' ایک ارب کمانے کا فن جانتے ہیں۔ عوام کے لیے تو نعرے تخلیق کیے جاتے ہیں۔ جس میں آزادی ' حقیقی آزادی ' عوامی آزادی جیسے لفظ استعمال کیے جاتے ہیں۔
مگر ان کا کیا مطلب ہے' اس کو کوئی بھی رہنما یا دانشور بتانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ میری بات نہ مانیے۔ ذرا ٹھنڈے دل سے سوچیے کہ یہ تمام سیاسی محاذ آرائی کس کے لیے ہے۔ اور اس کو کس طور پر کیا جا رہا ہے۔
کیا ہمارے سیاسی قائدین کسی عام یا غریب آدمی کے پاس جا کر اپنے افکار بتانا پسند کریں گے۔ کیا کسی کچے گھر میں جا کر استراحت فرما سکتے ہیں۔ کیا ان کے رہن سہن میں سادگی یا غریب پروری کی ہلکی سی جھلک تک نظر آتی ہے۔ کم از کم خاکسار کو تو تلاش در تلاش کرنے کے بعد' کسی قسم کی سادگی کی جھلک نظر نہیں آتی۔ ہاں' ان میں سے چند رہنما ' عوام کے سامنے کچھ دیر کے لیے سادہ کپڑے پہننے کا دکھاوا ضرور کرتے ہیں۔
تعصب کی عینک کے بغیر دیکھیے تو آپ کو موجودہ صورت حال کی خرابی بلکہ بربادی کے تمام نشانات بھی دہائیوں کی سیاست میں نظر آ ئینگے۔ ساتھ ساتھ ریاستی اداروں کی حد درجہ غیر ذمے داری والی حرکات بھی بہت بڑا عنصر نظر آئے گا۔ ہمارے سابق یا موجودہ حکمران کیا واقعی حد درجہ گڈ گورننس کرتے نظر آتے ہیں یا آئے تھے۔ ہر دور کی اپنی اپنی آلائشیں ہیں۔ جس سے صرف نظر کرنا ناممکن ہے۔ اس میں آمر حکمران بھی بھرپور طریقے سے ذمے دار ہیں۔
قومی خزانہ کی لو ٹ مار' سرکاری وسائل پر عیش و عشرت ' تفرقہ بازی کا بڑھاوا ' مذہبی جنونیت کو ریاست کی سطح پر پروان چڑھانا' اسلحہ اور ہیروئن کا معاشرے میں دخول' کیا یہ صرف گزشتہ ایک دو سال کا شاخسانہ ہیں۔
نہیں صاحب' خرابہ کے یہ تمغے ہمیں ریاستی اور سیاسی بداعتدالیوں کی بدولت سینے پر مجبوراً لگانے پڑے ہیں۔ کیا ہزاروں لوگوں کا قتل عام' ہماری بہادر افواج کی شہادتوں کی پس پردہ وجوہات چندسالوں کا المیہ ہے۔ ہمارے ہر وزیراعظم اور صدر نے ایسی فاش غلطیاں کی ہیں کہ ملک آج تک ڈانواڈول ہے۔ کیا افغانستان کی جنگ میں پیسوں کے لیے شمولیت اور پھر پرویز مشرف کا اس بلا کو اپنے ملک میں لانے کا جرم معمولی ہے۔ حقائق دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
موجودہ سیاسی صورت حال پر نظر ڈالیے ۔ یہ خوفناک حد تک خراب ہو چکی ہے۔ حکومت کو کس طور پر ہٹایا گیا' کس نے ہٹایا اور پھر کس کو حکومت سونپی گئی۔ یہ معاملہ اتنے مسائل کھڑے کر چکا ہے کہ پورا معاشرہ شدید تشنج اور تقسیم کا شکار ہے۔ سیاسی انتہا پسندی عروج پر ہے۔ پر مجھ خاکسار کو چند باتیں سمجھ نہیں آ رہیں۔ کیا حقیقی آزادی کا مطلب پھر سے نااہل عہدیداروں کو واپس مسند پر بٹھانا ہے۔
کیا مئی کے آخر میں لانگ مارچ کا مقصد' خان صاحب کے ان مشیران اور سرکاری عمال کی واپسی ہے' جو اپنے دور اقتدار میں الزامات کی زد میں آئے ۔ کیا واقعی اقتدار میں خان صاحب واپس آکر محسن کشی اور ذاتی انتقام کا رویہ چھوڑ پائیں گے۔ ایک شخص بتایئے جس نے خان صاحب کو سیاست میں کامیاب کرنے میں مدد کی ہو' جلسوں پر سرمایہ خرچ کیا ہو' اپنا ہوائی جہاز خان صاحب کے سفر کے لیے وقف کیا ہو۔
اور وہ ان کے عتاب سے محفوظ رہا ہو۔ خان صاحب کا ذاتی اسٹاف سینئر افسروں کو نیب کے ذریعے بے جا گرفتار کرواتا رہا ہے۔ خان صاحب اپنے سیاسی مخالفین پر زندگی تنگ کر چکے تھے۔ نااہل ترین لوگوں کو نوازنے کی روش کیا خان صاحب ترک کر پائیںگے۔
اس وقت عمران خان' عوامی مقبولیت کی انتہا پر ہیں ۔میں نے جو نکات اٹھائے ہیں۔ اس پر ہو سکتا ہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے سخت رد عمل آئے۔ مگر میں تو صرف سوال پوچھ رہا ہوں۔ دلیل پر ان کے جوابات آئیں تو طالبعلم کالم میں ضرور لکھے گا۔ خان صاحب' اپنے چار سالہ دور کی حماقتوں اور ظلم سے قطعاً بری الذمہ ہو سکتے ہیں۔ انھوںنے اپنے محسنوں کے ساتھ حد درجہ ناروا سلوک رکھا تھا۔ ہاں' اب امریکا کے خلاف بیانیہ کیا واقعی ملک کے قومی مفادات میں درست ہے۔ امریکا دنیا کی واحد سپر پاور ہے۔ وہ دنیا کے ہر ملک کا ہمسایہ ہے۔
اس کے مفادات ہر خطے میں موجود ہے۔ تمام سمجھ دار ملک' امریکا سے اپنے تعلق بہتر سے بہترین کرتے جا رہے ہیں۔ کیونکہ اس میں ان کی بہتری ہے۔ ہمارا پڑوسی ملک ' اس بہترین خارجہ پالیسی کی عمدہ مثال ہے۔ مگر کیا خان صاحب' اپنی تقاریر میں امریکا دشمنی سے ہمارے قومی مفادات پر ضرب نہیں لگا رہے؟ خدارا' ناراض نہ ہوں۔ سوچ کر جواب دیجیے۔ مگر قیامت یہ بھی ہے کہ جو لوگ حکومت میں لائے گئے ہیں' وہ بھی سہمے سہمے سے لگتے ہیں ۔ عوامی مسائل حل کرنے کی ان کی کوششیں بھی نظر نہیں آ رہیں۔
اس منتشر صورت حال میں بہرحال انقلاب کی بات کرنا شاید تاریخی ورثہ سے علمی دوری ہے۔ یہ قوم دراصل ایک ہجوم ہے۔ دو سو لیٹر پٹرول موٹر سائیکل یا کار میں ڈلوانے کے لیے مصرہے' مگر سائیکل یا پیدل سفر کرنے کو گناہ سمجھتی ہے۔ اس لیے کہ ہمارے خمیر ہی میں انقلاب نہیں ہے؟
یہ کسی بھی لکھاری پر قرض بھی ہوتا ہے کہ وہ بلا خوف و خطر اپنی بات لوگوں تک پہنچانے کی کوشش ضرور کرے۔ پہلی بات تو یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ملک میں کوئی انقلاب ' خانہ جنگی یا انارکی کی کیفیت نہیں ہے اور نہ ہی مستقبل میں اس کا کوئی امکان ہے۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ کوئی بھی سخت کوش عوامی انقلابی تحریک کسی نظریہ یا مقصد کو حاصل کرنے کے لیے چلتی ہے۔
ایک اعلیٰ نظریہ جس کی آبیاری انسانی خون سے کی جاتی ہے۔ ہمارے چند محترم ساتھی' ہر دم انقلاب فرانس یا انقلاب روس کے متعلق بات کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ دونوں انقلاب جوہری طور پر ایک دوسرے سے حد درجہ مختلف تھے۔ ان کی فکری اساس بھی کافی حد تک متضاد تھی۔
دونوں ممالک کی داخلی صورتحال ایک دوسرے سے بہت زیادہ دوری پر تھی۔ ہاں ایک بات مشترک ضرور تھی۔ فرانس اور روس'دونوں ممالک میں حد درجہ امیر بادشاہت موجود تھی جس کا عوام سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ عوامی نفرت دونوں جگہ ایک جیسی نہیں تھی۔ فرانس کے اندر' ایک بھرپور فلسفہ موجود تھا جس میں ان کے قد آور دانشور' پوری دنیا کو نیا سبق دے رہے تھے۔ آزادی اظہار' انسانی حقوق' سماجی انصاف پرمبنی معاشرہ ' صرف اور صرف فرانس ہی سے شروع ہوا تھا۔ Rousseau,Johu Lockeاور Montesquieu دو فکری جنات تھے جنھوںنے عوام کو آزادی سے روشناس کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
اس کے برعکس روس میں دو مختلف افواج کے درمیان جنگ ہوئی تھی۔ جس میں Bolshevicksجیت گئے تھے۔ یہ کسانوں اور محنت کشوں پر مبنی ایک سول وار تھی۔ ہمارے ملک میں ایک بھی پرتاثیر انقلابی سوچ کا رہنما' دانشور اور لیڈر موجود نہیں ہے۔
جو عام انسانوں میں فکری بیداری کا شعور پیدا کر سکے۔ ہمارے پاس ہر جماعت کی طرف سے سوشل میڈیا کے مجاہد' اور ذاتی مصائب پر گھبرا جانے والی اکثریت ہے۔ جو انقلاب میں خون دینا تو کیا' انگلی تک کٹوانا نہیں چاہتے۔ ہاں' باتوں اور تقاریر میں وہ روسو اور لینن کو مات دیتے ضرور دکھائی دیتے ہیں۔جب فکری اثاثہ ہی موجود نہ ہو' تو آپ کسی بھی انقلاب کی بات کیونکر کر سکتے ہیں۔
ایک دوسری عرض بھی کرنا چاہوںگا۔ جو شاید اکثریت کو پسند نہ آئے ۔ روس اور فرانس کی مزاحمتی تحریکوں کا کسی بھی مذہب سے تعلق نہیں تھا۔ باریک بینی سے دیکھا جائے تو دونوں ملکوں کے بادشاہ ' راسخ العقیدہ عیسائی تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ مذہب کو ڈھال بنا کرعوامی استحصال کر رہے تھے تو بے جا نہ ہو گا۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ روس اور فرانس کا انقلاب ' مذہب کے خلاف بھی تھا۔ بعد میں جو بھی حکومتیں قائم کی گئیں۔
ان کا کسی مذہب سے دور دور تک تعلق نہیں تھا۔ اس ذہنی تبدیلی کے محرکات بہرحال ایک دوسرے سے حد درجہ مختلف تھے۔ ہمارے ہاں صورت حال بالکل مختلف ہے۔ ہمارے لیڈران ' حد درجہ آسائش کے ساتھ ' عوامی رہنمائی کرنے کے عادی ہیں۔ اپوزیشن ہو یا حکومتی رہنما' یہ جدید ترین جیٹ طیارے' قیمتی ترین گاڑیاں' بہترین ملبوسات اور مہنگے ترین ذرایع ابلاغ استعمال کرتے ہیں۔ یہ اپنے فائدے کے لیے ہمیں یعنی عوام کو صرف ''چارے'' کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
کسی بھی جلسے پر اٹھنے والے اخراجات کا تخمینہ لگایئے۔ اس پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ ہمارے لیڈر ' اپنی جیب سے تو ایک دھیلا بھی خرچ نہیں کرتے۔ اس لیے دونوں اطراف' دولت خرچنے والے بیوپاری بیٹھے ہوئے ہیں۔ جو ایک کروڑ جلسے پر خرچ کر کے' ایک ارب کمانے کا فن جانتے ہیں۔ عوام کے لیے تو نعرے تخلیق کیے جاتے ہیں۔ جس میں آزادی ' حقیقی آزادی ' عوامی آزادی جیسے لفظ استعمال کیے جاتے ہیں۔
مگر ان کا کیا مطلب ہے' اس کو کوئی بھی رہنما یا دانشور بتانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ میری بات نہ مانیے۔ ذرا ٹھنڈے دل سے سوچیے کہ یہ تمام سیاسی محاذ آرائی کس کے لیے ہے۔ اور اس کو کس طور پر کیا جا رہا ہے۔
کیا ہمارے سیاسی قائدین کسی عام یا غریب آدمی کے پاس جا کر اپنے افکار بتانا پسند کریں گے۔ کیا کسی کچے گھر میں جا کر استراحت فرما سکتے ہیں۔ کیا ان کے رہن سہن میں سادگی یا غریب پروری کی ہلکی سی جھلک تک نظر آتی ہے۔ کم از کم خاکسار کو تو تلاش در تلاش کرنے کے بعد' کسی قسم کی سادگی کی جھلک نظر نہیں آتی۔ ہاں' ان میں سے چند رہنما ' عوام کے سامنے کچھ دیر کے لیے سادہ کپڑے پہننے کا دکھاوا ضرور کرتے ہیں۔
تعصب کی عینک کے بغیر دیکھیے تو آپ کو موجودہ صورت حال کی خرابی بلکہ بربادی کے تمام نشانات بھی دہائیوں کی سیاست میں نظر آ ئینگے۔ ساتھ ساتھ ریاستی اداروں کی حد درجہ غیر ذمے داری والی حرکات بھی بہت بڑا عنصر نظر آئے گا۔ ہمارے سابق یا موجودہ حکمران کیا واقعی حد درجہ گڈ گورننس کرتے نظر آتے ہیں یا آئے تھے۔ ہر دور کی اپنی اپنی آلائشیں ہیں۔ جس سے صرف نظر کرنا ناممکن ہے۔ اس میں آمر حکمران بھی بھرپور طریقے سے ذمے دار ہیں۔
قومی خزانہ کی لو ٹ مار' سرکاری وسائل پر عیش و عشرت ' تفرقہ بازی کا بڑھاوا ' مذہبی جنونیت کو ریاست کی سطح پر پروان چڑھانا' اسلحہ اور ہیروئن کا معاشرے میں دخول' کیا یہ صرف گزشتہ ایک دو سال کا شاخسانہ ہیں۔
نہیں صاحب' خرابہ کے یہ تمغے ہمیں ریاستی اور سیاسی بداعتدالیوں کی بدولت سینے پر مجبوراً لگانے پڑے ہیں۔ کیا ہزاروں لوگوں کا قتل عام' ہماری بہادر افواج کی شہادتوں کی پس پردہ وجوہات چندسالوں کا المیہ ہے۔ ہمارے ہر وزیراعظم اور صدر نے ایسی فاش غلطیاں کی ہیں کہ ملک آج تک ڈانواڈول ہے۔ کیا افغانستان کی جنگ میں پیسوں کے لیے شمولیت اور پھر پرویز مشرف کا اس بلا کو اپنے ملک میں لانے کا جرم معمولی ہے۔ حقائق دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
موجودہ سیاسی صورت حال پر نظر ڈالیے ۔ یہ خوفناک حد تک خراب ہو چکی ہے۔ حکومت کو کس طور پر ہٹایا گیا' کس نے ہٹایا اور پھر کس کو حکومت سونپی گئی۔ یہ معاملہ اتنے مسائل کھڑے کر چکا ہے کہ پورا معاشرہ شدید تشنج اور تقسیم کا شکار ہے۔ سیاسی انتہا پسندی عروج پر ہے۔ پر مجھ خاکسار کو چند باتیں سمجھ نہیں آ رہیں۔ کیا حقیقی آزادی کا مطلب پھر سے نااہل عہدیداروں کو واپس مسند پر بٹھانا ہے۔
کیا مئی کے آخر میں لانگ مارچ کا مقصد' خان صاحب کے ان مشیران اور سرکاری عمال کی واپسی ہے' جو اپنے دور اقتدار میں الزامات کی زد میں آئے ۔ کیا واقعی اقتدار میں خان صاحب واپس آکر محسن کشی اور ذاتی انتقام کا رویہ چھوڑ پائیں گے۔ ایک شخص بتایئے جس نے خان صاحب کو سیاست میں کامیاب کرنے میں مدد کی ہو' جلسوں پر سرمایہ خرچ کیا ہو' اپنا ہوائی جہاز خان صاحب کے سفر کے لیے وقف کیا ہو۔
اور وہ ان کے عتاب سے محفوظ رہا ہو۔ خان صاحب کا ذاتی اسٹاف سینئر افسروں کو نیب کے ذریعے بے جا گرفتار کرواتا رہا ہے۔ خان صاحب اپنے سیاسی مخالفین پر زندگی تنگ کر چکے تھے۔ نااہل ترین لوگوں کو نوازنے کی روش کیا خان صاحب ترک کر پائیںگے۔
اس وقت عمران خان' عوامی مقبولیت کی انتہا پر ہیں ۔میں نے جو نکات اٹھائے ہیں۔ اس پر ہو سکتا ہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے سخت رد عمل آئے۔ مگر میں تو صرف سوال پوچھ رہا ہوں۔ دلیل پر ان کے جوابات آئیں تو طالبعلم کالم میں ضرور لکھے گا۔ خان صاحب' اپنے چار سالہ دور کی حماقتوں اور ظلم سے قطعاً بری الذمہ ہو سکتے ہیں۔ انھوںنے اپنے محسنوں کے ساتھ حد درجہ ناروا سلوک رکھا تھا۔ ہاں' اب امریکا کے خلاف بیانیہ کیا واقعی ملک کے قومی مفادات میں درست ہے۔ امریکا دنیا کی واحد سپر پاور ہے۔ وہ دنیا کے ہر ملک کا ہمسایہ ہے۔
اس کے مفادات ہر خطے میں موجود ہے۔ تمام سمجھ دار ملک' امریکا سے اپنے تعلق بہتر سے بہترین کرتے جا رہے ہیں۔ کیونکہ اس میں ان کی بہتری ہے۔ ہمارا پڑوسی ملک ' اس بہترین خارجہ پالیسی کی عمدہ مثال ہے۔ مگر کیا خان صاحب' اپنی تقاریر میں امریکا دشمنی سے ہمارے قومی مفادات پر ضرب نہیں لگا رہے؟ خدارا' ناراض نہ ہوں۔ سوچ کر جواب دیجیے۔ مگر قیامت یہ بھی ہے کہ جو لوگ حکومت میں لائے گئے ہیں' وہ بھی سہمے سہمے سے لگتے ہیں ۔ عوامی مسائل حل کرنے کی ان کی کوششیں بھی نظر نہیں آ رہیں۔
اس منتشر صورت حال میں بہرحال انقلاب کی بات کرنا شاید تاریخی ورثہ سے علمی دوری ہے۔ یہ قوم دراصل ایک ہجوم ہے۔ دو سو لیٹر پٹرول موٹر سائیکل یا کار میں ڈلوانے کے لیے مصرہے' مگر سائیکل یا پیدل سفر کرنے کو گناہ سمجھتی ہے۔ اس لیے کہ ہمارے خمیر ہی میں انقلاب نہیں ہے؟