بلاول بھٹو زرداری کا پہلا امتحان
بلاول بھٹو کوامریکی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کرپاکستان کو درپیش متنوع مالی وسیکیورٹی مسائل کا کوئی شافی حل بھی ڈھونڈنا ہے
بطورِ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری صاحب 18مئی 2022 کو پہلی مرتبہ امریکا پہنچ رہے ہیں ۔ اِس سے قبل وہ وزیر اعظم شہبازشریف کے ساتھ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور یو اے ای کے سربراہ، محمد بن الراشد المکتوم ، سے ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ اب انھیں امریکی وزیر خارجہ ، انٹونی بلنکن، کی طرف سے نیویارک آنے کی دعوت ملی ہے۔
مقصد یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اُس دو روزہ ورلڈ کانفرنس میں شریک ہوں جو عالمی فوڈ سیکیورٹی کے زیرعنوان منعقد کی جا رہی ہے۔ یوکرائن پر رُوسی حملے کے بعد عالمی تحفظِ خوراک خطرات کی زَد میں ہے۔ اس کانفرنس میں شرکت کے ساتھ ساتھ بلاول بھٹو اپنے امریکی ہم منصب سے براہِ راست اور تفصیلی ملاقات بھی کریں گے۔ امریکی وزیر خارجہ نے بلاول بھٹو کو پاکستان کا وزیر خارجہ بننے پر مبارکباد بھی دی ہے اور ساتھ ہی اس بات پر بھی مسرت کا اظہار کیا ہے کہ پاک امریکا تعلقات کو 75برس مکمل ہو گئے ہیں ۔ بلنکن نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم پاک امریکا تعلقات کو مزید استحکام دینے کی آرزُو رکھتے ہیں۔
بلاول بھٹو کو امریکی وزیر خارجہ کی طرف سے آنے والی اِس دعوت پر پی ٹی آئی والے آزردہ اور ناراض ہیں ؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جناب عمران خان نے کہا ہے : ''بلاول بھٹو امریکا پیسے مانگنے جا رہے ہیں ۔ جواب میں امریکی پاکستان سے اڈے مانگیں گے۔''ایک سابق وزیر اعظم کے منہ پر یہ تبصرہ سجا نہیں ہے۔
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی امریکا روانگی سے ایک ہفتہ قبل ایک انگریزی معاصر میںجو ایک اہم خبر شایع ہُوئی ہے، اس سے یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پاک امریکا کشیدہ تعلقات کو خوشگوار منظر دینا چاہتی ہے ۔ اس خبر کے مطابق : ''امریکی اور پاکستانی وزرائے خارجہ ( بلاول بھٹو اور انٹونی بلنکن) کی نیویارک میں ملاقات سے چند روز قبل دونوں ممالک نے واشنگٹن میں سیکیورٹی امور پر مذاکرات مکمل کرلیے ہیں۔
پاکستان کے ایک خفیہ ادارے کے سربراہ نے رواں ہفتے واشنگٹن میں 3 روز گزارے جہاں انھوں نے امریکی قومی سلامتی کے مشیر، جیک سلیوان، اور سی آئی اے کے سربراہ، ولیم جے برنس، سے ملاقات کی۔
دونوں ممالک نے تاحال ملاقات میں ہونے والی گفتگو کی تفصیلات جاری نہیں کی ہیں مگر خیال کیا جا رہا ہے کہ ملاقات میں بات چیت کا مرکز دو طرفہ سیکیورٹی تعلقات اور افغانستان کے حالات رہے ہوں گے کیونکہ امریکا سمجھتا ہے کہ افغانستان کو مستحکم کرنے میں پاکستان مدد کر سکتا ہے۔دونوں ممالک کے درمیان سیکیورٹی امور پر آخری ملاقات جولائی 2021 میں ہوئی تھی، جب اُس وقت کے قومی سلامتی کے مشیر، معید یوسف، نے جیک سلیوان سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی تھی۔
اُس ملاقات میں پاکستانی وفد میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی شامل تھے۔ پاکستانی خفیہ ادارے کے موجودہ سربراہ کا دورہ، پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں غیرمعمولی بگاڑ کے بعد ہوا ہے۔''
اس ملاقات کو سابق وزیر اعظم جناب عمران خان کی ایک سابق خاتون وزیر نے حسبِ عادت عجب معنی پہنانے کی کوشش کی ہے لیکن یہ ملاقات اس امر کا مظہر ہے کہ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے باوصف پاکستان اور امریکا کے حکمران باہمی مصافحے کے لیے تیار ہیں ۔
بلاول بھٹو کے امریکا روانہ ہونے سے قبل جناب آصف علی زرداری نے ایک بھرپور پریس کانفرنس بھی کی ہے ۔ اس پریس کانفرنس میں بھی کئی ایسے اشارے پنہاں ہیں جو پاک امریکا تعلقات کو مستحکم کرنے کی سبیل پیدا کریں گے ۔ عمومی طور پر جناب آصف زرداری مفصل پریس کانفرنس کرنے سے اعتراض ہی برتتے ہیں ۔ یہ تازہ پریس کانفرنس دانستہ اس لیے بھی کی گئی ہے کہ اُن کے وزیر خارجہ صاحبزادے کی راہیں کشادہ ہو سکیں۔ امریکا روانگی سے قبل بلاول بھٹو نے قومی اسمبلی کے فلور پر جو انکشاف کیا ہے ، اس کی باز گشت سے بھی ہمارے کئی اداروں میں ہلچل مچی ہُوئی ہے۔
نیویارک میں مدعو کیا جانا، امریکی وزارتِ خارجہ اور امریکی وزیر خارجہ ،انٹونی بلنکن، سے مکالمہ کرنا جناب بلاول بھٹو زرداری کی پہلی بڑی ، سرکاری اور عالمی اسائنمنٹ ہے۔ بلاول بھٹو صاحب نے جس خاندان میں آنکھ کھولی ہے اور جن اعلیٰ عالمی شہرت یافتہ اداروں سے تعلیم پائی ہے، ان کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ امریکیوں اور مغربیوں سے براہِ راست مکالمہ کرنا اُن کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
انھیں اپنے نانا جان اور والدہ صاحبہ مرحومین کی طرف سے ، اِس میدان میں ، جو تربیت ملی ہے ، ہم اُمید کرتے ہیں کہ وہ قوم و ملک کی آس و توقعات پر پورا اُتریں گے ۔ اُن کا مگر امتحان یہ ہے کہ وہ امریکی وزیر خارجہ سے ملنے ایسے وقت میں جا رہے ہیں جب پاک امریکا تعلقات میں کئی شکر رنجیاں پیدا ہو چکی ہیں ۔ سابق وزیر اعظم جناب عمران خان نے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد جس شدت اور تسلسل کے ساتھ امریکا کے خلاف اپنا جو الزامی بیانیہ استوار کرنے کی دانستہ کوشش کی ہے ، اس نے امریکیوں کے دل انقباض سے بھر دیے ہیں ۔
امریکا ایسی تہمتوں سے صَرفِ نظر نہیں کر سکتا ؛ چنانچہ ہم نے دیکھا ہے کہ گزشتہ روز پھر امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ، نیڈ پرائس، نے عمران خان کی طرف سے امریکا پر عائد کیے گئے الزامات اور امریکا مخالف مہم چلانے کے پس منظر میں کہا: ''ان بے بنیاد الزامات کے باوجود ہم پاک امریکا سفارتی تعلقات میں دراڑ نہیں ڈالنے دیں گے۔ہم پروپیگنڈے ، غلط معلومات اور جھوٹ کو پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیں گے ۔''
بلاول بھٹو زرداری نے وزیر خارجہ کا حلف اُٹھانے سے قبل لندن میں نون لیگ کے قائد جناب نواز شریف سے بھی تفصیلی ملاقات کی تھی ۔ نواز شریف پاک امریکا تعلقات میں جو ذاتی تجربات رکھتے ہیں ، اُمید کی جا سکتی ہے کہ یہ تجربات بھی بلاول بھٹو کے اُس وقت کام آئیں گے جب وہ انٹونی بلنکن کے رُو برو ہوں گے۔ انھیں اپنے تجربہ کار اور سابق صدرِ مملکت والد صاحب، جناب آصف علی زرداری، کے تجربات سے بھی مستفیض ہونا چاہیے۔
بلاول بھٹو زرداری نیویارک محض اس لیے نہیں جا رہے ہیں کہ یہ مبینہ فوڈ سیکیورٹی کانفرنس پاکستان کے لیے کوئی بڑی معاشی دستگیری کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ اس کانفرنس میں بلاول بھٹو کوامریکی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر پاکستان کو درپیش متنوع مالی و سیکیورٹی مسائل کا کوئی شافی حل بھی ڈھونڈنا ہے، انھیں دانشمندی کے ساتھ پاک امریکا تعلقات کو پھر سے پٹڑی پر چڑھانا ہے ؛ چنانچہ نہایت ضروری ہے کہ واشنگٹن جانے سے قبل وہ پاکستان کے سابق وزرائے خارجہ سے بھی ملاقاتیں کریں اور اُن سابق سفارتکاروں سے بھی تفصیلی مکالمہ کریں جو واشنگٹن میں پاکستانی سفیر رہے ہیں۔
ان افراد میں جناب اسد مجید، محترمہ بیگم سیدہ عابدہ حسین ، جناب خورشید محمود قصوری، محترمہ شیری رحمن اور ڈاکٹر ملیحہ لودھی صاحبہ موجود ہیں۔ ان سے ملاقاتوں کے دوران بلاول بھٹو امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے مزاج سے آشنا ہو سکتے ہیں ۔ امریکا یاترا کے دوران بلاول بھٹو صاحب کے ساتھ وزیر مملکت برائے امورِ خارجہ محترمہ حنا ربانی کھر کو بھی ہونا چاہیے اور محترمہ شیری رحمن کو بھی ۔ اور اگر ممکن ہو تو انھیں اپنے وفد میں جناب طارق فاطمی ایسے تجربہ کار سابق سفارتکار کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ اُن سب کے سفارتی تجربات جناب بلاول بھٹو کی سفارتکاری کے راستے آسان کردیں گے۔