گرمی بجلی اور دیگر ملکی مسائل

بحرانوں سے نکلنے کے لیے بھی ایسی مربوط پالیسی تیار کرنے کی ضرورت ہے جو دیگر پالیسیوں سے جڑی ہو


Editorial May 16, 2022
بحرانوں سے نکلنے کے لیے بھی ایسی مربوط پالیسی تیار کرنے کی ضرورت ہے جو دیگر پالیسیوں سے جڑی ہو۔ فوٹو : فائل

پاکستان اور آزاد کشمیر کے شمالی پہاڑی علاقوں کے سوا پورا پاکستان شدید اور قیامت خیز گرمی اور لو کی لپیٹ میں ہے۔

میڈیا کی اطلاعات کے مطابق سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا کے میدانی علاقے کئی روز سے کڑکتی دھوپ اور لو کے زیر اثر ہیں۔ محکمہ موسمیات کے اعدادوشمار کے مطابق ہفتے کو سب سے زیادہ درجہ حرارت سندھ کے ضلع جیکب آباد میں رہا ہے، یہاں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا.

سندھ کا ضلع دادو اور بلوچستان کا ضلع سبی دوسرے نمبر پر رہا ہے۔ ان دونوں اضلاع میں پارہ 49 ڈگری سینٹی گریڈ رہا ہے۔ نواب شاہ، سکھر 48، لاڑکانہ میں 46 جب کہ کراچی اور حیدر آباد کا درجہ حرارت اکتالیس سینٹی گریڈ رہا ہے۔

پنجاب کے جنوبی ضلع ڈیرہ غازیخان کا درجہ حرات اڑتالیس، ملتان میں چھیالیس،لاہور میں پنتالیس، سرگودھا، جھنگ اور فیصل آباد میںتینتالیس درجہ سینٹی گریڈ رہا۔اسلام آباد میں چھتیس سینٹی گریڈ رہا ہے۔

خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں 44 اور بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں 36 سینٹی گریڈ رہا ہے۔ گلگت ، بلتستان میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 20 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔

محکمہ موسمیات کے مطابق مئی کے مہینے میں خیبرپختونخوا کے میدانی علاقوں میں گزشتہ 30 سالہ گرمی کا ریکارڈ ٹوٹا ہے جب کہ آنے والے دنوں میں پشاور ، مردان ،چارسدہ ، صوابی ، کوہاٹ، بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، لکی مروت، سمیت قبائلی ضلع خیبر جنوبی وزیرستان سمیت بیشتر علاقوں میں درجہ حرارت میں 5 سے 6 فیصد اضافہ ممکن ہے۔

کراچی شہر میں شدیدگرم ومرطوب موسم نے شہریوں کے پسینے چھڑوا دیے، دن بھر بلوچستان کی ریگستانی ہواؤں کی وجہ سے کراچی میں شدید لو کے تھپیڑے چلتے رہے،گرمی کی شدت مئی کے مہینے کے اوسط سے 7ڈگری زیادہ ریکارڈ ہوئی۔

کراچی میں گرمی کے باعث شہری پریشان ہیں،دوپہر کے وقت جب گرمی کی حدت میں اضافہ اور سڑکیں آگ کی طرح تپنے لگتی ہیں تو شہریوں کی ایک بڑی تعداد ایسے میں باہر نکلنے سے گریز کرتی ہے۔شدید گرمی میں مجبوراً کام کرنے والے کسان اور مزدور سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور یہی طبقہ گرمی اور لو لگنے سے زندگی کی بازی ہار جاتا ہے۔

پنجاب حکومت نے گرمی کی بڑھتی ہوئی شدت کے باعث تعلیمی اداروں میں قبل از وقت موسم گرما کی چھٹیاں دینے کا فیصلہ کیا ہے اور صوبے بھر کے تمام سرکاری اور نجی اسکولوں میں طلبہ و طالبات کی آؤٹ ڈوراسپورٹس پرفوری پابندی لگا دی ہے،تمام اسکولوں میںایمرجنسی ہیلتھ کاؤنٹر بنانے ،ایمرجنسی رسپانس سینٹرقائم کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں جب کہ اسکولز کینٹینوں پر چٹ پٹے کھانوں اور مسالے دار اشیاء کی فروخت پرپابندی لگا دی ہے،تمام اسکولوں میں بجلی کا متبادل انتظام کرنے کی ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔

ادھر گرمی کی وجہ سے بجلی کے زیادہ استعمال کی وجہ سے ملک بھر میں بجلی کا شارٹ فال بھی بڑھ گیا اور سسٹم میں پانچ ہزار میگاواٹ کے قریب بجلی کی کمی ہوگئی ہے جس کے سبب ملک بھر بجلی کی لوڈ شیڈنگ جاری ہے، بڑے شہروں میں دو سے آٹھ گھنٹے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ کراچی کے کئی علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 14گھنٹے سے بھی تجاوز کر گیا ہے جب کہ پوش ایریاز میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ کم ہے۔

لاہور شہر میں دو گھنٹے تک بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے جب کہ دیہی علاقوں میں تین سے چار گھنٹے لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے۔ تاہم گرڈ اسٹیشنز اور تاروں کی مرمت وغیرہ کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ کئی گھنٹے طویل ہوجاتا ہے۔

گرمی کے موسم میں بجلی کا استعمال غیرمعمولی بڑھ جاتاہے۔ایئرکنڈیشنرز،ایئر کولرز، گھریلو اور کمرشل ریفریجریٹرز مسلسل استعمال میں رہتے ہیں جب کہ یوپی ایس کی چارجنگ بھی مسلسل جاری رہتی ہے۔یوں ٹرانسمشن لائنز اور ٹرانسفارمرز پر لوڈ بہت زیادہ بڑھ جاتاہے جس سے ٹریپنگ اور ٹرانسفارمر کے خراب ہونے کے واقعات بڑھ جاتے ہیں،اگر کسی علاقے میں ٹرانسفارمر خراب ہو جائے تو اس کی تبدیلی میں اچھا خاصا وقت لگ جاتا ہے جس کے باعث اس دوران اس علاقے کی شہریوں کی شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مالی مشکلات بھی بہت زیادہ ہیں،بجلی پیدا کرنے والے کئی کارخانے بند ہیں۔گیس اوردیگر فیول جو بجلی گھر چلانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں، اس کی ترسیل بھی کم ہے، اس لیے دیگر مسائل کی طرح بجلی کی متواتر ترسیل کا عمل متاثر ہو رہا ہے۔

نئی حکومت کی ساری توجہ ملک کو درپیش معاشی اور مالیاتی بحران سے نکالنے پر ہے اور وزیراعظم میاں شہباز شریف نے حکومت سنبھالتے ہی وزیر خزانہ کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لیے امریکا بھیجا تھا، وزیراعظم نے مختصر مدت میں سعودی عرب اور یو اے ای کا دورہ بھی کیا ہے۔

اس سرگرمیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت ملک اور عوام کو درپیش سنگین مسائل سے پوری طرح آگاہ ہے اور مسائل کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش بھی کر رہی ہے ، لیکن پاکستان کا معاشی بحران اتنا گہرا ہے کہ اسے حل کرنے کے لیے بھی غیرمعمولی اقدامات اور فیصلوں کی ضرورت ہے۔ بجلی ، گیس، پٹرول ،گندم، آٹے ، چینی، کوکنگ آئل اور کھاد وغیرہ کی قلت کیوں پیدا ہوتی اور ان کے نرخ کیوں بڑھانا پڑ رہے ہیں، ان وجوہات سے حکومت اور ریاستی مشینری بخوبی آگاہ ہے۔ بڑے کارٹلز ماضی میں بھی مصنوعی بحران پیدا کرتے آئے ہیں، اس بار بھی ایسا ہی ہونے کا خدشہ ہے۔

حکومت کو اس حوالے سے سخت فیصلے اور اقدامات کرنا چاہیے ۔افغانستان اور ایران کے بارڈر پر کنٹرول رکھا جائے اورا سمگلنگ روکنے کا تسلسل برقرار رہے تو پاکستان میں کم ازکم گندم اور آٹے کی قیمتوں میں استحکام آجائے گا جب کہ بجلی کے بحران میں کمی بھی ہوسکتی ہے۔

ارباب اختیار کو معاشی و مالیاتی بحران کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی مسائل پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔بلاشبہ موسم کی تبدیلی قدرت کے نظام سے منسلک ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انسانوں کی غلطی یا لا علمی کے باعث ماحولیاتی آلودگی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے جب کہ گلوبل وارمنگ کئی گنا بڑھ چکی ہے جس کی وجہ سے گرمی کی حدت میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور یہ پوری انسانیت کا اوّلین مسئلہ ہے۔

ہم بھی اس گھمبیر مسئلے سے آنکھیں نہیں چرا سکتے۔ ارباب اختیار کو یہ پہلو بھی اپنی ترجیحات میں رکھنا چاہیے کہ زیر زمین میٹھے پانی کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہو رہے ہیں۔ شہروں میں کئی آبادیوں نے سیوریج کو گھروں میں کنواں کھود کر زیر زمین میٹھے پانی تک پہنچا دیا جس کی وجہ سے زیر زمین میٹھا پانی آلودہ ہو رہا ہے،حکومت کو اس حوالے سے انتہائی سخت قوانین وضع کرنے چاہیں اور گھروں کے سیوریج کی کڑی نگرانی کرنی چاہیے تاکہ زیرزمین میٹھے پانی کو آلودہ ہونے سے بچایا جاسکے ۔

گاڑیوں اور موٹرسائیکلز کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا جس کی وجہ سے کراچی ، لاہور، اسلام آباد اور دیگر بڑے شہروں میں ٹریفک کے سنگین مسائل پیدا ہوچکے ہیں۔

برقی آلات اور دھواں ہمارے اطراف کی فضا کو زہر آلود کر رہے ہیں، فصلوں پر چھڑکنے والی ادویات، فصلیں بوتے وقت زرعی زمین پر کیمیکلز کا چھڑکاؤ اور کھادوں کا بغیر وقفے کے مسلسل استعمال زرعی زمینوں کو بانجھ بنا رہا ہے پھر کارخانوں، فیکٹریوں، لیبارٹریز اوراسپتالوں کا استعمال شدہ آلودہ پانی زیرزمین بھی جا رہا ہے جب کہ گندے نالوں اور برساتی ڈرینز کے ذریعے ندی ، نالوں اور دریاؤں سے ہوتا ہوا یہ آلودہ پانی سمندر تک پہنچ رہا ہے،اس آلودگی سے انسان ہی نہیں جانور بھی مہلک امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔

پرندوں کی کئی نسلیں ہی ناپید ہوچکی ہیں۔ آبی حیاتیات بھی آلودگی کی وجہ سے زندگی اور موت کی کشمکش کا شکار ہیں ، کئی قسم کی مچھلیاں اور دیگر آبی مخلوق رفتہ رفتہ کم ہو رہی ہیں۔

پاکستان میں بہنے والے دریاؤں میں پانی کم ہورہا ہے۔ میڈیا کی اطلاع کے مطابق حیدرآباد کے قریب دریائے سندھ خشک ہوگیا اور بہت کم پانی بہہ رہا ہے ، ملک بھر کے دریاؤں میں پانی کی کمی اور خشک سالی کے باعث غذائی قلت اور موسمیاتی تبدیلی ہورہی ہے۔

یوں دیکھا جائے تو گرمی کی حدت اور گرمی کے موسم کی طوالت کی وجوہات بآسانی سمجھی جاسکتی ہیں۔ ہر بحران دوسرے بحران سے جڑا ہوا ہے، ان بحرانوں سے نکلنے کے لیے بھی ایسی مربوط پالیسی تیار کرنے کی ضرورت ہے جو دیگر پالیسیوں سے جڑی ہو تاکہ ایک پالیسی کے تحت ایک بحران کو حل کریں تو اس کا اثر دیگر بحرانوں پر بھی پڑے۔ پاکستان کے تناظر میں یہ سب مسائل فوری اور ایمر جنسی نوعیت کے ہیں اس میں دیر کی گنجائش نہیں ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔