مذاکرات کا ٹوٹتا جڑتا سلسلہ
پاکستانی حکومت اور اس کے اداروں نے ہمیشہ مذاکرات کو ترجیح دی، چاہے وہ سوات ہو یا ضم شدہ اضلاع
پچھلے کئی ماہ سے افغانستان سے اچھی خبریں نہیں آرہی تھیں تاوقتیکہ افغانستان کے اندر تحریک طالبان کے ٹھکانوں کو نشانہ نہیں بنایا گیا' اس کے بعد ہی افغانستان کی اسلامی حکومت کو اپنے ہمسایہ برادر ملک کے غصے کی سنگینی کا احساس ہوا۔
اگرچہ افغان طالبان نے اقتدار پر گرفت مضبوط کر کے ہی پاکستان کی حکومت کو تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا مشورہ دیا' جس پر عمران خان حکومت نے لبیک کہتے ہوئے امن کے لیے بات چیت کا آغاز کیا اور خود صدر پاکستان عارف علوی نے طالبان کو معافی کی پیش کش کرتے ہوئے ان کو مذاکرات کی دعوت دی تھی۔
مذاکرات شروع ہوئے تو پاکستان نے جذبہ خیر سگالی کے تحت سیکڑوں طالبان قیدیوں کو جیلوں سے رہا کیا تاکہ مذاکرات کا سلسلہ چل سکے۔حالانکہ آرمی پبلک اسکول سمیت پاکستان کے سینے پر تحریک طالبان نے کئی گہرے زخم لگائے تھے جو آج تک تازہ ہیں۔
پاکستان کے اس غیر معمولی فراخدلی کا نتیجہ بھی ناکامی کی صورت میں نکلا اور مذاکرات کا سلسلہ ٹوٹ گیا اور اس سال کے آغاز سے ہی تحریک طالبان نے ایک بار پھر پاکستان کی سرحد اور سرحد کے اندر منصوبہ بندی کے ذریعے کئی کارروائیاں کیں جس کا جواب پھر پاکستان کو افغانستان کے اندر حملے کرکے دینا پڑا ۔
اس حملے سے پاکستان نے دو باتیں واضح کیں ایک یہ کہ پاکستان افغانستان میں چھپے اپنے دشمنوں سے نمٹ سکتا ہے چاہے افغان طالبان مدد کریں یا نہ کریں اور دوئم یہ کہ افغان طالبان پر یہ واضح کر دیا کہ طالبان کے مفرور جنگجو جنھوں نے خاندانوں سمیت افغانستان میں پناہ حاصل کی ہے دونوں ممالک کے درمیان بھائی چارے کی راہ میں بڑی رکاوٹ اور مستقل مسئلہ ہیں۔ پاکستان کی یہ حکمت عملی کامیاب رہی اور انھوں نے ایک بار پھر تحریک طالبان پاکستان پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا اور اس کا نتیجہ مثبت نکلا ۔
عید سے قبل ٹی ٹی پی نے ایک بار پھر سیز فائر کا اعلان کیا اور بعد ازاں اس میں توسیع بھی کی جو ان سطور کے لکھنے تک برقرار ہے جس کے ساتھ ہی مذاکرات کا ٹوٹا سلسلہ ایک بار پھر جڑ گیا اور کئی طالبان قیدیوں کو رہائی ملی۔ اس کالم کے ذریعے ہمیشہ امن مذاکرات کے حق میں دلائل دیے کیونکہ لڑائی کا خاتمہ ضروری ہے اور کتنے سال ہم ایک دوسرے کے خلاف لڑتے رہیں گے۔
پاکستانی حکومت اور اس کے اداروں نے ہمیشہ مذاکرات کو ترجیح دی، چاہے وہ سوات ہو یا ضم شدہ اضلاع ۔ سوات میں آپریشن سے قبل امن کو موقع دیا گیا لیکن طالبان ملا فضل اللہ کی قیادت میں بونیر اور شانگلہ پر چڑھ دوڑے ۔ پھر مجبوری میں آپریشن کرنا پڑا ۔ اسی طرح کا معاملہ سابقہ فاٹا کا بھی جہاں پر مقامی اور سرکاری سطح پر کئی امن معاہدے ہوئے لیکن ٹوٹ گئے، چاہے وہ نیک محمد دور کے ہوں، بیت اللہ یا حکیم اللہ دور کے۔
پاکستانی حکومت نے کئی بار یہ ثابت کیا کہ وہ معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتی ہے اور کئی بار ان کو پاکستان کی کمزوری سے تعبیر کیا گیا۔ خود اپنے عوام نے بھی سوالات اٹھائے۔ حکومت اور اداروں نے تنقید برداشت کی تاکہ معاملے کا حل نکل سکے۔
اب کی بار چونکہ افغان طالبان خود ان مذاکرات کے روح رواں ہیں اسی لیے ان مذاکرات سے امید بھی کافی بندھی ہوئی ہے کیونکہ پاکستانی طالبان افغان طالبان کے نام پر وجود میں آئے تھے۔ ٹی ٹی پی کے اوائل دور کے کمانڈروں نے افغانستان پر امریکی جارحیت کے خلاف جہاد کا نعرہ لگایا اور پھر پاکستان کے اندر اپنی طاقت بڑھانا شروع کر دی ۔ اب جب کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہے۔
امریکا خطے سے نکل گیا ہے تو اب تحریک طالبان پاکستان کو بھی اپنے ہتھیار پھینک کر خود کو ریاست کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا چاہیے اب تک جو تحمل، برداشت اور کشادہ دلی پاکستانی حکومت اور اداروں نے دکھائی وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان سنجیدگی سے اس مسئلے کو ختم کرنا چاہتا ہے ۔ٹی ٹی پی کو پاکستانی قانون سے بھی ڈر لگتا ہے اور وہ مقامی لوگوں سے بھی خوفزدہ ہیں ۔
اسی لیے ان مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے ضم اضلاع میں مقامی جرگوں نے طالبان کے جرائم معاف کرنے کا اعلان کیا اور بدلہ نہ لینے کا وعدہ کیا۔ اب جب کہ صدر مملکت، حکومت اور پاکستانی ادارے معافی دینے پر رضا مند ہیں اور عام لوگ بھی تو پھر واپسی سے انکار کا مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ کسی غیر ملک کے ایماء پر بدستور شرپسندی پر تلے ہوئے ہیں ۔ فوری امن آنے سے ایک تو ہماری سرحد جو افغانستان کے ساتھ منسلک ہے دہشت گردانہ حملوں سے محفوظ ہو جائے گی جس سے دونوں طرف قانونی آمدورفت اور تجارت میں تیزی آئے گی اور غیر قانونی آمدورفت اور اسمگلنگ کو روکا جا سکے گا ۔
سرحد پر معمولی واقعے سے بھی دونوں ملکوں کی سرحد کئی دنوں کے لیے بند ہو جاتی ہے جس سے تجارت کا بھی نقصان ہے اور مقامی آبادی کا روزگار بھی متاثر ہوتا ہے۔ خیال رہے کہ یہ ہی روزگار ان کی کمائی کا واحد ذریعہ ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹی ٹی پی پاکستان کے لیے اب کوئی بڑا مسئلہ نہیں لیکن پاکستان اپنے برادر اسلامی ملک کو خفا نہیں کرنا چاہتا۔ سرحد پار سے کی جانے والے کارروائیاں ضم شدہ اضلاع کی ترقی میں ایک اہم رکاوٹ ہیں ۔ انضمام کے بعد ضم اضلاع کی ترقی کے لیے کافی اقدامات اٹھائے گئے اس وقت ضم اضلاع کے ہر ضلع میں پولیس اور عدالت سمیت انتظامیہ نے کام شروع کر دیا ہے۔
سیکڑوں سال پرانے ڈریکولا قوانین ختم ہو چکے ہیں ۔ اب قبائلی پاکستان کے برابر کے شہری ہیں ۔ ضم شدہ اضلاع میں صوبے کی طرح صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہو چکے ہیں ۔ پہلی بار ضم اضلاع کے لوگوں نے صوبوں کی اسمبلی میں اپنی نمایندگی حاصل کی ہے ۔
اسمبلی کے اندر قبائلی علاقوں سے آنے والے جوانوں کو اسمبلی میں تقریر کرکے سنتے بھی ہیں اور دیکھتے بھی ہیں ۔ پی ٹی ایم کے ممبر بھی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر وزیرستان کے مسائل بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح پورے صوبے کی طرح سابقہ قبائلی علاقوں میں بھی مقامی حکومتوں کے انتخابات کافی پرامن انداز میں ہوئے اور ان اضلاع کے عوام نے اپنے لیے مقامی رہنما ہی چنے ۔ اب ضم اضلاع کے مسائل اور وسائل دونوں پر ان کے منتخب نمایندوں کی نظر ہے ۔
قومی اسمبلی میں صوبے اور مقامی سطح پر بھی اب عوامی نمایندے موجود ہیں ۔ ضم اضلاع کے علاوہ بھی یہ مذاکرات پورے پاکستان کے لیے سود مند ہیں۔ ہم ایک طویل لڑائی لڑ چکے ہیں۔ اب بس یہ لڑائی ختم کر دینی چاہیے ۔
ٹی ٹی پی کے حوالے سے جو بے اعتباری پاکستانی اداروں کے ذہن میں تھی وہ افغان طالبان کی ضمانت سے دور ہو گئی ہے۔ اس طرح ٹی ٹی پی کے خدشات بھی اب باقی نہیں رہنے چاہئیں ۔ پاکستان کے بگڑتے معاشی حالات کسی اور جنگ کی اجازت نہیں دیتے ۔ جتنا جلدی ہم ملک کے اندر استحکام لائیں گے اتنی ہی جلدی ملک کے معاشی حالات بھی بہتر ہوں گے اور استحکام کے لیے ٹی ٹی پی جیسے دھڑوں کا خاتمہ ضروری ہے کیونکہ سرحد پار سے ان لوگوں کو واپس نہیں لایا گیا تو وہ کسی کے بھی آلہ کار بن سکتے ہیں ۔
اگر یہ مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں تو پاکستان افغانستان کے تعلقات ، سرحدی تجارت اور آمد و رفت میں کافی بہتری آ سکتی ہے جو نہ صرف سرحد کے آر پار رہنے والی مقامی آبادی خصوصی طور پر اور دونوں ممالک مجموعی طور پر فائدہ اٹھائیں گے اور ساتھ ہی ساتھ ضم اضلاع کی ترقی اور ملک میں امن و استحکام کے مقاصد بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔