خبردار آپ کا خون پلاسٹک کے ذرات سے بھرا ہو سکتا ہے

22 میں سے 17 افراد کے خون کے نمونوں میں پولیمر کے ذرات ملے، سائنس دان

پلاسٹک کے ذرات خون میں شامل ہوکر پورے جسم میں گردش کرتے ہیں، تحقیق(فوٹو: فائل)

کھانا کھاتے وقت شاید ہی ایسا ہوتا ہو کہ کھانے میں پلاسٹک کا چھوٹا ٹکڑا ملا ہو، ایسا ٹکڑا جس کے نوالے کے ساتھ پیٹ میں چلے جانے کا امکان ہو اور پھر وہاں بھی وہ نظام ہضم کی گرفت سے بچ کر فضلہ بن جانے کے بجائے آنتوں کے ذریعے خون میں شامل ہوگیا ہو، پھر پورے جسم میں گشت کرتا پھرے اور انسانی زندگی کو خطرے میں ڈال دے۔

پلاسٹک روز مرہ کی اشیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی چیز بنتا جا رہا ہے۔ یہ وہ خطرناک دیو ہے جو ہماری حسین اور رنگین دنیا کے صحت افزا ماحول کو نگل رہا ہے لیکن شاید کسی نےسوچا بھی نہ ہوگا کہ پلاسٹک کسی طرح ہمارے جسم میں داخل ہوکر خون کے ذریعے گھومتا پھرے گا اور جان جوکھوں میں ڈال دے گا۔

اور بات صرف یہاں تک ہی محدود رہتی تو بھی قابو کی جاسکتی ہے لیکن معاملہ ہوا میں تیرنے والے پلاسٹک کے مائکرو اسکوپک بٹس کا بھی ہے جنھیں ہم سانس کے ذریعے اپنے جسم میں داخل ہونے کی اجازت دیکر مہمان بناتے ہیں اور یوں نظام تنفس یا نظام ہاضمہ کے ذریعے پلاسٹک کے یہ ذرات پھیپھڑوں یا ٓآنتوں سے گزر کر خون میں شامل ہوجاتے ہیں۔

اس بات کا انکشاف ہالینڈ کے محققین نے سائنسی جریدے مارچ انوائرمنٹ انٹرنیشنل میں کیا۔ تحقیقی مقالے میں کہا گیا ہے کہ عمومی طور پر پھیپھڑوں یا آنتوں میں داخل ہونے والا پلاسٹک تکنیکی طور پر جسم میں داخل نہیں ہوتا بلکہ وہیں مدافعتی یا ہاضمے کا نظام اسے ختم کردیتے ہیں۔ پلاسٹک صرف اسی وقت جسم میں داخل ہوسکتا جب وہ کسی طرح خون میں شامل ہونے میں کامیاب ہوجائے۔

اس مقالے میں محققین کا کہنا تھا کہ انسانی خون کے نمونوں میں پلاسٹک کے ذرات کی موجودگی نے ہمیں حیران کردیا۔ خون میں پلاسٹک کے یہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے پورے جسم میں گردش کرتے ہوئے کسی بھی حساس حصے جیسے دماغ یا دل تک پہنچ سکتے ہیں اور وہاں کسی شریان کو بلاک کرکے برین ہیمبرج یا دل کے دورے کا موجب بن سکتے ہیں۔


محققین کا مزید کہنا تھا کہ یہ چیز اس نئی دریافت کو تشویشناک بناتی ہے۔ مائیکرو پلاسٹک جسم کے مختلف نظاموں میں سوزش کا سبب بن سکتا ہے۔ علاوہ ازیں پلاسٹک کے بٹس میں زہریلے کیمیکل بھی ہو سکتے ہیں جو ہمارے ہارمون اور تولیدی نظام کو متاثر کر سکتے ہیں۔ جیسے کہ کچھ جنگلی حیات میں دیکھا گیا۔

تحقیقی ٹیم میں شامل ماہرین کا کہنا ہے کہ خون میں خوردبینی پلاسٹک کے ذرات کو تلاش کرنا آسان نہیں ہے۔ انھیں صرف ایک خوردبین سے نہیں دیکھا جاسکتا لہذا ہم نے ایک کیمیائی نقطہ نظر لیا۔ ہم 22 بالغوں سے خون جمع کیا اور بڑے خلیات کو ہٹانے کے لیے نمونے پر کارروائی کی۔ اس سے ایک مائع رہ گیا۔ اس کے بعد 700 نینو میٹر (0.00003 انچ) سے بڑے ذرات کو فلٹر کیا۔

محققین نے انسانی خون کے نمونوں نے پولیمر کی تلاش کی جو پانچ مختلف قسم کے پلاسٹک بناتے ہیں۔ 17 لوگوں کے خون میں چار قسم کی پولیمر پائی گئیں۔

محققین کے مطابق ٹیسٹ شدہ خون کے ہر چار نمونوں میں سے ایک میں پولی تھیلین موجود تھا۔ یہ خاص طور پر عام پلاسٹک ہے جو شاپنگ بیگز اور بوتلوں سے لے کر کھلونے اور ٹکڑے ٹکڑے کی کوٹنگز تک مصنوعات کی بہت وسیع رینج میں استعمال ہوتا ہے۔

اسی طرح ٹرائل میں حصہ لینے والے نصف لوگوں کے خون میں پی ای ٹی بھی پائی گئی جو کپڑوں اور پلاسٹک کی بوتلوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک تہائی سے زیادہ خون کے نمونوں میں پولیسٹیرین پائی گئی جو انسولیٹنگ فوم، کمپیوٹر کیسز، سائنسی لیب ویئر، پلاسٹک کے کانٹے اور بالوں کی کنگھی میں پایا جاتا ہے۔

محقیقن کے مطابق صرف ایک نمونے میں پولی میتھائل میتھکریلیٹ یا پی ایم ایم اے پایا گیا جو شفاف اور ہیٹ مولڈ پلاسٹک کے دانتوں کے کام میں استعمال ہوتا ہے۔ ٹیم نے خون کے نمونوں میں پولی پروپیلین کو بھی تلاش کیا لیکن وہ نہیں مل سکا۔
Load Next Story