امیدِ بہار رکھ
حکومتِ وقت کی طرف نظریں لگائے ہوئے اچھے وقت کا انتظار کررہے ہیں
وطنِ عزیز مدتِ دراز سے بحرانوں کا شکار ہے۔ ایک بحران ابھی ٹلتا نہیں کہ دوسرا آکر گھیر لیتا ہے۔ ایک مسئلہ حل ہونے سے پہلے دوسرا سنگین مسئلہ سر اٹھا لیتا ہے۔ بقولِ منیرؔ نیازی:
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
اس ناگفتہ بہ صورتحال نے پاکستان کو مسائلستان بنا دیا ہے اور عالم یہ ہے کہ:
ڈور کو سلجھا رہا ہوں اور سرا ملتا نہیں
ہر برسرِاقتدار آنے والا حکمراں بھولے بھالے عوام کو ترقی اور خوشحالی کے خواب دکھاتا ہے اور اقتدار سے محروم ہونے کے بعد عوام کو ہاتھ مَلتا ہوا چھوڑ جاتا ہے۔بلند بانگ دعوے کرنا اور شاندار مستقبل کے وعدے کرکے سبز باغ دکھانے کے بعد ٹاٹا بائی بائی کہہ کر سادہ لوح عوام کو بیچ منجدھار میں چھوڑ کر اچانک غائب ہوجانا ہمارے لیڈرانِ کرام کا پرانا چلن ہے۔ بیچاری قوم منہ تکتی رہ جاتی ہے اور اگلی بار پھر سیاسی مداریوں کے ہاتھوں فریب کھاتی ہے۔
چنانچہ کوئی تعجب کی بات نہیں 2018 میں ہونے والے عام انتخابات میں بھی بیچاری عوام نے تبدیلی کے نام پر ایک بار پھر دھوکا کھایا اور کوئی عجب نہیں کہ آیندہ پھر کوئی دھوکا کھا جائے۔مزے کی بات یہ ہے کہ ہر آنے والا حکمراں اپنی چکنی چپڑی باتوں سے عوام کو للچاتا ہے اور عوام النّاس کو الّو بنا کر رخصت ہوجاتا ہے۔وطنِ عزیز میں یہ کھلواڑ مدتِ دراز سے جاری ہے اور رہزن رہبروں کے بھیس میں آکر لوٹ مار مچا رہے ہیں۔
خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ تماشہ کب ختم ہوگا۔ بدقسمتی سے یہ مملکتِ خداداد ایک طویل عرصہ سے نااہل ضمیر فروش اور خودغرض مفاد پرست سیاستدانوں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے اور رہائی کی دور دور تک کوئی صورت نظر نہیں آرہی بس عوام جنھیں نام نہاد جمہوریت کے نام پر دھوکے پر دھوکا دیا جارہا ہے ہم خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور عالم یہ ہے کہ ٹُک ٹُک دیدم دَم نہ کَشیدم۔
ہمارے شاعر دوست عزیزؔ احسن نے وطنِ عزیز کو درپیش موجودہ صورتحال کی منظرکشی اِس تضمین کے ذریعہ کی ہے:
مجروح ہوئی روح تو احساس ہوا ہے یہ حاصلِ سرگرمیء تائیدِ جفا ہے
جھلکے ہے مرا خون ہر اک موئے بدن سے
پر دیکھنے والوں کے لیے رنگِ حنا ہے
آفات جو آئی ہیں مرے شہر پہ اِس دم
بیشک یہ مرے اپنے عمل ہی کی سزا ہے
فرعون صفت ہیں جو اوالامر مسلط
یہ مری خموشی کا بہر حال صلہ ہے
احساس کا خنجر جو اُتر آیا ہے دل میں
سر جسم پہ اپنے ہی مجھے بار لگا ہے
تکوین کے میدان میں خاموشِ خِضر ہیں
تقدیر کے خیمے میں مگر شور مچا ہے
خاروں کی محبت نے یہ ایّام دکھائے
گلشن میں ہر اک پھول ہی مرجھایا ہوا ہے
گزری تھیں بہت پہلے بھی آفات سروں سے
پر آج کی آفت کا ہر اک رنگ جدا ہے اعمال کی پاداش میں ایّام کی تلخی
اس طور بڑھی،''مرگِ طلب''ساری فضا ہے
حالیؔ کی صدا خنجرِ خوں خوار کی صورت
ہر دل میں ہے پیوست کہ از غیب''بلا''ہے
''اے خاصہ خاصانِ رسلﷺ وقتِ دعا ہے
امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے''
وطنِ عزیز ایک دوراہے پر کھڑا ہے اور سمجھ میں نہیں آرہا کہ اِس جنجال سے کیسے نجات حاصل کی جائے۔ ہر آنے والی نئی حکومت اس صورتحال کی ذمّہ دار پچھلی حکومت کو قرار دے کر خود کو بری الذمہ ٹھہرا کر اپنا دامن بچانے کی کوشش کرتی ہے اور یہ سلسلہ برسوں پرانا ہے۔ کوئی حکومت ایسی نہیں کہ جس نے قرضہ نہ لیا ہو حتٰی کے ملک کے بچّہ بچّہ کا ہر بال قرض میں جکڑا ہوا ہے۔ کسی بھی حکومت کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اِس شکنجہ سے رہائی کی کوئی تدبیر تلاش کی جائے۔ہر ایک کا وطیرہ یہی رہا کہ بقولِ غالبؔ:
قرض کی پیتے تھے مے، لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
اب حالت یہ ہے کہ قرض اتارنا تو کُجا قرض کے بدلے سود ادا کرنے کے لیے بھی قرض لینے پر مجبور ہیں اور قرض دینے والے اداروں کی للّو چَپّو کرنا پڑ رہی ہے اور اپنی خودداری کا سودا کر رہے ہیں۔
ہم نے جو بھی قرضہ لیے انھیں تعمیر اور ترقی کے کاموں میں صرف کرنے کے بجائے اَلَلّے تللوں میں اُڑا دیا جس کا انجام یہ ہے کہ آج ہمارے پاس کوئی چوائس باقی نہیں رہی اور یہ بات سچ ثابت ہوئی کہ: Beggars are not choosers
بھکاری اپنی مرضی سے کچھ نہیں کرسکتے۔ کشکول برداری ہماری ہر حکومت کا چلن بن چکا ہے اور ہمیں مانگتے ہوئے شرم بھی نہیں آتی۔
ممتاز و معروف ادیب ابراہیم جلیس مرحوم نے آزادی سے قبل کہ ہندوستان کی معاشی بدحالی کے موضوع پر ایک زبردست کتاب لکھی تھی جس کا عنوان تھا '' چالیس کروڑ بھکاری'' ۔ یاد رہے کہ اُس وقت غیر منقسم ہندوستان کی کُل آبادی چالیس کروڑ کے لگ بھگ تھی۔
اب اگر اِس عنوان کو پاکستان کے تناظر میں دوہرایا جائے تو اِس عنوان میں صرف تعداد کی ترمیم کرکے چالیس کی جگہ بائیس کے ہندسہ کا استعمال کرنا ہوگا۔اب آپ ہی بتائیے کہ عزّتِ نفس یا خودداری کا سوال کہاں پیدا ہوتا ہے۔ایک سابقہ حکومت نے جس نے اب موجودہ حکومت کا چولا پہنا ہے ایک ملک گیر مہم چلائی تھی جس کا عنوان تھا''قرض اتارو ملک سنوارو'' ۔ عوام کا حافظہ چونکہ کمزور ہوتا ہے اسی لیے ماضی بعید کی باتیں آسانی سے یاد نہیں رہتیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ نئی حکومت کیا حکمتِ عملی اختیار کرتی ہے اور خزانہ خالی ہونے کے بہانے عوام کو بہلانے کے لیے کونسا حربہ استعمال کرتی ہے۔
جہاں تک عوام کا تعلق ہے وہ بیروزگاری اور غربت کی دلدل سے باہر نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں اور حکومتِ وقت کی طرف نظریں لگائے ہوئے اچھے وقت کا انتظار کررہے ہیں۔اس وقت ملک ایک عبوری دور سے گزر رہا ہے اور محض قیاس آرائیوں کے بَل پر چل رہا ہے اور یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ آیندہ عام انتخابات ہونگے بھی یا نہیں اور اگر ہونگے بھی تو اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اور یہ کہ الیکشن کتنے صاف اور شفاف ہونگے اور اِن کے نتائج سب مانیں گے بھی یا نہیں۔ بہرحال قوم سے فی الوقت یہی کہا جاسکتا ہے
پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ