فوری انتخابات ممکن نہیں

کیا معاشی بحران سے راہ فرار ایک بہتر سیاسی حکمت عملی قرار دی جا سکتی ہے


[email protected]

ISLAMABAD: عمران خان ملک میں فوری انتخابات کے لیے ایک مہم چلا رہے ہیں۔ ایسے میں کیا عمران خان کے سیاسی مخالفین ان کی خواہش پر ملک میں فوری انتخابات کا اعلان کر سکتے ہیں۔

مجھے ممکن نظر نہیں آتا۔ اس دلیل میں بھی کوئی وزن نہیں ہے کہ ملک میں سخت معاشی بحران ہے اس لیے اس بحران سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے ملک میں فوری انتخابات کا اعلان کر دیا جائے۔ کیا معاشی بحران سے راہ فرار ایک بہتر سیاسی حکمت عملی قرار دی جا سکتی ہے۔

کیا کوئی سیاسی جماعت اپنے ووٹر کو یہ بتائے گی کہ ملک میں شدید سیاسی بحران تھا اس لیے اس نے حکومت چھوڑ دی۔ یہ ووٹر کے اعتماد کو کمزور کرنے والی بات ہے۔ اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ مسلم لیگ (ن) جو اس وقت حکومت کی ڈرائیونگ سیٹ پر ہے ملک میں فوری انتخابات کا اعلان کر سکتی ہے۔

کیا میاں نواز شریف ملک میں فوری نئے انتخابات کے حق میں ہیں؟ میں نہیں سمجھتا کہ میاں نواز شریف جو ملک کے تین دفعہ وزیر اعظم رہ چکے ہیں' سیاسی نشیب و فراز سے بخوبی واقف ہیں' انھیں اقتدار ملنے اور اقتدار کھونے کے محرکات کا بھی بخوبی علم ہے وہ ملک میں فوری نئے انتخابات کے حق میں ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے سیاسی تجزیہ نگار جو اندازے لگا رہے ہیں وہ درست نہیں ہیں۔ میاں نواز شریف کو اندازہ ہے کہ اقتدار میں واپسی کس قدر مشکل ہے ۔

اس لیے اقتدار کو سنبھالنا کتنا ضروری ہے۔ پھر ابھی نواز شریف کی وطن واپسی بھی ممکن نہیں ہوئی ہے۔ وہ لندن میں بیٹھ کر ملک میں انتخابات کافیصلہ کیسے کر سکتے ہیں۔ ان کی خواہش ہو گی کہ ملک میں اگلے انتخابات سے قبل وہ ملک میں ہوں۔ اگر نااہلی ختم نہ بھی ہو تب بھی وہ ملک میں خود موجود ہوں۔ کم از کم مریم نواز کو کلین چٹ تو مل جائے۔ اس سے قبل انتخابات ان کے مفاد میں بھی نہیں ہیں۔

فوری انتخابات مسلم لیگ (ن) کے لیے کوئی آسانی نہیں لائیں گے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک کم ہو گیا ہے۔ بلکہ مسلم لیگ (ن) کو عمران خان کے پیدا کردہ بحران سے نکلنے کے لیے جو وقت درکار ہے، انھیں وہ لینا چاہیے۔

بہت شور کیا جا رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے شدید دباؤ میں آگئی ہے۔ اس لیے اسٹیبلشمنٹ نے ملک میں فوری نئے انتخابات کا فیصلہ کر لیاہے۔ مجھے اس منطق میں بھی کوئی جان نظر نہیں آتی ہے۔ اسٹبلشمنٹ کوئی موم کی گڑیا نہیں ہے کہ چند جلسوں سے دباؤ میں آگئی ہے یا عمران خان کی دھمکیو ں سے دباؤ میں آگئی ہے یا عمران خان کے مارچ سے دباؤ میں آگئی ہے۔ یہ ریاست پاکستان کی اسٹبلشمنٹ ہے۔

اس نے پہلے بھی بہت سے نشیب وفراز دیکھے ہیں۔ انھیں سیاسی قیادت کے دباؤ کو زائل یا ہینڈل کرنا آتا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کی اسٹبلشمنٹ ابھی تک اے پولیٹیکل ہے۔ اس لیے اس نے عمران خان کو سیاسی طور پر مارجنلائیزکرنے کا عمل شروع ہی نہیں کیا ہے۔ وہ باہر بیٹھ کر تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ اس لیے مجھے اس منطق میں کوئی وزن نہیں لگتا کہ عمران خان کے چند جلسوں سے اسٹبلشمنٹ نے اپنا پلان تبدیل کر لیا ہے۔ اور گھبرا کر ملک میں فوری انتخابات کا فیصلہ کر لیا ہے۔

پاکستان اس وقت جس قدر شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔اس میں بھی فوری انتخابات مسائل کا کوئی حل نہیں ہے۔ اگر موجودہ حکومت کا ایک ماہ مشکل ہو رہا ہے ۔ تو پاکستان تین ماہ کی نگران حکومت کا کیسے متحمل ہو سکتا ہے۔ اگر ایک تجربہ کار سیاسی حکومت کو موجودہ مسائل سے نبٹنے میں مشکل ہو رہی ہے۔ اگر آئی ایم ایف ایک آئینی و قانونی حکومت سے ڈیل نہیں کر رہا ہے تو نگران حکومت سے کیسے ڈیل ہوگی۔ اگر عدم اعتماد کا ایک ماہ کا بحران ملک کو معاشی مسائل میں دھکیل گیا ہے تو تین ماہ کی کمزور نگران حکومت کیا کرے گی۔

دوست یہ بات بھی بھول جاتے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے پورے ملک کو بتایا ہے کہ سات ماہ تک ملک میں نئے انتخابات ممکن نہیں ہیں۔ پھر تحریک انصاف نے ملک میں نئی حلقہ بندیوں کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کر دی ہے۔ پتہ نہیں اس میں سپریم کورٹ کیا فیصلہ کیا ہو گا۔ لیکن ملک میں الیکشن کمیشن کی مرضی کے بغیر فوری نئے انتخابات کا اعلان بھی کوئی دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہوگا۔ ویسے بھی الیکشن کمیشن اس وقت مکمل نہیں ہے۔

عمران خان روز نا مکمل الیکشن کمیشن پر اعتراض کر رہے ہیں۔ جب کہ انھیں علم ہے کہ ان کے تعاون کے بغیر الیکشن کمیشن مکمل بھی نہیں ہو سکتا۔ وہ روزانہ الیکشن کمیشن پر بھی اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس لیے جب تک الیکشن کمیشن ملک میں شفاف انتخابات کے لیے مکمل تیار نہ ہو جائے نئے انتخابات کا اعلان کیسے ممکن ہے۔ موجودہ حکومتی اتحاد انتخابی اصلاحات کرنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے۔

ای وی ایم اور اوور سیز کے ووٹ ختم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ کیا ان انتخابی اصلاحات کے بعد عمران خان انتخابات کے حق میں ہونگے۔ یہ بھی دیکھنے کی بات ہے کہ ان انتخابی اصلاحات کے بعد عمران خان کا انتخابات کے حوالے سے کیا موقف ہوتا ہے۔ ابھی تو وہ موجودہ اصلاحات کے ساتھ ہی انتخابات چاہتے ہیں۔ لیکن جب ان کی اصلاحات ختم ہو جائیں گی پھر وہ کیا کریں گے۔

عمران خان ملک میں ایک مارچ کا اعلان کر رہے ہیں۔ وہ اس مارچ سے موجودہ حکومت کو گرانا چاہتے ہیں۔ وہ اس مارچ کے ذریعے ملک میں فوری انتخابات کا اعلان چاہتے ہیں۔ کیا حکمران جماعت کے لیے یہ بہتر سیاسی حکمت عملی نہیں کہ پہلے عمران خان کا مارچ گزر جائے۔ پہلے وہ اس سے نبرد آزما ہو جائیں۔ عمران خان جو دھرنا دینا چاہتے ہیں وہ دے دیں۔ کیا عمران خان کے مخالفین کے لیے یہ بہتر نہیں ہوگا کہ وہ پہلے عمران خان کے تمام سیاسی حملے کو ناکام بنا دیں۔ جب عمران خان شکست کھا کر تھک جائیں۔ جب ان کا ووٹر بھی اس نتیجے پر پہنچ جائے کہ وہ ناکام ہو گئے ہیں۔

اور عمران خان کچھ نہیں کر سکتے ہیں تب ہی ملک میں نئے انتخابات کی بات کی جائے۔ پاپولر عمران خان کے ساتھ انتخابات میں جانا کوئی سیاسی دانشمندی ہو گی۔ اس لیے موجودہ حکومت کے لیے فوری انتخابات کا فیصلہ ممکن نہیں۔

عمران خان تو چاہیں گے کہ ایک رائے بن جائے کہ موجودہ حکومت ملک کو سنبھالنے کے قابل ہی نہیں ہے۔ وہ مسائل کو حل کرنے کے بجائے بھاگ رہی ہے۔ اسٹبلشمنٹ بھی ان کے سامنے سرنگوں ہو۔

اس لیے پاکستان کا واحد آپشن انھیں اقتدار میں واپس لانا ہی ہے۔ لیکن اگر حکومت ڈیلیور کرنے کی کوشش کرے۔ اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا واضح اعلان کر دے۔ انتخابات کے حوالے سے ابہام ختم کر دے تو سیاسی منظر نامہ بدل جائے گا۔ابہام حکومت کے مفاد میں نہیں ہے۔ ابہام عمران خان کے مفاد میں ہے۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسی کے تناظر میں سیاسی فیصلہ ہی بہتر فیصلے ہونگے۔

مسلم لیگ (ن) کو سمجھنا چاہیے کہ ابھی ان کے پاس ڈیڑھ سال کی مدت ہے جو کافی ہوتی ہے۔ اگر کچھ کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ کافی مدت ہے۔ اس مدت کو پوری طرح استعمال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ موجودہ منظر نامہ کے سحر میں گرفتار ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ نئے انتخابات کو وقت پر ہونے دینے میں ہی پاکستان مسلم لیگ (ن) کا سیاسی فائدہ نظر آتا ہے۔ لیکن سیاسی جماعتیں خود ہی اپنے خلاف فیصلے بھی کرتی ہیں۔ تب ہی انھیں سیاسی نقصان ہوتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں