فیکٹری کی الاٹمنٹ منسوخ مالک کو گرفتار کرنیکی کوششیں تحقیقاتی ٹریبونل قائم
جسٹس (ر) قربان علوی کی سربراہی میں ٹریبونل 7دن میں رپورٹ پیش کریگا، فیکٹری مالکان کے خلاف مقدمہ درج
بلدیہ ٹاؤن میں فیکٹری میں آتشزدگی سے سیکڑوں افراد کی ہلاکت کی تحقیقات کیلیے انکوائری ٹریبونل قائم کردیا گیا۔
فیکٹری کی الاٹمنٹ اور این او سی منسوخ کرکے مالک کیخلاف مقدمہ درج کر کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرلیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ کی ہدایت پر محکمہ داخلہ سندھ نے سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے حوالے سے جسٹس (ر) زاہد قربان علوی کی سربراہی میں انکوائری ٹریبونل قائم کردیا جو واقعے کے اسباب، ذمے داروں کا تعین اور نقصانات کی رپورٹ 7دن میں سندھ حکومت کو پیش کردے گا۔ ایم ڈی سائٹ عبدالرشید سولنگی نے کہا ہے کہ سانحہ کا شکار فیکٹری کی الاٹمنٹ منسوخ کردی گئی ہے جب کہ فیکٹری کے مالک عبدالعزیز ولد محمد علی کو گرفتار کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
مذکورہ فیکٹری کو 30-09-1997 کو ٹرانسفر کیا گیا اور چند روز بعد 14-10-1997 کو لیز کردیا گیا تھا۔ڈرائنگ کی منظوری 07-11-2009 کو دی گئی جس کے مطابق فیکٹری میں متعدد خارجی راستے تھے۔ فیکٹری مالک نے انھیں کیوں بند کیا اس کا جواب اس کی گرفتاری کے بعد حاصل ہوسکے گا۔ فیکٹری تقریباً 3 ہزار گز سے زائد پر محیط تھی۔ فائر فائٹر نظام کی چیکنگ سول ڈیفنس، بجلی کے معاملات کی ذمے داری الیکٹریکل انسپیکٹریٹ اور دیگر معاملات ڈائریکٹوریٹ آف محنت کو چیک کرنے چاہئیں تھے۔
جائے حادثہ کو دورہ کرنے والے صوبائی وزیر صنعت و تجارت رؤف صدیقی نے میڈیا کو بتایا ککہ فیکٹری کا این او سی منسوخ کردیا ہے اور مالکان کو ہدایت کی گئی ہے کہ جاں بحق ہونے والے ورکرز اور زخمیوں کو فی کس 5لاکھ روپے ہرجانے کے طور پر ادا کرے بصورت دیگر فیکٹری کی زمین نیلام کر کے متاثرین کو معاوضہ ادا کردیا جائے گا۔ انھوں نے بتایا کہ میسرز عبدالعزیز علی محمد گارمنٹس فیکٹری کے مالک کیخلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے فیکٹری مالکان نے مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کیا جس کی وجہ سے سیکڑوں انسانی جانیں ضائع ہوگئیں۔
فیکٹری میں ایمرجنسی کی صورت میں کسی قسم کا حفاظتی انتظام نہ ہونا قانونی طور پر ایک سنگین جرم ہے۔ انھوں نے کہا کہ حفاظتی اقدامات چیک کرنا سول ڈیفنس، ہوم ڈپارٹمنٹ اور لیبر ڈپارٹمنٹ کی ذمے داری ہے لیکن اب صوبائی وزیر صنعت خود سیکریٹری انڈسٹریز، ایم ڈی سائٹ اور ڈائر یکٹر انڈسٹریز اپنی اپنی ٹیموں کے ساتھ فیکٹریز پر اچانک چھا پہ ماریں گے اور اگر سیفٹی کے حوالے سے کوئی کمی پائی گئی تو نہ صرف ان کے لائسنس منسوخ کیے جائیں گے بلکہ ان پر بھاری جرمانے بھی عائد کیے جائیں گے۔ رئوف صدیقی نے مزید بتایا کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین، وزیراعلی سندھ اور گورنر سندھ المناک سانحے کی خبر لے رہے ہیں میں الطاف حسین کی جانب سے اس سانحے کی رپورٹ حکومتی سطح پر 3 دن میں طلب کرنے کے فیصلے کا خیرمقدم کرتا ہوں۔
گورنر سندھ نے آج سندھ میں یوم سوگ کا اعلان بھی کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سائٹ لمیٹڈ کے افسران کو فوری ہدایات جاری کی ہیں کہ کراچی سمیت پورے سندھ میں ہر فیکٹری کا معائنہ کریں اور جہاں کہیں بھی حفاظتی انتظامات موجود نہ ہوں ان کے الاٹمنٹ منسوخ کریں۔ میں نے بحیثیت وزیر صنعت و تجارت وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ سے درخواست کی ہے کہ آتشزدگی کے اس المناک سانحے میں جاں بحق ہونے والوں کو 5لاکھ روپے فی کس اور زخمی ہونے والوں کو دولاکھ روپے فی کس ادا کیے جائیں،گورنر سندھ کی ہدایت پر تحقیقات کے لیے ڈپٹی کمشنر ویسٹ گہنور علی لغاری کی سربراہی میں 2 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو3دن میں رپورٹ پیش کرے گی۔
سول ڈیفنس یا لیبر ڈیپارٹمنٹ سمیت کسی بھی ادارے کی کو تاہی یا لاپرواہی ثابت ہوئی تو اس کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔ انہوں نے میڈیا کو مزید بتایا کہ تمام ڈپٹی کمشنرز اپنے اپنے ماتحتوں کے ہمراہ رات بھر سے مذکورہ مقامات پر موجود رہے اور امدادی کاموں کی نگرانی کرتے رہے۔ کمشنر کراچی نے کہا کہ حادثے کا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ آگ لگنے کے بعد فیکٹری کے ذمے داران محنت کشوں کی جان بچانے کے بجائے فیکٹری کا سامان بچانے میں مصروف رہے اور اس کام کے لیے انھوں نے محنت کشوں کو مصروف رکھا۔ سامان رکھ کر گزرنے کے راستے کو تنگ اور بعض مقامات کو بند کردیا گیاتھا جس کی وجہ سے محنت کش اپنی جان بچانے کے لیے بروقت نہ نکل سکے اگر فیکٹری کے تمام دروازے کھول دیے جاتے اور جگہ کو سامان رکھ کر تنگ نہ کیا جاتا تو بیشتر لوگوں کی جانیں بچائی جا سکتی تھیں اور اموات کو کم کیا جاسکتا تھا۔
علاوہ ازیں بلدیہ ٹاؤن حب ریور روڈ پر واقع گارمنٹس فیکٹری علی انٹر پرائزز میں آگ لگنے اور اس میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کا مقدمہ نمبر 343/12 بجرم دفعات 302/34 ، 337 ، 322 ، 435 اور 436 کے تحت بذریعہ سرکار 3 نامزد مالکان بھائیوں کے خلاف درج کرلیا ، ایس ایس پی ویسٹ عامر فاروقی نے بتایا کہ مقدمے میں فیکٹری مالکان عبدالعزیز بھائیلا ، شاہد بھائیلا اور ارشد بھائیلا کو نامزد کیا گیا ہے جبکہ پولیس نے ان کی گرفتاری کے لیے متعدد مقامات پر بھی چھاپے مارے ہیں ، انھوں نے بتایا کہ ابتدائی طور پر فیکٹری سے کود کر جانے بچانے کے دوران زخمی ہونے والے افراد کے بیانات قلمبند کیے جا رہے ہیں ۔
دریں اثنا آئی جی سندھ فیاض لغاری کی جانب سے بلدیہ ٹاؤن میں واقع فیکٹری میں آتشزدگی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کے واقعہ کی جامع تحقیقات کی ہدایات پر ایڈیشنل آئی جی کراچی اقبال محمود ڈی آئی جی سی آئی اے منظور مغل کی سربراہی میں ایس ایس پی کرائم انویسٹی گیشن ثاقب سلطان ، ایس ایس پی ایس آئی یو فاروق اعوان اور ایس ایس پی ویسٹ عامر فاروقی پر مشتمل ایک چار رکنی تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی ہے ، آئی جی سندھ نے انکوائری کمیٹی کو ہدایات جاری کی ہیں کہ آتشزدگی کے واقعہ کی تفتیش اور چھان بین کے تمام پہلوؤں و دیگر ضروری امور میں فارنسک ڈویژن کو بھی شامل کیا جائے ، انھوں نے حادثے کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کو ہدایات دی ہیں کہ تفتیش میں ہونے والی پیش رفت سے روزانہ کی بنیاد پر آگاہ کیا جائے ۔
فیکٹری کی الاٹمنٹ اور این او سی منسوخ کرکے مالک کیخلاف مقدمہ درج کر کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرلیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ کی ہدایت پر محکمہ داخلہ سندھ نے سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے حوالے سے جسٹس (ر) زاہد قربان علوی کی سربراہی میں انکوائری ٹریبونل قائم کردیا جو واقعے کے اسباب، ذمے داروں کا تعین اور نقصانات کی رپورٹ 7دن میں سندھ حکومت کو پیش کردے گا۔ ایم ڈی سائٹ عبدالرشید سولنگی نے کہا ہے کہ سانحہ کا شکار فیکٹری کی الاٹمنٹ منسوخ کردی گئی ہے جب کہ فیکٹری کے مالک عبدالعزیز ولد محمد علی کو گرفتار کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
مذکورہ فیکٹری کو 30-09-1997 کو ٹرانسفر کیا گیا اور چند روز بعد 14-10-1997 کو لیز کردیا گیا تھا۔ڈرائنگ کی منظوری 07-11-2009 کو دی گئی جس کے مطابق فیکٹری میں متعدد خارجی راستے تھے۔ فیکٹری مالک نے انھیں کیوں بند کیا اس کا جواب اس کی گرفتاری کے بعد حاصل ہوسکے گا۔ فیکٹری تقریباً 3 ہزار گز سے زائد پر محیط تھی۔ فائر فائٹر نظام کی چیکنگ سول ڈیفنس، بجلی کے معاملات کی ذمے داری الیکٹریکل انسپیکٹریٹ اور دیگر معاملات ڈائریکٹوریٹ آف محنت کو چیک کرنے چاہئیں تھے۔
جائے حادثہ کو دورہ کرنے والے صوبائی وزیر صنعت و تجارت رؤف صدیقی نے میڈیا کو بتایا ککہ فیکٹری کا این او سی منسوخ کردیا ہے اور مالکان کو ہدایت کی گئی ہے کہ جاں بحق ہونے والے ورکرز اور زخمیوں کو فی کس 5لاکھ روپے ہرجانے کے طور پر ادا کرے بصورت دیگر فیکٹری کی زمین نیلام کر کے متاثرین کو معاوضہ ادا کردیا جائے گا۔ انھوں نے بتایا کہ میسرز عبدالعزیز علی محمد گارمنٹس فیکٹری کے مالک کیخلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے فیکٹری مالکان نے مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کیا جس کی وجہ سے سیکڑوں انسانی جانیں ضائع ہوگئیں۔
فیکٹری میں ایمرجنسی کی صورت میں کسی قسم کا حفاظتی انتظام نہ ہونا قانونی طور پر ایک سنگین جرم ہے۔ انھوں نے کہا کہ حفاظتی اقدامات چیک کرنا سول ڈیفنس، ہوم ڈپارٹمنٹ اور لیبر ڈپارٹمنٹ کی ذمے داری ہے لیکن اب صوبائی وزیر صنعت خود سیکریٹری انڈسٹریز، ایم ڈی سائٹ اور ڈائر یکٹر انڈسٹریز اپنی اپنی ٹیموں کے ساتھ فیکٹریز پر اچانک چھا پہ ماریں گے اور اگر سیفٹی کے حوالے سے کوئی کمی پائی گئی تو نہ صرف ان کے لائسنس منسوخ کیے جائیں گے بلکہ ان پر بھاری جرمانے بھی عائد کیے جائیں گے۔ رئوف صدیقی نے مزید بتایا کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین، وزیراعلی سندھ اور گورنر سندھ المناک سانحے کی خبر لے رہے ہیں میں الطاف حسین کی جانب سے اس سانحے کی رپورٹ حکومتی سطح پر 3 دن میں طلب کرنے کے فیصلے کا خیرمقدم کرتا ہوں۔
گورنر سندھ نے آج سندھ میں یوم سوگ کا اعلان بھی کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سائٹ لمیٹڈ کے افسران کو فوری ہدایات جاری کی ہیں کہ کراچی سمیت پورے سندھ میں ہر فیکٹری کا معائنہ کریں اور جہاں کہیں بھی حفاظتی انتظامات موجود نہ ہوں ان کے الاٹمنٹ منسوخ کریں۔ میں نے بحیثیت وزیر صنعت و تجارت وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ سے درخواست کی ہے کہ آتشزدگی کے اس المناک سانحے میں جاں بحق ہونے والوں کو 5لاکھ روپے فی کس اور زخمی ہونے والوں کو دولاکھ روپے فی کس ادا کیے جائیں،گورنر سندھ کی ہدایت پر تحقیقات کے لیے ڈپٹی کمشنر ویسٹ گہنور علی لغاری کی سربراہی میں 2 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو3دن میں رپورٹ پیش کرے گی۔
سول ڈیفنس یا لیبر ڈیپارٹمنٹ سمیت کسی بھی ادارے کی کو تاہی یا لاپرواہی ثابت ہوئی تو اس کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔ انہوں نے میڈیا کو مزید بتایا کہ تمام ڈپٹی کمشنرز اپنے اپنے ماتحتوں کے ہمراہ رات بھر سے مذکورہ مقامات پر موجود رہے اور امدادی کاموں کی نگرانی کرتے رہے۔ کمشنر کراچی نے کہا کہ حادثے کا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ آگ لگنے کے بعد فیکٹری کے ذمے داران محنت کشوں کی جان بچانے کے بجائے فیکٹری کا سامان بچانے میں مصروف رہے اور اس کام کے لیے انھوں نے محنت کشوں کو مصروف رکھا۔ سامان رکھ کر گزرنے کے راستے کو تنگ اور بعض مقامات کو بند کردیا گیاتھا جس کی وجہ سے محنت کش اپنی جان بچانے کے لیے بروقت نہ نکل سکے اگر فیکٹری کے تمام دروازے کھول دیے جاتے اور جگہ کو سامان رکھ کر تنگ نہ کیا جاتا تو بیشتر لوگوں کی جانیں بچائی جا سکتی تھیں اور اموات کو کم کیا جاسکتا تھا۔
علاوہ ازیں بلدیہ ٹاؤن حب ریور روڈ پر واقع گارمنٹس فیکٹری علی انٹر پرائزز میں آگ لگنے اور اس میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کا مقدمہ نمبر 343/12 بجرم دفعات 302/34 ، 337 ، 322 ، 435 اور 436 کے تحت بذریعہ سرکار 3 نامزد مالکان بھائیوں کے خلاف درج کرلیا ، ایس ایس پی ویسٹ عامر فاروقی نے بتایا کہ مقدمے میں فیکٹری مالکان عبدالعزیز بھائیلا ، شاہد بھائیلا اور ارشد بھائیلا کو نامزد کیا گیا ہے جبکہ پولیس نے ان کی گرفتاری کے لیے متعدد مقامات پر بھی چھاپے مارے ہیں ، انھوں نے بتایا کہ ابتدائی طور پر فیکٹری سے کود کر جانے بچانے کے دوران زخمی ہونے والے افراد کے بیانات قلمبند کیے جا رہے ہیں ۔
دریں اثنا آئی جی سندھ فیاض لغاری کی جانب سے بلدیہ ٹاؤن میں واقع فیکٹری میں آتشزدگی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کے واقعہ کی جامع تحقیقات کی ہدایات پر ایڈیشنل آئی جی کراچی اقبال محمود ڈی آئی جی سی آئی اے منظور مغل کی سربراہی میں ایس ایس پی کرائم انویسٹی گیشن ثاقب سلطان ، ایس ایس پی ایس آئی یو فاروق اعوان اور ایس ایس پی ویسٹ عامر فاروقی پر مشتمل ایک چار رکنی تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی ہے ، آئی جی سندھ نے انکوائری کمیٹی کو ہدایات جاری کی ہیں کہ آتشزدگی کے واقعہ کی تفتیش اور چھان بین کے تمام پہلوؤں و دیگر ضروری امور میں فارنسک ڈویژن کو بھی شامل کیا جائے ، انھوں نے حادثے کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کو ہدایات دی ہیں کہ تفتیش میں ہونے والی پیش رفت سے روزانہ کی بنیاد پر آگاہ کیا جائے ۔