کیا نئی حکومت پُرعزم اور یکسُو ہے
کپتان کی بیساکھیاں ہٹتے ہی اس کے اتحادیوں نے اپنا ٹھکانہ بدل لیا اور وہ اکثریت سے محروم ہوگیا
QUETTA:
پاکستانی قوم کے بارے میں یہ حُسنِ ظن ضرور تھا کہ پچھتر سال کے بعد اب اس میں خیر اور شر، کھرے اور کھوٹے اور حقیقت اور سراب کو پہچاننے کی صلاحیت ضرور ہوگی، مگر یہ اندازہ نہیں تھا کہ ایک سیاسی لیڈر نوجوانوں کی اکثریت کو ہوائی نعروں، بے بنیاد الزامات اور پرجوش تقریروںسے اپنا پیروکار بنانے میں کامیاب ہوجائے گا۔
ساری ٹیکنیکس ہٹلر والی استعمال کی جارہی ہیں کہ مخالفین کو صرف مخالف نہ کہوبلکہ انھیں ڈاکو اور غدار جیسے گھناؤنے القاب دیکر عوام کی نظروں میں قابلِ نفرت بنادو اور پھر یہ القاب اور الزامات اتنے تسلسل اور تواتر سے دھراؤکہ لوگ یقین کرلیں۔
امریکی سازش کے الزام کی خود عمران صاحب کئی بار نفی کرچکے ہیں، کیونکہ سابق سفیر نے مراسلہ 7مارچ کو بھیجا تھا، جب کہ عمران صاحب نے بتایا ہے کہ انھیں پچھلے سال جون میں اپوزیشن کی تحریک کا پتہ چل گیا تھا۔
ان کے سب سے قریبی وزیر اعتراف کرچکے ہیں کہ ''ہمارے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات ٹھیک رہتے تو ہم حکومت سے محروم نہ ہوتے''۔ اس کے علاوہ 7مارچ کو مراسلہ موصول ہونے کے بعد اگر حکومت کو اس میں سازش کی بو محسوس ہوتی تو اس سے گزشتہ روز امریکی سفیر کو طلب کرکے احتجاج کیا جاتا، اگر معاملہ بہت سنگین ہوتا تو سفیر کو ملک سے نکال دیا جاتا مگر عمران صاحب نے ایسا کچھ نہیں کیا۔
تین ہفتے تک امریکا کا نام تک نہیں لیا بلکہ اسلامی کانفرنس میں امریکی وفد کو بلا کر ان کی آؤبھگت کرتے رہے اور 27مارچ کو ایک دم خط نکال کر لہرادیا اور کہا میرے خلاف عدمِ اعتماد امریکا کرارہا ہے کیونکہ میں نے امریکا کو چیلنج کیا تھا۔
ممکن ہے کہ عالمِ خواب و خیال میں کپتان صاحب نے امریکا کو چیلنج کیا ہو، حقیقی دنیا میں تو وہ پونے چار سال امریکا کی خوشنودی کے لیے سرگرداں رہے اور اس کی مکمل طور پر اطاعت کرتے رہے بلکہ اس بات کے لیے کوشاں رہے کہ کسی طریقے سے ہمارا سفیر ترلہ منت کرکے امریکی صدر کو منالے کہ وہ کپتان صاحب کو ایک عدد کال یا مِس کال ہی کردے، لیکن حیرت ہے کپتان صاحب کے پیروکاروں اور اطاعت گزاروں پر(جو یقیناً کپتان صاحب کو اب ایک روحانی پیشوا کا درجہ دیتے ہیں( کہ اُدھر کپتان نے خط لہرایااُدھر ان کے پیروکاروں نے (حقائق جانے یا سمجھے بغیر) امریکا مردہ باد کا نعرہ لگادیا۔
خود عمران صاحب کے وزیرِخارجہ اور مشیر وں نے امریکا مردہ باد کہنے سے انکار کردیا، آدھے سے زیادہ مشیروں نے شہریت کے لیے امریکا سے وفاداری کا حلف اُٹھایا ہوا ہے اور ان کی فیملی، بچے، ان کی نوکریاں، اور بزنس امریکا میں ہے، عید منانے بھی وہ امریکا گئے تھے مگر کپتان نے پیروکاروں سے کہا کہ لگاؤ نعرہ کہ نئی حکومت امپورٹڈ ہے اور یہ امریکا لایا ہے تو انھوں نے امپورٹڈ حکومت نا منظور کے نعرے لگانے شروع کردیے۔
ایسا کیوں ہے؟ عوام کی شعور کی سطح اتنی پست کیوں ہے؟ پڑھے لکھے حلقوں میں یہ سوال زیرِ بحث ہے، کچھ صاحبانِ دانش کا خیال ہے کہ مسلسل پراپیگنڈے سے لوگوں کے ذہنوں میںیہ بٹھادیا گیا ہے کہ عمران خان کے سیاسی مخالفین چور اور ڈاکو ہیں، کچھ سمجھتے ہیں کہ کرکٹ کے زمانے سے عوام کے ایک طبقے خصوصاً نوجوانوں کا عمران خان کے ساتھ ایک رومان قائم ہوچکا ہے، کچھ کا خیال ہے کہ آزادی اور خودمختاری جیسے Catchy Slogans تیسری دنیا کے ممالک میں بہت مقبول ہوجاتے ہیں۔
مگر بہت سے لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ متحدہ اپوزیشن کی حکومت سیاسی محاذ پر عمران خان کو موثر انداز میں جواب نہیں دے رہی اور کوئی پاور فل بیانیہ سامنے نہیں لاسکی۔ عمران خان کی کارکردگی اور طرزِعمل کے نقادوں کی تعداد بھی کم نہیں۔
ان میں سے بہت سوں کا کہنا ہے کہ کپتان صاحب کے اصلی اسکینڈل عوام کے سامنے لائے جائیں تاکہ عوام کو ان کی اصلیت اور ''روحانی کرشموں'' کا پتہ چلے، مگر حکومت گو مگو کا شکار لگتی ہے، خصوصاً مسلم لیگ ن مدافعانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے اور کپتان صاحب کے کردار کے بارے میں بات کرنے سے ہچکچاتی ہے۔ حالانکہ کپتان صاحب اور ان کے ساتھیوں نے مسلم لیگی قیادت کے خلاف سچے کیا جھوٹے الزامات لگانے سے کبھی گریز نہیں کیا۔
خود عمران خان نے اور ان کے قریب ترین ساتھیوں نے ملک کے سپریم لاء یعنی آئین کو پامال کیا ہے مگر نئی حکومت اس آئین شکنی کے جرم پرکوئی کارروائی نہیں کرسکی۔
عدمِ اعتماد کی تحریک پیش ہونے کے فوراً بعد کسی اینکر نے محترم اعتزاز احسن سے پوچھا تھا کہ اگر اسپیکر ووٹنگ کرانے سے انکار کردے تو؟ یہ سن کر اعتزاز صاحب کو ایک جھٹکا سا لگا تھا، یعنی یہ بات ان کے یا کسی بھی قانون دان کے لیے ناقابلِ فہم تھی کہ اسپیکر اپنی آئینی ذمے داری ادا کرنے سے انکار بھی کرسکتا ہے۔
کچھ وقفے کے بعد انھوں نے اور پھر کئی سینئر وکلاء نے کہا کہ اگر اسپیکر ایسا کرے گا تو جرم کا مرتکب ہوگا اور اس کے خلاف کیس درج ہوجائے گا۔ سوال یہ ہے کہ حکومت ڈپٹی اسپیکر کے خلاف کیس کیوں نہیں درج کراسکی۔
صدر کا وزیرِاعظم اور وزراء سے حلف لینے کے سوا اور کوئی کام نہیں ہے، صدر اور گورنر پنجاب نے عمران خان کے کہنے پر اپنی یہ آئینی ذمے داری ادا کرنے سے انکار کردیا اور جواز یہ پیش کیا کہ وزیرِاعظم یا وزیرِاعلیٰ کا الیکشن درست نہیں ہوا۔ تمام آئینی ماہرین کی یہ متفقہ رائے ہے کہ جب ان کے پاس نوٹیفیکیشن پہنچ جائے تو وہ حلف لینے کے پابند ہیں، الیکشن کی جانچ پرکھ اور درستگی اور نادرستگی دیکھنا ان کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔
اگر وہ قائدِایوان کے الیکشن کی veracity چیک کرنے بیٹھ جائیں تو پھر کوئی وزیرِاعظم حلف نہیں اُٹھا سکے گا اور کوئی حکومت نہیں بن سکے گی، صدر پرانی حکمران جماعت کا ہوگا اور اگر وزیرِاعظم نئی پارٹی کا منتخب ہوجائے تو صدر (ڈپٹی اسپیکر سُوری کی طرح) یہ کہہ دے کہ منتخب ہونے والی پارٹی تو ملک سے ہی وفادار نہیں۔
لہٰذا میں قائدِایوان کا الیکشن تسلیم نہیں کرتا اور وزیرِاعظم سے حلف نہیں لوںگا۔ کیا اس طرح کاروبارِ مملکت چل سکتا ہے؟ جمہوریت کے بانیوں اور آئین سازوں نے غالباً یہ نہیں سوچا تھا کہ پاکستان میں کسی وقت آئین ایک ایسے گروہ کے ہتھے چڑھ جائے گا جو کسی قانون، قاعدے اور rule of game کو نہیں مانے گا اور ہر قدم پر آئین کو پامال کرے گا۔ سابق وزیرِاعظم اور ان کے ساتھیوں کی سنگین آئین شکنی پر حکومت کوئی موثر کارروائی کرتی تو پنجاب کاچند روزہ گورنر اور اسپیکر ایسا کرنے سے باز رہتے۔
کیا کسی نے عمر سرفراز سے پوچھا کہ '' آپ کو گورنر وزیرِاعظم نے مقرر کیا تھا یا صدر نے؟ ''صدر نہ کسی کو گورنر مقرر کرسکتا ہے نہ ہی اپنی مرضی سے ہٹاسکتا ہے، لہٰذا عمر سرفراز کس ملک کے آئین کا حوالہ دیکر کہتا ہے کہ میں صدر کا مقرر کردہ ہوں اور وہی مجھے ہٹا سکتا ہے۔
یہ تو آئین سے سراسر کھلواڑ ہے۔ کیا کسی اینکر نے پنجاب اسمبلی کے اسپیکر سے یہ سوال کیا ہے کہ آپ کی موجودگی میں ڈپٹی اسپیکر پر حملہ کیوں ہوا ، آپ نے ایسا کیوں ہونے دیا؟ پنجاب اسمبلی کے اندر ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوجاتی تو بحران ختم ہوجاتا مگر اسلام آباد اور لاہور دونوں جگہوں پر حکومت کا response ، فوری اور موثر and affective) (swift نہیں بلکہ سست اور مدافعانہ ہے۔ نئی حکومت میں عزم اور یکسوئی کا فقدان نظر آتا ہے جس سے سیاسی بحران طول پکڑ گیا ہے۔
چونکہ کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی اس لیے کپتان کی دیدہ دلیری میں اضافہ ہوا، وہ سرخ لائن کراس کرگیا اور اس نے اشٹیبلشمنٹ کو غدار اور میر جعفر اور میر صادق کہنا شروع کردیا جو انتہائی خطرناک بھی ہے اور قابلِ مذمت بھی۔ لگتا ہے کپتان عوام کو فوج سے لڑا کر دشمنوں کے ایجنڈے کی تکمیل کررہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی اور میاں نوازشریف نے ملک کے دفاع کے لیے امریکا اور یورپ کے بے پناہ دباؤاور دھمکیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دھماکے کیے اور پاکستان کو ایٹمی قوّت بنادیا۔ دونوں کو دھمکیاں ملیں مگر دونوں نے اس کی پرواہ نہ کی۔
عمران خان پہلا سابق وزیرِاعظم ہے جوکہہ رہا ہے کہ میرے سیاسی مخالفین کے اقتدار میں آنے سے بہتر ہے کہ ملک پر ایٹم بم مار کر اسے تباہ کردیا جائے۔ ایسی بات توکبھی ہمارے دشمنوں نے بھی نہیں کی، مودی جیسے اسلام اور پاکستان کے دشمن نے بھی نہیں کی۔ نواز شریف اور بے نظیر بھی اقتدار سے محروم کیے جاتے رہے، مگر انھوں نے ملک پر ایٹم بم مارنے کی بات کبھی نہیں کی۔ نوازشریف کو بھی اقتدار سے نکالا گیا تھا مگر انھوں نے کسی کو میر جعفر ، میر صادق یا غدار نہیں کہا۔
سیدھی سی بات ہے کہ کپتان کی بیساکھیاں ہٹتے ہی اس کے اتحادیوں نے اپنا ٹھکانہ بدل لیا اور وہ اکثریت سے محروم ہوگیا، اس میں غلامی اور آزادی کا کوئی رولہ نہیں، نہ ہی امریکا کی کسی سازش کا کوئی چکر ہے، مگرعمران نے نوجوانوں کو سازش اور آزادی کے چکر میں ڈال دیا ہے ۔ اﷲ والے بزرگوں سے بات کریں تو وہ موجود صورتحال کو ایک فتنہ اور ملک کے لیے انتہائی خطرناک قرار دیتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ وطنِ عزیزکی حفاظت فرمائیں۔
پاکستانی قوم کے بارے میں یہ حُسنِ ظن ضرور تھا کہ پچھتر سال کے بعد اب اس میں خیر اور شر، کھرے اور کھوٹے اور حقیقت اور سراب کو پہچاننے کی صلاحیت ضرور ہوگی، مگر یہ اندازہ نہیں تھا کہ ایک سیاسی لیڈر نوجوانوں کی اکثریت کو ہوائی نعروں، بے بنیاد الزامات اور پرجوش تقریروںسے اپنا پیروکار بنانے میں کامیاب ہوجائے گا۔
ساری ٹیکنیکس ہٹلر والی استعمال کی جارہی ہیں کہ مخالفین کو صرف مخالف نہ کہوبلکہ انھیں ڈاکو اور غدار جیسے گھناؤنے القاب دیکر عوام کی نظروں میں قابلِ نفرت بنادو اور پھر یہ القاب اور الزامات اتنے تسلسل اور تواتر سے دھراؤکہ لوگ یقین کرلیں۔
امریکی سازش کے الزام کی خود عمران صاحب کئی بار نفی کرچکے ہیں، کیونکہ سابق سفیر نے مراسلہ 7مارچ کو بھیجا تھا، جب کہ عمران صاحب نے بتایا ہے کہ انھیں پچھلے سال جون میں اپوزیشن کی تحریک کا پتہ چل گیا تھا۔
ان کے سب سے قریبی وزیر اعتراف کرچکے ہیں کہ ''ہمارے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات ٹھیک رہتے تو ہم حکومت سے محروم نہ ہوتے''۔ اس کے علاوہ 7مارچ کو مراسلہ موصول ہونے کے بعد اگر حکومت کو اس میں سازش کی بو محسوس ہوتی تو اس سے گزشتہ روز امریکی سفیر کو طلب کرکے احتجاج کیا جاتا، اگر معاملہ بہت سنگین ہوتا تو سفیر کو ملک سے نکال دیا جاتا مگر عمران صاحب نے ایسا کچھ نہیں کیا۔
تین ہفتے تک امریکا کا نام تک نہیں لیا بلکہ اسلامی کانفرنس میں امریکی وفد کو بلا کر ان کی آؤبھگت کرتے رہے اور 27مارچ کو ایک دم خط نکال کر لہرادیا اور کہا میرے خلاف عدمِ اعتماد امریکا کرارہا ہے کیونکہ میں نے امریکا کو چیلنج کیا تھا۔
ممکن ہے کہ عالمِ خواب و خیال میں کپتان صاحب نے امریکا کو چیلنج کیا ہو، حقیقی دنیا میں تو وہ پونے چار سال امریکا کی خوشنودی کے لیے سرگرداں رہے اور اس کی مکمل طور پر اطاعت کرتے رہے بلکہ اس بات کے لیے کوشاں رہے کہ کسی طریقے سے ہمارا سفیر ترلہ منت کرکے امریکی صدر کو منالے کہ وہ کپتان صاحب کو ایک عدد کال یا مِس کال ہی کردے، لیکن حیرت ہے کپتان صاحب کے پیروکاروں اور اطاعت گزاروں پر(جو یقیناً کپتان صاحب کو اب ایک روحانی پیشوا کا درجہ دیتے ہیں( کہ اُدھر کپتان نے خط لہرایااُدھر ان کے پیروکاروں نے (حقائق جانے یا سمجھے بغیر) امریکا مردہ باد کا نعرہ لگادیا۔
خود عمران صاحب کے وزیرِخارجہ اور مشیر وں نے امریکا مردہ باد کہنے سے انکار کردیا، آدھے سے زیادہ مشیروں نے شہریت کے لیے امریکا سے وفاداری کا حلف اُٹھایا ہوا ہے اور ان کی فیملی، بچے، ان کی نوکریاں، اور بزنس امریکا میں ہے، عید منانے بھی وہ امریکا گئے تھے مگر کپتان نے پیروکاروں سے کہا کہ لگاؤ نعرہ کہ نئی حکومت امپورٹڈ ہے اور یہ امریکا لایا ہے تو انھوں نے امپورٹڈ حکومت نا منظور کے نعرے لگانے شروع کردیے۔
ایسا کیوں ہے؟ عوام کی شعور کی سطح اتنی پست کیوں ہے؟ پڑھے لکھے حلقوں میں یہ سوال زیرِ بحث ہے، کچھ صاحبانِ دانش کا خیال ہے کہ مسلسل پراپیگنڈے سے لوگوں کے ذہنوں میںیہ بٹھادیا گیا ہے کہ عمران خان کے سیاسی مخالفین چور اور ڈاکو ہیں، کچھ سمجھتے ہیں کہ کرکٹ کے زمانے سے عوام کے ایک طبقے خصوصاً نوجوانوں کا عمران خان کے ساتھ ایک رومان قائم ہوچکا ہے، کچھ کا خیال ہے کہ آزادی اور خودمختاری جیسے Catchy Slogans تیسری دنیا کے ممالک میں بہت مقبول ہوجاتے ہیں۔
مگر بہت سے لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ متحدہ اپوزیشن کی حکومت سیاسی محاذ پر عمران خان کو موثر انداز میں جواب نہیں دے رہی اور کوئی پاور فل بیانیہ سامنے نہیں لاسکی۔ عمران خان کی کارکردگی اور طرزِعمل کے نقادوں کی تعداد بھی کم نہیں۔
ان میں سے بہت سوں کا کہنا ہے کہ کپتان صاحب کے اصلی اسکینڈل عوام کے سامنے لائے جائیں تاکہ عوام کو ان کی اصلیت اور ''روحانی کرشموں'' کا پتہ چلے، مگر حکومت گو مگو کا شکار لگتی ہے، خصوصاً مسلم لیگ ن مدافعانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے اور کپتان صاحب کے کردار کے بارے میں بات کرنے سے ہچکچاتی ہے۔ حالانکہ کپتان صاحب اور ان کے ساتھیوں نے مسلم لیگی قیادت کے خلاف سچے کیا جھوٹے الزامات لگانے سے کبھی گریز نہیں کیا۔
خود عمران خان نے اور ان کے قریب ترین ساتھیوں نے ملک کے سپریم لاء یعنی آئین کو پامال کیا ہے مگر نئی حکومت اس آئین شکنی کے جرم پرکوئی کارروائی نہیں کرسکی۔
عدمِ اعتماد کی تحریک پیش ہونے کے فوراً بعد کسی اینکر نے محترم اعتزاز احسن سے پوچھا تھا کہ اگر اسپیکر ووٹنگ کرانے سے انکار کردے تو؟ یہ سن کر اعتزاز صاحب کو ایک جھٹکا سا لگا تھا، یعنی یہ بات ان کے یا کسی بھی قانون دان کے لیے ناقابلِ فہم تھی کہ اسپیکر اپنی آئینی ذمے داری ادا کرنے سے انکار بھی کرسکتا ہے۔
کچھ وقفے کے بعد انھوں نے اور پھر کئی سینئر وکلاء نے کہا کہ اگر اسپیکر ایسا کرے گا تو جرم کا مرتکب ہوگا اور اس کے خلاف کیس درج ہوجائے گا۔ سوال یہ ہے کہ حکومت ڈپٹی اسپیکر کے خلاف کیس کیوں نہیں درج کراسکی۔
صدر کا وزیرِاعظم اور وزراء سے حلف لینے کے سوا اور کوئی کام نہیں ہے، صدر اور گورنر پنجاب نے عمران خان کے کہنے پر اپنی یہ آئینی ذمے داری ادا کرنے سے انکار کردیا اور جواز یہ پیش کیا کہ وزیرِاعظم یا وزیرِاعلیٰ کا الیکشن درست نہیں ہوا۔ تمام آئینی ماہرین کی یہ متفقہ رائے ہے کہ جب ان کے پاس نوٹیفیکیشن پہنچ جائے تو وہ حلف لینے کے پابند ہیں، الیکشن کی جانچ پرکھ اور درستگی اور نادرستگی دیکھنا ان کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔
اگر وہ قائدِایوان کے الیکشن کی veracity چیک کرنے بیٹھ جائیں تو پھر کوئی وزیرِاعظم حلف نہیں اُٹھا سکے گا اور کوئی حکومت نہیں بن سکے گی، صدر پرانی حکمران جماعت کا ہوگا اور اگر وزیرِاعظم نئی پارٹی کا منتخب ہوجائے تو صدر (ڈپٹی اسپیکر سُوری کی طرح) یہ کہہ دے کہ منتخب ہونے والی پارٹی تو ملک سے ہی وفادار نہیں۔
لہٰذا میں قائدِایوان کا الیکشن تسلیم نہیں کرتا اور وزیرِاعظم سے حلف نہیں لوںگا۔ کیا اس طرح کاروبارِ مملکت چل سکتا ہے؟ جمہوریت کے بانیوں اور آئین سازوں نے غالباً یہ نہیں سوچا تھا کہ پاکستان میں کسی وقت آئین ایک ایسے گروہ کے ہتھے چڑھ جائے گا جو کسی قانون، قاعدے اور rule of game کو نہیں مانے گا اور ہر قدم پر آئین کو پامال کرے گا۔ سابق وزیرِاعظم اور ان کے ساتھیوں کی سنگین آئین شکنی پر حکومت کوئی موثر کارروائی کرتی تو پنجاب کاچند روزہ گورنر اور اسپیکر ایسا کرنے سے باز رہتے۔
کیا کسی نے عمر سرفراز سے پوچھا کہ '' آپ کو گورنر وزیرِاعظم نے مقرر کیا تھا یا صدر نے؟ ''صدر نہ کسی کو گورنر مقرر کرسکتا ہے نہ ہی اپنی مرضی سے ہٹاسکتا ہے، لہٰذا عمر سرفراز کس ملک کے آئین کا حوالہ دیکر کہتا ہے کہ میں صدر کا مقرر کردہ ہوں اور وہی مجھے ہٹا سکتا ہے۔
یہ تو آئین سے سراسر کھلواڑ ہے۔ کیا کسی اینکر نے پنجاب اسمبلی کے اسپیکر سے یہ سوال کیا ہے کہ آپ کی موجودگی میں ڈپٹی اسپیکر پر حملہ کیوں ہوا ، آپ نے ایسا کیوں ہونے دیا؟ پنجاب اسمبلی کے اندر ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوجاتی تو بحران ختم ہوجاتا مگر اسلام آباد اور لاہور دونوں جگہوں پر حکومت کا response ، فوری اور موثر and affective) (swift نہیں بلکہ سست اور مدافعانہ ہے۔ نئی حکومت میں عزم اور یکسوئی کا فقدان نظر آتا ہے جس سے سیاسی بحران طول پکڑ گیا ہے۔
چونکہ کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی اس لیے کپتان کی دیدہ دلیری میں اضافہ ہوا، وہ سرخ لائن کراس کرگیا اور اس نے اشٹیبلشمنٹ کو غدار اور میر جعفر اور میر صادق کہنا شروع کردیا جو انتہائی خطرناک بھی ہے اور قابلِ مذمت بھی۔ لگتا ہے کپتان عوام کو فوج سے لڑا کر دشمنوں کے ایجنڈے کی تکمیل کررہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی اور میاں نوازشریف نے ملک کے دفاع کے لیے امریکا اور یورپ کے بے پناہ دباؤاور دھمکیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دھماکے کیے اور پاکستان کو ایٹمی قوّت بنادیا۔ دونوں کو دھمکیاں ملیں مگر دونوں نے اس کی پرواہ نہ کی۔
عمران خان پہلا سابق وزیرِاعظم ہے جوکہہ رہا ہے کہ میرے سیاسی مخالفین کے اقتدار میں آنے سے بہتر ہے کہ ملک پر ایٹم بم مار کر اسے تباہ کردیا جائے۔ ایسی بات توکبھی ہمارے دشمنوں نے بھی نہیں کی، مودی جیسے اسلام اور پاکستان کے دشمن نے بھی نہیں کی۔ نواز شریف اور بے نظیر بھی اقتدار سے محروم کیے جاتے رہے، مگر انھوں نے ملک پر ایٹم بم مارنے کی بات کبھی نہیں کی۔ نوازشریف کو بھی اقتدار سے نکالا گیا تھا مگر انھوں نے کسی کو میر جعفر ، میر صادق یا غدار نہیں کہا۔
سیدھی سی بات ہے کہ کپتان کی بیساکھیاں ہٹتے ہی اس کے اتحادیوں نے اپنا ٹھکانہ بدل لیا اور وہ اکثریت سے محروم ہوگیا، اس میں غلامی اور آزادی کا کوئی رولہ نہیں، نہ ہی امریکا کی کسی سازش کا کوئی چکر ہے، مگرعمران نے نوجوانوں کو سازش اور آزادی کے چکر میں ڈال دیا ہے ۔ اﷲ والے بزرگوں سے بات کریں تو وہ موجود صورتحال کو ایک فتنہ اور ملک کے لیے انتہائی خطرناک قرار دیتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ وطنِ عزیزکی حفاظت فرمائیں۔