سری لنکن ٹیم پر حملہ پاکستان سے انٹرنیشنل کرکٹ کو روٹھے 5 سال ہوگئے

غیرملکی ٹیموں کو لانے کے حکومتی دعوے دھرے رہ گئے، بگ تھری کی رٹ ختم کرنے کی کوشش بھی کامیاب نہ ہوسکی


رجب علی March 03, 2014
8 افراد کوشہید اور5 کھلاڑیوں کو زخمی کرنے کے ملزم نامزد تو ہوئے لیکن قانونی پیچیدگیاں آڑے رہیں اور ملزم ضمانتوں پر رہا ہو گئے۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD: پاکستان میں کرکٹ کی تباہی کو5 سال مکمل ہوگئے حکومتی دعوئوں اورمذاکرات بھی ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کوبحال کرنے میں ناکام رہے جبکہ بگ تھری کی رٹ ختم کرنے کی کوشش میں پاکستان کووہ نتائج نہ مل سکے جس کی امید کی جا رہی تھی۔

5 سال قبل3 مارچ 2009 کو لاہور کے پوش علاقہ لبرٹی گلبرگ میں انٹرنیشنل دورے پر آئی ہوئی سری لنکن ٹیم پردہشت گردوں نے حملہ کرکے7 پولیس ملازمین سمیت8 افرادکوشہید جبکہ لنکن ٹیم کے کوچ اور 5 کھلاڑیوں سمیت متعدد افرادکوگھائل کردیا تھاجس کے بعد ملک سے جیسے انٹرنیشنل کرکٹ کاخاتمہ ہی ہوگیااس حملہ سے پاکستان کی ساکھ کے ساتھ نہ صرف کرکٹ تباہ ہوئی بلکہ بھاری مالی نقصان بھی ہوا جو اب تک جاری ہے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ملزمان کے حوالے سے بلندوبانگ دعوے کیے مگرتاحال کیس کافیصلہ نہیں ہوسکا،انسداددہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ کے اندراج کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کالعدم جماعت کے رہنما ملک اسحق، زبیرعرف نیک محمد،عقیل عرف ڈاکٹرعثمان سمیت 9ملزمان کومقدمہ میں نامزدکرتے ہوئے گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں،ان ملزمان کوعدالتوں میں پیش کیے گئے چالانوں میں گنہگار قرار دیا گیالیکن کمزوراور ناکافی شہادتوں کے باعث ملزمان ضمانتوں پر رہا ہوتے رہے وکل کیس کی تاخیرکی وجہ قانونی پیچیدگیاں بتاتے ہیں جبکہ تفتیشی ٹیموں کوملزمان کی ضمانتوں پر تحفظات ہیں قانونی پیچیدگی کوئی بھی ہولیکن گزشتہ5سال سے پاکستان کی ساکھ اورکرکٹ دونوں متاثرہیں جس کوبحال کرنے میں پتہ نہیں مزیدکتناعرصہ درکار ہے کرکٹ کی ملک میں بحالی کیلئے اب تک کی گئی تمام ترکوششیں سود مند ثابت نہیں ہوسکی ہیں۔

واضح رہے کہ3 مارچ 2009کی صبح سری لنکن ٹیم مقامی ہوٹل سے ایلیٹ فورس کی نگرانی میں قذافی اسٹیڈیم جارہی تھی،گلبرگ سٹی پلازہ اورگلبرگ پلازہ کے درمیان مبینہ دہشت گردوں نے چاروں اطراف سے کلاشنکوفوں ہینڈ گرنیڈ اور راکٹ لانچر سے ٹیم پر حملہ کر دیا ، فائرنگ سے پولیس ملازمین فیصل، مدثر اقبال ،ظفراقبال، سلطان محمود، ٹیپوفرید،تنویراقبال،ظفرعلی اورایک شہری موقع پر شہید ہوگئے جبکہ سری لنکن ٹیم کے کوچ اور5 کھلاڑیوں سمیت متعدد راہگیر زحمی ہو گئے تھے پولیس نے جائے وقوعہ سے مبینہ دہشت گردوں کے زیراستعمال کارجس میں ٹائم بم جسے بم ڈسپوزل کی مدد سے ناکارہ کیاگیا علاوہ ازیں متعدد ہینڈگرینیڈ اور بھاری مقدار میں اسلحہ بھی قبضہ میں لیکرنامعلوم دہشت گردوں کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرلیا۔

دوران تفتیشن پولیس نے لشکر جھنگوی کے نائب امیر ملک اسحاق،عقیل احمد عرف ڈاکٹرعثمان، سمیع اللہ،عدنان،عبدالوہاب، محمد زبیر عرف نیک محمد،عبید اللہ،عبید الرحمن ، ابراہیم جاوید انورکونامزد کرتے ہوئے الگ الگ چالان عدالت میں پیش کر دیئے، مگرملزمان ضمانتوں پررہاہوتے رہے جس پربعض ملزمان کو نظر بندکردیاگیا، وکلاء کاکہنا ہے ملزم زبیرحملہ کے وقت فوٹیج میں نظرآرہا ہے مگر اس کے باوجود اس کی ضمانت منظورکرلی گئی ،اس صورتحال کے پیش نظرانسداد دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم کردی گئی ہے اب ملزمان کے خلاف ملنے والی فوٹیج بھی بطور شہادت عدالت میں پیش کی جا سکے گی قانون میں ترامیم تو ہوتی رہتی ہیں اصل بات اصل مجرمان کوعدالت کے کٹہروں میں لانا اوران کے خلاف مکمل شہادتیں پیش کرنا قانون نافذکرنیوالے اداروں کاکام ہے عدالتوں نے فیصلے شہادتوں کی بنیاد پرکرنے ہوتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں