ملک میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث آم کی پیداوار میں 50فیصد کمی
آم کی ایکسپورٹ کا ہدف 25ہزار میٹرک ٹن کم کردیا گیا
QUETTA:
موسمیاتی اثرات کی وجہ سے آم کی پیداوار میں 50فیصد کمی، ایکسپورٹ کا ہدف 25ہزار میٹرک ٹن کم کردیا گیا۔
موسمیاتی تبدیلی، بجلی اور ڈیزل کی قلت، پیکجنگ پراسیسنگ کی لاگت میں اضافہ اور بلند فریٹ چارجز کی وجہ سے رواں سیزن آم کے کاشتکاروں کے ساتھ ایکسپورٹرز کو بھی بحرانی کیفیت کا سامنا ہے۔
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور بلند درجہ حرارت کی وجہ سے اس سال آم کی پیداوار میں 50فیصد تک کمی کا سامنا ہے۔
آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن نے رواں سیزن آم کی پیداوار میں کمی کے پیش نظر ایکسپورٹ کے ہدف میں گزشتہ سال سے 25ہزار میٹرک ٹن کمی کردی ہے اور رواں سیزن کے لیے ایک لاکھ 25ہزار میٹرک ٹن کا ہدف مقرر کردیا ہے۔ ہدف پورا ہونے سے پاکستان کو 106ملین ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوگا۔
آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ وحید احمد کے مطابق رواں سیزن موسمیاتی اثرات اور بلند درجہ حرارت کی وجہ سے آم کی پیداوار کو نقصان پہنچا ہے پاکستان میں آم کی اوسط پیداوار 18لاکھ میٹرک ٹن ہے جو رواں سیزن 50فیصد کمی سے 9لاکھ میٹرک ٹن تک محدود رہنے کا خدشہ ہے۔
وحید احمد کے مطابق رواں سیزن مارچ کے وسط میں آم کے پیداواری علاقوں میں اوسط درج حرارت 37سے 42ڈگری سینٹی گریڈ رہا جو گزشتہ سیزن اوسط 34ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا تھا. درجہ حرارت میں اچانک اضافہ سے آم کی پیداوار کو بھاری نقصان پہنچایا ساتھ ہی آب پاشی کے مسائل، نہروں کی بندش کی وجہ سے پانی کی قلت، بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور سیزن کے دوران ڈیزل کی قلت نے موسمی اثرات کو مزید سنگین بنادیا ہے۔
وحید احمد کے مطابق رواں سیزن آم کی پیداوار اور ایکسپورٹ کو تاریخ کے سب سے مشکل سیزن کا سامنا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی اور بجلی گیس کے ساتھ لیبر کی لاگت بڑھنے سے آم کی پراسیسنگ کی لاگت میں نمایاں اضافہ ہو اہے ۔ پیکجنگ میٹریل گزشتہ سیزن سے 30فیصد تک مہنگا ہوا ہے جس سے آم کے ایکسپورٹرز کے لیے انٹرنیشنل مارکیٹ میں مسابقت مشکل ہوگئی ہے۔
سمندری کرایوں میں نمایاں اضافہ نے پاکستان کے آم کے لیے مسابقت کو دشورا بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ گزشتہ سال گلف اور دبئی کے لیے سمندری کرائے 1900ڈالر فی کنٹینر تھے جو اس سال 2800ڈالر سے 3000 ڈالر فی کنٹینر تک پہنچ چکے ہیں اس کے ساتھ ہی فضائی کرایوں میں بھی اضافہ کا خدشہ ہے جس سے آم کی ترسیل کی لاگت غیرمعمولی طور پر بڑھ گئی ہے۔
وحید احمد کے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ موسمیاتی اثرات، تیز ہواﺅں اور آندھی کے ساتھ بارش کی صورت میں آم کی فصل کے نقصانات آنے والے مہینوں میں مزید بڑھ سکتے ہیں جس سے ایکسپورٹ بھی متاثر ہوگی۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ آم کے کاشتکاروں اور ایکسپورٹرز کی معاونت کی جائے تاکہ ان کے نقصانات کا ازالہ ہوسکے ۔
وحید احمد نے ایکسپورٹ کی لاگت کو کم کرنے اور پاکستانی آم کے لیے انٹرنیشنل مارکیٹ میں مسابقت کو آسان بنانے کے لیے سمندری اور فضائی کرایوں میں 20فیصد سبسڈی کی فراہمی، پی آئی اے کے فریٹ چارجز میں رعایت کا مطالبہ کیا۔
وحید احمد کے مطابق آم کی ایکسپورٹ کے اس مشکل ترین سیزن کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آم کی ایکسپور ٹ سے متعلقہ سرکاری ادارے اور اتھارٹیز بشمول پورٹ اور ایئر پورٹ اتھارٹیز، کسٹم حکام، پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ اور دیگر ادارے تعاون فراہم کریں تاکہ پاکستان کے نازک معاشی حالات میں زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ کے حصول کو یقینی بنایا جاسکے۔
موسمیاتی اثرات کی وجہ سے آم کی پیداوار میں 50فیصد کمی، ایکسپورٹ کا ہدف 25ہزار میٹرک ٹن کم کردیا گیا۔
موسمیاتی تبدیلی، بجلی اور ڈیزل کی قلت، پیکجنگ پراسیسنگ کی لاگت میں اضافہ اور بلند فریٹ چارجز کی وجہ سے رواں سیزن آم کے کاشتکاروں کے ساتھ ایکسپورٹرز کو بھی بحرانی کیفیت کا سامنا ہے۔
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور بلند درجہ حرارت کی وجہ سے اس سال آم کی پیداوار میں 50فیصد تک کمی کا سامنا ہے۔
آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن نے رواں سیزن آم کی پیداوار میں کمی کے پیش نظر ایکسپورٹ کے ہدف میں گزشتہ سال سے 25ہزار میٹرک ٹن کمی کردی ہے اور رواں سیزن کے لیے ایک لاکھ 25ہزار میٹرک ٹن کا ہدف مقرر کردیا ہے۔ ہدف پورا ہونے سے پاکستان کو 106ملین ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوگا۔
آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ وحید احمد کے مطابق رواں سیزن موسمیاتی اثرات اور بلند درجہ حرارت کی وجہ سے آم کی پیداوار کو نقصان پہنچا ہے پاکستان میں آم کی اوسط پیداوار 18لاکھ میٹرک ٹن ہے جو رواں سیزن 50فیصد کمی سے 9لاکھ میٹرک ٹن تک محدود رہنے کا خدشہ ہے۔
وحید احمد کے مطابق رواں سیزن مارچ کے وسط میں آم کے پیداواری علاقوں میں اوسط درج حرارت 37سے 42ڈگری سینٹی گریڈ رہا جو گزشتہ سیزن اوسط 34ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا تھا. درجہ حرارت میں اچانک اضافہ سے آم کی پیداوار کو بھاری نقصان پہنچایا ساتھ ہی آب پاشی کے مسائل، نہروں کی بندش کی وجہ سے پانی کی قلت، بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور سیزن کے دوران ڈیزل کی قلت نے موسمی اثرات کو مزید سنگین بنادیا ہے۔
وحید احمد کے مطابق رواں سیزن آم کی پیداوار اور ایکسپورٹ کو تاریخ کے سب سے مشکل سیزن کا سامنا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی اور بجلی گیس کے ساتھ لیبر کی لاگت بڑھنے سے آم کی پراسیسنگ کی لاگت میں نمایاں اضافہ ہو اہے ۔ پیکجنگ میٹریل گزشتہ سیزن سے 30فیصد تک مہنگا ہوا ہے جس سے آم کے ایکسپورٹرز کے لیے انٹرنیشنل مارکیٹ میں مسابقت مشکل ہوگئی ہے۔
سمندری کرایوں میں نمایاں اضافہ نے پاکستان کے آم کے لیے مسابقت کو دشورا بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ گزشتہ سال گلف اور دبئی کے لیے سمندری کرائے 1900ڈالر فی کنٹینر تھے جو اس سال 2800ڈالر سے 3000 ڈالر فی کنٹینر تک پہنچ چکے ہیں اس کے ساتھ ہی فضائی کرایوں میں بھی اضافہ کا خدشہ ہے جس سے آم کی ترسیل کی لاگت غیرمعمولی طور پر بڑھ گئی ہے۔
وحید احمد کے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ موسمیاتی اثرات، تیز ہواﺅں اور آندھی کے ساتھ بارش کی صورت میں آم کی فصل کے نقصانات آنے والے مہینوں میں مزید بڑھ سکتے ہیں جس سے ایکسپورٹ بھی متاثر ہوگی۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ آم کے کاشتکاروں اور ایکسپورٹرز کی معاونت کی جائے تاکہ ان کے نقصانات کا ازالہ ہوسکے ۔
وحید احمد نے ایکسپورٹ کی لاگت کو کم کرنے اور پاکستانی آم کے لیے انٹرنیشنل مارکیٹ میں مسابقت کو آسان بنانے کے لیے سمندری اور فضائی کرایوں میں 20فیصد سبسڈی کی فراہمی، پی آئی اے کے فریٹ چارجز میں رعایت کا مطالبہ کیا۔
وحید احمد کے مطابق آم کی ایکسپورٹ کے اس مشکل ترین سیزن کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آم کی ایکسپور ٹ سے متعلقہ سرکاری ادارے اور اتھارٹیز بشمول پورٹ اور ایئر پورٹ اتھارٹیز، کسٹم حکام، پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ اور دیگر ادارے تعاون فراہم کریں تاکہ پاکستان کے نازک معاشی حالات میں زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ کے حصول کو یقینی بنایا جاسکے۔