حکومت کا جوابی سیز فائر بیک وقت کئی فوائد کا حامل
مذاکرات کاروں کووقت مل گیا، آپریشن پر افغانستان، امریکا کے ممکنہ تحفظات بھی دور ہونگے
کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کے تقریباً 28 گھنٹے بعد وفاقی حکومت کی جانب سے بھی سیزفائر کے اعلان سے پاکستان بھر کے عوام نے بالعموم اور وزیرستان کے شورش زدہ علاقوں کے عوام نے بالخصوص سکھ کا سانس لیا ہے۔
البتہ سکھ کا یہ سانس لینے کی مہلت محض ایک ماہ کی ہے اور اس دوران فریقین کیلئے جنگ بندی کے اعلان پر کاربند رہنا ضروری ہے۔ حکومتی ذرائع تو یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ انہوں نے باقاعدہ کوئی آپریشن شروع نہیں کیا البتہ دہشت گردی کی کارروائیوں کے جواب میں امن دشمنوں کیخلاف کارروائی کی گئی۔ اتوار کے روز بھی وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے حکومت کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان کرنے سے قبل چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف سے ملاقات اور ضروری مشاورت کی ۔ ذرائع کے مطابق اس ملاقات میں یہ بھی طے پایا کہ حکومت کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کے وقت یہ بات واضح کر دی جائے گی کہ حکومت نے کوئی باقاعدہ آپریشن نہیں کیا اور محض دہشت گردی کی کارروائیوں کے جواب میں ضروری کارروائیاں کی ہیں، اب بھی اگر انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والوں کی جانب سے پاکستان بھر میں کہیں بھی دہشت گردی کی کوئی کارروائی کی گئی تو سیکیورٹی حکام کو ان کیخلاف کارروائی کرنے کیلیے حکومت سے اجازت لینے کی ضرورت نہ ہو گی۔ افغانستان کے صدارتی انتخابات 5 اپریل کو ہو نیوالے ہیں ۔
امریکا وافغان حکومت کو پاکستان کی جانب سے وزیرستان میں ممکنہ آپریشن کے حوالے سے یہ تحفظات تھے کہ اگر پاکستان نے بھر پور فوجی کارروائی کی تو دہشت گرد عناصر گروپوں کی صورت میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان موجود طویل بارڈر پر نقل و حرکت کی آسانیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے افغانستان میں داخل ہو سکتے ہیں جس سے وہاں صدارتی انتخابات کے دوران دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافے کا امکان ہے۔
ذرائع اس امکان کو بھی یکسر مسترد کرنے کیلیے تیار نہیں کہ امریکی اور افغان حکومت کے غیر اعلانیہ مطالبے اور مبینہ دبائو کے نتیجے میں انتہا پسندوں کیخلاف کارروائی نہ کرنیکا اعلان کیا جا رہا ہے جبکہ ممکنہ آپریشن کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کی نقل مکانی سے پیدا ہونیوالے مسائل سے نمٹنے کیلیے بھی ریاستوں و سرحدی امور کی وزارت اور اس کے سربراہ عبدالقادر بلوچ کو ضروری انتظامات کرنے کیلئے وقت درکار تھا۔ اب ایک ماہ کی مدت میں مذاکرات کے ذریعے امن قائم کرنے کے خواہشمندوں کو بھی اپنی صلاحیت کا موقع مل جائیگا اور امریکی اور افغان حکومت کی جانب سے بھی اگر آپریشن ملتوی کرنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے تو انہیں بھی یہ باور کرایا جا سکتا ہے کہ حکومت پاکستان افغانستان میں امن و استحکام کیلئے صرف زبانی دعوے نہیں کرتی بلکہ عملی طور پر بھی ہر ممکن تعاون کر رہی ہے۔
البتہ سکھ کا یہ سانس لینے کی مہلت محض ایک ماہ کی ہے اور اس دوران فریقین کیلئے جنگ بندی کے اعلان پر کاربند رہنا ضروری ہے۔ حکومتی ذرائع تو یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ انہوں نے باقاعدہ کوئی آپریشن شروع نہیں کیا البتہ دہشت گردی کی کارروائیوں کے جواب میں امن دشمنوں کیخلاف کارروائی کی گئی۔ اتوار کے روز بھی وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے حکومت کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان کرنے سے قبل چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف سے ملاقات اور ضروری مشاورت کی ۔ ذرائع کے مطابق اس ملاقات میں یہ بھی طے پایا کہ حکومت کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کے وقت یہ بات واضح کر دی جائے گی کہ حکومت نے کوئی باقاعدہ آپریشن نہیں کیا اور محض دہشت گردی کی کارروائیوں کے جواب میں ضروری کارروائیاں کی ہیں، اب بھی اگر انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والوں کی جانب سے پاکستان بھر میں کہیں بھی دہشت گردی کی کوئی کارروائی کی گئی تو سیکیورٹی حکام کو ان کیخلاف کارروائی کرنے کیلیے حکومت سے اجازت لینے کی ضرورت نہ ہو گی۔ افغانستان کے صدارتی انتخابات 5 اپریل کو ہو نیوالے ہیں ۔
امریکا وافغان حکومت کو پاکستان کی جانب سے وزیرستان میں ممکنہ آپریشن کے حوالے سے یہ تحفظات تھے کہ اگر پاکستان نے بھر پور فوجی کارروائی کی تو دہشت گرد عناصر گروپوں کی صورت میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان موجود طویل بارڈر پر نقل و حرکت کی آسانیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے افغانستان میں داخل ہو سکتے ہیں جس سے وہاں صدارتی انتخابات کے دوران دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافے کا امکان ہے۔
ذرائع اس امکان کو بھی یکسر مسترد کرنے کیلیے تیار نہیں کہ امریکی اور افغان حکومت کے غیر اعلانیہ مطالبے اور مبینہ دبائو کے نتیجے میں انتہا پسندوں کیخلاف کارروائی نہ کرنیکا اعلان کیا جا رہا ہے جبکہ ممکنہ آپریشن کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کی نقل مکانی سے پیدا ہونیوالے مسائل سے نمٹنے کیلیے بھی ریاستوں و سرحدی امور کی وزارت اور اس کے سربراہ عبدالقادر بلوچ کو ضروری انتظامات کرنے کیلئے وقت درکار تھا۔ اب ایک ماہ کی مدت میں مذاکرات کے ذریعے امن قائم کرنے کے خواہشمندوں کو بھی اپنی صلاحیت کا موقع مل جائیگا اور امریکی اور افغان حکومت کی جانب سے بھی اگر آپریشن ملتوی کرنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے تو انہیں بھی یہ باور کرایا جا سکتا ہے کہ حکومت پاکستان افغانستان میں امن و استحکام کیلئے صرف زبانی دعوے نہیں کرتی بلکہ عملی طور پر بھی ہر ممکن تعاون کر رہی ہے۔