سپریم کورٹ کا ہائی پروفائل مقدمات میں تقرریاں و تبادلے روکنے کا حکم

سپریم کورٹ نے نیب اور ایف آئی اے کو بھی تاحکم ثانی کوئی بھی مقدمہ واپس لینے سے روک دیا۔

سپریم کورٹ نے نیب اور ایف آئی اے کو بھی تاحکم ثانی کوئی بھی مقدمہ واپس لینے سے روک دیا۔

سپریم کورٹ نے ہائی پروفائل مقدمات میں تبادلے اور تقرریاں روکنے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5رکنی لارجر بینچ نے حکومتی شخصیات کی جانب سےتحقیقات میں مداخلت پرازخودنوٹس کی سماعت کی۔

عدالت نے حکم دیا کہ ہائی پروفائل مقدمات میں پراسیکیوشن تحقیقات برانچ کے اندر تاحکم ثانی ٹرانسفر پوسٹنگ نہیں کی جائے گی۔ سپریم کورٹ نے نیب اور ایف آئی اے کو بھی تاحکم ثانی کوئی بھی مقدمہ عدالتوں سے واپس لینے سے روک دیا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا حکومتی شخصیات کی جانب سے تحقیقات میں مداخلت پرازخودنوٹس

سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ آرٹیکل 25 10/A اور 4 کی عملداری ہونی چاہیے، کرمنل جسٹس سسٹم کی شفافیت اور ساکھ کو برقرار رکھا جائے، ہماری کارروائی کا مقصد صرف اسی حد تک ہے۔

عدالت نے چیرمین نیب،ڈی جی ایف آئی اے اور سیکرٹری داخلہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے وضاحت طلب کی کہ مقدمات میں مداخلت کیوں ہورہی ہے۔ عدالت نے سربراہ پراسیکیویشن ایف آئی اے ، لیگل ڈائریکٹر ایف آئی اے، تمام صوبائی ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے تحریری جوابات جمع کرانے کا حکم دیا اور سماعت آئندہ جمعہ تک ملتوی کردی۔


دوران سماعت عدالت نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ لاہور کی عدالت میں ایف آئی اے پراسیکیوٹر کو تبدیل کردیا گیا، ڈی جی ایف آئی اے اور ڈاکٹر رضوان کو بھی تبدیل کردیا گیا، انہیں بعد میں ہارٹ اٹیک ہوا، ان معاملات پر تشویش ہے، ڈی جی ایف آئی اے نے ایک تفتیشی افسر کو پیش ہونے سے منع کیا، پراسیکیوشن برانچ اور استغاثہ کے عمل میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے، اخبار کے تراشوں کے مطابق ای سی ایل سے نام نکلنے اور ای سی ایل رولز میں تبدیلی سے 3 ہزار افراد کا فائدہ ہوا، ان معاملات کو جاننا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ایسی خبریں ایک ماہ سے دیکھ اور پڑھ رہے ہیں، اس سے قانون کی حکمرانی پر اثر پڑ رہا ہے، امن اور اعتماد کو معاشرے میں برقرار رکھنا آئین کے تحت ہماری ذمہ داری ہے، قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنا ہے، یہ کاروائی کسی کو ملزم ٹھہرانے یا کسی کو شرمندہ کرنے کے لیے نہیں ہے، یہ کارروائی فوجداری نظام اور قانون کی حکمرانی کو بچانے کے لیے ہے، امید کرتا ہوں کہ وفاقی حکومت ان اقدامات کی وضاحت کرنے میں تعاون کرے گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خبروں کے مطابق نیب کا فوجداری ریکارڈ غائب ہونا شروع ہو گیا، چار نیب مقدمات میں ریکارڈ گم ہونے کی خبر ہے، اٹارنی جنرل ان معاملات میں ہماری مدد کریں، ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے بھی مداخلت پر بیان دیا ہے، ہماری تشویش صرف انصاف کی فراہمی کیلئے ہے، ہم تحقیقاتی عمل کا وقار، عزت اور تکریم برقرار رکھنا چاہتے ہیں، ہم یہ پوائنٹ اسکورنگ کیلئے نہیں کر رہے، صرف انصاف کی فراہمی چاہتے ہیں جو اندراج مقدمہ سے فیصلہ پر ختم ہوتی ہے، مئی سے یہ اقدامات ہونا شروع ہوئے ہم ان اقدامات کو دیکھتے رہے، ہم خاموش تماشائی بن کر یہ چیزیں نوٹ کرتے رہے، انصاف کے نظام سے کوئی بھی کھلواڑ نہ کرے، مقدمات کے ملزمان کو ابھی مجرم قرار نہیں دیا گیا اور عدالت نے سزائیں نہیں سنائیں۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے عدالت میں تحریری درخواست دی اور بتایا کہ انہیں پیش نہ ہونے کا کہا گیا کہ جو بندہ وزیر اعلیٰ/وزیراعظم بننے والا ہے اس کے مقدمہ میں پیش نہ ہو۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ بظاہر یہ ٹارگٹڈ ٹرانسفر پوسٹنگ کی گئیں، اس پر تشویش ہے، اس لیے چیف جسٹس نے سو موٹو نوٹس لیا آپ تعاون کریں۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے جواب دیا کہ ایف آئی اے کے پاس ان تبدیلیوں کی کوئی معقول وجہ ہوگی۔

عدالت نے حکم دیا کہ نیب، ایف آئی اے میں افسران کو ہٹانے، ٹرانسفر ، پوسٹنگ ، تحقیقاتی اور پراسیکوشن برانچ میں تبدیلیوں پر جواب دیا جائے، پراسیکوشن برانچز میں کس کو تبدیل کیا اور اس کی جگہ پر کون آیا، گزشتہ چھ ہفتوں کا ریکارڈ فراہم کیا جائے۔

سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ مقدمات کی نامکمل دستاویزات کا ریکارڈ محفوظ بنانے کیلئے اقدامات سے آگاہ کیا جائے، ایف آئی اے اور نیب میں ہائی پروفائل مقدمات کا ریکارڈ چیک کرنے کے بعد سیل کیا جائے، یہ ریکارڈ چیک کرکے مجاز اتھارٹی کو رپورٹ پیش کریں۔
Load Next Story