بحران کا حل کیا ہونا چاہیے
اداروں کی بالادستی، سیاسی و جمہوری عمل کا قانونی دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا ہی قومی مفاد سے جڑا ہوا ہے ۔
JOHANNESBURG:
پاکستان کا قومی بحران سنگین ہے ۔ یہ بحران کسی ایک فرد یا ادارے کا نہیں بلکہ اس بحران میں تمام فریقین کسی نہ کسی شکل میں زیادہ یا کم حصے دار رہے ہیں۔ یہ بحران آج ہی پیدا نہیں ہوا بلکہ کئی دہائیوں سے چل رہا ہے اورجو بھی حکمران طبقہ آیا اس نے مسائل حل کرنے کے بجائے ان میں اور زیادہ سنگینی یا شدت پیدا کی ہے ۔
پاکستان کے قومی بحران کو چھ بڑے مسائل کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ اول ہم ریاستی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیوں کے بجائے نظام کو مصنوعی یا وقتی طو رپر چلانے کی روش کا شکار ہیں ۔ دوئم سیاسی عدم استحکام نے ہماری معیشت کو برباد کردیا ہے۔
معاشی معاملات میں لمبے عرصے کی منصوبہ بندی یا حکمت عملی کے فقدان ، فیصلہ سازی میں تاخیر ، قومی اتفاق رائے کا فقدان اورمعاشی امور میں حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان سیاسی رسہ کشی ، سوئم سیاسی وحکومتی نظام کا عدم تسلسل، محاذآرائی ، سیاسی جماعتوں اور قیادت کی موقع پرستی، چہارم قانون کی حکمرانی کا نہ ہونا ،پنجم اسٹیبلیشمنٹ اور سیاسی قوتوں کے درمیان ٹکراؤ ، ششم قومی سطح پر بڑھتی ہوئی سیاسی، سماجی و مذہبی تقسیم اور معاشرے کی سطح پر بڑھتی ہوئی شدت پسندی ۔
پیپلزپارٹی او رمسلم لیگ ن نے اپنی سابقہ غلطیوں کے کفارے اورملک میں حقیقی جمہوری نظام کے قیام اور اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی مداخلت کے خاتمہ کے لیے 2006میں '' میثاق جمہوریت '' پر دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کو قومی سیاسی تاریخ میں ایک اہم دستاویز کے طو رپر پیش کیا گیا ، مگر اس اہم تحریری دستاویز کے ساتھ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے جو غیر جمہوری سلوک کیا وہ بھی ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ اس وقت قومی بحران سے نمٹنے کے لیے ہماری ریاستی و سیاسی سوچ او رفکر کیا ہے ۔ سب ہی سیاسی پنڈت یہ ہی دہائی دیتے ہیں کہ قومی مفاہمت کی سیاست اور ایک قومی سیاسی و معاشی ایجنڈے پر اتفاق رائے کے بغیر ہم سیاسی و معاشی طو رپر مستحکم نہیں ہوسکیں گے۔
لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا اور یہ مفاہمت کی سیاست یا قومی ایجنڈا کی تشکیل کیسے ممکن ہوگی او رکون اس میں بڑی ذمے داری لے کر دیگر فریقین کو ساتھ جوڑے گا، مبہم سوالات ہیں ۔کچھ عرصہ قبل پاکستان میں ''میثاق معیشت پر اتفاق رائے '' کی بحث بھی ہم کو دیکھنے کو ملی تھی ۔ بہت سے سیاسی و معاشی فریقین نے یہ نقطہ اٹھایا تھا کہ جب تک قومی سیاسی قیادت اور ریاستی ادارے معیشت کی ترقی پر ایک بڑے قومی ایجنڈے اور اتفاق رائے پیدا نہیں کریں گے، ہم معاشی محاذ پر مشکل ہی میں رہیں گے۔
مسئلہ یہ ہے کہ یہاں ہماری سیاسی سطح پر موجود قوتیں چاہے وہ حکومت میں ہوں یا حزب اختلاف دونوں معاشی مفادات کو پس پشت رکھ کر اس پر سیاست کرتے ہیں۔ یہ طے ہونا ضروری ہے کہ حکومت یا حزب اختلاف معاشی مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے ، قومی معیشت سے جڑے معاملات پر اتفاق رائے قائم رکھا جائے گا ۔ اس کے لیے اگر کسی بھی سطح پر میثاق معیشت بھی کرنا پڑے تو اس سے گریز نہیں کیا جائے گا۔
پاکستان کو اپنے بحران کے حل کے لیے ایک بڑے سیاسی ، سماجی ، انتظامی ، معاشی اور قانونی فریم ورک کی ضرورت ہے ۔ یہ عمل روائتی سیاسی حکمت عملی سے ممکن نہیں ۔ اس کے لیے ہمیں غیر معمولی حالات کا ادراک ہونا چاہیے اوراسی صورت میں ہم کچھ بڑے فیصلے کرکے غیر معمولی اقدامات کی مدد سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔
ہمیں شارٹ ٹرم ، مڈٹرم او رلانگ ٹرم سطح کی پالیسی ہر شعبہ میں درکار ہے، اس کے لیے ہمیں محض وقتی بنیادوں پر فیصلے کرنے کی عادت کو ترک کرنا ہوگا او رپورے اپنے سیاسی ، انتظامی ، معاشی اور قانونی ڈھانچوں میں بنیادی نوعیت کی غیر معمولی تبدیلیوں کو بنیاد بنانا ہوگا ۔ایک مسئلہ گورننس یا حکمرانی کے بحران کا ہے او ریہ ہی لوگوں کی زندگیوں میں تکالیف کو بڑھارہا ہے اور اس کے لیے ہمیں جدید حکمرانی کے نظام کو اختیار کرنا اور دنیا کے تجربات سے سیکھ کر آگے بڑھنا ہوگا ۔
کیونکہ وہی سیاسی او رمعاشی نظام اپنی سیاسی و معاشی ساکھ کو قائم کرتا ہے جو عملی طو رپر کمزور لوگوں کے مفادات سے جڑا ہوتا ہے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس کا نتیجہ ریاست او ر عوام میں خلیج کی صورت میں سامنے آتا ہے ۔ اس لیے ہمیں مرکزیت پر مبنی نظام کے مقابلے میں ایک بااختیار عدم مرکزیت پر مبنی حکمرانی کا نظام کو اپنی سیاسی ترجیحات کے ساتھ جوڑنا ہوگا ۔
اسی طرح اسٹیبلیشمنٹ اور سیاسی فریقین کے درمیان میں بھی ایک نیا فریم ورک درکار ہے جو اس تاثر کی نفی کرے کہ اسٹیبلیشمنٹ کی سیاست سیاسی فریقین او ران کے فیصلوں پر حاوی ہے ، چیف جسٹس آف پاکستان نے درست کہا کہ پاکستان کا مسئلہ کمزور سیاسی حکومتیں یا کمزورسطح کی مینڈیٹ پر مبنی حکومت نہیں ہے۔واقعی اگر ہم نے حکومت کرنی ہے ریاستی نظام کو طاقت دینی ہے اور سیاسی عمل میں کچھ بڑے او رکڑوے فیصلے کرکے ریاستی گاڑی کو آگے چلانا ہے تو اس کی بنیاد مضبوط حکومت ہی ہوسکتی ہے ۔
اس لیے ہمیں ایسے سیاسی تجربوں یا مہم جوئی سے گریز کرنا چاہیے جو سیاسی نظام کے ساتھ ساتھ معاشی نظام کو بھی عدم استحکام سے دوچار کرے ۔ حالیہ دنوں میںجو ہمیں سیاسی محاذ پر ایک بڑا ٹکراؤ سیاست اور اداروں کی سطح پر نظر آرہا ہے وہ بھی کسی بھی طو رپر ریاست کے مفاد میں نہیں ۔کیونکہ سیاسی و معاشی کی کامیابی کی بڑی کنجی ملک میں اداروں کی بالادستی اور خود مختاری سمیت شفافیت یا جوابدہی کے نظام سے جڑی ہوتی ہے ۔اداروں کی بالادستی، سیاسی و جمہوری عمل کا قانونی دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا ہی قومی مفاد سے جڑا ہوا ہے ۔