بہتر زندگی اور موت
غریبوں، یتیموں، مسکینوں، بیواؤں اور مستحق طلباء و طالبات کے لیے اپنے مال کو کشادہ دلی سے خرچ کیجیے
LOS ANGELES:
اﷲ تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں ہوں حضور خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات بابرکات پر جنہوں نے زندگی گزارنے کے بہترین طریقے سکھلائے اور ان باتوں کی نشان دہی فرما دی جن سے نقصان اور خسارہ ہوتا ہے۔
حضرت ابُوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''جب تم میں سے اچھے اور بہتر لوگ تمہارے حاکم ہوں، تمہارے مال دار لوگ سخی ہوں اور تمہارے باہمی معاملات مشورے سے طے پاتے ہوں تو اِن حالات میں تمہارے لیے زمین کا اوپر والا حصہ اندرونی حصے سے بہتر ہے، (یعنی زندگی موت سے بہتر ہوگی) اور جب تم میں سے بدترین لوگ حاکم بن جائیں، تمہارے مال دار لوگ بخیل بن جائیں اور تمہارے معاملات تمہاری عورتیں طے کرنے لگ جائیں تو ان حالات میں تمہارے لیے زمین کا اندرونی حصہ اوپر والے حصے سے بہتر ہے۔ (یعنی موت زندگی سے بہتر ہوگی۔)'' (جامع الترمذی)
مذکورہ بالا حدیث مبارک میں حضور خاتم النبیین حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے امت کی مجموعی طور پر تین خوبیوں کا فائدہ اور تین برائیوں کا نقصان ذکر فرمایا ہے، جن کی مختصر تشریح ذیل میں ذکر کی جا رہی ہے۔
پہلی خوبی، نیک حکم ران:
اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے پہلی خوبی یہ ذکر فرمائی کہ جب تم میں سے اچھے اور بہتر لوگ تمہارے حاکم ہوجائیں۔ ایسے حاکم عدل و انصاف، امن و امان، ترقی و خوش حالی، تعلیم و صحت ال غرض تمہاری تمام ضروریات کو احسن طریقے سے پور ا کریں گے تو ظلم و ناانصافی، بد امنی، تنزلی، جہالت اور بیماریوں سے پاک معاشرہ ہوگا۔ یہی وہ معاشرہ ہے جو اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کے نتیجے میں تشکیل پاتا ہے۔ اسلام کی روشن تاریخ کا جب مطالعہ کرتے ہیں تو ایسے ہی معاشرے کی نمایاں تصویر ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ عدل و انصاف، امن و امان اور تعمیر و ترقی کی وجہ سے عوام خوش حال تھے، پُرامن تھے اور صحت افزاء ماحول میں پرورش پاتے تھے۔ آج کی دنیا جمہوری نظام سیاست کے گرد گھوم رہی ہے۔
ہم اپنے حکم ران خود منتخب کرتے ہیں اس لیے ہمیں اس کی کوشش کرنی چاہیے کہ اپنا حکم ران اسے چنیں جو عدل و انصاف، امن و امان، تعمیر و ترقی، تعلیم و صحت کے قیام کی صلاحیت رکھتا ہو، دین اسلام کی تعلیمات سے واقف ہو اور عوام کا ہم درد ہو۔ جب ہمیں ایسا حکم ران مل جائے گا تو ہمارا معاشرہ عدل و انصاف، تعمیر و ترقی، امن و امان اور خوش حالی سے بھر جائے گا۔ اور جب معاشرہ امن و امان، عدل و انصاف سے بھر جائے تو اب اہل اسلام کا زندہ رہ کر عدل و انصاف اور امن و امان قائم کرتے رہنا ان کے فنا ہو جانے سے بہتر ہے۔ یہ معنی ہے کہ زندگی موت سے بہتر ہے۔
دوسری خوبی، سخی مال دار:
اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے دوسری خوبی یہ ذکر فرمائی کہ جب تم میں سے مال دار لوگ سخی ہو جائیں۔ ایسے مال دار لوگ راہِ حق میں خرچ کرنے والے ہوں گے، ضرورت مندوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے والے ہوں گے، زکوٰۃ کا نظام فعال ہوگا، اسلام کا رفاہی نظام عام ہوگا، صدقات، خیرات کا ماحول ہوگا اور مذکورہ بالا نیکیوں کی وجہ سے مصیبتیں اور پریشانیاں ختم ہوں گی، جرائم کی شرح کم ہوگی۔
آج دنیا میں مختلف غیر سرکاری تنظیمیں اپنے مفادات کے حصول کے لیے کام کر رہی ہیں۔ بعض تنظیمیں تو کفر کی اشاعت کے لیے کام کر رہی ہیں اور بعض بے حیائی اور برائیوں کو معاشرے میں عام کرنے کی محنت کر رہی ہیں۔ ایسے حالات میں اہل اسلام کا وہ طبقہ جسے اﷲ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا ہے اسے چاہیے کہ وہ غریبوں، یتیموں، مسکینوں، بیواؤں اور ضرورت مندوں اور مستحق طلباء و طالبات کے لیے اپنے مال کو دل کھول کر خرچ کریں۔ جب ایسے سخی مال دار مل جائیں گے تو ہمارے معاشرے میں ضرورت مندوں کو سہارا ملے گا۔ جب معاشرہ میں ضرورت مند لوگ خود کفیل ہوجائیں تو اب اہل اسلام کا زندہ رہ کر دوسروں کو اپنی ذات سے نفع پہنچاتے رہنا ان کے فنا ہو جانے سے بہتر ہے یعنی کہ زندگی موت سے بہتر ہے۔
تیسری خوبی، شورائی نظام:
اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے تیسری خوبی یہ ذکر فرمائی کہ جب تمہارے باہمی معاملات شوریٰ سے طے پائے جانے لگیں۔ مشورہ میں اﷲ تعالیٰ نے خیر اور برکت رکھی ہے اس کی تاثیر یہ ہے کہ غلط فیصلوں اور ان کے بُرے انجام سے حفاظت ہو جاتی ہے ورنہ فتنہ و فساد پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے گھریلو معاملات سے لے کر جماعتوں، اداروں اور دفاتر تک اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ہاں اس بات کا ضرور خیال رکھا جائے کہ ہر شخص سے اس کی ذہنی صلاحیت کے مطابق ہی مشورہ لیا جائے۔ جماعتیں، ادارے اور دفاتر وغیرہ میں صاحب رائے لوگوں کا انتخاب کرنا چاہیے۔ جب تک باہمی مشاورت سے فیصلے کیے جاتے رہیں گے اس وقت تک اس امت میں خیر رہے گی اب اس کا زندہ رہنا اس کے فنا ہو جانے سے بہتر ہے۔ یہ معنی ہے کہ زندگی موت سے بہتر ہے۔
پہلی برائی، بدترین حکم ران:
اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے پہلی برائی یہ ذکر فرمائی کہ جب تم میں سے بدترین لوگ تمہارے حاکم بن جائیں۔ ایسے حاکم ظلم و ناانصافی، بدامنی اور فتنہ و فساد برپا کریں گے اور جب معاشرے میں کھلم کھلا خدا تعالیٰ کی نافرمانی اور ظلم و ناانصافی پھیل جائے تو اب دنیا میں رہنے سے بہتر ہے کہ انسان مر جائے۔
یہاں ایک بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ حدیث مبارک کے مذکورہ بالا مفہوم سے خود کشی جیسا بُرا جرم ثابت نہیں ہو رہا اور نہ ہی اس میں کم ہمتی کی تعلیم دی جارہی ہے بل کہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ ایسے ماحول میں لوگ خدا کی زمین پر بوجھ بن جائیں گے اور موت تمہارے لیے زندگی سے بہتر ہو گی کہ اس کی وجہ سے کم از کم انسان مزید اﷲ کی نافرمانی کرنے سے بچ جائے گا اور اس کے ایمان اور نیک اعمال کی حفاظت کا بندوبست بھی ہو جائے گا۔ ایمان کی حفاظت، نیک اعمال کی حفاظت اور مزید گناہوں سے بچنے کی وجہ سے کہا جا رہا ہے کہ موت زندگی سے بہتر ہے۔
دوسری برائی، بخیل مال دار:
اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے دوسری بُرائی یہ ذکر فرمائی کہ جب تم میں سے مال دار لوگ بخیل بن جائیں۔ ایسے لوگ مال کی محبت کا شکار ہوجائیں گے، راہ خدا میں خرچ کرنے کا تصور مٹ جائے گا، ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری نہیں ہوں گی تو معاشرتی جرائم چوری، ڈاکا اور رشوت وغیرہ بڑھ جائیں گے، اسلام کا رفاہی نظام بالخصوص زکوٰۃ، صدقات وغیرہ کا نظام ٹھپ ہو کر جائے گا۔ جب ماحول ایسا بن جائے کہ جرائم عام ہوجائیں اسلامی احکامات صدقات اور زکوٰۃ وغیرہ کو چھوڑ دیا جائے تو خدا کا عذاب نازل ہوگا۔ زندہ رہ کر اس عذاب کا شکار ہونے سے بہتر ہے کہ انسان مر جائے اور اس کا خاتمہ بالخیر ہوجائے۔
تیسری برائی، معاملات عورتوں کے سپرد:
اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے تیسری برائی یہ ذکر فرمائی کہ جب تمہارے تمام معاملات تمہاری خواتین کے سپرد ہوجائیں۔ صنف نازک میں قوتِ فیصلہ کو فطری طور پر بہت کم رکھا گیا ہے تاکہ گھریلو ذمہ داریوں کے علاوہ کا بوجھ ان پر نہ ڈالا جا سکے اور یہ اپنے گھریلو نظام کو پرسکون بنانے میں اپنی تمام تر توانائیاں خرچ کریں لیکن جب تمام معاملات ہی عورتوں کے سپرد کر دیے جائیں تو ان کی حیثیت سے بڑھ کر ان پر ذمہ داریوں کا بوجھ آئے گا جس کی وجہ سے یہ درست فیصلہ نہ کر پائیں گی۔ جب کہ عورت کے مقابلے میں مرد مجموعی طور پر بہادر، معاملہ فہم، دور اندیش اور جفاکش ہوتا ہے اور معاملات کے حل میں انہی مذکورہ اوصاف کو اہمیت حاصل ہے لیکن جب فطری طور پر عورت کے کم زور ہونے کے باوجود اس پر ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالا جائے گا تو دنیوی نظام زندگی میں بہتری کے بہ جائے خرابیاں پیدا ہوں گی اور یہ بڑھتے بڑھتے فتنہ و فساد تک جا پہنچیں گی اس لیے فتنہ و فساد میں مبتلا ہونے سے بہتر ہے کہ انسان زندگی کو خیر باد کہہ کر موت کا خیر مقدم کر لے۔ اﷲ تعالیٰ مذکورہ بالا حدیث مبارک پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اﷲ تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں ہوں حضور خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات بابرکات پر جنہوں نے زندگی گزارنے کے بہترین طریقے سکھلائے اور ان باتوں کی نشان دہی فرما دی جن سے نقصان اور خسارہ ہوتا ہے۔
حضرت ابُوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''جب تم میں سے اچھے اور بہتر لوگ تمہارے حاکم ہوں، تمہارے مال دار لوگ سخی ہوں اور تمہارے باہمی معاملات مشورے سے طے پاتے ہوں تو اِن حالات میں تمہارے لیے زمین کا اوپر والا حصہ اندرونی حصے سے بہتر ہے، (یعنی زندگی موت سے بہتر ہوگی) اور جب تم میں سے بدترین لوگ حاکم بن جائیں، تمہارے مال دار لوگ بخیل بن جائیں اور تمہارے معاملات تمہاری عورتیں طے کرنے لگ جائیں تو ان حالات میں تمہارے لیے زمین کا اندرونی حصہ اوپر والے حصے سے بہتر ہے۔ (یعنی موت زندگی سے بہتر ہوگی۔)'' (جامع الترمذی)
مذکورہ بالا حدیث مبارک میں حضور خاتم النبیین حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے امت کی مجموعی طور پر تین خوبیوں کا فائدہ اور تین برائیوں کا نقصان ذکر فرمایا ہے، جن کی مختصر تشریح ذیل میں ذکر کی جا رہی ہے۔
پہلی خوبی، نیک حکم ران:
اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے پہلی خوبی یہ ذکر فرمائی کہ جب تم میں سے اچھے اور بہتر لوگ تمہارے حاکم ہوجائیں۔ ایسے حاکم عدل و انصاف، امن و امان، ترقی و خوش حالی، تعلیم و صحت ال غرض تمہاری تمام ضروریات کو احسن طریقے سے پور ا کریں گے تو ظلم و ناانصافی، بد امنی، تنزلی، جہالت اور بیماریوں سے پاک معاشرہ ہوگا۔ یہی وہ معاشرہ ہے جو اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کے نتیجے میں تشکیل پاتا ہے۔ اسلام کی روشن تاریخ کا جب مطالعہ کرتے ہیں تو ایسے ہی معاشرے کی نمایاں تصویر ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ عدل و انصاف، امن و امان اور تعمیر و ترقی کی وجہ سے عوام خوش حال تھے، پُرامن تھے اور صحت افزاء ماحول میں پرورش پاتے تھے۔ آج کی دنیا جمہوری نظام سیاست کے گرد گھوم رہی ہے۔
ہم اپنے حکم ران خود منتخب کرتے ہیں اس لیے ہمیں اس کی کوشش کرنی چاہیے کہ اپنا حکم ران اسے چنیں جو عدل و انصاف، امن و امان، تعمیر و ترقی، تعلیم و صحت کے قیام کی صلاحیت رکھتا ہو، دین اسلام کی تعلیمات سے واقف ہو اور عوام کا ہم درد ہو۔ جب ہمیں ایسا حکم ران مل جائے گا تو ہمارا معاشرہ عدل و انصاف، تعمیر و ترقی، امن و امان اور خوش حالی سے بھر جائے گا۔ اور جب معاشرہ امن و امان، عدل و انصاف سے بھر جائے تو اب اہل اسلام کا زندہ رہ کر عدل و انصاف اور امن و امان قائم کرتے رہنا ان کے فنا ہو جانے سے بہتر ہے۔ یہ معنی ہے کہ زندگی موت سے بہتر ہے۔
دوسری خوبی، سخی مال دار:
اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے دوسری خوبی یہ ذکر فرمائی کہ جب تم میں سے مال دار لوگ سخی ہو جائیں۔ ایسے مال دار لوگ راہِ حق میں خرچ کرنے والے ہوں گے، ضرورت مندوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے والے ہوں گے، زکوٰۃ کا نظام فعال ہوگا، اسلام کا رفاہی نظام عام ہوگا، صدقات، خیرات کا ماحول ہوگا اور مذکورہ بالا نیکیوں کی وجہ سے مصیبتیں اور پریشانیاں ختم ہوں گی، جرائم کی شرح کم ہوگی۔
آج دنیا میں مختلف غیر سرکاری تنظیمیں اپنے مفادات کے حصول کے لیے کام کر رہی ہیں۔ بعض تنظیمیں تو کفر کی اشاعت کے لیے کام کر رہی ہیں اور بعض بے حیائی اور برائیوں کو معاشرے میں عام کرنے کی محنت کر رہی ہیں۔ ایسے حالات میں اہل اسلام کا وہ طبقہ جسے اﷲ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا ہے اسے چاہیے کہ وہ غریبوں، یتیموں، مسکینوں، بیواؤں اور ضرورت مندوں اور مستحق طلباء و طالبات کے لیے اپنے مال کو دل کھول کر خرچ کریں۔ جب ایسے سخی مال دار مل جائیں گے تو ہمارے معاشرے میں ضرورت مندوں کو سہارا ملے گا۔ جب معاشرہ میں ضرورت مند لوگ خود کفیل ہوجائیں تو اب اہل اسلام کا زندہ رہ کر دوسروں کو اپنی ذات سے نفع پہنچاتے رہنا ان کے فنا ہو جانے سے بہتر ہے یعنی کہ زندگی موت سے بہتر ہے۔
تیسری خوبی، شورائی نظام:
اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے تیسری خوبی یہ ذکر فرمائی کہ جب تمہارے باہمی معاملات شوریٰ سے طے پائے جانے لگیں۔ مشورہ میں اﷲ تعالیٰ نے خیر اور برکت رکھی ہے اس کی تاثیر یہ ہے کہ غلط فیصلوں اور ان کے بُرے انجام سے حفاظت ہو جاتی ہے ورنہ فتنہ و فساد پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے گھریلو معاملات سے لے کر جماعتوں، اداروں اور دفاتر تک اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ہاں اس بات کا ضرور خیال رکھا جائے کہ ہر شخص سے اس کی ذہنی صلاحیت کے مطابق ہی مشورہ لیا جائے۔ جماعتیں، ادارے اور دفاتر وغیرہ میں صاحب رائے لوگوں کا انتخاب کرنا چاہیے۔ جب تک باہمی مشاورت سے فیصلے کیے جاتے رہیں گے اس وقت تک اس امت میں خیر رہے گی اب اس کا زندہ رہنا اس کے فنا ہو جانے سے بہتر ہے۔ یہ معنی ہے کہ زندگی موت سے بہتر ہے۔
پہلی برائی، بدترین حکم ران:
اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے پہلی برائی یہ ذکر فرمائی کہ جب تم میں سے بدترین لوگ تمہارے حاکم بن جائیں۔ ایسے حاکم ظلم و ناانصافی، بدامنی اور فتنہ و فساد برپا کریں گے اور جب معاشرے میں کھلم کھلا خدا تعالیٰ کی نافرمانی اور ظلم و ناانصافی پھیل جائے تو اب دنیا میں رہنے سے بہتر ہے کہ انسان مر جائے۔
یہاں ایک بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ حدیث مبارک کے مذکورہ بالا مفہوم سے خود کشی جیسا بُرا جرم ثابت نہیں ہو رہا اور نہ ہی اس میں کم ہمتی کی تعلیم دی جارہی ہے بل کہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ ایسے ماحول میں لوگ خدا کی زمین پر بوجھ بن جائیں گے اور موت تمہارے لیے زندگی سے بہتر ہو گی کہ اس کی وجہ سے کم از کم انسان مزید اﷲ کی نافرمانی کرنے سے بچ جائے گا اور اس کے ایمان اور نیک اعمال کی حفاظت کا بندوبست بھی ہو جائے گا۔ ایمان کی حفاظت، نیک اعمال کی حفاظت اور مزید گناہوں سے بچنے کی وجہ سے کہا جا رہا ہے کہ موت زندگی سے بہتر ہے۔
دوسری برائی، بخیل مال دار:
اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے دوسری بُرائی یہ ذکر فرمائی کہ جب تم میں سے مال دار لوگ بخیل بن جائیں۔ ایسے لوگ مال کی محبت کا شکار ہوجائیں گے، راہ خدا میں خرچ کرنے کا تصور مٹ جائے گا، ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری نہیں ہوں گی تو معاشرتی جرائم چوری، ڈاکا اور رشوت وغیرہ بڑھ جائیں گے، اسلام کا رفاہی نظام بالخصوص زکوٰۃ، صدقات وغیرہ کا نظام ٹھپ ہو کر جائے گا۔ جب ماحول ایسا بن جائے کہ جرائم عام ہوجائیں اسلامی احکامات صدقات اور زکوٰۃ وغیرہ کو چھوڑ دیا جائے تو خدا کا عذاب نازل ہوگا۔ زندہ رہ کر اس عذاب کا شکار ہونے سے بہتر ہے کہ انسان مر جائے اور اس کا خاتمہ بالخیر ہوجائے۔
تیسری برائی، معاملات عورتوں کے سپرد:
اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے تیسری برائی یہ ذکر فرمائی کہ جب تمہارے تمام معاملات تمہاری خواتین کے سپرد ہوجائیں۔ صنف نازک میں قوتِ فیصلہ کو فطری طور پر بہت کم رکھا گیا ہے تاکہ گھریلو ذمہ داریوں کے علاوہ کا بوجھ ان پر نہ ڈالا جا سکے اور یہ اپنے گھریلو نظام کو پرسکون بنانے میں اپنی تمام تر توانائیاں خرچ کریں لیکن جب تمام معاملات ہی عورتوں کے سپرد کر دیے جائیں تو ان کی حیثیت سے بڑھ کر ان پر ذمہ داریوں کا بوجھ آئے گا جس کی وجہ سے یہ درست فیصلہ نہ کر پائیں گی۔ جب کہ عورت کے مقابلے میں مرد مجموعی طور پر بہادر، معاملہ فہم، دور اندیش اور جفاکش ہوتا ہے اور معاملات کے حل میں انہی مذکورہ اوصاف کو اہمیت حاصل ہے لیکن جب فطری طور پر عورت کے کم زور ہونے کے باوجود اس پر ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالا جائے گا تو دنیوی نظام زندگی میں بہتری کے بہ جائے خرابیاں پیدا ہوں گی اور یہ بڑھتے بڑھتے فتنہ و فساد تک جا پہنچیں گی اس لیے فتنہ و فساد میں مبتلا ہونے سے بہتر ہے کہ انسان زندگی کو خیر باد کہہ کر موت کا خیر مقدم کر لے۔ اﷲ تعالیٰ مذکورہ بالا حدیث مبارک پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین