ای کامرس سے پیسے کس طرح کما سکتے ہیں

ایک شخص انفرادی حیثیت میں ای کامرس سے کیسے منسلک ہوکر پیسے کما سکتا ہے؟


محمد حسان May 23, 2022
ایک عام شخص بھی ای کامرس کے پلیٹ فارم سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

ISLAMABAD: پاکستان میں ای کامرس کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے لیکن اکثریت ای کامرس سے متعلق صرف اتنا ہی جانتی ہے کہ ای کامرس مختلف اشیا کی آن لائن خرید و فروخت اور پیسے کمانے کا طریقہ ہے۔ زیر نظر بلاگ میں ہم قارئین کے ساتھ ای کامرس سے متعلق بنیادی معلومات شیئر کریں گے۔

پاکستان میں مختلف کمپنیاں ای کامرس کے حوالے سے اپنی پہچان رکھتی ہیں۔ یہ کمپنیاں اپنی ویب سائٹ پر پروڈکٹس کی معلومات، تصاویر، قیمت اور دیگر تفصیلات درج کرتی ہیں اور اگر کسی صارف کو وہ پروڈکٹ پسند آجائے تو وہ آن لائن اس کی خریداری کرسکتا ہے اور مطلوبہ پروڈکٹ اس کو گھر کی دہلیز پر موصول ہوجاتی ہے۔ اگر ہم پاکستان کے علاوہ باقی دنیا کی بات کریں تو ای کامرس کے حوالے سے سب سے بڑا نام Amazon ذہن میں ابھرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ eBay اور Walmart وغیرہ کے نام بھی ذہن میں آتے، ہیں جن کی طرز پر پاکستانی ای کامرس پلیٹ فارمز کام کررہے ہیں۔

اب ایک بنیادی سوال کی جانب آتے ہیں اور اس کا جواب تلاش کرتے ہیں۔ سب سے اہم سوال جو ذہن میں ابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ کام تو کمپنیاں کرسکتی ہیں جو اپنی پروڈکٹس آن لائن فروخت کرنا چاہتی ہیں، لیکن انفرادی حیثیت میں ایک شخص کی نہ تو کوئی کمپنی ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی پروڈکٹ جو وہ ان پلیٹ فارمز پر فروخت کرسکے۔ تو ایک عام آدمی کس طرح ای کامرس سے منسلک ہوکر پیسے کما سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے کچھ مزید معلومات درکار ہیں جو جاننا ضروری بھی ہیں۔

ای کامرس سے منسلک ہونے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ آپ آن لائن فروخت کرنے والی کسی ویب سائٹ کی طرز پر ایک ویب سائٹ یا آن لائن پلیٹ فارم بنائیے۔ اس کی ہر ممکن طریقے سے مارکیٹنگ اور تشہیر کیجئے، جس کےلیے ظاہر ہے کہ آپ کو ایک بڑے بجٹ کی ضرورت ہے جس کے تحت آپ ویب سائٹ تیار کرسکتے ہیں اورروایتی و غیر روایتی طریقوں سے اس کی ایڈورٹائزنگ کرکے کمپنیز اور صارفین کو اپنی جانب متوجہ کرسکتے ہیں۔ اس طرح آپ کی ویب سائٹ بھی ایک آن لائن بازار کی حیثیت اختیار کرجائے گی جہاں لوگ آکر اپنی چیزیں فروخت کریں گے اور صارفین اسے خریدیں گے۔ جس کے نتیجے میں کمپنیز اور صارفین دونوں جانب سے آپ اپنا کمیشن یا سروس چارجز وصول کرسکتے ہیں۔ پاکستان میں ایسے آن لائن پلیٹ فارم دستیاب ہیں جہاں سے آپ اس طرح کی ویب سائٹ بنوا سکتے ہیں۔

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ایک ایسی کمپنی بنائی جائے جو خود اپنی ویب سائٹس پر پروڈکٹس کی فروخت کےلیے کمپنیز کو سروسز مہیا کرے۔ مثال کے طور پر ایک کمپنی خود ہیڈ فونز تیار کرتی ہے اور اب وہ اپنی اس پروڈکٹ کو آن لائن فروخت کرنا چاہتی ہے۔ وہ کمپنی آپ سے رابطہ کرتی ہے اور آپ اپنے چارجز کے عوض اس کمپنی کو اپنے آن لائن پلیٹ فارم پر اکاؤنٹ بنا کر دیتے ہیں۔ ہیڈ فونز کی مختلف زاویوں سے تصاویر ایڈٹ کرکے گرافکس کے ساتھ اپ لوڈ کرتے ہیں۔ ہیڈ فونز کی فروخت کےلیے کانٹینٹ رائٹنگ کرتے ہیں۔ ہیڈ فونز کی (SEO) سرچ انجن آپٹمائزیشن کرکے دیتے ہیں یا اس کی Paid مارکیٹنگ کرتے ہیں۔ ان کو علیحدہ سے ایک مکمل ویب سائٹ ڈیزائن کرکے دیتے ہیں اور کمپنی کو کلائنٹس لاکر دینے کے ساتھ ساتھ ان کی فروخت میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔ غرض اس کی مکمل مارکیٹنگ آپ کی ذمے داری ہوتی ہے۔ لیکن اس طرز پر کام کرنے کےلیے بھی ایک بڑا بجٹ درکار ہے۔

تیسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ ایسی مہارت یا ہنر حاصل کریں جو آپ کو مذکورہ بالا دونوں طریقوں پر کام کرنے والی کمپنیز کے ساتھ منسلک ہونے کے مواقع فراہم کرسکے۔ مثال کے طور پر اگر آپ گرافکس ڈیزائننگ، ویب ڈیولپمنٹ، ورڈ پریس، ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا مارکیٹنگ، (SEO) سرچ انجن آپٹمائزیشن اور کانٹینٹ رائٹنگ میں سے کسی بھی فیلڈ میں مہارت رکھتے ہیں تو آپ ان کمپنیز کےلیے باآسانی کام کرسکتے ہیں۔ آج کل فری لانسنگ اور مذکورہ فیلڈز سے متعلق آن لائن کورسز بھی دستیاب ہیں اور یوٹیوب پر بھی بے شمار ایسے کورسز پر مشتمل ویڈیوز موجود ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف آن لائن کمپنیاں ''ٹرینی مینجمنٹ پروگرام'' کے ذریعے بھی دلچسپی رکھنے والوں کو ان کی مطلوبہ فیلڈ میں ٹریننگ دے کر انہیں جاب کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔

چوتھا طریقہ، ابتدا میں اٹھائے جانے والے اس سوال کا جواب ہے کہ ایک شخص انفرادی حیثیت میں ای کامرس سے کیسے منسلک ہوکر پیسے کما سکتا ہے؟ اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ خود اپنی مذکورہ بالا مہارتوں یا ہنر کی بنیاد پر اوپن مارکیٹ سے پروڈکٹس اٹھا کر ان کو آن لائن پلیٹ فارمز پر فروخت کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پرآپ پہلے کسی بھی آن لائن پلیٹ فارم پر جاتے ہیں اور وہاں اپنا Seller اکاؤنٹ بناتے ہیں۔ پھر آپ کو سب سے پہلے یہ معلومات درکار ہوں گی کہ آپ کو کیا چیز فروخت کرنی چاہیے۔ اس کےلیے ضروری ہے کہ آپ آن لائن مارکیٹ ریسرچ کریں کہ کن کن چیزوں کی فروخت کا ٹرینڈ سب سے زیادہ ہے۔ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ زیادہ فروخت ہونے والی پروڈکٹس کا ٹرینڈ جاننے کے بعد اسی پروڈکٹ مثلاً موبائل کورز کی پکچرز کی ڈیزائننگ کی جاتی ہے، اس کا کانٹینٹ لکھا جاتا ہے، اس کی پرائس اور ڈیلیوری ٹائم بتایا جاتا ہے، پھر اس کی SEO یا Paid مارکیٹنگ کی جاتی ہے اور جب کوئی آرڈر آجائے تو وہی پروڈکٹ پہلے سے متعین مارکیٹ سے خرید کر اپنا مارجن رکھ کر فروخت کردی جاتی ہے۔ اس طریقہ کار کے تحت ہزاروں پاکستانی اندرون اور بیرون ملک پروڈکٹس فروخت کرکے پیسے کما رہے ہیں۔

یہ تو ہوئی پاکستان کی بات، اگر باقی دنیا کی بات کریں تو سب سے بڑا اور مشہور پلیٹ فارم Amazon ہے۔ یہاں پر بھی کم و بیش طریقہ کار یہی ہے کہ آپ سب سے پہلے اپنا Seller اکاؤنٹ بنائیں، پھر مارکیٹ کا ٹرینڈ دیکھیں اور پھر فیصلہ کریں کہ آپ کیا چیز باآسانی فروخت کرسکتے ہیں۔ آپ کو چند ٹپس دے کر بات ختم کرتا ہوں کہ ٹرینڈ کے ساتھ ساتھ آپ کسی یونیک چیز کی مارکیٹ خود بھی پیدا کرسکتے ہیں، جیسے پاکستان میں بننے والے مخصوص سرکنڈوں اور تنکوں سے بننے والے ڈیکوریشن پیسز، سیالکوٹ میں بننے والے آلات جراحی اور کھیلوں کا سامان ،وغیرہ۔ اس کے علاوہ کچھ لوگ ہول سیل مارکیٹ کے اصول کی طرز پر Alibaba جیسی ویب سائٹس سے بہت سی چیزیں سستے داموں بَلک میں خرید کر امیزون پر فروخت کردیتے ہیں۔ باقی طریقہ کار تقریباً وہی ہے جو بیان ہوچکا۔ بس ایک بات کا خیال رکھنا بہت زیادہ ضروری ہے کہ اب اگر کافی کوششوں اور مشکلات کے بعد پاکستان کو امیزون کی لسٹ میں شامل کرلیا گیا ہے اور پاکستان سے اکاؤنٹ آسانی سے بن جاتا ہے تو آسانی سے بند ہوکر ہمیشہ کےلیے بلیک لسٹ بھی ہوجاتا ہے۔ کیونکہ نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض پاکستانی پروڈکٹس اچھی کوالٹی کی دکھاتے ہیں لیکن فروخت کرتے وقت کوالٹی میں ڈنڈی مار جاتے ہیں، جس سے پاکستان کی ساکھ خراب اور بدنامی ہوتی ہے۔ اس لیے پہلے امیزون کی باقاعدہ تربیت لیجیے، پھر کام شروع کیجیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں