قومی سلامتی پالیسی کے تقاضے اور مضمرات

قومی سلامتی کی پالیسی کےتحت مساجد اورمدرسوں کے تعلیمی نظام کو تعلیم کے قومی نظام کے ساتھ وابستہ اورہم آہنگ کیاجائیگا


Shakeel Farooqi March 03, 2014
[email protected]

تھا انتظار جس کا وہ شاہکار آگیا

ملک و قوم کو نئی قومی سلامتی پالیسی مبارک ہو۔ اس پالیسی کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اسے ملک کی تاریخ کی اولین قومی سلامتی پالیسی ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی اور ان کے رفقائے کار نے اس پالیسی کو تقریباً 6 ماہ کی قلیل مدت میں تیار کیا ہے جو یقیناً لائق ستائش ہے۔ قومی اسمبلی میں اس پالیسی کے حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ کا خطاب 45 منٹ کے دورانیے پر مشتمل تھا جس کے دوران اس پالیسی کے صرف چیدہ چیدہ نکات کا تذکرہ ہی ممکن تھا۔بہرحال دیر آید درست آید کے مصداق قومی سلامتی کی پالیسی حکومت وقت کا ایک خوش آیند اقدام ہے۔ اس پالیسی کے تحت سیکیورٹی کے لیے کام کرنے والی مختلف ایجنسیوں کو باہم مربوط کرنا ہے کیونکہ باہمی رابطے کے فقدان کے باعث مطلوبہ نتائج حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔

قومی سلامتی کی پالیسی کے تحت مساجد اور مدرسوں کے تعلیمی نظام کو تعلیم کے قومی نظام کے ساتھ وابستہ اور ہم آہنگ کیا جائے گا ۔ پالیسی کی حکمت عملی کے دوسرے اہم پہلو کا تعلق سول اور فوجی انٹیلی جنس اداروں کے درمیان موثر رابطہ کاری اور ہم آہنگی پیدا کرنے سے ہے تاکہ ریاست مخالف عناصرکے چیلنجوں سے کامیابی کے ساتھ نبرد آزما ہوا جاسکے۔ اس مقصد کے لیے انٹرنل سیکیورٹی کے ایک ڈائریکٹریٹ کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ قومی سلامتی کا یہ معاون ادارہ 33 سول اور ملٹری ایجنسیوں کے درمیان مسلسل اور موثر رابطہ قائم کرے گا۔ اس ڈائریکٹریٹ میں انٹیلی جنس اور تجزیہ کاری کا ایک مرکز بھی شامل ہوگا جو چار انٹیلی جنس گروپوں پر مشتمل ہوگا۔

وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ سول اور ملٹری انٹیلی جنس کے سیٹ اپ میں موثر رابطے کا فقدان ہی ریاست مخالف عناصر سے نمٹنے میں ناکامی کا سب سے بڑا اور بنیادی سبب ہے۔قومی سلامتی کی نئی پالیسی کے تحت حکومت فوجی نیٹ ورک کی قیادت میں پہلے سے زیادہ بہتر طور پر لیس اور بہترین تربیت یافتہ انٹیلی جنس کا نظام متعارف کرانے کا عزم رکھتی ہے۔ بعض لوگوں کے نزدیک سویلین حکومت کے لیے یہ کام انتہائی کٹھن ہوگا لیکن اگر اخلاص نیت موجود ہو اور عزم صمیم بھی ہو تو مشکل سے مشکل کام بھی آسان ہوجاتا ہے۔

قومی سلامتی کی نئی پالیسی کے تناظر میں ہمارے سامنے برطانیہ اور سری لنکا سمیت دنیا کے کئی ممالک کی مثالیں موجود ہیں جو اتفاق رائے پیدا کرکے دہشت گردی کے مسئلے کو موثر طور پر حل کرنے میں کامیابی حاصل کرچکے ہیں۔ دہشت گردی اس وقت پوری قوم کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ گمبھیر مسئلہ ہے۔ اس مسئلے نے نہ صرف حکومت بلکہ ملک کے بچے بجے کو خوف زدہ اور پریشان کر رکھا ہے۔ ہر شخص ڈرا ڈرا اور سہما سہما ہوا نظر آتا ہے جس کی وجہ سے پورا کاروبار حیات بری طرح سے متاثر ہے۔ غیر یقینی کی اس فضا میں صرف تاجر اور کاروباری طبقہ ہی نہیں بلکہ ایک عام آدمی بھی ایک بے یقینی کی کیفیت سے دوچار ہے۔ کیماڑی سے خیبر تک ایک ہی جیسی صورت حال درپیش ہے۔ خودکش حملوں اور ناگہانی بم دھماکوں نے پورے ملک پر خوف و ہراس کی نحوست طاری کر رکھی ہے۔ ہر طبقہ خیال اور سیاسی و مذہبی جماعت کی یہی خواہش ہے کہ وطن عزیز میں جلدازجلد وہ مبارک گھڑی آئے جب امن و سکون قائم ہو۔

نئی قومی سلامتی پالیسی کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔ اس کے مینڈیٹ میں قانونی اصلاحات متعارف کرانا، دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کی بحالی، آئی۔ٹی اور سائبر کرائم کی روک تھام، افغان مہاجرین کی حرکات و سکنات کی نگرانی، سرحدی کنٹرول کے موثر نظام کی تخلیق، ریپڈ رسپانس فورس کی تشکیل اور ایک ڈائریکٹر جنرل کی سربراہی میں ڈائریکٹریٹ آف انٹرنل سیکیورٹی کا قیام شامل ہے۔ قومی سلامتی کی یہ پالیسی بنیادی طور پر تین حصوں پر مشتمل ہے جن میں سے ایک حصے کو صیغہ راز میں رکھا جائے گا جب کہ اس کے ایک حصے میں وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق وقتاً فوقتاً مطلوبہ تبدیلیاں کی جاتی رہیں گی۔ صریح العمل قوت جسے ریپڈ رسپانس فورس کا نام دیا گیا ہے، اس پالیسی کے تحت ایمرجنسی کی صورت میں فوری کارروائی کرنے کی ذمے دار ہوگی۔ اس فورس کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے گا جس میں ملک بھر میں منتخب مقامات پر ہیلی پیڈز کی تعمیر بھی شامل ہوگی۔ اس کے علاوہ مختلف ایجنسیوں کے درمیان ایک ایسا موثر اور کارگر نظام بھی تشکیل دیا جانا چاہیے جس کے ذریعے دہشت گردوں اور جرائم پیسہ عناصر سے بروقت کارروائی کرکے فوری طور پر نمٹا جاسکے۔

قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد اور پیپلز پارٹی سرکردہ رہنما سید خورشید شاہ کی جانب سے سلامتی پالیسی کو غیر واضح قرار دیا گیا جس کے جواب میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنے کلیدی خطاب کے دوران برجستہ یہ کہا کہ وہ خورشید شاہ کے جذبات کی قدر کرتے ہیں۔ انھوں نے یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ وفاقی وزیر داخلہ کے بیان سے اگر کوئی ابہام پیدا ہوا تو اسے دور کیا جائے گا۔ اس سے بھی بڑھ کر ان کا یہ کہنا قابل ستائش ہے کہ مستقبل میں طالبان اور قومی سلامتی پالیسی کے معاملے اپوزیشن کے قائد اور دیگر جماعتوں کو ساتھ لے کر چلا جائے گا اور ان کے خدشات و تحفظات کو دور کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ کسی بھی اچھی تجویز کو قومی سلامتی پالیسی کا حصہ بنایا جائے گا خواہ یہ تجویز کسی بھی پارٹی کی جانب سے آئے۔وطن عزیز کی انتہائی سنگین صورت حال کا تقاضا بھی یہی ہے کہ قومی سلامتی کی پالیسی کے حوالے سے مکمل اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ اس وقت پوری قوم Do or Die کے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ ملک و قوم کو اس وقت ناقابل بیان اندرونی اور بیرونی خطرات کا سامنا ہے۔ یہ وقت سیاست کرنے کا نہیں، ریاست کے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دینے کا ہے۔ ملک و قوم اس وقت کسی بھی غلطی، غفلت یا نااتفاقی کے متحمل ہونے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ دشمن گھات لگائے بیٹھے ہیں اور یہ گھڑی محشر کی گھڑی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔