ملک کا سیاسی آئینی اور انتظامی منظرنامہ

ملک کے موجودہ سیاسی ، آئینی اور انتظامی منظر نامے کو سامنے رکھا جائے تو حالات اچھے نظر نہیں آتے

ملک کے موجودہ سیاسی ، آئینی اور انتظامی منظر نامے کو سامنے رکھا جائے تو حالات اچھے نظر نہیں آتے۔ فوٹو: ٹوئٹر

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ کاسٹ کرنے والے پی ٹی آئی کے 25 ارکان اسمبلی کی رکنیت ختم کردی ہے۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے گزشتہ روز پی ٹی آئی کے ان ارکان صوبائی اسمبلی کے خلاف اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویزالٰہی کے ریفرنس کی سماعت منگل کو مکمل کرکے فیصلہ محفوظ کیا تھا ۔ جمعے کو یہ محفوظ فیصلہ جاری کردیاگیا۔چیف الیکشن کمشنر نے گزشتہ دنوں عدالت عظمیٰ کے لارجر بینچ نے آئین کے آرٹیکل کی جو تشریح کی تھی، اس کی روشنی میں ان ارکان صوبائی اسمبلی کو ڈی سیٹ کرنے کا فیصلہ سنایا۔

23 صفحات پر مشتمل فیصلے کے مطابق تحریک انصاف کے باغی ارکان صوبائی اسمبلی نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں مخالف سیاسی جماعت کے امیدوارکو ووٹ دے کر آئین کی خلاف ورزی کی ہے، الیکشن کمیشن ان کے خلاف ڈکلیئریشن منظور کرتا ہے اور انھیںاتفاق رائے سے ڈی سیٹ قرار دیا جاتا ہے۔ منحرف ارکان کی اسمبلی رکنیت ختم ہو گئی ہے، اب یہ نشستیں خالی ہو گئی ہیں۔

الیکشن کمیشن کی رائے میں مخالف امیدوار کو ووٹ ڈالنا سنگین معاملہ ہے جو پارٹی پالیسی سے دھوکا دہی کی بدترین شکل ہے۔ اس ریفرنس کی سماعت کے دوران تحریک انصاف نے موقف اختیار کیا تھا کہ منحرف ارکان اسمبلی نے پارٹی فیصلے کے برعکس مسلم لیگ ن کے حمزہ شہباز کو ووٹ دیا ہے لہٰذا وہ آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے، انھیں سزا کے طور پر ڈی سیٹ کر دیا جائے۔

منحرف ارکان کا اپنے دفاع میں موقف تھا کہ پنجاب اسمبلی میں قائد ایوان کے حوالے سے تحریک انصاف کی قیادت نے ہدایات جاری نہیں کی تھیں۔سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کے صدارتی ریفرنس کے معاملے پر رائے میں کہا تھا کہ منحرف رکن اسمبلی کا پارٹی پالیسی کے برخلاف ووٹ شمار نہیں ہو گا جب کہ تاحیات نااہلی یا نااہلی کی معیاد کا تعین پارلیمنٹ کی صوابدید پر چھوڑا گیا تھا۔

منحرف ارکان کے وکیل خالد اسحٰق نے ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر ہو سکتی ہے اور قانون کے مطابق 30 دن میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ 90 دن میں اپیلوں پر فیصلہ کر سکتی ہے تاہم اپیلیں دائر کرنے کا فیصلہ مشاورت کے بعد ہوگا۔

پاکستان سیاسی، آئینی اور قانونی الجھنوں میں اس طرح پھنس چکا ہے یا پھنسا دیا گیا ہے کہ ایک الجھن کا فیصلہ ہوتا ہے تو اس میں سے مزید کئی الجھنوں کی شاخیں پھوٹ پڑتی ہیں، یوں ملک کا انتظامی ڈھانچہ کمزور سے کمزور ہوتا جارہا ہے۔پنجاب میں گورنر نہیں ہے، وزیر اعلیٰ کا مستقبل کیا ، یہ بھی آئینی اور قانونی الجھنوں میں پھنس گیا ہے جب کہ صوبے کی کابینہ پہلے ہی تشکیل نہیں پا سکی ہے ۔ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا ادارہ بھی تنازعات میں گھرا ہوا ہے۔

ملک کے سب سے بڑے اور اہم ترین صوبے کا یہ بحران اس ملک کے اسٹیک ہولڈرز کے مفاد میں بھی نہیں ہے۔ آخر میں یہ بحران ان کے مفادات کو بھی بہا لے جائے گا۔ بہرحال اب یہ فیصلہ آ چکا ہے۔ اس فیصلے کے صوبے کے وزارت اعلیٰ کے انتخاب پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، اس کے بارے میں آئینی وقانونی موشگافیاں جاری ہیں تاہم یہ بات واضح ہے کہ حکومت کی مشکلات میں آئینی وقانونی رکاوٹیں بدستور حائل رہیں گی۔ اب ان آئینی وقانونی پیچیدگیوں کا حل کیسے نکلے گا، اس کے بارے میں فی الحال کوئی رائے نہیں دی جا سکتی۔البتہ یہ طے ہے کہ اسے کسی نہ کسی کروٹ تو بیٹھنا ہی ہے۔


ایک جانب یہ صورتحال تو دوسری جانب وفاق میں ایسا کوئی بڑا آئینی بحران نہیں ہے تاہم صدر اور وزیراعظم کے درمیان بھی کشمکش جاری ہے جو وفاق پاکستان کی وحدت کے لیے درست نہیں ہے۔ آئین صدر کے اختیارات اور استحقاق واضح ہیں، اسی طرح وزیراعظم کے اختیارات اور استحقاق واضع ہیں۔پارلیمانی جمہوریت میں ان دونوں عہدوں کا دائرہ اختیارات سمجھانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔

برطانیہ میں ملکہ سلطنت کے امور میں کتنی بااختیار ہیں اور وہ برطانوی وزیراعظم کے اختیارات میں کتنی مداخلت کرسکتی ہیں، ہمارے ملک کے قانون دان اس سے بخوبی واقف ہیں۔ بہرحال ملک کی سیاسی جماعتوں کو سیاسی لڑائی جمہوریت کے مسلمہ اصولوں کے مطابق سیاسی میدان میں لڑنی چاہیے، اپنی لڑائی میں ملک کے آئینی اداروں کو گھسیٹنا اور نظام انصاف پر بوجھ ڈالنا درست طرز عمل نہیں ہے۔

پاکستان اس وقت شدید مالی اور اقتصادی بحران کا شکار ہے، اب انتظامی بحران بھی پیدا ہورہا ہے۔ملک کو یکسوئی کی ضرورت ہے تاکہ ملک کے انتظامی ادارے پوری توجہ معاشی بحران کے حل پر دے سکیں۔

گزشتہ روز وزیراعظم محمد شہباز شریف نے ایوان صنعت و تجارت کراچی کی تقریب اور وزیراعلیٰ ہاؤس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے سی پیک پر کام تیزی سے کرایا تھا، لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ حل کیا، پورٹ قاسم، پنجاب سمیت مختلف جگہوں پر بجلی کے منصوبے لگائے لیکن سابق دور کی کرپشن اور نااہلی کی بدولت لوڈ شیڈنگ دوبارہ شروع ہوگئی ہے، سابق حکومت نے ساڑھے تین سال میں ترقی کا ایک بھی منصوبہ شروع نہیں کیا اور نہ ہی عوام کو پٹرول، خوردنی تیل، چینی اور گھی جیسی ضروری اشیا کی مد میں ایک دھیلے کا ریلیف دیالیکن اربوں ڈالر کا جو قرضہ لیا وہ کہاں گیا؟ قوم چبھتے ہوئے سوالوں کا جواب چاہتی ہے۔ ملک کو کھوکھلا اور برباد کرکے اب وفاداری اور غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹے جا رہے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا ونڈ مل اور پن بجلی ملک کی ضرورت ہے، جتنی تیزی سے اور سستے بجلی کے منصوبے ہم نے لگائے تاریخ میں ان کی مثال نہیں ملتی،ہمارے ان اقدامات کی بدولت ملک سے لوڈشیڈنگ ختم ہوئی۔ سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے ملک مشکل ترین حالات سے گزر رہا ہے، غریب آدمی کی مشکلات کا احساس ہے اس لیے پرتعیش اشیا کی درآمد پر پابندی لگا کر سالانہ 4 ارب ڈالر بچائیں گے۔

وزیراعظم نے سولر پر 17 فیصد ٹیکس ختم کرنے کا اعلان کیا۔ ہمیں توانائی کے متبادل ذرایع کی طرف جانا ہو گا، سندھ، بلوچستان، کے پی کے اور پنجاب سمیت ملک میں سولر اور ونڈ کے منصوبے شروع کیے جا سکتے ہیں لیکن اس میں کچھ وقت لگے گا، گرین انرجی سے بھی 20 ارب ڈالر بچائے جا سکتے ہیں۔ ہم 4 ارب ڈالر کا خوردنی تیل درآمد کرتے ہیں، ہم پرتعیش اشیا کی درآمد پر پابندی لگا کر خوردنی تیل کے لیے پیسے بچا سکتے ہیں، وزیراعظم نے کہا حکومتی اقدامات سے ملک میں استحکام آئے گا، تاجروں اور صنعتکاروں کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ دیہات میں ایگرو بیسڈ انڈسٹریز لگائی جائیں تاکہ شہروں کی طرف نقل مکانی کا رجحان کم ہو۔ وزیراعظم نے کراچی کے صنعتکاروں کی طرف سے تجویز کے جواب میں کہا کہ بلاشبہ سندھ 62 فیصد گیس فراہم کرتا ہے لیکن ایسا فارمولا بنایا جائے کہ کراچی کی صنعت کو بھی فائدہ ہو اور پاکستان کو بھی، اگر گھریلو گیس بند کریں گے تو عوام کو مشکل ہو جائے گی۔

ادھر چیئرمین تحریک انصاف اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اتوار کو پشاورمیں کور کمیٹی کا اجلاس طلب کیا ہے جس میں 25 سے 29 مئی کے درمیان کسی تاریخ کو اسلام آباد مارچ کا فیصلہ کریں گے اور تاریخ کا اعلان کردیں گے، قاسم باغ اسٹیڈیم ملتان میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کرپٹ حکمرانوں نے ہمارے خلاف سازش کی اور ان کے ساتھ امریکا مل گیا، ان کا کہنا تھا کہ یہ ملک کو سری لنکا جیسے حالات کی جانب دھکیل دیں گے، روپیہ گرنے کی وجہ سے مزید مہنگائی آنے والی ہے، اس صورتحال میں مطالبہ ہے جلد از جلد اسمبلیاں تحلیل کی جائیں اور انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جائے،لندن میں بیٹھا ہوا ملک کے فیصلے کررہا ہے۔

ملک کے موجودہ سیاسی ، آئینی اور انتظامی منظر نامے کو سامنے رکھا جائے تو حالات اچھے نظر نہیں آتے۔ملک کے اسٹیک ہولڈرز ایک دوسرے سے دست وگریباں ہیں اور ان کی باہمی لڑائی کا حمیازہ اس ملک کا درمیانہ کاروباری طبقہ ، تنخوادار درمیانے درجے کا ملازم اور بحیثیت مجموعی اس ملک کے عوام بھگت رہے ہیں۔
Load Next Story