آؤ مل کر دعا کریں

ماضی کے جھروکوں پر نظر ڈالنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ گزشتہ حکومتوں نے امریکا کے ہر حکم کی تعمیل کی


Naseem Anjum May 22, 2022
[email protected]

برصغیر پر انگریزوں کا تقریباً سو سالہ قبضہ مسلم امہ اور حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھا۔ لیکن انھوں نے دور اندیشی سے کام لینے کے بجائے اپنے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے اتحاد ، جہاد اور بھائی چارے کے سبق کو فراموش کردیا۔ مسلمانوں نے جب بھی امت مسلمہ کو متحد کرنے کے لیے او آئی سی کا اجلاس بلایا اور اپنے تحفظ، اپنی انا اور وقار کی بات کی تو کفار کو ان کی یکجہتی پسند نہ آئی۔

سابق وزیر اعظم عمران خان نے اہم کردار کیا ، تو کچھ لوگوں کو بہت ناگوار گزرا اور انھوں نے امربالمعروف و نہی عن المنکر کا غلط مطلب لے کر عمران خان کا مذاق اڑانے کی کوشش کی، کیا انھیں معلوم نہیں کہ اس آیت کا کیا مطلب ہے؟ یہی ناں کہ نیکی کو پھیلاؤ اور بدی کو ختم کرو۔ اور اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان کے لیے یہ حکم دیا ہے کہ وہ تبلیغ دین کا فریضہ انجام دے۔

عمران خان نے پاکستان کے جن ، جن علاقوں اور صوبوں میں جلسے کیے ان جلسوں نے کامیابیوں کے ریکارڈ توڑ دیے۔ ان حالات میں بغیر الیکشن کے پی ٹی آئی کی حکومت کو بحال کردینا چاہیے، عمران خان کو دوبارہ وزیر اعظم کا منصب سونپ دیا جائے، رات کا بھولا صبح گھر آجائے تو اسے بھولا نہیں کہا جاسکتا ، پھر یہ تو آپس کا معاملہ ہے۔ اپنے ملک کوکمزور ہونے سے بچانے کے لیے ہر شخص کو ملک کے مفاد کو مدنظر رکھنا ہوگا۔

سابقہ حکومت اور موجودہ حکومت اور ماضی کی حکومتوں کے تقریباً بیس سالوں کا موازنہ کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ پی ٹی آئی نے پونے چار سال میں ملک کا نقشہ بدل دیا۔ مہنگائی ضرور تھی لیکن خزانے میں ہر روز مختلف منصوبوں کے تحت اضافہ ہو رہا تھا اور وہ وقت دور نہیں تھا جب خوشحالی کا دور شروع ہو جاتا ، لیکن ایسے نازک وقت پر حکومت دوسرے لوگوں کے حوالے کر دی گئی۔

ایک وقت تھا جب برطانیہ نے برصغیر کی مغلیہ سلطنت کو منصوبہ بندی کے تحت برباد کیا تھا اور ملک کی بنیادوں میں دراڑیں ڈالنے کے لیے انھوں نے ان لوگوں کو استعمال کیا تھا جو غدار وطن تھے، انھوں نے مسلمان فرمانرواؤں کو معزول کرکے اپنا اقتدار قائم کیا تھا، لہٰذا ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ مسلمانوں پر اعتبار نہیں کرتے تھے، انھیں معلوم تھا کہ جب کوئی شخص جبر و قہر کے ذریعے سلطنت پر دھاوا بولتا ہے اور رعایا کو یرغمال بنا لیتا ہے تو یہ زخم خوردہ لوگ زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔

انگریزوں نے مسلمانوں کو ملازمت سمیت بہت سی مراعات سے محروم کردیا تھا جب کہ ان کے برعکس ہندوؤں پر ان کی عنایتوں کی بارش تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے انھیں اپنا کارندہ مقرر کیا وہ جانتے تھے ہندو قوم پہلے بھی محکوم تھی اور اب وہ انگریزوں سے آنکھ ملا کر بات کرنے کے قابل نہ تھے۔

ماضی کے جھروکوں پر نظر ڈالنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ گزشتہ حکومتوں نے امریکا کے ہر حکم کی تعمیل کی۔ کیری لوگر بل ہو یا ریمنڈ ڈیوس کا پاکستانی قوانین کو پیروں تلے کچلنا اور اٹھارہویں ترمیم کا اضافہ، پیپلز پارٹی کی حکومت میں ہوا۔

جب بھی اپنی طاقت کے بل پر کوئی ایسا قانون بنائے جس سے اس کی ذات اور اس کی پارٹی کو فائدہ ہو تو عدالتی اداروں کا ملک و قوم کے مفاد کے لیے پہلا حق بنتا ہے کہ ایسے قوانین کو رد کردیا جائے۔ یہ اللہ کا بنایا ہوا قانون تو ہے نہیں جس کے توڑنے سے دین و دنیا خراب ہونے کا خطرہ لاحق ہو۔ ویسے تو اگر غور کیا جائے تو ہمارے ملک میں اسلامی قوانین کو باقاعدگی کے ساتھ پامال کیا جاتا ہے۔

پاکستان ایک اسلامی ملک ہے ، جب سے ملک وجود میں آیا ہے آج تک کسی کو سزا نہیں ملی، قاتل بڑی آسانی کے ساتھ رہا کر دیے جاتے ہیں اور مقتول کے خاندان ہراساں ہونے کے بعد ملک چھوڑ دیتے ہیں تو گویا قانون اور قانونی ادارے طاقت ور کے سامنے بے بس ہیں جب کہ 1973 کے آئین کیمطابق عدلیہ آزاد ہوگی، اسلام پاکستان کا سرکاری مذہب ہے، صدر اور وزیر اعظم کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔

عوام کو مواقع دیے جائیں گے کہ وہ اپنی زندگیاں قرآن و سنت کے مطابق گزاریں، عصمت فروشی، سود، جوا اور فحش لٹریچر پر پابندی عائد کی جائے گی، اردو پاکستان کی قومی زبان ہوگی، عربی زبان کو فروغ دیا جائے گا اور آٹھویں جماعت تک عربی کی تعلیم لازمی قرار دی گئی ہے، جو شخص ختم نبوت ﷺ کا منکر ہوگا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوگا۔

اب اگر ہم 1973 کے آئین کا جائزہ لیں تو کیا درج بالا قوانین پر عمل کیا جاتا ہے؟ اگر جواب نفی میں ہے تو کس کی ذمے داری ہے کہ آئین کا بول بالا کیا جائے اور آئین توڑنے والوں کو عبرت ناک سزا سے ہمکنار کیا جائے ، لیکن ہمارے وطن عزیز میں 74 سال سے آئین کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں کوئی پرسان حال نہیں جب آئین و قانون بنانیوالے بے توجہی کا مظاہرہ کریں گے تو انارکی پھیلے گی، اللہ کا عذاب مختلف مسائل اور بیماریوں اور سانحات کی شکل میں نازل ہوگا۔

اب اگر ان حالات میں کوئی لیڈر اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر میدان کارزار میں اتر جاتا ہے اور برائیوں کے خلاف کام کرتا ہے، اسلام کا روشن چہرہ پوری دنیا کے سامنے لے آتا ہے، 73 کے آئین پر عمل کرتے ہوئے یونیورسٹی کی سطح تک قرآنی تعلیم کو لازمی قرار دیتا ہے، تاکہ فحاشی، اغوا، قتل اور اقربا پروری کا خاتمہ ہو۔

اقوام متحدہ میں بحیثیت ایک سچا مسلمان اپنی تقریر اسلامی احکامات کے مطابق کرکے سپر پاور کو حیران کردیتا ہے، تو یقینی بات ہے ایسا شخص دشمنان اسلام کی آنکھوں میں ضرور کھٹکے گا، اسی لیے اسے ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا تاکہ من پسند حکمران آئیں اور پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچایا جائے۔ مدبران پاکستان کو اس نکتے کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے تھا۔

1992 میں ورلڈ کپ جیتنے والے عمران خان نے اپنے کردار کے باعث پاکستانیوں کے دل جیت لیے ہیں سب کو اس بات کا اندازہ ہو گیا ہے کہ خودکش حملے ایک بار پھر شروع ہوگئے ہیں ایک بار پھر ملعون گیرٹ ویلڈر نے گستاخانہ ٹویٹس کرنے شروع کردیے اور ڈالر 200 سے اوپر چلا گیا ہے۔ اللہ نہ کرے ہمارے ملک کا حال سری لنکا جیسا ہو۔ آئیں ! سب مل کر دعا کرتے ہیں۔1

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں