قائد ملت اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی  ؒ …

نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے دور اقتدار میں بھی حکومت کا حصہ بننے کے بجائے نظام مصطفی ﷺ کے پرچم کو بلند رکھا



قائد ملت اسلامیہ حضرت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کی رحلت کو 19 سال بیت گئے۔

ان کا یوم وصال 16 شوال المکرم 1424 ہجری بمطابق 11 دسمبر 2003 بروز جمعرات ہے۔ان کا انتقال اسلام آباد میں ہوا ، آپ کی پیدائش 17 رمضان المبارک 1344 ہجری بمطابق 31 مارچ 1926 میرٹھ (بھارت) میں برصغیر کے ممتاز علمی وروحانی خاندان میں ہوئی۔

آپ کے والد گرامی مبلغ اعظم حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی رحمتہ اللہ علیہ نے جہاں یورپ، امریکا ، افریقہ ، سری لنکا سمیت عالم کفر میں اسلام کی حقانیت کے پیغام کو عام کرنے میں تبلیغ اسلام کے حوالے سے مبلغ اعظم کا خطاب پایا، وہیں تحریک پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر کلیدی کردار ادا کیا، جس پر قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کی جانب سے انھیں سفیر پاکستان کا خطاب عطا کیا گیا جب کہ آپ کے دادا حضرت علامہ شاہ عبدالحکیم صدیقی میرٹھی اپنی علمی و مذہبی نمایاں حیثیت کی بنا پر میرٹھ کے شاہی مسجد کے شاہی خطیب کے منصب پر فائز تھے۔

نسب کے اعتبار سے ان کے خاندان کا 34ویں پشت میں خلیفہ اول حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ سے جا ملتا ہے جب کہ سلسلہ طریقت میں بیعت و خلافت حضرت امام احمد رضا خان بریلوی سے براہ راست ہے۔ حضرت علامہ شاہ احمد نورانی کا خاندان دنیا کا واحد خانوادہ ہے جس میں ان کے والد حضرت شاہ محمد عبد العلیم صدیقی سمیت ان کے دو تایا حضرت علامہ شاہ احمد مختار صدیقی، حضرت علامہ شاہ نذیر احمد صدیقی خجندی کو حضرت امام احمد رضا سے بیک وقت بیعت و خلافت کی اجازت کی سعادت حاصل رہی۔

حضرت علامہ نذیر احمد صدیقی خجندی بمبئی کی جامع مسجد کے خطیب تھے۔ قائداعظم محمد علی جناح نہ صرف دینی امور میں ان سے رہنمائی حاصل کرتے تھے بلکہ عیدین کی نمازیں بھی آزاد میدان پارک بمبئی میں آپ کی امامت میں ادا فرماتے تھے۔ جب قائداعظم نے 1929 میں رتن بائی سے شادی کا فیصلہ کیا تو انھوں نے علامہ نذیر احمد صدیقی خجندی سے نہ صرف مشورہ کیا بلکہ رتن بائی کو انھی کے دست حق پرست پر مشرف بہ اسلام کیا اور انھوں نے ہی قائد اعظم محمد علی جناح کا نکاح پڑھایا۔

حضرت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی رحمتہ اللہ علیہ کا پاکستان کی قومی سیاسی جماعتوں میں وہ واحد رہنما تھے جو حافظ قرآن، عالم باعمل، عصری علوم پر دسترس و عبور، عالمی مبلغ، مناظر اسلام، حسینی سیاست کے علمبردار ہونے کے ساتھ ساتھ عربی، انگریزی، سواحلی، فرنچ سمیت دنیا کی سترہ زبانوں پر مکمل عبور رکھتے تھے اور ان کا انداز خطاب نہایت دل نشین اور سحر انگیز تھا۔

آپ نے ہمیشہ رمضان المبارک میں نماز تراویح میں قرآن پاک سنانے اور درس قرآن کی پابندی کے سلسلے کو عمر کے آخری حصے تک 63 سال جاری رکھا، تاہم ایک سال کا وقفہ عارضہ قلب کی سرجری کے باعث ہوا۔اپنی والدہ محترمہ کی خواہش پر عمر کے آخری حصے تک اپنے کرائے کی رہائش گاہ ماسٹر ہاؤس سے متصل کچھی میمن مسجد راجہ غضنفر علی روڈ صدر کراچی میں تہجد کی نماز میں دو قرآن پاک ختم کرنے کی روایت کو بھی بر قرار رکھا۔

1954 میں اپنے والد کی رحلت کے بعد ان کے عالمی تبلیغی مشن کے عظیم کام کو آگے بڑھایا۔ 1955 میں دنیا اسلام کی عظیم اسلامی یونیورسٹی جامعتہ الازھر کا دورہ کیا اور 1958ء میں روس کے مفتی وقت حضرت ضیاالدین بابا خانوف کی دعوت پر روس کا تفصیلی دورہ کیا اور 1959 میں عرب ریاستوں کا خیرسگالی دورہ کیا۔ 1962 میں نائجیریا کے وزیر اعظم کی دعوت پر یوگینڈا، ماریشیس، کینیا، صومالیہ کا سہ ماہی تبلیغی دورہ کیا اور 1962میں ہی قطب مدینہ حضرت شیخ علامہ ضیا الدین مدنی کے صاحبزادے حضرت علامہ شیخ فضل الرحمن مدنی کی صاحبزادی سے مدینہ طیبہ میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔

آپ کا نکاح مسجد نبوی میں ہوا جب کہ 1963 میں ترکی، فرانس، مغربی جرمنی، برطانیہ، چین اور اسپین کا تبلیغی دورہ کرنے کے علاوہ 1964میں امریکا، کینیڈا، جنوبی امریکا کا تفصیلی تبلیغی دورہ کیا اور 1968 میں اسلامک ری ویو لندن کے قادیانی ایڈیٹر سے ساڑھے پانچ گھنٹے کے مناظرے کے بعد فتح مبین حاصل کی جب کہ 1972ء میں مکۃ المکرمہ میں ورلڈ اسلامک مشن کی بنیاد رکھی اور اپنی تبلیغی مساعی کے نتیجے میں ڈیڑھ لاکھ لوگوں کو مشرف بااسلام کرنے کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک میں سیکڑوں مساجد، اسلامک سینٹرز و لائیبریریز قائم کی۔

حضرت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کی سیاسی زندگی کا اجمالی جائزہ لیا جائے تو اس کا آغاز ان کی ایک ہی سیاسی جماعت جمعیت علمائے پاکستان پر مشتمل ہے۔ اس جماعت کی دہائی سے آفس سیکریٹری اور سیکریٹری اطلاعات کراچی کی حیثیت سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا اور 70کی دہائی میں اپنی علمی قابلیت، خداداد صلاحیت اور طلسماتی شخصیت کے باعث بکھری ہوئی جمیعت علمائے پاکستان کو اکابرین اہلسنت کی پذیرائی سے نہ صرف متحد کیا بلکہ منشور کمیٹی میں ہوتے ہوئے مقام مصطفی ﷺ کا تحفظ اور نظام مصطفی ﷺ کے نفاذ کو منشور کی اساس قرار دیا اور حضرت پیر خواجہ قمر الدین سیالوی کی سربراہی میں پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر کے عہدے پر فائز ہوئے اور ان کی رحلت کے بعد مرکزی صدر مقرر ہوئے۔

1970 کے عام انتخابات میں جمعیت علمائے پاکستان کی شاندار کامیابی کے نتیجے میں قومی اسمبلی میں اپنی جماعت کے پارلیمانی لیڈر مقرر ہوئے اور رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے ذوالفقار علی بھٹو کی دھمکی کے باوجود مشرقی پاکستان گئے اور شیخ مجیب الرحمٰن سے ملاقات کرکے پاکستان کو متحد رکھنے کے لیے اکثریتی جماعت کو اقتدار دے کر پاکستان کو متحد رکھنے کی کوششیں کی۔

سقوط مشرقی پاکستان کے بعد آئین پاکستان کی تدوین اور تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا اور 1973 کے متفقہ دستور کو اسلام سے ہم آہنگ رکھنے کے لیے نمایاں کردار ادا کیا ۔ آئین کی متفقہ منظوری کے بعد جب ملک میں ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے آمریت کی راہ ہموار کرنے کی کوششوں کا آغاز ہوا تو سب سے پہلے بھٹو کی حکومت کے خلاف حزب اختلاف کے بننے والے اتحاد ''متحدہ جمہوری محاذ''کے قیام میں، جس میں پیر صاحب پگاڑا و دیگر قائدین شامل تھے، اس اتحاد کا جمعیت علمائیِ پاکستان بھی حصہ تھی اور اسی طرح 1977 کے عام انتخابات میں قبل از انتخابات میں بدترین دھاندلی کے نتیجے میں 77کے انتخابات کا بائیکاٹ اور ''پاکستان قومی اتحاد'' کی تشکیل میں علامہ شاہ احمد نورانی نے اہم کردار ادا کیا اور اسی تحریک کو تحریک نظام مصطفی بنانے میں حزب اختلاف کی نو سیاسی جماعتوں میں یہ کریڈٹ جمیعت علمائے پاکستان کو ہی حاصل رہا۔

اس تحریک کے نتیجے میں جنرل ضیاالحق نے ملک میں مارشل لاء لگا دیا اور بعد ازاں بہت سی قومی اتحاد میں شامل جماعتیں ضیاالحق کے اقتدار کا حصہ بن گئیں لیکن علامہ شاہ احمد نورانی نے جہاں اس اتحاد کو قائم رکھنے کے لیے اتحاد کے سیکریٹری جنرل اور اپنی جماعت کے سینئر نائب صدر رفیق احمد باجوہ کو اتحاد سے نکال کر بڑی قربانی دی وہیں اپنی جماعت کو ضیا الحق کا ہم نوا بنانے کے بجائے ضیاالحق کی آمریت اور ان کی غیر اسلامی سزاؤں کے خلاف کلمہ حق بلند کرتے رہے اور ضیا آمریت کے خلاف حسینی سیاست کو فروغ دیا۔

نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے دور اقتدار میں بھی حکومت کا حصہ بننے کے بجائے نظام مصطفی ﷺ کے پرچم کو بلند رکھا اور ملک میں مذہبی دہشت گردی کو روکنے کے لیے ملی یکجہتی کونسل جیسی تنظیم قائم کر کے فرقہ واریت اور عالمی طاقتوں کی جانب سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نسل کشی جیسی مہم کو روکنے کے لیے مذہبی سیاسی و جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کی بنیاد رکھی اور انتخابات میں نمایاں کامیابی کے بعد جنرل مشرف کے وردی میں صدر پاکستان بننے کے قانون کی منظوری کی راہ میں ایسی رکاوٹ بنے جو اپنی رحلت تک انھوں نے اس قانون کو منظور نہیں ہونے دیا اور اسی طرح ان کی جماعت جمعیت علمائے پاکستان اول سے تاحال الطاف حسین کی ایم کیو ایم کے خلاف اپنے اصولی موقف پر قائم ہے یہ اعزاز صرف علامہ شاہ احمد نورانی کا ہے۔

علامہ شاہ محمد نورانی کی سیاست پرمٹ ، پلاٹ ، کمیشن، سرکاری منصب اور عہدوں سے پاک، جرات مندانہ سیاسی کردار اور بے باک حق گوئی کے معترف اپنے ہی نہیں بیگانے بھی ہیں۔

غلامان محمد ﷺ جان دینے سے نہیں ڈرتے

یہ سر کٹ جائے یا رہ جائے کچھ پرواہ نہیں کرتے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں