سولر سسٹم پر سترہ فیصد ٹیکس ختم… خوش آیند قدم
عمران حکومت کی جانب سے شمسی توانائی کے منصوبوں پر 17 فیصد ٹیکس لگنے کی بنا پر تقریبا سبھی جگہ یہ کام رک گیا تھا
کراچی:
حکومت پاکستان نے جمعہ کو ایک اہم فیصلہ کیا ہے جس کے تحت سولر سسٹم پر سترہ فیصد ٹیکس ختم کر دیا ہے۔ یہ ٹیکس تحریک انصاف کی حکومت نے چند ماہ پہلے لگایا تھا جس کی وجہ سے سولر سسٹم لگانے کی لاگت میں بے انتہا اضافہ ہو گیا اور شمسی توانائی کے گھریلو اور کمرشل منصوبوں پر عمل تقریبا رک گیا تھا۔
موجودہ حکومت اس قدم سے ایک سولر سسٹم لگانے والے صارفین کو بڑا ریلیف ملے گا اور ملک کو بجلی اور لوڈشیڈنگ کے بحران سے نکالنے میں خاصی مدد ملے گی۔ سولر سسٹم کی تنصیب پر ایک دفعہ اخراجات تو کرنے پڑتے ہیں لیکن صارفین ہر ماہ بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں کی ادائیگی سے بچ جاتا ہے۔
گھریلو یا کمرشل بنیادوں پر جو اضافی بجلی حاصل ہوتی ہے، اسے بجلی کی کمپنیاں ایک خاص فارمولے کے تحت اپنے پاس محفوظ کر لیتی ہیں ۔ ان اضافی بجلی کے یونٹس کو صارف بعد میں خود بھی مفت استعمال کر سکتا ہے اور حکومت بھی ان اضافی یونٹس کو دوسرے صارفین کو فروخت کر سکتی ہے۔ایک تخمینے کے مطابق حکومت پاکستان کو ہر سال ملک میں توانائی کی ضرورت پورا کرنے کے لیے سالانہ 16 ارب ڈالر کا تیل بیرون ملک سے منگوانا پڑتا ہے۔ سولر انرجی کے زیادہ استعمال سے یہ اخراجات کم ہوتے جائیں گے۔
شمسی توانائی سورج کی روشنی اور حدت کو ایک خاص طریقے سے جمع کر کے حاصل کی جاتی ہے۔ اس سائنسی ٹیکنیک کو فوٹو وولٹک (Photo voltic) کا نام دیا گیا ہے۔سن 2015تک فوٹو وولٹک تکنیک کے ذریعے دنیا بھر میں ایک فیصد بجلی پیدا کی جاتی تھی لیکن اب اس ٹیکنیک کے ذریعے چار فیصد بجلی حاصل کی جا رہی ہے۔ بین الاقوامی توانائی ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اگلے 25سال کے دوران سورج سے حاصل ہونے والی بجلی کا تناسب 20 فیصد سے زیادہ ہو جائے گا۔
پاکستان کے سرکاری اور نجی شعبے میں اس تکنیک کے تحت شمسی توانائی حاصل کرنے کے کئی پروجیکٹ پر کام ہو رہا تھا لیکن عمران حکومت کی جانب سے شمسی توانائی کے منصوبوں پر 17 فیصد ٹیکس لگنے کی بنا پر تقریبا سبھی جگہ یہ کام رک گیا تھا۔توقع کی جاسکتی ہے کہ اس 17 فیصد ٹیکس کے خاتمے کے بعد شمسی توانائی کے یہ منصوبے دوبارہ شروع ہوجائیں گے۔
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں سب سے پہلے اور سب سے بڑے سولر پاور گرڈ پلانٹ کا افتتاح 29مئی 2018 کو ہوا۔سولر الیکٹریسٹی جنریشن سسٹم کے تحت یہ ''کلین انرجی'' پلانٹ ارتھ پارٹنرشپ پروگرام کے تحت جاپان کی بین الاقوامی ایجنسی کی خصوصی گرانٹ سے لگایا گیا۔اس وقت پاکستان میں متبادل توانائی کا ترقیاتی بورڈ شمسی توانائی کے بائیس منصوبوں پر کام کر رہا ہے جس کے تحت چار سو میگا واٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہیں۔ ان منصوبوں میں سے تین بڑے منصوبے بہاولپور میں ہیں جب کہ ایک منصوبہ ساہیوال ضلع کے علاقے ھڑپہ میں ہے۔
پاکستان کا سب سے بڑا سولر پاور پلانٹ بھی بہاولپور میں ہی ہے جسے قائد اعظم سولر پارک کا نام دیا گیا ہے ، اس سے 190 میگاواٹ بجلی حاصل کی جارہی ہے جب کہ اس کا پیداواری تخمینہ ایک ہزار میگاواٹ ہے۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں شمسی توانائی سے باآسانی 2900 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔
جب تک ہم بجلی کو پانی سورج اور ہوا سے پیدا نہیں کرتے ہم کبھی اقتصادی طور پر مضبوط نہیں ہو سکتے کوئلے پٹرول اور گیس سے بجلی پیدا کرنا عملی طور پر پاکستان جیسے ملک کی معیشت کو تباہ کرنے کے مصداق ہے۔ بھارت اس وقت وقت 80 ہزار میگاواٹ بجلی صرف سورج اور ہوا سے پیدا کر رہا ہے تو آخر کیا وجہ ہے کہ ہم کیوں اس جانب توجہ نہیں دے رہے۔
شمسی توانائی کے منصوبوں پر 17 فی صد ٹیکس کو ختم کرنا یقینی اعتبار سے ایک خوش آیند قدم ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ حکومت اس عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے متبادل توانائی کے ترقیاتی بورڈ اور متعلقہ ماہرین سے ایسی خصوصی تجاویز طلب کرے جن کو حکومت آیندہ بجٹ میں شامل کر سکے اور ان پر عملدرآمد سے عام آدمی کے ساتھ ساتھ کمرشل ادارے بھی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے کم سے کم متاثر ہوں اور ملکی پیداوار میں بھی تسلسل سے اضافہ ہوتا رہے۔
حکومت اگر اس بجٹ میں میں اس تجویز کو شامل کر لے کہ جو شخص اپنے گھر پر 5 KW تک کا سولر سسٹم لگائے گا تو اسے بینک سے آسان شرائط پر قرض دیا جائے گا۔سولر سسٹم کی تنصیب کے لیے دیا جانے والا قرضہ soft loan شمار کیا جائے تو پاکستان کے شہریوں کی اکثریت اپنے گھروں پر ضرورت کے مطابق چھوٹے بڑے سولر سسٹم لگا لیں گے، یہ قسط تقریبا دس ہزار روپے ماہانہ تک ہو۔ اس تجویز پر عملدرآمد سے حکومت کو بھی خطیر زرمبادلہ کی بچت ہو گی۔
پاکستان اس اعتبار سے ایک خوش قسمت ملک ہے کہ یہاں قدرت نے چار بہترین موسم دیے ہیں۔ ملک کی زیادہ تر آبادی جن شہری اور دیہاتی علاقوں میں رہتی ہے وہاں سورج تابناکی سے نکلتا ہے جو شمسی توانائی پیدا کرنے کا بہترین اور اہم ترین ذریعہ ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کا سرکاری اور نجی شعبہ قدرت کی جانب سے دی جانے والی اس توانائی کو عوامی فلاح و بہبود اور ملکی ترقی کے لیے دانشمندی سے استعمال کرے۔
حکومت پاکستان نے جمعہ کو ایک اہم فیصلہ کیا ہے جس کے تحت سولر سسٹم پر سترہ فیصد ٹیکس ختم کر دیا ہے۔ یہ ٹیکس تحریک انصاف کی حکومت نے چند ماہ پہلے لگایا تھا جس کی وجہ سے سولر سسٹم لگانے کی لاگت میں بے انتہا اضافہ ہو گیا اور شمسی توانائی کے گھریلو اور کمرشل منصوبوں پر عمل تقریبا رک گیا تھا۔
موجودہ حکومت اس قدم سے ایک سولر سسٹم لگانے والے صارفین کو بڑا ریلیف ملے گا اور ملک کو بجلی اور لوڈشیڈنگ کے بحران سے نکالنے میں خاصی مدد ملے گی۔ سولر سسٹم کی تنصیب پر ایک دفعہ اخراجات تو کرنے پڑتے ہیں لیکن صارفین ہر ماہ بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں کی ادائیگی سے بچ جاتا ہے۔
گھریلو یا کمرشل بنیادوں پر جو اضافی بجلی حاصل ہوتی ہے، اسے بجلی کی کمپنیاں ایک خاص فارمولے کے تحت اپنے پاس محفوظ کر لیتی ہیں ۔ ان اضافی بجلی کے یونٹس کو صارف بعد میں خود بھی مفت استعمال کر سکتا ہے اور حکومت بھی ان اضافی یونٹس کو دوسرے صارفین کو فروخت کر سکتی ہے۔ایک تخمینے کے مطابق حکومت پاکستان کو ہر سال ملک میں توانائی کی ضرورت پورا کرنے کے لیے سالانہ 16 ارب ڈالر کا تیل بیرون ملک سے منگوانا پڑتا ہے۔ سولر انرجی کے زیادہ استعمال سے یہ اخراجات کم ہوتے جائیں گے۔
شمسی توانائی سورج کی روشنی اور حدت کو ایک خاص طریقے سے جمع کر کے حاصل کی جاتی ہے۔ اس سائنسی ٹیکنیک کو فوٹو وولٹک (Photo voltic) کا نام دیا گیا ہے۔سن 2015تک فوٹو وولٹک تکنیک کے ذریعے دنیا بھر میں ایک فیصد بجلی پیدا کی جاتی تھی لیکن اب اس ٹیکنیک کے ذریعے چار فیصد بجلی حاصل کی جا رہی ہے۔ بین الاقوامی توانائی ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اگلے 25سال کے دوران سورج سے حاصل ہونے والی بجلی کا تناسب 20 فیصد سے زیادہ ہو جائے گا۔
پاکستان کے سرکاری اور نجی شعبے میں اس تکنیک کے تحت شمسی توانائی حاصل کرنے کے کئی پروجیکٹ پر کام ہو رہا تھا لیکن عمران حکومت کی جانب سے شمسی توانائی کے منصوبوں پر 17 فیصد ٹیکس لگنے کی بنا پر تقریبا سبھی جگہ یہ کام رک گیا تھا۔توقع کی جاسکتی ہے کہ اس 17 فیصد ٹیکس کے خاتمے کے بعد شمسی توانائی کے یہ منصوبے دوبارہ شروع ہوجائیں گے۔
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں سب سے پہلے اور سب سے بڑے سولر پاور گرڈ پلانٹ کا افتتاح 29مئی 2018 کو ہوا۔سولر الیکٹریسٹی جنریشن سسٹم کے تحت یہ ''کلین انرجی'' پلانٹ ارتھ پارٹنرشپ پروگرام کے تحت جاپان کی بین الاقوامی ایجنسی کی خصوصی گرانٹ سے لگایا گیا۔اس وقت پاکستان میں متبادل توانائی کا ترقیاتی بورڈ شمسی توانائی کے بائیس منصوبوں پر کام کر رہا ہے جس کے تحت چار سو میگا واٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہیں۔ ان منصوبوں میں سے تین بڑے منصوبے بہاولپور میں ہیں جب کہ ایک منصوبہ ساہیوال ضلع کے علاقے ھڑپہ میں ہے۔
پاکستان کا سب سے بڑا سولر پاور پلانٹ بھی بہاولپور میں ہی ہے جسے قائد اعظم سولر پارک کا نام دیا گیا ہے ، اس سے 190 میگاواٹ بجلی حاصل کی جارہی ہے جب کہ اس کا پیداواری تخمینہ ایک ہزار میگاواٹ ہے۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں شمسی توانائی سے باآسانی 2900 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔
جب تک ہم بجلی کو پانی سورج اور ہوا سے پیدا نہیں کرتے ہم کبھی اقتصادی طور پر مضبوط نہیں ہو سکتے کوئلے پٹرول اور گیس سے بجلی پیدا کرنا عملی طور پر پاکستان جیسے ملک کی معیشت کو تباہ کرنے کے مصداق ہے۔ بھارت اس وقت وقت 80 ہزار میگاواٹ بجلی صرف سورج اور ہوا سے پیدا کر رہا ہے تو آخر کیا وجہ ہے کہ ہم کیوں اس جانب توجہ نہیں دے رہے۔
شمسی توانائی کے منصوبوں پر 17 فی صد ٹیکس کو ختم کرنا یقینی اعتبار سے ایک خوش آیند قدم ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ حکومت اس عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے متبادل توانائی کے ترقیاتی بورڈ اور متعلقہ ماہرین سے ایسی خصوصی تجاویز طلب کرے جن کو حکومت آیندہ بجٹ میں شامل کر سکے اور ان پر عملدرآمد سے عام آدمی کے ساتھ ساتھ کمرشل ادارے بھی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے کم سے کم متاثر ہوں اور ملکی پیداوار میں بھی تسلسل سے اضافہ ہوتا رہے۔
حکومت اگر اس بجٹ میں میں اس تجویز کو شامل کر لے کہ جو شخص اپنے گھر پر 5 KW تک کا سولر سسٹم لگائے گا تو اسے بینک سے آسان شرائط پر قرض دیا جائے گا۔سولر سسٹم کی تنصیب کے لیے دیا جانے والا قرضہ soft loan شمار کیا جائے تو پاکستان کے شہریوں کی اکثریت اپنے گھروں پر ضرورت کے مطابق چھوٹے بڑے سولر سسٹم لگا لیں گے، یہ قسط تقریبا دس ہزار روپے ماہانہ تک ہو۔ اس تجویز پر عملدرآمد سے حکومت کو بھی خطیر زرمبادلہ کی بچت ہو گی۔
پاکستان اس اعتبار سے ایک خوش قسمت ملک ہے کہ یہاں قدرت نے چار بہترین موسم دیے ہیں۔ ملک کی زیادہ تر آبادی جن شہری اور دیہاتی علاقوں میں رہتی ہے وہاں سورج تابناکی سے نکلتا ہے جو شمسی توانائی پیدا کرنے کا بہترین اور اہم ترین ذریعہ ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کا سرکاری اور نجی شعبہ قدرت کی جانب سے دی جانے والی اس توانائی کو عوامی فلاح و بہبود اور ملکی ترقی کے لیے دانشمندی سے استعمال کرے۔