بچوں کا ادب
بچوں کا لکھا ہوا ادب یا بچوں کے لیے لکھا گیا ادب، دونوں ہی بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اتنے عام اور مستحکم نہیں ہیں
کراچی:
بچوں کا لکھا ہوا ادب یا بچوں کے لیے لکھا گیا ادب، دونوں ہی بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اتنے عام اور مستحکم نہیں ہیں کہ ہم اس حوالے سے کسی مہذب اور ترقی یافتہ معاشرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکیں اور یہ بظاہر معمولی دِکھنے والی کمی ایسی ہے کہ جس کی وجہ سے ہمارے پانچ سے چودہ سال کی عمر کے بچے بچوں کی عالمی برادری میں بہت کمزور اور بہت پیچھے نظر آتے ہیں اور تو اور ہم برصغیر میں بولی جانے والی بے شمار زبانوں سے بھی بچوں کے گیت اور کہانیوں کو ااُردومیں منتقل نہیں کرسکے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بچوں کے چند ماہناموں اور اِکا دُکا شایع شدہ غیر معیاری کتابوں سے قطع نظر ہمارے یہاں بچوں کا معیاری ادب نہ ہونے کی حد تک کم ہے۔
تاریخی اعتبار سے علامہ اقبال کی ابتدائی شاعری میں شامل کچھ طبع زاد اور کچھ ترجمہ شدہ نظموں کو اُردومیں بچوں کے ادب کا باقاعدہ آغاز کیا جاسکتا ہے کہ اس سے قبل اُردو نثر یا شاعری میں خالصتاً بچوں کے لیے لکھے گئے ادب کا شدید فقدان پایا جاتاہے۔
بیسویں صدی کے آغاز میں اسماعیل میرٹھی اور اُن سے کچھ عرصہ بعد صوفی غلام مصطفیٰ تبسم نے اس طرف توجہ دی مگر اُن کے بعد کسی مستند ادیب نے اس روایت کو اُن جیسی سنجیدگی سے نہیں اپنایا ۔ قیامِ پاکستان کے بعدکھلونا، بچوں کی دنیا، آنکھ مچولی اور پھول جیسے رسالوں کی وجہ سے بچوں کے ادب کے کچھ مقبول لکھاری سامنے آئے مگر اُن کے موضوعات بہت کم جدید، ذہین اور اس کی معلومات سے مطابقت رکھتے تھے اور بالخصوص انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون کی وجہ سے آج کے بچے طرح طرح کے الیکٹرانک گیجیٹس کی وجہ سے جس نوع کے سائنس فکشنز اور اینیمیٹڈ ذریعہ اظہار کے عادی ہوگئے ہیں۔
اُن کے لیے اب پرانی وضع کی جادو اور جنوں پریوں کی کہانیاں تقریباً بے معنی ہوچکی ہیں جس کی ایک وجہ ان کی پیش کش کا غیر دلچسپ انداز بھی ہے کہ اب اُس کی آنکھیں خوب صورت کاغذ اور دلفریب رنگوں کی عادی ہوچکی ہیں اوروہ گھٹیا درجے کے کاغذ اور معمولی روائتی چھپائی والی نظمیں یا کہانیاں دُور سے دیکھ کر ہی ردّ کردیتا ہے غور سے دیکھا جائے تو یہ بچے وہ ہیں جو یا تو غیر ممالک میں اپنے ماں باپ کے ساتھ رہائش پذیر ہیں یا ملک میں ہماری اَپر اور اَپر مڈل کلاس کے انگلش میڈیم اسکولوں کا پڑھے ہوئے ہیں جہاں انھیں سرے سے اُردو زبان ہی ڈھنگ سے سکھائی نہیں جاتی اُن کو اپنی روائت اور ماں کی لوریوں کی جگہ بھی ایسے نرسری رائمز سکھائے جاتے ہیں جن کے کردار ، زبان اور ماحول سب کے سب کسی اور دنیا سے لیے جاتے ہیں جس کا لازم نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ وہ اپنی مادری یا قومی زبان سے نا واقف ہونا شروع کردیتے ہیں اور یوں مقامی طور پر بچوں کے لیے لکھے گئے بیشتر ادب کا اُن سے کوئی تعلق ہی نہیں بن پاتا۔
چند روز قبل جوائے آف اُردو کے برادرم علیم اور اُن کی ساتھی محترمہ زرمینے انصاری ملنے کے لیے تشریف لائے تو بچوں کے ادب پر بات کرتے ہوئے یہ تناظر سامنے آیا جو اوپر قلم بند ہوا ہے۔ زرمینے انصاری آج کل اپنی فیملی کے ساتھ پرتگال میں ہیں مگر اس سے قبل وہ کینیڈا ، امریکا روس اوریو اے ای میں بھی رہ چکی ہیں اور بچوں کے حوالے سے اُردو زبان اور ادب کے مسائل ہر جگہ پر انھیں درپیش رہے ہیں مجھ سے اُن کی تنظیم جوائے آف اُردو کا کورونا کے دنوں میں تعارف ہوا اور مجھے یہ لوگ اپنی کمٹ منٹ اور مقصد کی وضاحت کے اعتبار سے بہت اچھے لگے کہ فی زمانہ اُردو زبان کی خوب صورتی اور ہمہ گیریت کی طرف لوگوں کی توجہ کم سے کم ہوتی چلی جارہی ہے۔
طویل عرصے تک برٹش کالونی رہنے کی وجہ سے ہماری زندگیوں، دفاتر اور تعلیمی نصاب میں انگریزی کی ضرورت سے زیادہ اہمیت بوجوہ ہمارے مزاج کا حصہ بن چکی ہے اور یہ بھی طے ہے کہ اعلیٰ تعلیم اور بین الاقوامی برادری سے ہم آہنگ رہنے کے لیے ہمیں انگریزی کو ایک عالمی رابطے کی زبان کے طور پر سیکھنا وقت کی ضرورت اور حالات کا تقاضا بھی ہے مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہم اپنے بچوں کو پرائمری میں جب اچھی چیزوں کے بارے میں اُن کے تصورات واضح اور متعین ہورہے ہیں انھیں کلاس ون سے ہر مضمون انگریزی میں پڑھانا شروع کردیں۔
اس میں شک نہیں کہ ہمیں اپنے بچوںکو انٹرنیشنل شہری بھی بنانا ہے مگر کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص نیشنل ہوئے بغیر انٹرنیشنل ہوجائے سو ہمیں دیکھنا ہوگا کہ تین چار سال کے بچے کو ایک اجنبی زبان میں زندگی کا تعارف ممکن بھی ہے یا نہیںاور اگر اس میں سے اُس کے فوک لور، لوریوں، تہذیبی روایات اور کہانیوں کو بھی منہا کردیا جائے تو وہ انسان کے بجائے شاید ایک روبوٹ کی شکل میں ہی زندہ رہ سکے گا۔
بیرونِ وطن مقیم پاکستانیوں کو اپنے بچوں کو اُن کی زبان ، روایات اور تہذیب سے آگاہ کرنا اس لیے مشکل ہے کہ وہ بچے جس ملک میں پڑھ رہے ہیں انھیں وہاں کی زبان میں ہی پڑھنا ہوگا اور وہاں کی مصروف اور تیزرفتار زندگی میں والدین کے لیے پورے معاشرے سے کٹ کر اپنے گھر کی حد تک ایک بچے کے لیے خاص طور پر وقت نکالنا ہوگا کہ اُن کے ارد گرد اس ملک کی تہذیب، روائت اور قانون کا پہرا ہوگا جس میں وہ رہ رہے ہیں۔
علیم اور زرمینے اس حوالے سے ایک ایسا پلان لے کر آئے تھے جس کی معرفت پرائے دیسوں میں بچوں کو اُن کی خاندانی روائت، مذہب اور تاریخ سے ہم آہنگ کیا جاسکے اس سلسلے میں انھوں نے گلستانِ سعدی سے تین کہانیوں کا انتخاب کیا ہے جنھیں بہت خوبصورت دیدہ زیب اور دلچسپ انداز میں بچوں تک پہنچایا جائے گا تاکہ وہ اس کی طرف پوری توجہ سے متوجہ ہوسکیں۔
ابھی اُن سے اس پروگرام کے حوالے سے گفتگو چل ہی رہی تھی کہ اکادمی ادبیات پاکستان سے اُس کے چیئرمین ڈاکٹر یوسف خشک کا فون آیا جس سے پتہ چلا کہ وہ 24 سے 26 مئی تک بچوں کے ادب کے حوالے سے ایک بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کر رہے ہیں جس میں اس مسئلہ نما موضوع پر کھل کر بات کی جائے گی اور دوسرے ملکوں کے تجربات سے فائدہ اُٹھاکر اپنے یہاں کے ادب کو بچوں کے لیے دلچسپ اور قابلِ توجہ بنایا جاسکے گا۔
میرے خیال میں یہ اقدام بہت بروقت اور اہم ہے کہ ہم اپنے ملک میں جاری ہی تین طرح کے تعلیمی نظاموں کی موجودگی میں بچوں کی اُن خطوط پر تربیت نہیں کر سکتے جو اُن کا حق ہے یقینا بین الاقوامی اور قومی ماہرین کے مل کر بیٹھنے سے ہم یہ جان سکیں گے کہ آج کے بچے کو کس طرح کے ادب کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہم بڑوں کو کیا کرنا چاہیے۔
بچوں کا لکھا ہوا ادب یا بچوں کے لیے لکھا گیا ادب، دونوں ہی بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اتنے عام اور مستحکم نہیں ہیں کہ ہم اس حوالے سے کسی مہذب اور ترقی یافتہ معاشرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکیں اور یہ بظاہر معمولی دِکھنے والی کمی ایسی ہے کہ جس کی وجہ سے ہمارے پانچ سے چودہ سال کی عمر کے بچے بچوں کی عالمی برادری میں بہت کمزور اور بہت پیچھے نظر آتے ہیں اور تو اور ہم برصغیر میں بولی جانے والی بے شمار زبانوں سے بھی بچوں کے گیت اور کہانیوں کو ااُردومیں منتقل نہیں کرسکے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بچوں کے چند ماہناموں اور اِکا دُکا شایع شدہ غیر معیاری کتابوں سے قطع نظر ہمارے یہاں بچوں کا معیاری ادب نہ ہونے کی حد تک کم ہے۔
تاریخی اعتبار سے علامہ اقبال کی ابتدائی شاعری میں شامل کچھ طبع زاد اور کچھ ترجمہ شدہ نظموں کو اُردومیں بچوں کے ادب کا باقاعدہ آغاز کیا جاسکتا ہے کہ اس سے قبل اُردو نثر یا شاعری میں خالصتاً بچوں کے لیے لکھے گئے ادب کا شدید فقدان پایا جاتاہے۔
بیسویں صدی کے آغاز میں اسماعیل میرٹھی اور اُن سے کچھ عرصہ بعد صوفی غلام مصطفیٰ تبسم نے اس طرف توجہ دی مگر اُن کے بعد کسی مستند ادیب نے اس روایت کو اُن جیسی سنجیدگی سے نہیں اپنایا ۔ قیامِ پاکستان کے بعدکھلونا، بچوں کی دنیا، آنکھ مچولی اور پھول جیسے رسالوں کی وجہ سے بچوں کے ادب کے کچھ مقبول لکھاری سامنے آئے مگر اُن کے موضوعات بہت کم جدید، ذہین اور اس کی معلومات سے مطابقت رکھتے تھے اور بالخصوص انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون کی وجہ سے آج کے بچے طرح طرح کے الیکٹرانک گیجیٹس کی وجہ سے جس نوع کے سائنس فکشنز اور اینیمیٹڈ ذریعہ اظہار کے عادی ہوگئے ہیں۔
اُن کے لیے اب پرانی وضع کی جادو اور جنوں پریوں کی کہانیاں تقریباً بے معنی ہوچکی ہیں جس کی ایک وجہ ان کی پیش کش کا غیر دلچسپ انداز بھی ہے کہ اب اُس کی آنکھیں خوب صورت کاغذ اور دلفریب رنگوں کی عادی ہوچکی ہیں اوروہ گھٹیا درجے کے کاغذ اور معمولی روائتی چھپائی والی نظمیں یا کہانیاں دُور سے دیکھ کر ہی ردّ کردیتا ہے غور سے دیکھا جائے تو یہ بچے وہ ہیں جو یا تو غیر ممالک میں اپنے ماں باپ کے ساتھ رہائش پذیر ہیں یا ملک میں ہماری اَپر اور اَپر مڈل کلاس کے انگلش میڈیم اسکولوں کا پڑھے ہوئے ہیں جہاں انھیں سرے سے اُردو زبان ہی ڈھنگ سے سکھائی نہیں جاتی اُن کو اپنی روائت اور ماں کی لوریوں کی جگہ بھی ایسے نرسری رائمز سکھائے جاتے ہیں جن کے کردار ، زبان اور ماحول سب کے سب کسی اور دنیا سے لیے جاتے ہیں جس کا لازم نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ وہ اپنی مادری یا قومی زبان سے نا واقف ہونا شروع کردیتے ہیں اور یوں مقامی طور پر بچوں کے لیے لکھے گئے بیشتر ادب کا اُن سے کوئی تعلق ہی نہیں بن پاتا۔
چند روز قبل جوائے آف اُردو کے برادرم علیم اور اُن کی ساتھی محترمہ زرمینے انصاری ملنے کے لیے تشریف لائے تو بچوں کے ادب پر بات کرتے ہوئے یہ تناظر سامنے آیا جو اوپر قلم بند ہوا ہے۔ زرمینے انصاری آج کل اپنی فیملی کے ساتھ پرتگال میں ہیں مگر اس سے قبل وہ کینیڈا ، امریکا روس اوریو اے ای میں بھی رہ چکی ہیں اور بچوں کے حوالے سے اُردو زبان اور ادب کے مسائل ہر جگہ پر انھیں درپیش رہے ہیں مجھ سے اُن کی تنظیم جوائے آف اُردو کا کورونا کے دنوں میں تعارف ہوا اور مجھے یہ لوگ اپنی کمٹ منٹ اور مقصد کی وضاحت کے اعتبار سے بہت اچھے لگے کہ فی زمانہ اُردو زبان کی خوب صورتی اور ہمہ گیریت کی طرف لوگوں کی توجہ کم سے کم ہوتی چلی جارہی ہے۔
طویل عرصے تک برٹش کالونی رہنے کی وجہ سے ہماری زندگیوں، دفاتر اور تعلیمی نصاب میں انگریزی کی ضرورت سے زیادہ اہمیت بوجوہ ہمارے مزاج کا حصہ بن چکی ہے اور یہ بھی طے ہے کہ اعلیٰ تعلیم اور بین الاقوامی برادری سے ہم آہنگ رہنے کے لیے ہمیں انگریزی کو ایک عالمی رابطے کی زبان کے طور پر سیکھنا وقت کی ضرورت اور حالات کا تقاضا بھی ہے مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہم اپنے بچوں کو پرائمری میں جب اچھی چیزوں کے بارے میں اُن کے تصورات واضح اور متعین ہورہے ہیں انھیں کلاس ون سے ہر مضمون انگریزی میں پڑھانا شروع کردیں۔
اس میں شک نہیں کہ ہمیں اپنے بچوںکو انٹرنیشنل شہری بھی بنانا ہے مگر کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص نیشنل ہوئے بغیر انٹرنیشنل ہوجائے سو ہمیں دیکھنا ہوگا کہ تین چار سال کے بچے کو ایک اجنبی زبان میں زندگی کا تعارف ممکن بھی ہے یا نہیںاور اگر اس میں سے اُس کے فوک لور، لوریوں، تہذیبی روایات اور کہانیوں کو بھی منہا کردیا جائے تو وہ انسان کے بجائے شاید ایک روبوٹ کی شکل میں ہی زندہ رہ سکے گا۔
بیرونِ وطن مقیم پاکستانیوں کو اپنے بچوں کو اُن کی زبان ، روایات اور تہذیب سے آگاہ کرنا اس لیے مشکل ہے کہ وہ بچے جس ملک میں پڑھ رہے ہیں انھیں وہاں کی زبان میں ہی پڑھنا ہوگا اور وہاں کی مصروف اور تیزرفتار زندگی میں والدین کے لیے پورے معاشرے سے کٹ کر اپنے گھر کی حد تک ایک بچے کے لیے خاص طور پر وقت نکالنا ہوگا کہ اُن کے ارد گرد اس ملک کی تہذیب، روائت اور قانون کا پہرا ہوگا جس میں وہ رہ رہے ہیں۔
علیم اور زرمینے اس حوالے سے ایک ایسا پلان لے کر آئے تھے جس کی معرفت پرائے دیسوں میں بچوں کو اُن کی خاندانی روائت، مذہب اور تاریخ سے ہم آہنگ کیا جاسکے اس سلسلے میں انھوں نے گلستانِ سعدی سے تین کہانیوں کا انتخاب کیا ہے جنھیں بہت خوبصورت دیدہ زیب اور دلچسپ انداز میں بچوں تک پہنچایا جائے گا تاکہ وہ اس کی طرف پوری توجہ سے متوجہ ہوسکیں۔
ابھی اُن سے اس پروگرام کے حوالے سے گفتگو چل ہی رہی تھی کہ اکادمی ادبیات پاکستان سے اُس کے چیئرمین ڈاکٹر یوسف خشک کا فون آیا جس سے پتہ چلا کہ وہ 24 سے 26 مئی تک بچوں کے ادب کے حوالے سے ایک بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کر رہے ہیں جس میں اس مسئلہ نما موضوع پر کھل کر بات کی جائے گی اور دوسرے ملکوں کے تجربات سے فائدہ اُٹھاکر اپنے یہاں کے ادب کو بچوں کے لیے دلچسپ اور قابلِ توجہ بنایا جاسکے گا۔
میرے خیال میں یہ اقدام بہت بروقت اور اہم ہے کہ ہم اپنے ملک میں جاری ہی تین طرح کے تعلیمی نظاموں کی موجودگی میں بچوں کی اُن خطوط پر تربیت نہیں کر سکتے جو اُن کا حق ہے یقینا بین الاقوامی اور قومی ماہرین کے مل کر بیٹھنے سے ہم یہ جان سکیں گے کہ آج کے بچے کو کس طرح کے ادب کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہم بڑوں کو کیا کرنا چاہیے۔