لیڈر شپ کا فقدان
کہنے کو تو جمہوری حکومتی کہلاتی ہے مگر کرتوت تو بتاتے ہیں کہ ’’سیاسی آمریت‘‘ قائم کردی گئی ہے۔
یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر ہر طبقہ فکر میں بحث و تکرار ہوتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب دو پارٹیاں مدمقابل ہوتی ہیں تو پھر اختلاف رائے کا ہونا فطری عمل ہوتا ہے۔ معاشرے سے عوام اور عوام سے حکومتیں ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ معاشرے میں مختلف الخیال شخصیات بھی ہوتی ہیں اور اتفاق رائے رکھنے والے بھی ہوتے ہیں، یعنی سب کو اظہار رائے کی آزادی ہوتی ہے۔ اسی کا نام ''جمہوریت'' ہوتا ہے لیکن اس کی اصل روح یہی ہوتی ہے جو معاشرے میں تہذیب و اخلاق، قوت برداشت، صبر و تحمل کا ہونا ضروری ہے، ورنہ معاشرے میں خرابی پیدا ہونا فطری تقاضا بن جاتا ہے۔ چونکہ معاشرے میں اچھے برے سب ہی ہوتے ہیں اس لیے معاشرے کو مہذب اور با اخلاق بنانے کے لیے سب سے موثر ہتھیار ''تعلیم'' ضروری ہے، بلکہ یوں کہا جائے کہ ناقابل نظر انداز ہے تو غلط نہ ہوگا۔ اسی لیے تمام معاشرے کے خاندانوں پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں اور بچیوں کو تعلیم ضرور دلائیں، دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ علوم مشرقی جسے حرف عام میں ''دنیاوی تعلیم'' یا انگریزی تعلیم بھی کہا جاتا ہے، دلانا ضروری ہے۔ دینی تعلیم میں اچھے، با اخلاق طلباوطالبات پیدا ہوتے ہیں جو ایک مہذب معاشرے کو جنم دیتے ہیں۔ اپنے مذہب اسلام کی بہتر طریقے ، بہتر انداز میں تبلیغ و ترویج کرتے ہیں لیکن جو کمی پائی جاتی ہے وہ یہ ہوتی ہے کہ دینی تعلیم حاصل کرنے والے خواہ وہ نوجوان نسل ہو یا بڑے بوڑھے ہوں اپنی حاصل کردہ تعلیم کو عملی زندگی میں صحیح استعمال نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے معاشرے میں دیگر قسم کی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔
جس میں سر فہرست قوت برداشت کا نہ ہونا اور جذبات کا غالب ہونا ہوتا ہے۔ اسی طرح دنیاوی تعلیم حاصل کرنے والوں کا ہوتا ہے۔ یہی خصوصیات جو کہ دینی تعلیم یافتہ طبقے کے متعلق بیان کی گئی ہیں ان دنیوی تعلیم یافتہ طبقے میں بھی ہونا چاہیے۔ کیوں کہ آگے چل کر انھی دنیاوی تعلیم حاصل کرنے والے طبقے کو حکومت کی باگ ڈور سنبھالنا ہوتی ہے اور اسی مقصد کے تحت وہ اپنے آپ کو معاشرے میں متعارف کراتے ہیں اور بتدریج معاشرے میں ایک مقام حاصل کرلیتے ہیں۔ آگے چل کر یہی عوامی نمایندے کا روپ اختیار کرلیتے ہیں اور عوام کا اعتماد حاصل کرکے انتخابات میں حصہ لیتے ہیں۔ اس طرح اسمبلیوں میں پہنچ کر حکومت بناتے ہیں، اس طرح عوامی لیڈر بن جاتے ہیں۔ مندرجہ بالا مندرجات سے یہ ثابت ہوگیا کہ لیڈر بننے کے لیے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ لیڈر تو بن جاتے ہیں لیکن عوام کے مفادات کو ترجیحاً مدنظر رکھ کر ان کی خدمت کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ ان ہی خامیوں اور کوتاہیوں کی بناء پر قوم کو ایک اعلیٰ درجے کی لیڈر شپ نصیب نہیں ہوتی بلکہ اس کے برعکس نااہل لیڈران عوام کو کچھ ریلیف پہنچاتے ہیں اور نہ ہی کچھ ڈلیور کرتے ہیں۔ محض بیان بازیوں، یقین دہانیوں، پریس کانفرنسوں اور ٹاک شوز میں جھوٹی تسلیاں اور جھوٹے دعوؤں کے ذریعے عوام سے دھوکا کرتے ہیں، غلط اعداد وشمار پیش کرتے ہیں، عوامی مسائل کی طرف توجہ کرنے اور ان کو حل کرنے کی بجائے طرح طرح کے مسائل کھڑے کردیتے ہیں۔ لیڈر بننے کے لیے ووٹ لینے عوام کے پاس چکر پہ چکر لگاتے ہیں، چھوٹے بڑے تعمیری و رفاہی کام کرواتے ہیں تاکہ عوام کا اعتماد حاصل کرسکیں اور جب ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں تو عوام کی خبر گیری کے بجائے اپنے اپنے انتخابی حلقوں کے راستے تک بھول جاتے ہیں اور ان کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ عوام خود فیصلہ کریں کہ لیڈران کے ایسے رویے سے کیا ان کو اعلیٰ لیڈر شپ مل سکتی ہے؟ ہر گز نہیں۔ اب عوام کو پتہ چل گیا ہوگا کہ ہمارے ملک میں جمہوری نظام اور جمہوری حکومتیں کیوں کامیاب نہیں ہوتیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ملک کو لیڈر شپ کے فقدان کا سامنا ہے۔
یہ صورت حال صرف سیاسی شخصیات ہی کی نہیں تھی بلکہ مذہبی رہنماؤں کا بھی یہی ریکارڈ ہے۔ اگر سیاسی و مذہبی رہنماؤں کے درمیان ہم آہنگی ہوتی، سب کا مشترکہ ایجنڈا ہوتا کہ عوام کی خدمت ہمارا منشور ہے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ ملک کو ایک اعلیٰ اور اہل لیڈر شپ نہ ملتی اور ملک و عوام خوشحالی اور ترقی کی راہ پر گامزن نہ ہوتا۔ لیڈر شپ ملے بھی تو کیسے ملے جب نامور سیاست دان عوامی سیاست کرنے کی بجائے اپنے مفادات کی سیاست کریں گے۔
اب حالیہ دورکی طرف بھی نظر دوڑائیں تو کیا ہم نہیں دیکھ رہے کہ ماضی میں کرپشن کو اس قدر عروج پر پہنچایا گیا کہ اب نیب اور عدالت عظمیٰ کی جانب سے تحقیقات اور عدالتی کارروائیوں کی وجہ سے بڑے بڑے اسکینڈل سامنے آرہے ہیں۔ کوئی معمولی اسکینڈل نہیں بلکہ اربوں، کھربوں روپوں کے اسکینڈل منظر عام پر آرہے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ ماضی کی جمہوری حکومتیں کرپشن میں ڈوبی ہوئی تھیں اور ان کے اسکینڈل بام عروج پر ہونے کے باوجود انھیں بے نقاب نہیں کیا جاتا تھا۔ بس لوٹی ہوئی رقم کی بندر بانٹ ہوتی تھی۔ قومی خزانے پر چور کو چوکیداری سونپی جاتی تھی۔ دودھ کی رکھوالی کے لیے بلی کو بٹھایا جاتا تھا۔ اس منظر کشی کا واحد مقصد یہی ہے کہ عوام کو یہ معلوم ہوجائے کہ سیاست دانوں کے اس چوہے بلی کے کھیل کے عوض قوم کو اعلیٰ لیڈر شپ مل سکتی تھی۔ کبھی نہیں! اعلیٰ لیڈر شپ کے حصول کا فارمولا ہی یہی ہے کہ صاف شفاف، دیانت دارانہ خدمت خلق اور عوام کی خوش حالی، ملک سے حب الوطنی کے جذبات کو اپنا منشور بناکر سیاست کی جائے۔ اس طرح ایسی سیاست کرنے والا سیاست دان ہی عوام کا مقبول لیڈر کہلاتا اور مستقبل قریب میں ہمیں سیاسی میدان میں ''لیڈر شپ'' میسر آجاتی۔
بہرحال اس ساری بحث کا خلاصہ یہی نکلا کہ اگر سیاست دان صاف شفاف، ایمان دارانہ عوام کی خدمت، دیانت دارانہ و حب الوطنی کے جذبے سے سیاست کرے گا تو وہ دن دور نہیں کہ وہ عوام کا مقبول سیاست دان نہ بن جائے اور جب وہ عوام میں مقبولیت حاصل کرلیتا ہے اور اعلیٰ سیاست دان ہونے کے ناتے قوم کو ایک اچھی، مضبوط طویل مدت کے لیے ''لیڈر شپ'' فراہم کردیتا ہے اور دوسروں کو یہ سبق بھی سکھاتا ہے کہ ''لیڈر شپ'' کس طرح پیدا ہوتی ہے اور عوام کی مقبولیت ہی اسے ''لیڈر شپ'' کے اسٹینڈ پر کھڑا کردیتی ہے۔ اسی لیے میں نے لکھا ہے کہ جمہوری حکومتیں کیوں ناکام ہوجاتی ہیں کہ ملک میں ''لیڈر شپ'' کا فقدان ہی ان کی ناکامی کی جڑ ہے۔
حالیہ دور کی سیاست پر نظر ڈالیے تو پتہ لگے گا کہ عموماً سیاست کرنے کے لیے بد عنوانی، کرپشن، رشوت ستانی، لوٹ مار، ناجائز دولت اکٹھا کرنا، ملکی مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح دینا، عوام کو محض جھوٹے وعدوں، یقین دہانیوں، بڑی منصوبہ بندیوں کے سبز باغ دکھانا، عوامی مسائل کو سالوں میں نہیں مہینوں میں نہیں، ہفتوں میں نہیں، بلکہ دنوں میں حل کرنے کا عندیہ دینا جیسے ہتھکنڈوں کا ماہر ہونا ضروری سمجھا جاتاہے۔ ورنہ وہ ایک ناکام سیاست دان تصور کیا جاتا ہے۔ کامیاب اور ماہر سیاست دان تو وہی کہلاتا ہے جو مذکورہ بالا خصوصیات کا حامل ہو۔ کیا ایسا کوئی سیاست دان ''لیڈر شپ'' کے زینے تک پہنچ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں! وہ خود تو ڈوبے گا ہی ساتھ میں ملک و قوم کو بھی لے ڈوبے گا اور پھر اس دور کی سیاست میں اقربا پروری، سفارش، نا اہلوں کو اعلیٰ عہدوں اور اداروں میں تعینات کرنا، وغیرہ وغیرہ ان عوامل کو شعار بنالینا ہی ایک ''اعلیٰ'' سیاست دان کی علامت سمجھا جاتاہے۔ کہاں پیدا ہوگی ''لیڈر شپ'' ایسی سیاست میں۔
کہنے کو تو جمہوری حکومتی کہلاتی ہے مگر کرتوت تو بتاتے ہیں کہ ''سیاسی آمریت'' قائم کردی گئی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اگر یوں کہا جائے کہ ''شراب کی بوتل پر گلاب کا لیبل'' تو شاید نا مناسب نہ ہوگا۔ کیا ہم نے سابقہ ادوار میں مشاہدہ نہیں کیا تھا کہ ''جمہوریت جمہوریت'' کی گردان میں ''سیاسی آمریتیں'' قائم کردی گئی تھیں۔ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہوسکتا کہ حالیہ دور سیاست کی دو اعلیٰ شخصیات (سیاست دان) نے ملک کو ''لیڈر شپ'' مہیا کی تھی، لیکن ایک کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا تو دوسری کو قتل کردیا گیا۔ کیوں؟ اس لیے کہ چند مفاد پرستوں کو خوف تھا کہ جمہوریت کامیاب ہوجائے گی اور ہمارے مفادات ہمیشہ کے لیے دفن ہو جائیں گے۔ اسی لیے ہمارے ملک میں لیڈر شپ کا فقدان کبھی ختم نہیں ہوسکتا اس لیے بھی کہ اب ''جمہوریت'' کی جگہ ''موروثیت'' کا نظام تشکیل دیا جارہا ہے اور دو شہزادوں کو ''میدان سیاست'' میں اتارا جارہا ہے تاکہ ملکی سیاست کا پہیہ اپنے ہی خاندان کے اطراف گھومتا رہے۔ کہاں کا لیڈر، کہاں کی لیڈر شپ اب تو ہوگی ''بادشاہت'' موجودہ سیاست کے سارے راستے اسی طرف جارہے، جو روڑے اٹکا رہے ہیں وہ نشان عبرت بنائے جارہے ہیں۔