فکر اقبال اور بلوچستان
یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ جتنا بڑا شاعر ہوگا، جتنا وسیع اس کا کینوس ہوگا، اتنے ہی اس کے ہاں تضادات ہوں گے
آئی آر ڈی اسلام آباد کی ورکشاپ میں پہلے دو روز کی نسبت آخری دن بھرپور رہا۔ دن کا آغاز ادارے سے وابستہ نوجوان علی طارق کے لیکچر 'اقبال اور انسانیت؛ تقابلی جائزہ، مشرق و مغرب' سے ہوا۔ یہ نوجوان حال ہی میں امریکا سے ہو آئے ہیں، اس لیے ان پہ اور ان کے لیکچر پہ وہاں کے تجربات کی چھاپ نمایاں تھی۔ عموماً بحث کے معاملے میں نوجوان جوش اور بزرگ ہوش سے کام لیتے ہیں۔ لیکن یہاں خوش گوار حیرت کے ساتھ پہلے دن کے بزرگ کے جوش کے جواب میں اس نوجوان نے نہایت ہوش سے سوالات سنے اور نہایت بردباری سے اختلافی رائے کا سامنا کیا۔ ان کا یہی علمی پہلو ان کے اختلافی لیکچر کو ہضم کرلینے کو کافی تھا۔
ورکشاپ کے شیڈول میں آخری لیکچر کے سامنے ایک نسبتاً کم معروف نام درج تھا؛ عبداﷲ خان۔ ساتھ ہی ان کا عہدہ بھی درج تھا؛ سابق چیف سیکریٹری خیبرپختونخوا۔ یہی ایک چیز ہمیں کھٹک رہی تھی۔ عمومی تجربے کی روشنی میں ہماری رائے یہی تھی کہ کوئی دانشور ٹائپ بیوروکریٹ اپنے تفاخر بھرے انداز میں آکر ہم پہ اپنا علم ٹھونسے گا۔ لیکن حیران کن طور پر خلاف توقع یہ لیکچر بھرپور اور تمام ورکشاپ پہ بھاری رہا۔ گو کہ انھوں نے بھی اپنے متعین شدہ موضوع سے ہٹ کر موضوع چنا، ''اقبال امروز''، اور پورے دو گھنٹے لیے۔ لیکن ایک لمحے کو یہ احساس نہ ہونے دیا کہ وہ موضوع سے ہٹ رہے ہیں یا بور کر رہے ہیں۔ زبانی بولنے کے باوجود انھوں نے ایک کامیاب اور بھرپور لیکچر کے تمام لوازمات کا اہتمام رکھا۔ اپنی روایتی پریشاں فکری اور مخصوص نظریاتی نشوونما کے باعث مجھے ان سے بھی کلی اتفاق نہ تھا لیکن ان کا لیکچر اس قدر بھرپور تھا کہ انھوں نے کسی سوال کی گنجائش ہی نہ چھوڑی۔
آخری روز کے اختتام پر تقسیم اسناد کی مختصر تقریب میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ریکٹر ڈاکٹر معصوم یاسین زئی خصوصی طور پر تشریف لائے۔ اتفاق سے ان کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے۔ اس تقریب میں ہمارے استاد پروفیسر منظور وفا نے اپنی مسجع و مقفع اردو کے وہ پھول کھلائے کہ سامعین اَش اَش کر اٹھے۔ چونکہ یہ عمومی خیال ہے کہ بلوچستان میں اچھی اردو نہیں بولی جاتی۔ اس لیے ایک بلوچ کے منہ سے ایسی شستہ اردو سن کر سامعین کی خوش گوار حیرت فطری تھی۔
اب آئیے ہم اس تین روزہ سرگرمی کی بنیادی حاصلات پہ بات کرتے ہیں۔ اول تو جس ادارے کے زیر اہتمام اس ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا تھا اس کا نام ہے، اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ۔ لیکن اس ساری سرگرمی میں جس چیز کا فقدان رہا، وہ ریسرچ اور ڈائیلاگ ہی تھا۔ اسکالرز کی تعداد زیادہ تھی، لیکن کسی نے بھی اقبال کو تحقیقی انداز میں بیان نہیں کیا۔ نیز ڈائیلاگ کا سیشن اس قدر محدود کر دیا گیا کہ تشنگی مزید بڑھ گئی۔ جس سے لیکچر کا اصل مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔
ورکشاپ کے شرکا کی سلیکشن کا پیمانہ بھی عجب تھا۔ اس میں اکثریت اردوکی تدریس پہ مامور کالج اساتذہ کی تھی، لیکن ساتھ ہی بعض دیگر شعبوں سے منسلک اساتذہ بھی شامل تھے، جن کا اقبال سے متعلق علم اور دلچسپی محض نصابی کتابوں تک ہی محدود تھی۔ اردو کے اساتذہ میں بھی مجھ سمیت تقریباً وہ لوگ شامل تھے، جنہوں نے شرح کے ساتھ پڑھنا تو الگ بات، کلیاتِ اقبال کا پورا مطالعہ نہیں کیا ہوگا۔ حالانکہ اقبال شناسوں کا خود یہ دعویٰ ہے کہ اقبال کی مجموعی شاعری کا ساٹھ فیصد سے زائد فارسی میں ہے، جس کے بغیر فکر اقبال کے جوہر کو سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ اس پہ طرہ یہ ہے کہ بیس برس سے کالج میں پڑھانے والے اساتذہ سمیت پوسٹ گریجویٹ کالج میں ایم اے اردو کی کلاس لینے والے طلبہ کو بھی بلالیا گیا۔ جس سے خود مقررین کے لیے لیکچر کو بیک وقت تجربہ کار اساتذہ اور نوآموز طلبہ کی ذہنی سطح تک ابلاغ میں لانا مشکل ثابت ہو رہا تھا۔
شرکا کی اکثریت اقبال سے متعلق انھی روایتی پیمانوں پہ سوچ رہی تھی جو پاکستان میں عمومی سطح پہ مروج ہیں۔ ان میں افسوس ناک حد تک تنقیدی بصیرت کا فقدان تھا۔ اقبال کو ہمارے ہاں ایسا بت بنا دیا گیا ہے، جس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں۔ میں نے آغاز میں عرض کیا تھا کہ اسلام آباد جو بھی مسلمات بناتا ہے، بلوچ کا ان سے اختلاف فطری ہو جاتا ہے۔ فکر اقبال کو جب بھی اسلام آباد کی مرکزیت کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا، اس سے اختلاف کا پہلو ضرور نکلے گا۔ 'قوم سازی' کی بجائے 'ملک سازی' کی بات ہونی چاہیے۔ یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ اس ملک میں بیک وقت کئی قومیں آباد ہیں، جو اپنے تاریخی وطن، الگ زبان اور مشترکہ معاشی و ثقافتی مفادات کی حامل ہیں۔ ان سب کا اتحاد ہی پاکستان کو جنم دیتا ہے۔ اقبال بھلے سرکاری طور پر پاکستان کا قومی شاعر ہو، لیکن پاکستان میں آباد ہر قوم کے پاس اپنا ایک قومی اور قوی شاعر موجود ہے۔ اقبال بطور شاعر سب کے لیے قابل قبول ہے، لیکن اپنے قومی شعرا کے وجود کی قیمت پر شاید ہی کوئی اسے قبول کر پائے۔
نیز اقبال بنیادی طور پر اول و آخر ایک شاعر ہے، اس لیے اس کی شاعری پر بات کی جانی چاہیے، نہ کہ اس کی شخصی خوبیوں یا خامیوں پہ۔ یہ دیکھنا چاہیے کہ بطور شاعر اقبال اتنا بڑا کیونکر ہے؟ اس نے اپنے عہد کے شعری سانچوں اور شعری لسانیات میں کونسی تبدیلیاں پیدا کیں؟ وہ اپنے عہد کے شعری موضوعات میں کون سے تنوع لایا؟ اس نے شعری جمالیات کی سطح کتنی بلند کی؟ نیز تنقیدی بصیرت کا تقاضا ہے کہ اس کے فکری کنفیوژن پہ بھی بات کی جائے۔ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ جتنا بڑا شاعر ہوگا، جتنا وسیع اس کا کینوس ہوگا، اتنے ہی اس کے ہاں تضادات ہوں گے۔ اور وہ اس کے اپنے پیدا کرہ تضادات نہیں ہوتے بلکہ اس عہد کے تضادات ہوتے ہیں، جس میں شاعر جی رہا ہوتا ہے اور لکھ رہا ہوتا ہے۔ شاعر اپنے عہد کے تضادات سے جتنا اوپر اٹھتا ہے، اتنا ہی اس کا قد اونچا ہوتا ہے۔ اس لیے ایسے افراد سے بطورِ خاص مکالمے کی ضرورت ہے جو اقبال سے اختلاف رکھتے ہوں۔ یہ خیال پیش نظر رہے کہ اختلاف کا مطلب مخالفت ہرگز نہیں۔
میرا خیال ہے کہ ایک تحقیقی ادارے کو اس طرح کی ورکشاپ کے شرکا کے لیے ایک کرائٹیریا ضرور رکھنا چاہیے۔ بالخصوص جب بلوچستان کے پس منظر میں بات ہو رہی ہو تو معاملات مزید احتیاط اور بصارت کا تقاضا کرتے ہیں۔ بہرکیف اچھا لگے یا برا، یہ سچ ہے کہ آج کے بلوچستان میں اقبال اجنبی ہے اور اسے اجنبی بنانے میں اس کے کلام سے کہیں زیادہ، اس کے کلام کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے والے سیاست دانوں سمیت ان شارحین کا بھی ہاتھ ہے جو اقبال کو 'عوامی' بنانے کے بجائے ایک اہم اورخاص شخص بناکر ایسی اونچی مسند پہ بٹھانا چاہتے ہیں، جہاں تک عوام نامی مخلوق کی گرد بھی نہ پہنچ سکے۔
بلوچ کا تو اگر سردار بھی اونچی مسند پہ جا بیٹھے تو وہ اس کی محفل سے منہ پھیر لیتا ہے۔ اس لیے اگر بلوچستان میں فکراقبال کو عام کرنا ہے تو پہلے اسے 'عوامی' بنانا ہوگا، اور کسی قسم کی گھڑی گھڑائی تشریحات کے بجائے عوامی بصیرت پہ اعتماد کرتے ہوئے اقبال کو ان کے حوالے کرنا ہوگا۔ جہاں جہاں اقبال ان کے لیے قابلِ قبول ہوگا، وہ اسے گلے لگاتے جائیں گے، جہاں جہاں اختلاف ہوگا، وہ حصہ اٹھا کر اسلام آباد کے حوالے کر دیں گے۔