ملک میں غربت اور ٹیکس نادہندگان

غور کیاجائےتو غربت کی اصل وجہ دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے جس کی وجہ سے غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتاچلا جا رہا ہے

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان میں 54 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، اگر ہمیں آگے بڑھنا ہے تو ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ کرنا ہوگا۔ وزیر خزانہ صاحب نے بالکل بجا فرمایا ہے۔ ملک میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے اور خط غربت سے مراد عالمی بینک کا وہ پیمانہ ہے جس کے مطابق روزانہ 1.25 ڈالر یا اس سے کم آمدنی والے افراد خط غربت سے نیچے تصور کیے جاتے ہیں۔ اس طرح پاکستانی حالات کے مطابق وہ لوگ جن کی آمدنی اندازاً روزانہ 130 روپے یا اس سے کم ہو وہ خط غربت سے نیچے تصور کیے جاتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی یہ 54 فیصد آبادی کتنی معاشی مشکلات کا شکار ہے کہ یہ لوگ دن بھر میں 130 روپے بھی نہیں کما پاتے، جب کہ اس دور میں اتنی قلیل آمدنی کے ساتھ گزارا کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑھتی ہوئی غربت کی بدولت پاکستان میں بھوک کی شکار آبادی کی صورت حال نیپال، سری لنکا، فلپائن، انڈونیشیا، زمبابوے، تاجکستان، مالی، یوگنڈا، انگولا، کینیا اور شمالی کوریا سمیت 98 ممالک سے ابتر ہے، جو انتہائی خطرناک صورتحال ہے۔ اس طرح غربت ملک کا سب سے بڑا نہ سہی، بہت بڑا مسئلہ ضرور ہے۔ اگرچہ ملک میں امن و امان کی صورتحال انتہائی تکلیف دہ اور پریشان کن ہے، لیکن اس کے باوجود اگر عوام سے دامن گیر بڑی پریشانی کے بارے میں پوچھا جائے تو اکثریت معاشی حالات کی وجہ سے فکر مند و پریشان نظر آئے گی۔ ملک کی اکثریت کا روگ معیشت ہے۔ غربت نے یہاں کی اکثریت کو کئی نفسیاتی الجھنوں میں مبتلا کردیا ہے اور انھی الجھنوں نے ملک کے 80 فیصد لوگوں کو ذہنی دباؤ میں مبتلا کردیا ہے۔

اگر غور کیا جائے تو غربت کی اصل وجہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے جس کی وجہ سے غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتاچلا جا رہا ہے۔ دولت کی غیر مساوی تقسیم کی وجہ سے ایک خاص طبقہ اس قدر امیر ہے کہ ان کے اثاثوں کا اندازہ لگانا مشکل ہے، جب کہ دوسری طرف لوگوں کی ایک کثیر تعداد اتنی غریب ہے کہ ان کے لیے خوراک کا حصول بھی مشکل ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جن کو پیسہ خرچ کرنے کے ذرایع نہیں ملتے اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جن کو پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے خوراک میسر نہیں۔ ملک میں محنت مزدوری کرنے والے غریب خواتین و مرد کربناک صورتحال سے دوچار ہیں۔ فیکٹریوں میں ملازمت کرنے والوں سے لے کر گھروں میں کام کرنے والی ملازماؤں تک استحصال اور مجبوری سے فائدہ اٹھانے کی اندوہناک داستانیں منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔ ملک میں سرمایہ دار و دولت مند گروہ غریب کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر انسانی محنت کے تمام فوائد کو اپنی ذات تک محدود رکھے ہوئے ہیں اور دولت کے انبار لگا رہے ہیں، لیکن اس کے مقابل عوام کی غالب اکثریت غربت کی نچلی سطح پہ ہے اور ہوشربا مہنگائی کی وجہ سے انھیں اپنی زندگی کی سانسیں جاری رکھنے کی فکر لاحق ہے۔ پاکستان میں سیاسی لیڈروں، وڈیروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور امیر کلاس کے لوگوں کے لیے بدعنوانیوں کے وسیع میدان ہیں۔ پاکستان میں دولت، وسائل اور اقتدار پر ایلیٹ طبقہ قابض ہے، جس کے نتیجے میں امیر اور غریب میں خلیج روزبروز بڑھتی جارہی ہے۔ پارلیمنٹ میں اکثریت امرا کی ہے، جو قانون سازی میں اپنے مخصوص مفادات مدنظر رکھتے ہیں اور انھیں ریاست یا غریب عوام کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔پاکستان میں ٹیکس کی وصولی کے کمزور اور غیر مربوط نظام کی وجہ سے بہت سے بڑے لوگ بغیر ٹیکس ادا کیے بڑے بڑے اثاثے تشکیل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ریاست اپنی کمزوری کی وجہ سے بڑے بڑے نادہندگان سے ٹیکس وصول نہیں کر سکتی۔ اس سے ایک طرف تو دولت چند مخصوص ہاتھوں میں مرتکز ہوتی ہے اور دوسری طرف حکومت ٹیکسوں کی بھاری رقوم سے محروم ہوجاتی ہے۔ حکومت کے پاس ٹیکس کی یہی رقوم ہوتی ہیں جن سے غریب لوگوں کی بہتری کے لیے اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ اس طرح امیروں کے ٹیکس ادا نہ کرنے سے غریب لوگ ترقی کے سفر میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اگر حکومت تمام امیر لوگوں سے ٹیکس کی وصولی کو یقینی بنائے تو حکومت کے وسائل میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس سے ایسے منصوبے بنائے جا سکتے ہیں، جو غربت میں نمایاں کمی لاسکتے ہیں۔ پاکستان میں آمدنی پر ٹیکسوں سے بچنے کا یہ حال ہے کہ کم از کم ایک کروڑ افراد کی آمدن قابل ٹیکس ہے، تاہم صرف 25 لاکھ افراد ٹیکس دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں کی مجموعی قومی پیداوار پر ٹیکس کی شرح نہایت کم ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کم از کم 5 ہزار ارب کے ٹیکس اکٹھے کیے جا سکتے ہیں، جب کہ ملک میں آج تک 2 ہزار ارب تک ٹیکس وصولیاں کی جاسکی ہیں۔


سینیٹ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے بہت سے ارکان ٹیکس نہیں دیتے۔ پارلیمنٹ ٹیکسیشن کے حوالے سے ایسی قانون سازی کرتی ہے اور اس میں ایسے سقم چھوڑ دیتی ہے جس سے بہت سے بااثر لوگوں کو قانونی طور پر ٹیکس سے استثنیٰ حاصل ہوجاتا ہے حالانکہ دوسری طرف غریب اور مڈل کلاس پاکستانی جن پر انکم ٹیکس کا اطلاق نہیں ہوتا وہ اشیائے صرف پر سیلزٹیکس کی صورت میں بھاری ٹیکس دینے پر مجبور ہیں۔ درحقیقت یہاں کا ٹیکس سسٹم، ایلیٹ نے ایلیٹ کے لیے ہی بنایا ہے۔ اس سسٹم کے تحت غریب آدمی، امیرآدمی کو سبسڈی دے رہا ہے۔ حقیقی ٹیکس بیس کی عدم موجودگی میں حکومت غیرملکی امداد اور قرضوں کے لیے کشکول پکڑنے پرمجبور ہے۔ ملکی ٹیکس ریونیو میں کمی کے باعث حکومت، تعلیم، صحت اور انفرااسٹرکچر جیسی بنیادی سہولتوں میں مناسب سرمایہ کاری کرنے سے قاصر ہے اس لیے ریاست کو ملک میں کاروبار یا دیگر امور سے دولت کمانے والے طبقات کو ملک کے قانون کے مطابق ٹیکس کی ادائیگی پر مجبور کرنا چاہیے اور اس کے ساتھ حکومت کو ٹیکس سے حاصل ہونے والی رقوم کا استعمال بھی درست طریقے سے غریبوں کی بھلائی والے منصوبوں پر کرنا ہوگا۔

یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دنیا بھر کی حکومتوں کا دارومدار عوام و خواص کی طرف سے قومی خزانے میں جمع کرائے گئے ٹیکسوں پر ہوتا ہے، مگر پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس عوام دیتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر ''خط غربت '' سے بھی نیچے زندگی گزارنے والے لوگ ہیں، جنہیں دو وقت کی روٹی کے ہی لالے پڑے رہتے ہیں۔ ان بے بسوں اور بے کسوں پر مختلف قسم کے نجانے کتنے ٹیکس عاید ہیں۔ ہمارے ہاں بے لگام ٹیکسوں کے نام پر غریبوں کا خون تو نچوڑا جاتا ہے، جب کہ دوسری طرف بیشتر ایلیٹ کلاس کو ہر طرح کی چھوٹ دے دی جاتی ہے، جن میں بڑے جاگیردار، سرمایہ دار، سیاستدان اور وڈیرے شامل ہیں، حالانکہ دنیا کے کئی ملکوں میں امیروں سے ٹیکس لے کر وہ رقوم غریبوں کی فلاح بہبود پر خرچ کی جاتی ہیں، مگر ہمارے ہاں غریبوں سے ٹیکس لے کر امیروں بالخصوص حکمرانوں کی موج مستیوں پر خرچ کیا جاتا ہے۔ اسے کہتے ہیں ''یہاں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔''
Load Next Story