غیرمسلم پاکستانی اور ووٹ
مذہبی اقلیتوں کے لیے دہرے ووٹ کا حق کیوں ضروری ہے؟
کراچی:
غیر مسلم پاکستانی جو کہ 2017 کی افراد شماری کے مطابق تقریباً 78لاکھ ہیں اور 2023ء کے الیکشن تک ان کی تعداد ایک کروڑ کے لگ بھگ ہو جائے گی، جب کہ ان کے ووٹوں کی تعداد تقریباً پچاس لاکھ ہوجائے گی۔
یہ تمام شہری ہزاروں سال سے اس دھرتی کے باسی ہیں، کہیں باہر سے نہیں آئے۔ اس کے باوجود آئین پاکستان کی کئی شقیں ان کے بنیادی انسانی و شہری حقوق سے متصادم ہیں جن سے یہ محب وطن دھرتی کے بچے غیرمسلم پاکستانی شہری ریاستی و حکومتی اداروں کی کم زوریوں کی بدولت صرف نظر کرتے آئے ہیں اس کے باوجود سیاسی و ریاستی اشرافیہ نے 75 سال میں اپنے ان سوتیلے اور دھتکارے ہوئے شہریوں کو کوئی ایسا انتخابی نظام نہیں دیا.
جس سے یہ مطمئن ہوں۔ گو کہ مختلف ادوار میں ان پر چھے دفعہ تین انتخابی نظاموں (مخلوط، جداگانہ اور مخلوط ومخصوص نشستوں والی دہری نمائندگی) کے تجربات کیے گئے، لیکن سیاسی اشرافیہ اور اقلیتوں کے سیاسی راہ نماؤں کی یہ بہت بڑی ناکامی ہے کہ آج تک غیرمسلم پاکستانی شہری ان نظاموں سے کبھی بھی مطمئن نہیں ہوئے۔ آج کل انتخابی اصلاحات کا بڑا چرچا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے ہر کونے سے مذہبی اقلیتی شہری دہرے ووٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
آئیں اس سوال کا جواب ماضی اور حال میں پاکستانی مذہبی اقلیتوں کے لیے وضع کیے گئے انتخابی نظاموں اور اس سوال سے متعلق دست یاب اعدادوشمار اور زمینی حقائق کے ذریعے ڈھونڈتے ہیں۔
پاکستان کے2017ء کی افراد شماری کے غیرسرکاری اعداد وشمار کے مطابق 77,49,988 (ستتر لاکھ انچاس ہزار نو سو اٹھاسی) غیرمسلم شہری ہیں، جن کے ووٹوں کی تعداد 29 مارچ 2018کے الیکشن کمیشن کے اعلامیے کے مطابق 36 لاکھ تین سو ہے، جن میں ہندو ووٹرز17,77,289 (سترہ لاکھ ستتر ہزار سات ہزار دو سو نواسی) مسیحی ووٹرز16,38,748(سولہ لاکھ اڑتیس ہزار سات سو اڑتالیس) ہیں جب کہ احمدی، بہائی، سکھ، پارسی اور بدھسٹ ووٹرز مجموعی طور پر تقریباً دو لاکھ پندرہ ہزار ہیں۔ ان لاکھوں ووٹرز کی مذہبی شناخت پر اس وقت38 نمائندے ایوانوں میں ہیں.
جن میں چار سینیٹر، دس ایم این اے اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں چوبیس ایم پی اے ہیں۔ 1946 سے 1954تک دو دفعہ بننے والی اسمبلیوں میں بالترتیب 14 اور 11 ارکان تھے۔ یہ ارکان سلیکشن کے ذریعے ایوانوں میں پہنچے تھے، جن میں سے صرف دو مسیحی اور دو ہندو پاکستانیوں کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا، جب کہ 1962سے 1964 اور1965سے1969تک بننے والی اسمبلیاں مخلوط طرز انتخاب سے بنیں۔
نتیجتاً مخلوط الیکشن میں کوئی غیرمسلم سیٹ نہ حاصل کرسکا۔7دسمبر1970 ء کو پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر الیکشن ہوئے۔ پورے پاکستان سے صرف ایک صوبائی اسمبلی سے رانا چندر سنگھ اور قومی اسمبلی کے لیے راجہ تری دیو کے علاوہ کوئی غیرمسلم پاکستانی انتخابات نہ جیت سکا۔ مسیحیوں نے اپنے ادارے قومیائے جانے اور ایوانوں میں نمائندگی نہ ہونے پر احتجاج کیا۔ 30اگست 1972ء کو راولپنڈی میں حکومت وقت نے جلوس پر گولی چلائی آر۔ ایم۔ جمیس اور نوازمسیح جان سے گئے۔ جدوجہد جاری رہی۔
21 نومبر1975ء کو آئین پاکستان میں چوتھی ترمیم کے ذریعے غیرمسلم پاکستانیوں کے لیے قومی اسمبلی میں چھے سیٹیں مختص کی گئیں، جن پر چار مسیحی، ایک ہندو اور ایک پارسی پاکستانی ارکان قومی اسمبلی بنے۔ اس ترمیم میں سیٹیں مخصوص ضرور کی گئیں لیکن غیرمسلم پاکستانیوں کے قومی ووٹ کے ساتھ کوئی چھیڑچھاڑ نہ کی گئی۔
1977 کے انتخابات میں بھی یہ ہی طریقہ انتخاب اپنایا گیا غیرمسلم پاکستانیوں نے بھی قومی سطح پر اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ مارشل لا لگا۔ 1985میں صدارتی حکم نامے سے غیرمسلم پاکستانیوں کو جداگانہ طریقہ انتخاب دیا گیا، قومی اسمبلی کی سیٹیں چھے سے دس کردی گئیں.
جن میں چار ہندوؤں، چار مسیحیوں کے لیے اور دو دیگر اقلیتوں کے لیے تھی لیکن اس حکم نامے سے جہاں غیرمسلمان پاکستانیوں کو اپنے نمائندے مذہبی شناخت پر چننے کا حق مل گیا وہیں ہزاروں سال سے اس دھرتی پر بستے ان دھرتی واسیوں کو ایک جنبش قلم سے قومی دھارے سے کاٹ کر سیاسی اچھوت بنا دیا گیا۔
اس امتیازی طریقہ انتخاب کے تحت 1985 سے1997ء تک پانچ بار انتخابات ہوئے مذہبی شناخت پر نمائندے دے کر قومی ووٹ چھین لیا گیا۔ لوگ قومی شناخت کے لیے جدوجہد کرتے رہے، جس کے نتیجے میں2002ء کے الیکشن سے پہلے غیرمسلم پاکستانیوں کو قومی دھارے میں واپس لایا گیا، جس سے انہیں 849 حلقوں میں دوبارہ ووٹ دینے کا حق مل گیا۔ مذہبی شناخت پر تینوں ایوانوں میں 38 نمائندے بھی دست یاب رہے۔
لیکن ان 38 نمائندوں کو منتخب کرنے کا اختیار سیاسی اشرافیہ نے متناسب نمائندگی کے نام پر اپنے پاس رکھ لیا۔ لہٰذا اب ان غیرمسلم پاکستانی شہریوں کی مذہبی شناخت پر38 نمائندوں کو صرف پانچ یا چھے پارٹیوں کے سربراہ اور ان کے مشیر سلیکٹ کرتے ہیں جو کہ غیرآئینی اور غیر جمہوری ہے۔ جس سے دہری نمائندگی ہونے کے باوجود پاکستان کی مذہبی اقلیتوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔
غیرمسلمان پاکستانیوں کے لیے انتخابی نظاموں کے پچھتر سالہ تجربات اور پاکستان کے معاشرتی و جمہوری معروضی حالات کو دیکھتے ہوئے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر غیرمسلم پاکستانیوں کو ایوانوں میں ان کی مذہبی شناخت پر نمائندگی بھی دینی ہے اور انہیں قومی دھارے میں بھی شامل رکھنا ہے، جو کہ ان کا بنیادی انسانی شہری اور سیاسی حق ہے، تو انہیں آئین میں ترامیم کرکے دہرے ووٹ کا حق دیا جائے۔ ''کیوںکہ ماضی کے مخلوط اور جداگانہ طریقہ انتخاب سے مخلوط طریقہ انتخاب سے مذہبی شناخت پر نمائندگی ملنے کے امکانات نہایت کم اور جداگانہ سے وہ قومی دھارے سے کٹ جاتے ہیں جب کہ حالیہ مخلوط کے ساتھ متناسب نمائندگی سے دہری نمائندگی کے باوجود وہ ان نمائندوں کو اپنا نہیں چند سیاسی راہ نماؤں کا نمائندہ سمجھ کر ان سے غیرمطمئن اور بے چین ہیں۔''
لہٰذا جس طرح 1947ء سے 1970ء تک کے تجربات سے سیکھ کر چوتھی آئینی ترمیم کی گئی پھر 1985ء سے1997ء تک کے تجربے سے سیکھ کر 2002ء میں انتخابی نظام تبدیل کیا گیا، اسی طرح اب75سالہ اس ارتقائی سفر سے سیکھ کر اس انتخابی نظام میں بے ضرر سی آئینی ترامیم سے دہری نمائندگی کو دہرے ووٹ کے ذریعے سے نافذالعمل کروایا جائے۔ یہ آئینی ترمیم پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کا مطالبہ اور آئین پاکستان کی شق 226 کا بھی تقاضا ہے۔ اس سے یقیناً ملک و قوم کو مضبوط کرنے میں اور اقوام عالم میں ملک کے وقار میں اضافہ کرنے میں مدد ملے گی۔
مزید تفصیلات تازہ ترین اعداد و شمار سامنے رکھ کر طے کی جا سکتی ہیں لیکن بنیادی فارمولا یہ ہونا چاہیے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ہر وفاقی اکائی میں مذہبی اقلیتوں کی نمائندگی ہو، جیسے سندھ میں ہندوؤں اور پنجاب میں مسیحیوں کی آبادی خاطر خواہ ہے وہاں تو رعایتی بنیادوں پر حلقہ بندیاں کرلی جائیں، لیکن دیگر وفاقی اکائیوں میں جہاں آبادی نمائندگی کے لیے درکار تعداد سے کم ہے، وہاں آئین کے دیباچے/ تمہید Preambleکے اس پیراگراف کو ذہن میں رکھتے ہوئے جو مندرجہ ذیل ہے:
Wherein adequate provision shall be made to safeguard the legitimate interests of minorities and backward and depressed classes
''ترجمہ: جس میں اقلیتوں اور پس ماندہ اور پسے ہوئے طبقات کے جائز مفادات کے تحفظ کے لیے مناسب انتظامات کیے جائیں گے۔'' اس فارمولے سے یہ بات یقینی ہو جائے گی کہ اقلیتوں کی نمائندگی وفاق کی ہر اکائی سے ہو۔
یہ بے ضرر آئینی ترامیم کسی بھی سیاسی جماعت یا گروہ کے مفادات کے متصادم بھی نہیں ہوں گی اور یہ ملک و قوم کے استحکام کی بھی ضمانت بنیں گی۔ انتحابی اصلاحات کے اس موسم میں جو بھی قومی سیاسی جماعت ہو چاہے وہ حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں جو بھی اس مسئلے کے حل کے لیے قانون سازی کرے گی یا اس کے لیے آواز اٹھانے گی وہ پاکستان کے ہر انتحابی حلقے میں بستے ان پاکستانی شہریوں کی ہم دردیاں حاصل کرنے میں کام یاب ہوگی۔
میں نے اوپر سوتیلے اور دھتکارے ہوئے کا لفظ استعمال کیا ہے، جس کی دیگر وجوہات کے ساتھ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہر بڑی سیاسی جماعت دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اوور سیز پاکستانیوں جن کی تعداد بھی تقریباً پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے برابر ہی ہے، کو ووٹ کا حق دینے کی کھل کر مخالفت نہیں کر پارہی چاہے اسے یہ پسند ہو یا نہ ہو لیکن دیس کے ان بچوں کے لیے کوئی بھی آواز نہیں اٹھا رہا، جب کہ حکومت یہ بے ضرر سی آئینی ترمیم کرکے اور اپوزیشن صرف آواز اُٹھانے کی پہل کرکے صرف یہ کہہ کر ہی، کہ ہم پچھتر سالہ پرانے اس مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں، پاکستان کے 874 انتخابی حلقوں میں سے سیکڑوں حلقوں میں جہاں مذہبی اقلیتوں کے ووٹوں کی تعداد جیتنے والے امیدواروں کے ووٹوں کے فرق کی تعداد سے زیادہ ہے، بڑی کام یابی حاصل کر سکتی ہیں۔
لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ مذہبی اقلیتوں کے سیاسی، سماجی اور مذہبی راہ نما اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے راہ نماؤں کو یہ نکتہ سمجھائیں، ورنہ انتخابی اصلاحات کے اس موسم میں ہم پر پھر کوئی لولا لنگڑا انتخابی نظام تھوپ دیا جائے گا۔ یہ بات ماننے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ جہاں سیاسی اشرافیہ کو ادراک نہیں تھا کہ پاکستان کے معروضی سیاسی، سماجی، معاشرتی حالات کے تناظر میں ہماری سیاسی ضروریات کیا ہیں؟ وہیں ہمارے ہر دور کے سیاسی سماجی، و سیاسی رجحانات رکھنے والے مذہبی راہ نماؤں نے مکمل عرق ریزی سے کبھی بھی اپنے مطالبات پیش ہی نہیں کیے۔
غیر مسلم پاکستانی جو کہ 2017 کی افراد شماری کے مطابق تقریباً 78لاکھ ہیں اور 2023ء کے الیکشن تک ان کی تعداد ایک کروڑ کے لگ بھگ ہو جائے گی، جب کہ ان کے ووٹوں کی تعداد تقریباً پچاس لاکھ ہوجائے گی۔
یہ تمام شہری ہزاروں سال سے اس دھرتی کے باسی ہیں، کہیں باہر سے نہیں آئے۔ اس کے باوجود آئین پاکستان کی کئی شقیں ان کے بنیادی انسانی و شہری حقوق سے متصادم ہیں جن سے یہ محب وطن دھرتی کے بچے غیرمسلم پاکستانی شہری ریاستی و حکومتی اداروں کی کم زوریوں کی بدولت صرف نظر کرتے آئے ہیں اس کے باوجود سیاسی و ریاستی اشرافیہ نے 75 سال میں اپنے ان سوتیلے اور دھتکارے ہوئے شہریوں کو کوئی ایسا انتخابی نظام نہیں دیا.
جس سے یہ مطمئن ہوں۔ گو کہ مختلف ادوار میں ان پر چھے دفعہ تین انتخابی نظاموں (مخلوط، جداگانہ اور مخلوط ومخصوص نشستوں والی دہری نمائندگی) کے تجربات کیے گئے، لیکن سیاسی اشرافیہ اور اقلیتوں کے سیاسی راہ نماؤں کی یہ بہت بڑی ناکامی ہے کہ آج تک غیرمسلم پاکستانی شہری ان نظاموں سے کبھی بھی مطمئن نہیں ہوئے۔ آج کل انتخابی اصلاحات کا بڑا چرچا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے ہر کونے سے مذہبی اقلیتی شہری دہرے ووٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
آئیں اس سوال کا جواب ماضی اور حال میں پاکستانی مذہبی اقلیتوں کے لیے وضع کیے گئے انتخابی نظاموں اور اس سوال سے متعلق دست یاب اعدادوشمار اور زمینی حقائق کے ذریعے ڈھونڈتے ہیں۔
پاکستان کے2017ء کی افراد شماری کے غیرسرکاری اعداد وشمار کے مطابق 77,49,988 (ستتر لاکھ انچاس ہزار نو سو اٹھاسی) غیرمسلم شہری ہیں، جن کے ووٹوں کی تعداد 29 مارچ 2018کے الیکشن کمیشن کے اعلامیے کے مطابق 36 لاکھ تین سو ہے، جن میں ہندو ووٹرز17,77,289 (سترہ لاکھ ستتر ہزار سات ہزار دو سو نواسی) مسیحی ووٹرز16,38,748(سولہ لاکھ اڑتیس ہزار سات سو اڑتالیس) ہیں جب کہ احمدی، بہائی، سکھ، پارسی اور بدھسٹ ووٹرز مجموعی طور پر تقریباً دو لاکھ پندرہ ہزار ہیں۔ ان لاکھوں ووٹرز کی مذہبی شناخت پر اس وقت38 نمائندے ایوانوں میں ہیں.
جن میں چار سینیٹر، دس ایم این اے اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں چوبیس ایم پی اے ہیں۔ 1946 سے 1954تک دو دفعہ بننے والی اسمبلیوں میں بالترتیب 14 اور 11 ارکان تھے۔ یہ ارکان سلیکشن کے ذریعے ایوانوں میں پہنچے تھے، جن میں سے صرف دو مسیحی اور دو ہندو پاکستانیوں کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا، جب کہ 1962سے 1964 اور1965سے1969تک بننے والی اسمبلیاں مخلوط طرز انتخاب سے بنیں۔
نتیجتاً مخلوط الیکشن میں کوئی غیرمسلم سیٹ نہ حاصل کرسکا۔7دسمبر1970 ء کو پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر الیکشن ہوئے۔ پورے پاکستان سے صرف ایک صوبائی اسمبلی سے رانا چندر سنگھ اور قومی اسمبلی کے لیے راجہ تری دیو کے علاوہ کوئی غیرمسلم پاکستانی انتخابات نہ جیت سکا۔ مسیحیوں نے اپنے ادارے قومیائے جانے اور ایوانوں میں نمائندگی نہ ہونے پر احتجاج کیا۔ 30اگست 1972ء کو راولپنڈی میں حکومت وقت نے جلوس پر گولی چلائی آر۔ ایم۔ جمیس اور نوازمسیح جان سے گئے۔ جدوجہد جاری رہی۔
21 نومبر1975ء کو آئین پاکستان میں چوتھی ترمیم کے ذریعے غیرمسلم پاکستانیوں کے لیے قومی اسمبلی میں چھے سیٹیں مختص کی گئیں، جن پر چار مسیحی، ایک ہندو اور ایک پارسی پاکستانی ارکان قومی اسمبلی بنے۔ اس ترمیم میں سیٹیں مخصوص ضرور کی گئیں لیکن غیرمسلم پاکستانیوں کے قومی ووٹ کے ساتھ کوئی چھیڑچھاڑ نہ کی گئی۔
1977 کے انتخابات میں بھی یہ ہی طریقہ انتخاب اپنایا گیا غیرمسلم پاکستانیوں نے بھی قومی سطح پر اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ مارشل لا لگا۔ 1985میں صدارتی حکم نامے سے غیرمسلم پاکستانیوں کو جداگانہ طریقہ انتخاب دیا گیا، قومی اسمبلی کی سیٹیں چھے سے دس کردی گئیں.
جن میں چار ہندوؤں، چار مسیحیوں کے لیے اور دو دیگر اقلیتوں کے لیے تھی لیکن اس حکم نامے سے جہاں غیرمسلمان پاکستانیوں کو اپنے نمائندے مذہبی شناخت پر چننے کا حق مل گیا وہیں ہزاروں سال سے اس دھرتی پر بستے ان دھرتی واسیوں کو ایک جنبش قلم سے قومی دھارے سے کاٹ کر سیاسی اچھوت بنا دیا گیا۔
اس امتیازی طریقہ انتخاب کے تحت 1985 سے1997ء تک پانچ بار انتخابات ہوئے مذہبی شناخت پر نمائندے دے کر قومی ووٹ چھین لیا گیا۔ لوگ قومی شناخت کے لیے جدوجہد کرتے رہے، جس کے نتیجے میں2002ء کے الیکشن سے پہلے غیرمسلم پاکستانیوں کو قومی دھارے میں واپس لایا گیا، جس سے انہیں 849 حلقوں میں دوبارہ ووٹ دینے کا حق مل گیا۔ مذہبی شناخت پر تینوں ایوانوں میں 38 نمائندے بھی دست یاب رہے۔
لیکن ان 38 نمائندوں کو منتخب کرنے کا اختیار سیاسی اشرافیہ نے متناسب نمائندگی کے نام پر اپنے پاس رکھ لیا۔ لہٰذا اب ان غیرمسلم پاکستانی شہریوں کی مذہبی شناخت پر38 نمائندوں کو صرف پانچ یا چھے پارٹیوں کے سربراہ اور ان کے مشیر سلیکٹ کرتے ہیں جو کہ غیرآئینی اور غیر جمہوری ہے۔ جس سے دہری نمائندگی ہونے کے باوجود پاکستان کی مذہبی اقلیتوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔
غیرمسلمان پاکستانیوں کے لیے انتخابی نظاموں کے پچھتر سالہ تجربات اور پاکستان کے معاشرتی و جمہوری معروضی حالات کو دیکھتے ہوئے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر غیرمسلم پاکستانیوں کو ایوانوں میں ان کی مذہبی شناخت پر نمائندگی بھی دینی ہے اور انہیں قومی دھارے میں بھی شامل رکھنا ہے، جو کہ ان کا بنیادی انسانی شہری اور سیاسی حق ہے، تو انہیں آئین میں ترامیم کرکے دہرے ووٹ کا حق دیا جائے۔ ''کیوںکہ ماضی کے مخلوط اور جداگانہ طریقہ انتخاب سے مخلوط طریقہ انتخاب سے مذہبی شناخت پر نمائندگی ملنے کے امکانات نہایت کم اور جداگانہ سے وہ قومی دھارے سے کٹ جاتے ہیں جب کہ حالیہ مخلوط کے ساتھ متناسب نمائندگی سے دہری نمائندگی کے باوجود وہ ان نمائندوں کو اپنا نہیں چند سیاسی راہ نماؤں کا نمائندہ سمجھ کر ان سے غیرمطمئن اور بے چین ہیں۔''
لہٰذا جس طرح 1947ء سے 1970ء تک کے تجربات سے سیکھ کر چوتھی آئینی ترمیم کی گئی پھر 1985ء سے1997ء تک کے تجربے سے سیکھ کر 2002ء میں انتخابی نظام تبدیل کیا گیا، اسی طرح اب75سالہ اس ارتقائی سفر سے سیکھ کر اس انتخابی نظام میں بے ضرر سی آئینی ترامیم سے دہری نمائندگی کو دہرے ووٹ کے ذریعے سے نافذالعمل کروایا جائے۔ یہ آئینی ترمیم پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کا مطالبہ اور آئین پاکستان کی شق 226 کا بھی تقاضا ہے۔ اس سے یقیناً ملک و قوم کو مضبوط کرنے میں اور اقوام عالم میں ملک کے وقار میں اضافہ کرنے میں مدد ملے گی۔
مزید تفصیلات تازہ ترین اعداد و شمار سامنے رکھ کر طے کی جا سکتی ہیں لیکن بنیادی فارمولا یہ ہونا چاہیے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ہر وفاقی اکائی میں مذہبی اقلیتوں کی نمائندگی ہو، جیسے سندھ میں ہندوؤں اور پنجاب میں مسیحیوں کی آبادی خاطر خواہ ہے وہاں تو رعایتی بنیادوں پر حلقہ بندیاں کرلی جائیں، لیکن دیگر وفاقی اکائیوں میں جہاں آبادی نمائندگی کے لیے درکار تعداد سے کم ہے، وہاں آئین کے دیباچے/ تمہید Preambleکے اس پیراگراف کو ذہن میں رکھتے ہوئے جو مندرجہ ذیل ہے:
Wherein adequate provision shall be made to safeguard the legitimate interests of minorities and backward and depressed classes
''ترجمہ: جس میں اقلیتوں اور پس ماندہ اور پسے ہوئے طبقات کے جائز مفادات کے تحفظ کے لیے مناسب انتظامات کیے جائیں گے۔'' اس فارمولے سے یہ بات یقینی ہو جائے گی کہ اقلیتوں کی نمائندگی وفاق کی ہر اکائی سے ہو۔
یہ بے ضرر آئینی ترامیم کسی بھی سیاسی جماعت یا گروہ کے مفادات کے متصادم بھی نہیں ہوں گی اور یہ ملک و قوم کے استحکام کی بھی ضمانت بنیں گی۔ انتحابی اصلاحات کے اس موسم میں جو بھی قومی سیاسی جماعت ہو چاہے وہ حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں جو بھی اس مسئلے کے حل کے لیے قانون سازی کرے گی یا اس کے لیے آواز اٹھانے گی وہ پاکستان کے ہر انتحابی حلقے میں بستے ان پاکستانی شہریوں کی ہم دردیاں حاصل کرنے میں کام یاب ہوگی۔
میں نے اوپر سوتیلے اور دھتکارے ہوئے کا لفظ استعمال کیا ہے، جس کی دیگر وجوہات کے ساتھ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہر بڑی سیاسی جماعت دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اوور سیز پاکستانیوں جن کی تعداد بھی تقریباً پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے برابر ہی ہے، کو ووٹ کا حق دینے کی کھل کر مخالفت نہیں کر پارہی چاہے اسے یہ پسند ہو یا نہ ہو لیکن دیس کے ان بچوں کے لیے کوئی بھی آواز نہیں اٹھا رہا، جب کہ حکومت یہ بے ضرر سی آئینی ترمیم کرکے اور اپوزیشن صرف آواز اُٹھانے کی پہل کرکے صرف یہ کہہ کر ہی، کہ ہم پچھتر سالہ پرانے اس مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں، پاکستان کے 874 انتخابی حلقوں میں سے سیکڑوں حلقوں میں جہاں مذہبی اقلیتوں کے ووٹوں کی تعداد جیتنے والے امیدواروں کے ووٹوں کے فرق کی تعداد سے زیادہ ہے، بڑی کام یابی حاصل کر سکتی ہیں۔
لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ مذہبی اقلیتوں کے سیاسی، سماجی اور مذہبی راہ نما اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے راہ نماؤں کو یہ نکتہ سمجھائیں، ورنہ انتخابی اصلاحات کے اس موسم میں ہم پر پھر کوئی لولا لنگڑا انتخابی نظام تھوپ دیا جائے گا۔ یہ بات ماننے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ جہاں سیاسی اشرافیہ کو ادراک نہیں تھا کہ پاکستان کے معروضی سیاسی، سماجی، معاشرتی حالات کے تناظر میں ہماری سیاسی ضروریات کیا ہیں؟ وہیں ہمارے ہر دور کے سیاسی سماجی، و سیاسی رجحانات رکھنے والے مذہبی راہ نماؤں نے مکمل عرق ریزی سے کبھی بھی اپنے مطالبات پیش ہی نہیں کیے۔