الزام تراشیوں کی سیاست
پہلے اپنے سیاسی مخالفین کی پگڑیاں اچھالی گئیں ، اب ملکی اداروں کے ساتھ ایسا کیا جا رہا ہے۔
ملکی سیاست میں اپنے مخالف سیاست دانوں پر مبینہ طور پر جھوٹے، غلط و بے بنیاد الزامات لگانے کا سلسلہ تو چلا ہی آ رہا تھا مگر اب ملک کے اداروں پر بے بنیاد الزامات عائد کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
پہلے اپنے سیاسی مخالفین کی پگڑیاں اچھالی گئیں ، اب ملکی اداروں کے ساتھ ایسا کیا جا رہا ہے۔ ان اداروں میں دو ایسے ادارے عدلیہ اور فوج نمایاں ہیں جن کے خلاف لکھنے اور بولنے کی آئینی پابندی ہے اور ان پابندیوں کی خلاف ورزی پر عدلیہ کی طرف سے جو کارروائیاں ہوتی رہیں، وہ میڈیا میں آتی رہی ہیں۔
جن کے نتیجے میں سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے دور میں مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نہال ہاشمی کو سینیٹر شپ سے محروم ہونا پڑا تھا اور متعدد (ن) لیگیوں کو بھی نااہلی کی سزائیں ملی تھیں۔ سابق چیف جسٹس گلزار احمد کے دور میں پیپلز پارٹی کے ایک کارکن کو عدلیہ کے خلاف تقریر کرنے پر کراچی سے گرفتار کرکے اسلام آباد طلب کرلیا گیا تھا۔
متعدد سیاستدانوں کی طرف سے فوجی اداروں سے متعلق بیان بازیوں پر آئی ایس پی آر کی طرف سے بار بار درخواست کی گئی کہ سیکیورٹی اداروں کو سیاست سے دور رکھا جائے، بعض دفعہ فاضل ججوں کی طرف سے ریمارکس دیے جاتے رہے کہ عدلیہ سے متعلق غلط باتیں نہ کی جائیں اور عدالتی معاملات میں مداخلت سے گریز کیا جائے۔
لیکن عمران خان کے ہاتھوں سیاسی مخالفین کی عزت محفوظ تھی نہ ان کے اپنے ہی ارکان خیبر پختون خوا اسمبلی کہ جن پر چار سال قبل عمران خان نے نوٹ لے کر سینیٹ میں ووٹ دینے اور ضمیر فروشی کے الزامات لگائے تھے جنھوں نے عدلیہ سے رجوع کر رکھا ہے مگر عمران خان کے خلاف دوسروں کی عزت اچھالنے کے یہ مقدمات سالوں سے عدالتوں میں فیصلے کے منتظر چلے آ رہے ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے عمران خان پر ہتک عزت کا مقدمہ کر رکھا ہے جس کا فیصلہ برسوں سے ہونے میں نہیں آ رہا۔ اس کے علاوہ بھی ملک کی مختلف عدالتوں میں ہتک عزت کے بے شمار مقدمات زیر سماعت ہیں جن میں تاریخوں پر تاریخ پڑ جاتی ہے اور برسوں سے ایسے مقدمات پر فیصلے نہیں آرہے۔
کسی کو بھی چور، ڈاکو یا کرپٹ قرار دینے کا مکمل اختیار ملک کی عدالتوں کا ہے۔ ملک کا صدر یا وزیر اعظم ازخود کسی کو بھی مجرم قرار دینے یا چور ڈاکو اور بدعنوان کہنے کا آئینی اختیار نہیں رکھتے۔ ملک کے کسی بھی سیاستدان کو بھی یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنے مخالف سیاستدانوں کو چور، ڈاکو، کرپٹ، غدار اور سیکیورٹی رسک قرار دے۔
ماضی میں میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے اپنے ادوار میں ایک دوسرے پر کرپشن کے مقدمات بنوائے جو ان کی برطرفی کا جواز بھی بنے مگر کرپشن پر سزا کسی کو بھی نہیں ہوئی تھی۔ آصف زرداری پر بے نظیر بھٹو دور میں جھوٹے الزامات ہی نہیں لگے بلکہ انھیں طویل عرصہ جیلوں میں رہنا پڑا، مگر کوئی الزام کسی عدالت میں ثابت نہ کیا جاسکا اور پھر وہی شخص ملک کا صدر مملکت بھی منتخب ہوا۔
کرپشن پر کارروائی کے لیے پہلے احتساب بیورو بنا تھا جس کی انتقامی کارروائیوں کی وجہ سے اس کے سربراہ سیف الرحمن، احتساب الرحمن قرار پائے ۔ نیب کو جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف اور آصف زرداری کے خلاف استعمال کیا اور عمران خان نے وزیر اعظم بن کر انتقامی کارروائیوں کی انتہا کر دی۔
نیب عمران خان کے کسی مخالف کو سزا تو نہ دلا سکی مگر بیس برسوں سے عمران خان اپنے مخالفین کو مسلسل چور ڈاکو، کرپٹ اور قومی دولت لوٹنے والا قرار دیتے آ رہے ہیں جس کا انھیں کوئی اختیار ہے نہ حق، مگر اپنی حکومت میں بھی اور حکومت سے نکالے جانے کے بعد ان کی یہ تکرار بند نہیں ہوئی بلکہ اس میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
عمران خان ملک کے واحد سیاستدان ہیں جو پونے چار سال کی حکومت میں اپنے مخالفین پر بے سروپا الزامات لگاتے رہے مگر ان کی حکومت کرپشن اور بے قاعدگیوں کے الزامات میں گرفتار کسی بھی اپنے مخالف سیاستدان کے خلاف عدالتوں میں ثبوت پیش نہ کرسکی اور اپنی اس ناکامی پر شرمندہ ہونے کے بجائے اقتدار سے برطرفی کے بعد عمران خان کہہ رہے ہیں کہ امریکا نے سازش کردی۔
عدالتوں نے متعدد بار واضح کیا کہ کسی ثبوت کے بغیر عدالتیں کسی ملزم کو مجرم قرار نہیں دے سکتیں مگر جن رہنماؤں پر عدالتوں میں مقدمات زیر سماعت ہیں،عمران خان اپنے جلسوں میں انھیں مجرم قرار دے رہے ہیں۔ عمران خان کو مبینہ طور پر صادق و امین اس لیے قرار نہیں دیا گیا تھا کہ وہ خود جلسوں اور پریس کانفرنسوں میں اپنی عدالت لگا کر جج بن جائیں اور اپنے مخالفین کو چور، ڈاکو اور کرپٹ اور اپنے ہی ارکان اسمبلی کو لوٹا اور غدار قرار دیں کہ جنھوں نے قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف ووٹ دیا ہی نہیں مگر عمران خان ان کی عزتوں کے دشمن بن گئے اور لوگوں کو ان کے خلاف بھڑکا رہے ہیں۔
ملک کا نظام ایسا ہے کہ جن پر جھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں وہ ہتک عزت کے کیس اس لیے نہیں کرتے کہ انھیں پتا ہے کہ انھیں برسوں انصاف نہیں ملے گا اور ان کا وقت اور پیسہ ضایع ہوگا۔ عمران خان کا انداز گفتگو آج بھی اچھا نہیں ہے۔
اب بھی ان سے عدلیہ، فوج اور الیکشن کمیشن بھی محفوظ نہیں رہے مگر کہیں سے انھیں روکا نہیں جا رہا۔ انھیں دوسروں پر جھوٹے الزامات لگانے حتیٰ کے خواتین کے بارے میں جو جی میں آئے کہہ دیں، اس کا انھیں کوئی لائسنس نہیں ، ان کے خلاف کہیں سے کوئی کارروائی ہو رہی ہے نہ کوئی عدالت انھیں روک رہی ہے۔
پہلے اپنے سیاسی مخالفین کی پگڑیاں اچھالی گئیں ، اب ملکی اداروں کے ساتھ ایسا کیا جا رہا ہے۔ ان اداروں میں دو ایسے ادارے عدلیہ اور فوج نمایاں ہیں جن کے خلاف لکھنے اور بولنے کی آئینی پابندی ہے اور ان پابندیوں کی خلاف ورزی پر عدلیہ کی طرف سے جو کارروائیاں ہوتی رہیں، وہ میڈیا میں آتی رہی ہیں۔
جن کے نتیجے میں سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے دور میں مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نہال ہاشمی کو سینیٹر شپ سے محروم ہونا پڑا تھا اور متعدد (ن) لیگیوں کو بھی نااہلی کی سزائیں ملی تھیں۔ سابق چیف جسٹس گلزار احمد کے دور میں پیپلز پارٹی کے ایک کارکن کو عدلیہ کے خلاف تقریر کرنے پر کراچی سے گرفتار کرکے اسلام آباد طلب کرلیا گیا تھا۔
متعدد سیاستدانوں کی طرف سے فوجی اداروں سے متعلق بیان بازیوں پر آئی ایس پی آر کی طرف سے بار بار درخواست کی گئی کہ سیکیورٹی اداروں کو سیاست سے دور رکھا جائے، بعض دفعہ فاضل ججوں کی طرف سے ریمارکس دیے جاتے رہے کہ عدلیہ سے متعلق غلط باتیں نہ کی جائیں اور عدالتی معاملات میں مداخلت سے گریز کیا جائے۔
لیکن عمران خان کے ہاتھوں سیاسی مخالفین کی عزت محفوظ تھی نہ ان کے اپنے ہی ارکان خیبر پختون خوا اسمبلی کہ جن پر چار سال قبل عمران خان نے نوٹ لے کر سینیٹ میں ووٹ دینے اور ضمیر فروشی کے الزامات لگائے تھے جنھوں نے عدلیہ سے رجوع کر رکھا ہے مگر عمران خان کے خلاف دوسروں کی عزت اچھالنے کے یہ مقدمات سالوں سے عدالتوں میں فیصلے کے منتظر چلے آ رہے ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے عمران خان پر ہتک عزت کا مقدمہ کر رکھا ہے جس کا فیصلہ برسوں سے ہونے میں نہیں آ رہا۔ اس کے علاوہ بھی ملک کی مختلف عدالتوں میں ہتک عزت کے بے شمار مقدمات زیر سماعت ہیں جن میں تاریخوں پر تاریخ پڑ جاتی ہے اور برسوں سے ایسے مقدمات پر فیصلے نہیں آرہے۔
کسی کو بھی چور، ڈاکو یا کرپٹ قرار دینے کا مکمل اختیار ملک کی عدالتوں کا ہے۔ ملک کا صدر یا وزیر اعظم ازخود کسی کو بھی مجرم قرار دینے یا چور ڈاکو اور بدعنوان کہنے کا آئینی اختیار نہیں رکھتے۔ ملک کے کسی بھی سیاستدان کو بھی یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنے مخالف سیاستدانوں کو چور، ڈاکو، کرپٹ، غدار اور سیکیورٹی رسک قرار دے۔
ماضی میں میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے اپنے ادوار میں ایک دوسرے پر کرپشن کے مقدمات بنوائے جو ان کی برطرفی کا جواز بھی بنے مگر کرپشن پر سزا کسی کو بھی نہیں ہوئی تھی۔ آصف زرداری پر بے نظیر بھٹو دور میں جھوٹے الزامات ہی نہیں لگے بلکہ انھیں طویل عرصہ جیلوں میں رہنا پڑا، مگر کوئی الزام کسی عدالت میں ثابت نہ کیا جاسکا اور پھر وہی شخص ملک کا صدر مملکت بھی منتخب ہوا۔
کرپشن پر کارروائی کے لیے پہلے احتساب بیورو بنا تھا جس کی انتقامی کارروائیوں کی وجہ سے اس کے سربراہ سیف الرحمن، احتساب الرحمن قرار پائے ۔ نیب کو جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف اور آصف زرداری کے خلاف استعمال کیا اور عمران خان نے وزیر اعظم بن کر انتقامی کارروائیوں کی انتہا کر دی۔
نیب عمران خان کے کسی مخالف کو سزا تو نہ دلا سکی مگر بیس برسوں سے عمران خان اپنے مخالفین کو مسلسل چور ڈاکو، کرپٹ اور قومی دولت لوٹنے والا قرار دیتے آ رہے ہیں جس کا انھیں کوئی اختیار ہے نہ حق، مگر اپنی حکومت میں بھی اور حکومت سے نکالے جانے کے بعد ان کی یہ تکرار بند نہیں ہوئی بلکہ اس میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
عمران خان ملک کے واحد سیاستدان ہیں جو پونے چار سال کی حکومت میں اپنے مخالفین پر بے سروپا الزامات لگاتے رہے مگر ان کی حکومت کرپشن اور بے قاعدگیوں کے الزامات میں گرفتار کسی بھی اپنے مخالف سیاستدان کے خلاف عدالتوں میں ثبوت پیش نہ کرسکی اور اپنی اس ناکامی پر شرمندہ ہونے کے بجائے اقتدار سے برطرفی کے بعد عمران خان کہہ رہے ہیں کہ امریکا نے سازش کردی۔
عدالتوں نے متعدد بار واضح کیا کہ کسی ثبوت کے بغیر عدالتیں کسی ملزم کو مجرم قرار نہیں دے سکتیں مگر جن رہنماؤں پر عدالتوں میں مقدمات زیر سماعت ہیں،عمران خان اپنے جلسوں میں انھیں مجرم قرار دے رہے ہیں۔ عمران خان کو مبینہ طور پر صادق و امین اس لیے قرار نہیں دیا گیا تھا کہ وہ خود جلسوں اور پریس کانفرنسوں میں اپنی عدالت لگا کر جج بن جائیں اور اپنے مخالفین کو چور، ڈاکو اور کرپٹ اور اپنے ہی ارکان اسمبلی کو لوٹا اور غدار قرار دیں کہ جنھوں نے قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف ووٹ دیا ہی نہیں مگر عمران خان ان کی عزتوں کے دشمن بن گئے اور لوگوں کو ان کے خلاف بھڑکا رہے ہیں۔
ملک کا نظام ایسا ہے کہ جن پر جھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں وہ ہتک عزت کے کیس اس لیے نہیں کرتے کہ انھیں پتا ہے کہ انھیں برسوں انصاف نہیں ملے گا اور ان کا وقت اور پیسہ ضایع ہوگا۔ عمران خان کا انداز گفتگو آج بھی اچھا نہیں ہے۔
اب بھی ان سے عدلیہ، فوج اور الیکشن کمیشن بھی محفوظ نہیں رہے مگر کہیں سے انھیں روکا نہیں جا رہا۔ انھیں دوسروں پر جھوٹے الزامات لگانے حتیٰ کے خواتین کے بارے میں جو جی میں آئے کہہ دیں، اس کا انھیں کوئی لائسنس نہیں ، ان کے خلاف کہیں سے کوئی کارروائی ہو رہی ہے نہ کوئی عدالت انھیں روک رہی ہے۔