بہتر سیاست و صحافت وقت کا تقاضا
ناسمجھی میں ان حدود کا بھی خیال نہیں رکھا جا رہا ہے جو براہ راست ریاست کی حفاظت سے متعلق ہیں۔
ملتان شہر اولیاء و مریدین میں ایک اچھا پاور شو کرنے کے بعد عمران خان بنی گالا جانے کے بجائے پشاور آ گئے ہیں اور اتوار کے دن تو وہ یہیں قیام پذیر تھے۔ انھوں نے پارٹی کی کور کمیٹی کا اجلاس بھی پشاور میں ہی بلایا۔ عمران خان کی موجودگی میں مولانا فضل الرحمن نے پشاور میں اپنی طاقت دکھائی۔ مولانا نے اچھی خاصی تعداد میں لوگوں کو جمع کیا تھا۔
ڈرون سے لی جانے والی فلم بھی ایسا ہی کچھ منظر دکھا رہی تھی۔ اس وقت ملک میں ایک سیاسی افراتفری کا ماحول ہے اس کے ساتھ معاشی جھٹکے اور دہشت گردی کی نئی لہر کچھ اور اشارے بھی دے رہی ہے۔ لیکن سوشل میڈیا کے اس طوفان میں جہاں عقل و فکر کی بات کرنے والے کو تنقید سننے کو ملتی ہیں وہاں عام پاکستانی تو کیا خود کو مہذب تعلیم یافتہ کہنے والے ایسی ایسی مضحکہ خیز باتیں کر جاتے ہیں کہ غالب کے شعر والی کیفیت ہو جاتی ہے۔
'' حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں '' الغرض جس کا جتنا منہ ہے اور جتنی اس کی موبائل پر لکھنے کی اسپیڈ ہے ہر اول فول نہ صرف منہ سے نکلتے ہیں بلکہ تحریری شکل میں بھی لے آتے ہیں۔ یوٹیوبرز اور ٹک ٹاکرز نے اصلی صحافت کو کہیں دفن کر دیا ہے۔ صحافی بھی جن کا اصلی کام غیر جانبداری سے تمام معلومات عوام کے سامنے لانا ہے وہ بھی اپنے یوٹیوب چینل کی وجہ سے کسی پارٹی کے ترجمان بن چکے ہیں۔
بقول استاد کہ جو چورن یہ بیچتے ہیں اسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد پارٹی کی حمایت یا مخالفت میں اپنے موبائل ایپلیکیشن کے ذریعے دیکھ لیتی ہے جس پر لائیکس ملتے ہیں اور پھر یہی دیکھنے والے اس چورن بیچنے والے کے لیے کمائی کا ذریعہ بنتے ہیں ان کے چینل پر چلنے والے اشتہارات کی شکل میں۔ اور تحریک انصاف نے ایسے یوٹیوبرز کی کافی حوصلہ افزائی کی جو یوٹیوبرز یا چینل چلانے والے عمران خان کے حامی ہیں ان کی کمائی بھی زیادہ ہے اور وہ مشہور بھی کافی ہیں۔ تحریک انصاف کے اپنی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی اشتہارات پالیسی میں تبدیلی کرکے ایسے یوٹیوبرز کے لیے الگ سے اشتہار اور معاونتی فنڈ رکھا ہے۔
سوشل میڈیا پر جو مواد رکھا جاتا ہے اس کا مقصد پارٹی سے وفاداری یا اصولوں کی جنگ سے زیادہ یہ ان لوگوں کا اپنا کاروبار ہے۔ یہ وہی بیچتے ہیں جو لوگ خریدتے ہیں۔ یوں مشہوری کے چکر میں غیر جانبداری تو پہلی ہی چلی گئی تھی بھاڑ میں، اب سچی خبروں کو بھی کہیں قبر میں دفن کر دیا گیا ہے۔ صحیح خبر سے پہلے جھوٹی خبر اتنی پھیل چکی ہوتی ہے کہ آپ نے لاکھ اصل واقعات بتائے مگر اس سے بھی متاثرہ ذہن تبدیل نہیں ہو سکتا، جھوٹ کی اس تشہیر نے پہلے اس ملک کو دہشت گردی کے چنگل میں پھنسایا جس سے ابھی تک نہیں نکل سکے۔
اس پروپیگنڈے کی جنگ میں جوانوں کو مذہب کے نام پر ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف نہ صرف اکسایا بلکہ ہتھیار اٹھانے کی بھی طاقت دی اور پھر ہم نے بربادی کا ایک لمبا سلسلہ دیکھا اور اب بھی دیکھ رہے ہیں۔ اب بھی اسی طرح کی جھوٹی خبریں باقاعدہ مہم کے ذریعے پھیلائی جا رہی ہیں۔ اداروں کے خلاف بھی اور ریاست کے خلاف بھی۔ حکومت کو سیاسی طور پر نشانہ بناتے بناتے سیاسی جماعتیں اپنے ہی اداروں کے خلاف اپنے کارکنوں خصوصاً نوجوان کارکنوں کو جنھیں بے روزگاری کے مسئلے کا بھی سامنا ہے جذبات ابھار رہے ہیں اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب ملک میں داعش کا خطرہ سر اٹھا رہا ہے۔
ناسمجھی میں ان حدود کا بھی خیال نہیں رکھا جا رہا ہے جو براہ راست ریاست کی حفاظت سے متعلق ہیں۔ عمرا ن خان کا پشاور میں ایٹم بم کے حوالے سے بیان اس بات کا ثبوت ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے عالمگیر خان جنھوں نے گٹروں سے شہرت پائی اداروں کے خلاف کراچی کی دیواروں پر کارٹون بنا کر ملک کی کونسی خدمت کر رہے ہیں۔ ایسا تو ایم کیو ایم کے دور میں بھی نہیں ہوا جنھوں نے کبھی مسلح مزاحمت کا راستہ بھی اختیار کیا تھا۔ اس مسئلے کا ایک اخلاقی پہلو بھی ہے جس کا جس سے اختلاف ہو اس اختلاف رائے میں وہ ان کی عورتوں کو بھی گھسیٹ لیتے ہیں۔
آج کل جو سوشل میڈیا پر سیاست دانوں کی رشتہ دار خواتین یا سیاست میں شریک خواتین کے خلاف جس طرح کی زبان استعمال کی جا رہی ہے وہ اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ جانے انجانے میں معاشرہ کتنی پستی کا شکار ہو گیا ہے۔ سیاست خدمت کے بجائے پاکستان میں دونوں فریقین عوام اور سیاست دان دونوں کے لیے کاروبار کے بعد اب ایک معیوب سی چیز بنتی جا رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے تعلیم یافتہ اور مہذب کارکن بھی اب گالم گلوچ اور ہاتھا پائی پر اتر آئے ہیں اور اس میں سیاسی جماعتوں کی خواتین خود بھی شامل ہیں جو معاشرتی حدیں بھی پار کر لیتی ہیں۔ انھی رویوں نے سیاسی کشیدگی اتنی حد تک بڑھا دی ہے کہ گھروں، محلوں اور مسجدوں کے اندر سے لڑائی جھگڑے کی خبریں آ رہی ہیں۔
سیاسی اختلافات میں بڑے چھوٹے کا لحاظ تو ختم ہی گیا تھا اب مذہبی کارڈ ایسی بے دردی سے استعمال کیا جا رہا ہے کہ کبھی پریشانی ہو جاتی ہے کہ اس ماچس کی تیلی نے اگر آگ لگائی تو وہ بجھے گی کیسے ؟ ان غیر معمولی حالات میں صحافیوں اور صحافتی اداروں پر ذمے داریوں کے بوجھ میں اضافہ ہوا ہے۔ عام قارئین کی معلومات کے لیے کہ صحافیوں کو ہر کسی سے تعلقات رکھنے پڑتے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کے ساتھ۔ اگر میل ملاپ نہیں ہو گا تو معلومات کیسے باہر جائیں گی۔ صحافی ہر در کو کھٹکھٹانے کے بعد خبریں اکٹھی کرتے ہیں۔
اپنے ذرایع سے نباہ کر رکھنا پڑتا ہے اور سیاسی جماعت میں صحافی کے لیے دوست نما ذرایع ہوتے ہیں جو انھیں معلومات فراہم کرتے ہیں۔ اچھا صحافی معلومات ملنے کے بعد تصدیق ضرور کرتا ہے کیونکہ ہر باہر آنے والی خبر کسی کی ضرورت اور مرضی سے باھر آتی ہے۔ صحافی کا کام اس میں سے سچائی نکال کر عوام کو پیش کرنا ہے۔ صحافی اب ایک طرف سے سننے والی خبر بغیر تصدیق کے آگے نہیں پہنچا سکتے۔ لیکن کیا کریں کہ پچھلے کئی سالوں سے صحافی خود رو پودوں کی طرح بغیر تربیت کے اگر بیٹھے جنھوں نے مشہوری کے چکر میں صحافتی اقدار کا جنازہ نکال دیا۔ آج انھیں بے ضابطگی، قواعد کی خلاف ورزی اور خوردبرد میں تفریق کا کوئی علم نہیں یہ ان سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتا ہے۔
آڈٹ رپورٹ کی جگہ اب آڈٹ پیرا خبر ہوتی ہے جس کی رپورٹ بننے تک کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ جعلی خبروں کی بھرمار ہے۔ صحافتی تنظیمیں بھی تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں۔ اکابرین کوشش بسیار کے بعد بھی ان تنظیموں کو اکٹھا نہیں کر سکے۔ حکومتوں نے ایسے ادارے بنانے کی کوشش کی لیکن کسی بھی حکومت کی نیت صاف نہیں تھی۔اب بھی وقت ہے کہ ہم سیاست صحافت کو عوامی امنگوں کے تابع کریں۔ معاشرے کو مضبوط بنائیں نہ کہ اس کی اقدار کو پامال کریں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جعلی خبروں کے خلاف حکومت اور صحافتی ادارے مل کر ایک ایسا میکنزم بنائیں تاکہ عزتیں اچھالنے کا یہ سلسلہ بند ہو سکے۔ صحافت اور سیاست معاشرے کی بہتری کے لیے ہیں نہ کہ بگاڑ کے لیے۔
ڈرون سے لی جانے والی فلم بھی ایسا ہی کچھ منظر دکھا رہی تھی۔ اس وقت ملک میں ایک سیاسی افراتفری کا ماحول ہے اس کے ساتھ معاشی جھٹکے اور دہشت گردی کی نئی لہر کچھ اور اشارے بھی دے رہی ہے۔ لیکن سوشل میڈیا کے اس طوفان میں جہاں عقل و فکر کی بات کرنے والے کو تنقید سننے کو ملتی ہیں وہاں عام پاکستانی تو کیا خود کو مہذب تعلیم یافتہ کہنے والے ایسی ایسی مضحکہ خیز باتیں کر جاتے ہیں کہ غالب کے شعر والی کیفیت ہو جاتی ہے۔
'' حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں '' الغرض جس کا جتنا منہ ہے اور جتنی اس کی موبائل پر لکھنے کی اسپیڈ ہے ہر اول فول نہ صرف منہ سے نکلتے ہیں بلکہ تحریری شکل میں بھی لے آتے ہیں۔ یوٹیوبرز اور ٹک ٹاکرز نے اصلی صحافت کو کہیں دفن کر دیا ہے۔ صحافی بھی جن کا اصلی کام غیر جانبداری سے تمام معلومات عوام کے سامنے لانا ہے وہ بھی اپنے یوٹیوب چینل کی وجہ سے کسی پارٹی کے ترجمان بن چکے ہیں۔
بقول استاد کہ جو چورن یہ بیچتے ہیں اسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد پارٹی کی حمایت یا مخالفت میں اپنے موبائل ایپلیکیشن کے ذریعے دیکھ لیتی ہے جس پر لائیکس ملتے ہیں اور پھر یہی دیکھنے والے اس چورن بیچنے والے کے لیے کمائی کا ذریعہ بنتے ہیں ان کے چینل پر چلنے والے اشتہارات کی شکل میں۔ اور تحریک انصاف نے ایسے یوٹیوبرز کی کافی حوصلہ افزائی کی جو یوٹیوبرز یا چینل چلانے والے عمران خان کے حامی ہیں ان کی کمائی بھی زیادہ ہے اور وہ مشہور بھی کافی ہیں۔ تحریک انصاف کے اپنی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی اشتہارات پالیسی میں تبدیلی کرکے ایسے یوٹیوبرز کے لیے الگ سے اشتہار اور معاونتی فنڈ رکھا ہے۔
سوشل میڈیا پر جو مواد رکھا جاتا ہے اس کا مقصد پارٹی سے وفاداری یا اصولوں کی جنگ سے زیادہ یہ ان لوگوں کا اپنا کاروبار ہے۔ یہ وہی بیچتے ہیں جو لوگ خریدتے ہیں۔ یوں مشہوری کے چکر میں غیر جانبداری تو پہلی ہی چلی گئی تھی بھاڑ میں، اب سچی خبروں کو بھی کہیں قبر میں دفن کر دیا گیا ہے۔ صحیح خبر سے پہلے جھوٹی خبر اتنی پھیل چکی ہوتی ہے کہ آپ نے لاکھ اصل واقعات بتائے مگر اس سے بھی متاثرہ ذہن تبدیل نہیں ہو سکتا، جھوٹ کی اس تشہیر نے پہلے اس ملک کو دہشت گردی کے چنگل میں پھنسایا جس سے ابھی تک نہیں نکل سکے۔
اس پروپیگنڈے کی جنگ میں جوانوں کو مذہب کے نام پر ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف نہ صرف اکسایا بلکہ ہتھیار اٹھانے کی بھی طاقت دی اور پھر ہم نے بربادی کا ایک لمبا سلسلہ دیکھا اور اب بھی دیکھ رہے ہیں۔ اب بھی اسی طرح کی جھوٹی خبریں باقاعدہ مہم کے ذریعے پھیلائی جا رہی ہیں۔ اداروں کے خلاف بھی اور ریاست کے خلاف بھی۔ حکومت کو سیاسی طور پر نشانہ بناتے بناتے سیاسی جماعتیں اپنے ہی اداروں کے خلاف اپنے کارکنوں خصوصاً نوجوان کارکنوں کو جنھیں بے روزگاری کے مسئلے کا بھی سامنا ہے جذبات ابھار رہے ہیں اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب ملک میں داعش کا خطرہ سر اٹھا رہا ہے۔
ناسمجھی میں ان حدود کا بھی خیال نہیں رکھا جا رہا ہے جو براہ راست ریاست کی حفاظت سے متعلق ہیں۔ عمرا ن خان کا پشاور میں ایٹم بم کے حوالے سے بیان اس بات کا ثبوت ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے عالمگیر خان جنھوں نے گٹروں سے شہرت پائی اداروں کے خلاف کراچی کی دیواروں پر کارٹون بنا کر ملک کی کونسی خدمت کر رہے ہیں۔ ایسا تو ایم کیو ایم کے دور میں بھی نہیں ہوا جنھوں نے کبھی مسلح مزاحمت کا راستہ بھی اختیار کیا تھا۔ اس مسئلے کا ایک اخلاقی پہلو بھی ہے جس کا جس سے اختلاف ہو اس اختلاف رائے میں وہ ان کی عورتوں کو بھی گھسیٹ لیتے ہیں۔
آج کل جو سوشل میڈیا پر سیاست دانوں کی رشتہ دار خواتین یا سیاست میں شریک خواتین کے خلاف جس طرح کی زبان استعمال کی جا رہی ہے وہ اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ جانے انجانے میں معاشرہ کتنی پستی کا شکار ہو گیا ہے۔ سیاست خدمت کے بجائے پاکستان میں دونوں فریقین عوام اور سیاست دان دونوں کے لیے کاروبار کے بعد اب ایک معیوب سی چیز بنتی جا رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے تعلیم یافتہ اور مہذب کارکن بھی اب گالم گلوچ اور ہاتھا پائی پر اتر آئے ہیں اور اس میں سیاسی جماعتوں کی خواتین خود بھی شامل ہیں جو معاشرتی حدیں بھی پار کر لیتی ہیں۔ انھی رویوں نے سیاسی کشیدگی اتنی حد تک بڑھا دی ہے کہ گھروں، محلوں اور مسجدوں کے اندر سے لڑائی جھگڑے کی خبریں آ رہی ہیں۔
سیاسی اختلافات میں بڑے چھوٹے کا لحاظ تو ختم ہی گیا تھا اب مذہبی کارڈ ایسی بے دردی سے استعمال کیا جا رہا ہے کہ کبھی پریشانی ہو جاتی ہے کہ اس ماچس کی تیلی نے اگر آگ لگائی تو وہ بجھے گی کیسے ؟ ان غیر معمولی حالات میں صحافیوں اور صحافتی اداروں پر ذمے داریوں کے بوجھ میں اضافہ ہوا ہے۔ عام قارئین کی معلومات کے لیے کہ صحافیوں کو ہر کسی سے تعلقات رکھنے پڑتے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کے ساتھ۔ اگر میل ملاپ نہیں ہو گا تو معلومات کیسے باہر جائیں گی۔ صحافی ہر در کو کھٹکھٹانے کے بعد خبریں اکٹھی کرتے ہیں۔
اپنے ذرایع سے نباہ کر رکھنا پڑتا ہے اور سیاسی جماعت میں صحافی کے لیے دوست نما ذرایع ہوتے ہیں جو انھیں معلومات فراہم کرتے ہیں۔ اچھا صحافی معلومات ملنے کے بعد تصدیق ضرور کرتا ہے کیونکہ ہر باہر آنے والی خبر کسی کی ضرورت اور مرضی سے باھر آتی ہے۔ صحافی کا کام اس میں سے سچائی نکال کر عوام کو پیش کرنا ہے۔ صحافی اب ایک طرف سے سننے والی خبر بغیر تصدیق کے آگے نہیں پہنچا سکتے۔ لیکن کیا کریں کہ پچھلے کئی سالوں سے صحافی خود رو پودوں کی طرح بغیر تربیت کے اگر بیٹھے جنھوں نے مشہوری کے چکر میں صحافتی اقدار کا جنازہ نکال دیا۔ آج انھیں بے ضابطگی، قواعد کی خلاف ورزی اور خوردبرد میں تفریق کا کوئی علم نہیں یہ ان سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتا ہے۔
آڈٹ رپورٹ کی جگہ اب آڈٹ پیرا خبر ہوتی ہے جس کی رپورٹ بننے تک کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ جعلی خبروں کی بھرمار ہے۔ صحافتی تنظیمیں بھی تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں۔ اکابرین کوشش بسیار کے بعد بھی ان تنظیموں کو اکٹھا نہیں کر سکے۔ حکومتوں نے ایسے ادارے بنانے کی کوشش کی لیکن کسی بھی حکومت کی نیت صاف نہیں تھی۔اب بھی وقت ہے کہ ہم سیاست صحافت کو عوامی امنگوں کے تابع کریں۔ معاشرے کو مضبوط بنائیں نہ کہ اس کی اقدار کو پامال کریں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جعلی خبروں کے خلاف حکومت اور صحافتی ادارے مل کر ایک ایسا میکنزم بنائیں تاکہ عزتیں اچھالنے کا یہ سلسلہ بند ہو سکے۔ صحافت اور سیاست معاشرے کی بہتری کے لیے ہیں نہ کہ بگاڑ کے لیے۔