سیاسی آئینی بحران اور معیشت
پاکستان وسائل سے مالامال ہے اورپاکستان کے پاس ایسے معاشی منیجرزبھی موجود ہیں جو ملک کی معیشت کو بحران سے نکال سکتے ہیں
اس وقت ملک میں آئینی مسائل اور سیاسی بے چینی کی وجہ سے معیشت سب سے زیادہ متاثر ہورہی ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اسلام آباد کے لیے لانگ مارچ کی کال دے دی ہے۔
عمران خان کا دعویٰ ہے کہ پچیس لاکھ افراد اسلام آباد پہنچیں گے اور اس وقت تک وہاں سے واپس نہیں آئیں گے، جب تک نئے الیکشن کا اعلان نہیں ہو جاتا۔ دوسری جانب حکومت کی اتحادی جماعتوں نے الیکشن کے فوری انعقاد کے امکان کو رد کر دیا ہے۔
ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں جاری آئینی بحران کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پنجاب میں ابھی تک صوبائی کابینہ نہیں بن سکی ہے، صوبہ گورنر کے بغیر چل رہا ہے حالانکہ گورنر ایک آئینی عہدہ ہے اور اسے خالی نہیں رکھا جا سکتا۔
ادھرگزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں صدر مملکت کے خلاف ایک قرارداد بھی منظور کی گئی جو اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے اور ملک کی پارلیمانی تاریخ میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کا آئینی بحران کس قدر پیچیدہ ہو چکا ہے ، گویا صورتحال ایک ایسی خرابی کی طرف جارہی ہے جس کا بروقت تدارک نہ کیا گیا تو صورتحال انتہائی گھمبیر ہو سکتی ہے۔
اب ہونا تو یہ چاہیے کہ کوئی درمیانی راہ نکالی جائے، حکومت اور تحریک انصاف میں ڈیڈ لاک ختم ہو، نئے انتخابات کے روڈ میپ پر مذاکرات کا آغاز کیا جائے مگر اس وقت تک ایسی کوئی صورت دور دور تک نظر نہیں آتی کیونکہ فریقین کے درمیان اتنی بڑی خلیج حائل ہو چکی ہے کہ جسے پاٹنا فی الوقت ممکن نظر نہیں آتا۔
گزرے ماہ جس وقت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں پیش کی جارہی تھی تو اس وقت جنوبی ایشیا کا اہم ملک سری لنکا معاشی بدحالی سے گزر رہا تھا ، مقامی کرنسی کی مسلسل گراوٹ اور غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں ایک ارب ڈالر سے بھی کم ہونے پر سری لنکا نے دیوالیہ ہونے کا اعلان کر دیا جس کے بعد ہنگامہ آرائی کا وہ سلسلہ شروع ہوا جس میں سب سے زیادہ نقصان اشرافیہ کو اٹھانا پڑا کیونکہ عوام تو پہلے ہی متاثر ہو چکے تھے۔
تاہم ان حالات کے باوجود پاکستان کی اشرافیہ نے شاید کوئی سبق سیکھنا گوارا نہ کیا اور ملک کی معاشی بحران کے برعکس سیاسی مفادات کا کھیل جاری رکھا ہوا ہے، اگر پاکستان کی نسبت ایک چھوٹا ملک غیر ضروری قرضوں ، غلط سرمایہ کاری کے منصوبوں ، درآمدی خساروں ، مقامی کرنسی کی گراؤٹ اور غیر دانشمندانہ سیاسی فیصلوں کے باعث دیوالیہ ہو سکتا ہے تو پھر حجم اور ضروریات کے لحاظ سے بڑا ملک سیاسی انارکی کی وجہ سے پیدا ہونے والی بدترین معاشی بحران کی بدولت کیوں نہیں تباہی کے دہانے پر پہنچ سکتا۔
گلوبلائزیشن کے دور میں یہ ممکن نہیں رہا کہ آپ کے پڑوس میں کچھ ہو رہا ہو اور آپ اس سے متاثر ہوئے بغیر امن و سکون سے رہ رہے ہوں۔ دور جدید میں دنیا کے مسائل اس حد تک اپس میں جڑے ہوئے ہیں کہ یورپ کے کونے میں ہونی والی معاشی صورت حال سے ہزاروں میل دور موجود ملک بھی کسی نہ کسی انداز میں متاثر ہو سکتا ہے۔
معاشی امداد کی غرض سے نئی حکومت دوست ممالک کے پاس جارہی ہے لیکن عالمی سطح پر دوستی اور دشمنی کی بنیاد پر نہیں بلکہ معاشی مفاد کی بنیاد پر مدد کی جاتی ہے۔ چنانچہ سعودی عرب اور عرب امارات نے اس صورت حال میں مشورہ دیا ہے کہ پاکستان کو پہلے آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کرنے چاہیں ، دوسری طرف آئی ایم ایف نے بھی اپنی شرائط کے عملدرآمد کا جائزہ لینا شروع کر رکھا ہے۔
جب تک آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے نہیں ہو جاتے اس وقت تک پاکستان کی معیشت کا سانس لینا مشکل ہے ، پاکستان کے روپے کی قدر میں مسلسل گراؤٹ جاری ہے ، اس وقت ڈالر کی قیمت دو سو روپے سے زائد ہوچکی ہے ، اسٹاک ایکسچینج مسلسل ڈوب رہی ہے اور سرمایہ کار پریشان دکھائی دے رہے ہیں، معاشی ماہرین دہائی دے رہے ہیں کہ اسے روکا نہ گیا تو معاشی بحران سنگین ہو سکتا ہے لیکن ریاست کے اسٹیک ہولڈرز باہم دست وگریبان ہیں۔
تحریک انصاف پوری شدت سے حکومت گرانے کی کوشش کررہی ہے۔صدرمملکت اور حکومت آنے سامنے ہیں۔ منحرف اراکین کے ووٹ نہ گننے کے سپریم کورٹ کے فیصلے نے پنجاب میں سیاسی بحران کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
سری لنکا کے کیس کومد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کے حالات کا موازنہ کرنے کی اشد ضرورت ہے، ہو سکتا ہے کہ ابھی فوری ایسی صورتحال پیش نہ آسکے لیکن جن حالات کا ملک کو سامنا ہے وہ نہایت بھیانک منظر پیش کر رہا ہے۔ پاکستان کی حکومت حالات کوبہتر طور پر سمجھ رہی ہے اور یہ حالات بہتر کیسے ہوں گے اس کے بارے میں بھی وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی ٹیم کو پوری آگاہی حاصل ہے۔
جہاں تک موجودہ حکومت کی پرفارمنس کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں کوئی حتمی رائے دینا مناسب نہیں ہے کیونکہ حکومت قائم تو ہو گئی ہے لیکن اس کے مسائل بہت بڑھ چکے ہیں، جس کی وجہ سے معاشی شعبے میں اس کی کارکردگی کچھ نمایاں نظر نہیں آتی، گویا معاشی بحران بھی بڑھ رہا ہے۔
حکومت با ر بار کہہ رہی ہے کہ اسے کچھ مشکل فیصلے لینے پڑیں گے۔ یہ مشکل فیصلے یقینا عوام کے لیے مسائل کا باعث ہوں گے اور اسی لیے حکومت یہ فیصلے کرنے میں تاخیر سے کام لے رہی ہے لیکن یہ تاخیر معاشی بحران کو مزید گہرا کرتی جا رہی ہے۔
ڈالر دن بدن اوپر جا رہا ہے، اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے، بجلی کی قیمتوں میں جب سے حکومت آئی ہے ایک سے زائد بار اضافہ ہو چکا ہے ، اب اس صورت حال میں کہ جب حکومت معاشی ریلیف دینے میں بھی کامیاب نظر نہیں آرہی عمران خان کے اس بیانیہ کو کیسے ناکام بنایا جائے گا کہ ان کی حکومت کو ایک سازش کے تحت گھر بھیجا گیا۔
عمران خان احتجاجی سیاست کر رہے ہیں اوراس وقت بھی وہ پرامن لانگ مارچ کے حوالے سے کام کر رہے ہیں۔ حکومت کے لیے یقینا یہ بھی ایک مسئلہ ہے اور اس مسئلے کو وہ کیسی حل کرتی ہے اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
پاکستان کو اس وقت جس چیز کی ضرورت ہے وہ سیاسی استحکام ہے اس کے ساتھ ساتھ مضبوط صنعتی پالیسی ہے جو روزگار پیدا کرنے، برآمدی پیداوار کو متنوع بنانے اور مقامی معیشت میں قدر بڑھانے کی صلاحیت رکھ سکتی ہے۔ لگژری اشیاء کے باعث ہمارا درآمدی خسارہ مسلسل خوفناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے۔ معاشی بحران پر قابو پانا ایک مشکل کام ہے اور اب سارا بوجھ حکومت پر ہے۔ موجودہ حکومت کے پاس وقت بہت کم ہے اور معاشی بحران سے بچنے کے لیے جن اقدامات کی ضرورت ہے وہ بہت زیادہ ہیں۔
اس بات سے اتفاق کیا جانا چاہیے کہ چند دن کے لیے اور چند ووٹوں کی بنیاد پر بننے والی حکومت کوئی بھی طویل المیعاد اور بڑے فیصلے کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اپوزیشن کو بھی اپنی ضد اور انا سے بالاتر ہو کر ملکی مفاد میں کم از کم معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے حکومت کے ساتھ ''معاشی ڈائیلاگ '' کو آگے بڑھانا چاہیے۔
وقتی سیاسی مفادات کو نظر انداز کر کے اپوزیشن سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو کسی ایسے ''میثاق معیشت '' پر لانا ضروری ہے جس کے باعث دروازے پر دستک دے رہے معاشی بحران کو ٹالا جا سکے اور یہ ہم سب کے مفاد میں ہے۔
ملک کا بڑھتا ہوا سیاسی بحران اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں سیاسی سطح پر بے چینی اور انتشار مزید بڑھ سکتا ہے۔ پاکستان کو اس وقت جس چیز کی ضرورت ہے وہ سیاسی استحکام ہے ، اس کے ساتھ ساتھ مضبوط صنعتی پالیسی ہے جو روزگار پیدا کرنے، برآمدی پیداوار کو متنوع بنانے اور مقامی معیشت میں قدر بڑھانے کی صلاحیت رکھ سکتی ہے۔
پاکستان وسائل سے مالامال ہے اور پاکستان کے پاس ایسے معاشی منیجرز بھی موجود ہیں جو ملک کی معیشت کو بحران سے نکال سکتے ہیں۔ سری لنکا جن وجوہات کی بناء پر دیوالیہ ہوا ہے، پاکستان میں وہ وجوہات بہت کم ہیں۔ پاکستان کے پاس اتنے وسائل موجود ہیں کہ وہ اپنی عالمی ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہو سکتا ہے۔ اس وقت محسوس ہو رہا ہے کہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک پاکستان کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہیں۔ اسی طرح امریکی انتظامیہ بھی لچک کا مظاہرہ کرتی نظر آ رہی ہے۔ سعودی عرب اور یو اے ای کی جانب سے بھی حوصلہ افزاء اشارے مل رہے ہیں۔
وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری چین گئے ہیں اور وہاں سے بھی جو خبریں آ رہی ہیں وہ حوصلہ افزاء ہیں۔ پاکستان میں جو سیاسی بحران جاری ہے، وہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ پی ٹی آئی جب حکومت میں تھی تو اس وقت بھی اپوزیشن احتجاج پر احتجاج کرتی رہی ہے۔ آئینی پیچیدگیاں بھی بتدریج دور ہوتی جائیں گی۔
عمران خان کا دعویٰ ہے کہ پچیس لاکھ افراد اسلام آباد پہنچیں گے اور اس وقت تک وہاں سے واپس نہیں آئیں گے، جب تک نئے الیکشن کا اعلان نہیں ہو جاتا۔ دوسری جانب حکومت کی اتحادی جماعتوں نے الیکشن کے فوری انعقاد کے امکان کو رد کر دیا ہے۔
ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں جاری آئینی بحران کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پنجاب میں ابھی تک صوبائی کابینہ نہیں بن سکی ہے، صوبہ گورنر کے بغیر چل رہا ہے حالانکہ گورنر ایک آئینی عہدہ ہے اور اسے خالی نہیں رکھا جا سکتا۔
ادھرگزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں صدر مملکت کے خلاف ایک قرارداد بھی منظور کی گئی جو اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے اور ملک کی پارلیمانی تاریخ میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کا آئینی بحران کس قدر پیچیدہ ہو چکا ہے ، گویا صورتحال ایک ایسی خرابی کی طرف جارہی ہے جس کا بروقت تدارک نہ کیا گیا تو صورتحال انتہائی گھمبیر ہو سکتی ہے۔
اب ہونا تو یہ چاہیے کہ کوئی درمیانی راہ نکالی جائے، حکومت اور تحریک انصاف میں ڈیڈ لاک ختم ہو، نئے انتخابات کے روڈ میپ پر مذاکرات کا آغاز کیا جائے مگر اس وقت تک ایسی کوئی صورت دور دور تک نظر نہیں آتی کیونکہ فریقین کے درمیان اتنی بڑی خلیج حائل ہو چکی ہے کہ جسے پاٹنا فی الوقت ممکن نظر نہیں آتا۔
گزرے ماہ جس وقت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں پیش کی جارہی تھی تو اس وقت جنوبی ایشیا کا اہم ملک سری لنکا معاشی بدحالی سے گزر رہا تھا ، مقامی کرنسی کی مسلسل گراوٹ اور غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں ایک ارب ڈالر سے بھی کم ہونے پر سری لنکا نے دیوالیہ ہونے کا اعلان کر دیا جس کے بعد ہنگامہ آرائی کا وہ سلسلہ شروع ہوا جس میں سب سے زیادہ نقصان اشرافیہ کو اٹھانا پڑا کیونکہ عوام تو پہلے ہی متاثر ہو چکے تھے۔
تاہم ان حالات کے باوجود پاکستان کی اشرافیہ نے شاید کوئی سبق سیکھنا گوارا نہ کیا اور ملک کی معاشی بحران کے برعکس سیاسی مفادات کا کھیل جاری رکھا ہوا ہے، اگر پاکستان کی نسبت ایک چھوٹا ملک غیر ضروری قرضوں ، غلط سرمایہ کاری کے منصوبوں ، درآمدی خساروں ، مقامی کرنسی کی گراؤٹ اور غیر دانشمندانہ سیاسی فیصلوں کے باعث دیوالیہ ہو سکتا ہے تو پھر حجم اور ضروریات کے لحاظ سے بڑا ملک سیاسی انارکی کی وجہ سے پیدا ہونے والی بدترین معاشی بحران کی بدولت کیوں نہیں تباہی کے دہانے پر پہنچ سکتا۔
گلوبلائزیشن کے دور میں یہ ممکن نہیں رہا کہ آپ کے پڑوس میں کچھ ہو رہا ہو اور آپ اس سے متاثر ہوئے بغیر امن و سکون سے رہ رہے ہوں۔ دور جدید میں دنیا کے مسائل اس حد تک اپس میں جڑے ہوئے ہیں کہ یورپ کے کونے میں ہونی والی معاشی صورت حال سے ہزاروں میل دور موجود ملک بھی کسی نہ کسی انداز میں متاثر ہو سکتا ہے۔
معاشی امداد کی غرض سے نئی حکومت دوست ممالک کے پاس جارہی ہے لیکن عالمی سطح پر دوستی اور دشمنی کی بنیاد پر نہیں بلکہ معاشی مفاد کی بنیاد پر مدد کی جاتی ہے۔ چنانچہ سعودی عرب اور عرب امارات نے اس صورت حال میں مشورہ دیا ہے کہ پاکستان کو پہلے آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کرنے چاہیں ، دوسری طرف آئی ایم ایف نے بھی اپنی شرائط کے عملدرآمد کا جائزہ لینا شروع کر رکھا ہے۔
جب تک آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے نہیں ہو جاتے اس وقت تک پاکستان کی معیشت کا سانس لینا مشکل ہے ، پاکستان کے روپے کی قدر میں مسلسل گراؤٹ جاری ہے ، اس وقت ڈالر کی قیمت دو سو روپے سے زائد ہوچکی ہے ، اسٹاک ایکسچینج مسلسل ڈوب رہی ہے اور سرمایہ کار پریشان دکھائی دے رہے ہیں، معاشی ماہرین دہائی دے رہے ہیں کہ اسے روکا نہ گیا تو معاشی بحران سنگین ہو سکتا ہے لیکن ریاست کے اسٹیک ہولڈرز باہم دست وگریبان ہیں۔
تحریک انصاف پوری شدت سے حکومت گرانے کی کوشش کررہی ہے۔صدرمملکت اور حکومت آنے سامنے ہیں۔ منحرف اراکین کے ووٹ نہ گننے کے سپریم کورٹ کے فیصلے نے پنجاب میں سیاسی بحران کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
سری لنکا کے کیس کومد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کے حالات کا موازنہ کرنے کی اشد ضرورت ہے، ہو سکتا ہے کہ ابھی فوری ایسی صورتحال پیش نہ آسکے لیکن جن حالات کا ملک کو سامنا ہے وہ نہایت بھیانک منظر پیش کر رہا ہے۔ پاکستان کی حکومت حالات کوبہتر طور پر سمجھ رہی ہے اور یہ حالات بہتر کیسے ہوں گے اس کے بارے میں بھی وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی ٹیم کو پوری آگاہی حاصل ہے۔
جہاں تک موجودہ حکومت کی پرفارمنس کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں کوئی حتمی رائے دینا مناسب نہیں ہے کیونکہ حکومت قائم تو ہو گئی ہے لیکن اس کے مسائل بہت بڑھ چکے ہیں، جس کی وجہ سے معاشی شعبے میں اس کی کارکردگی کچھ نمایاں نظر نہیں آتی، گویا معاشی بحران بھی بڑھ رہا ہے۔
حکومت با ر بار کہہ رہی ہے کہ اسے کچھ مشکل فیصلے لینے پڑیں گے۔ یہ مشکل فیصلے یقینا عوام کے لیے مسائل کا باعث ہوں گے اور اسی لیے حکومت یہ فیصلے کرنے میں تاخیر سے کام لے رہی ہے لیکن یہ تاخیر معاشی بحران کو مزید گہرا کرتی جا رہی ہے۔
ڈالر دن بدن اوپر جا رہا ہے، اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے، بجلی کی قیمتوں میں جب سے حکومت آئی ہے ایک سے زائد بار اضافہ ہو چکا ہے ، اب اس صورت حال میں کہ جب حکومت معاشی ریلیف دینے میں بھی کامیاب نظر نہیں آرہی عمران خان کے اس بیانیہ کو کیسے ناکام بنایا جائے گا کہ ان کی حکومت کو ایک سازش کے تحت گھر بھیجا گیا۔
عمران خان احتجاجی سیاست کر رہے ہیں اوراس وقت بھی وہ پرامن لانگ مارچ کے حوالے سے کام کر رہے ہیں۔ حکومت کے لیے یقینا یہ بھی ایک مسئلہ ہے اور اس مسئلے کو وہ کیسی حل کرتی ہے اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
پاکستان کو اس وقت جس چیز کی ضرورت ہے وہ سیاسی استحکام ہے اس کے ساتھ ساتھ مضبوط صنعتی پالیسی ہے جو روزگار پیدا کرنے، برآمدی پیداوار کو متنوع بنانے اور مقامی معیشت میں قدر بڑھانے کی صلاحیت رکھ سکتی ہے۔ لگژری اشیاء کے باعث ہمارا درآمدی خسارہ مسلسل خوفناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے۔ معاشی بحران پر قابو پانا ایک مشکل کام ہے اور اب سارا بوجھ حکومت پر ہے۔ موجودہ حکومت کے پاس وقت بہت کم ہے اور معاشی بحران سے بچنے کے لیے جن اقدامات کی ضرورت ہے وہ بہت زیادہ ہیں۔
اس بات سے اتفاق کیا جانا چاہیے کہ چند دن کے لیے اور چند ووٹوں کی بنیاد پر بننے والی حکومت کوئی بھی طویل المیعاد اور بڑے فیصلے کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اپوزیشن کو بھی اپنی ضد اور انا سے بالاتر ہو کر ملکی مفاد میں کم از کم معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے حکومت کے ساتھ ''معاشی ڈائیلاگ '' کو آگے بڑھانا چاہیے۔
وقتی سیاسی مفادات کو نظر انداز کر کے اپوزیشن سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو کسی ایسے ''میثاق معیشت '' پر لانا ضروری ہے جس کے باعث دروازے پر دستک دے رہے معاشی بحران کو ٹالا جا سکے اور یہ ہم سب کے مفاد میں ہے۔
ملک کا بڑھتا ہوا سیاسی بحران اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں سیاسی سطح پر بے چینی اور انتشار مزید بڑھ سکتا ہے۔ پاکستان کو اس وقت جس چیز کی ضرورت ہے وہ سیاسی استحکام ہے ، اس کے ساتھ ساتھ مضبوط صنعتی پالیسی ہے جو روزگار پیدا کرنے، برآمدی پیداوار کو متنوع بنانے اور مقامی معیشت میں قدر بڑھانے کی صلاحیت رکھ سکتی ہے۔
پاکستان وسائل سے مالامال ہے اور پاکستان کے پاس ایسے معاشی منیجرز بھی موجود ہیں جو ملک کی معیشت کو بحران سے نکال سکتے ہیں۔ سری لنکا جن وجوہات کی بناء پر دیوالیہ ہوا ہے، پاکستان میں وہ وجوہات بہت کم ہیں۔ پاکستان کے پاس اتنے وسائل موجود ہیں کہ وہ اپنی عالمی ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہو سکتا ہے۔ اس وقت محسوس ہو رہا ہے کہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک پاکستان کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہیں۔ اسی طرح امریکی انتظامیہ بھی لچک کا مظاہرہ کرتی نظر آ رہی ہے۔ سعودی عرب اور یو اے ای کی جانب سے بھی حوصلہ افزاء اشارے مل رہے ہیں۔
وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری چین گئے ہیں اور وہاں سے بھی جو خبریں آ رہی ہیں وہ حوصلہ افزاء ہیں۔ پاکستان میں جو سیاسی بحران جاری ہے، وہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ پی ٹی آئی جب حکومت میں تھی تو اس وقت بھی اپوزیشن احتجاج پر احتجاج کرتی رہی ہے۔ آئینی پیچیدگیاں بھی بتدریج دور ہوتی جائیں گی۔