شیریں مزاری کی گرفتاری اور رہائی
ہم کہہ سکتے ہیں شیریں مزاری کو ریاست اور حکومت کی جانب سے خصوصی ریلیف دیا گیا
محکمہ اینٹی کرپشن پنجاب نے ایک ایف آئی آر میں تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری کو گرفتار کیا لیکن اس گرفتاری پر اسلام آباد ہائی کورٹ رات کو ساڑھے گیارہ بجے حرکت میں آئی اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے نہ صرف انھیں رات گئے رہا کرنے کا حکم دیا بلکہ ان کی گرفتاری پر حکومت کو کمیشن بنانے کا حکم بھی دیا ہے۔
شیریں مزاری کی گرفتاری پر حکومت بھی ایکشن میں آئی اور وزیر اعلیٰ پنجاب نے بھی انھیں فوری رہا کرنے کا حکم دیا۔ ہم کہہ سکتے ہیں شیریں مزاری کو ریاست اور حکومت کی جانب سے خصوصی ریلیف دیا گیا ورنہ گزشتہ حکومت میں تو ارکان اسمبلی ایسے مقدمات میں گرفتار ہوتے تو ان کی کئی کئی ماہ ضمانت بھی نہیں ہوتی تھی۔ ویسے بھی کیا جن قواعد کے تحت شیریں مزاری کو ضمانت دی گئی ہے، وہ سہولت پاکستان کے عام شہری کو بھی حا صل ہو گی۔
شیریں مزاری کے خلاف ان کی اپنی حکومت کے دور میں ہی اینٹی کرپشن نے مقدمہ درج کیا تھا۔ یہ مقدمہ نئی حکومت نے درج نہیں کیا۔ اس مقدمہ کی تفتیش بھی شیریں مزاری کی اپنی حکومت میں ہی ہوئی۔ کیونکہ اینٹی کرپشن میں مقدمہ درج ہونے سے پہلے مکمل تفتیش ہوتی ہے، پھر مقدمہ درج ہوتا ہے۔ شیریں مزاری پر الزام ہے کہ ان کے پاس سیکڑوں کنال سرکای زمین ہے۔
اس ضمن میں سرکاری ریکارڈ میں ردو بدل کیا گیا ہے، اس پہلو سے دیکھا جائے تو یہ کوئی چھوٹا اور معمولی کیس نہیں ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کیس کے میرٹ پر بات ہی نہیں ہو رہی ۔ کوئی یہ نہیں پوچھ رہا کہ یہ کیس کتنا مضبوط ہے۔ اس کے حقائق کیا ہیں۔
کوئی تحریک انصاف کے دور میں تعینات ہونے والے ڈی جی اینٹی کرپشن رائے منظور سے بھی پوچھے کہ اس مقدمے کو درج کرنے کی پاداش میں انھیں کیسے ٹرانسفر کیا گیا۔ کوئی سابق ڈی جی اینٹی کرپشن گوہر نفیس سے پوچھے کہ انھوں نے اس انکوائری کو روکے تو رکھا لیکن ختم کیوں نہیں کر سکے؟ اب تو حالات یہ بنا دیے گئے ہیں کہ کرپشن یا فورجری کے اس غیرمعمولی مقدمے پر بات کرنا بھی جرم ہے۔
شیریں مزاری نے اپنی رہائی کے بعد حکومت اور ریاست پاکستان کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے ملک کے اداروں پر حملے کیے ہیں۔ انھوں نے اپنے وڈیو پیغام میں اپنی گرفتاری کا ذمے دار حساس اداروں کو ٹھہرایا ہے۔ اس سے پہلے ان کی بیٹی بھی اپنی والدہ کی گرفتاری کا ذمے دار اداروں ٹھہراتی رہیں۔ حیرانی تو اس بات پر ہے کہ کیا سرکاری ادارے اتنے بے بس ہو گئے ہیں کہ انھوں نے ایک کیس میں شیریں مزاری کو گرفتار کیا اور اسی رات رہائی بھی مل گئی۔
شاید شیریں مزاری خود بھی جانتی ہیں کہ ان کی گرفتاری میں حساس ادارے تو دور کی بات ہے، کسی سیاسی جماعت کا بھی کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ یہ سیدھی سادی قانونی کارروائی ہے اور مقدمہ بھی تحریک انصاف کے دور میں درج ہوا ، اب اس میں گرفتاری ہو گئی، ظاہر ہے جب کسی پر مقدمہ درج ہوتا ہے تو گرفتاری بھی ہوتی ہے۔اس پر ہاہاکار مچانے کی کیا تک ہے۔ کیا یہ مقدمہ ان کی اپنی حکومت میں حساس اداروں نے درج کرایا تھا۔
کیا چالیس ہزار کنال اراضی کا یہ اسکینڈل پچاس سال سے نہیں چل رہا۔ شیریں مزاری اور ان کے خاندان والے پچاس سال سے ا س معاملہ کو منطقی انجام تک نہیں پہنچنے دے رہیں۔ جب وہ اپنے مخالفین کو یہ کہتی ہیں کہ اگر آپ کا دامن صاف ہے تو عدالتوں میں پیش ہوں۔ مقدمات کا سامنے کریں۔ آج وہ اپنے خلاف مقدمے کا سامناکرنے کے لیے خود کیوں تیار نہیں ہیں؟ میری سمجھ کے مطابق تو معزز عدالت کو انھیں مقدمے میں شامل ہونے کا بھی حکم صادر کرنا چاہیے تاکہ انصاف ہوسکے۔
بہر حال شیریں مزاری کی جانب سے حساس اداروں اور پاک فوج پر بہتان تراشی کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ انھیں تو سب کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ جب پاک فوج اور تمام ریاستی داروں نے واضح کر دیا ہے کہ وہ مکمل غیرسیاسی ہیں توپھر اس طرح کے معاملات میں انھیں ملوث کرنے کی کوشش کرنا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ وہ غیر سیاسی ہیں تو انھیں غیر سیاسی ہی رہنے دیں۔ اگر وہ نیوٹرل نہ ہوتے تو شاید شیریں مزاری کو بھی ریلیف نہیں مل سکتا تھا۔
آپ دیکھیں ایک طرف تحریک انصاف نے 25 مئی سے آزادی مارچ کا اعلان کیا ہے۔ وہ ملک میں مبینہ بیرونی مداخلت پر احتجاج کر رہے ہیں۔ ایک طرف تحریک انصاف کا یہ موقف ہے کہ ملک میں بیرونی مداخلت ہوئی ہے ۔ کسی بھی دوسرے ملک کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی کوئی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے اس کو بیرون ملک سے کوئی ڈکٹیشن نہیں لینی چاہیے لیکن دوسری طرف تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری نے توہین مذہب کے مقدمات کے درج ہونے کے خلاف اقوام متحدہ کو خط لکھ دیا۔ میں ان مقدمات کے سچے اور جھوٹے ہونے کی بحث میں نہیں جانا چاہتا۔ اگر مقدمات جھوٹے بھی ہیں تو پاکستان میں نظام انصاف اور آئین موجود ہے۔
اسلا م آباد ہائی کورٹ نے ایسے تمام مقدمات میں گرفتاریاں روک دی ہوئی ہیں۔ اس معاملے پر بھی چھٹی والے دن عدالتیں کھول کر ریلیف دیا گیا۔ ایسے میں سوال یہ بھی بنتا ہے کیا شیریں مزاری کا اقوام متحدہ کو پاکستان کے اندرونی معاملات کے بارے میں خط لکھنا جائز ہے ؟ وہ چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھ سکتی تھیں۔
شیریں مزاری نے اقوام متحدہ کو خط لکھ کر پاکستان کی کوئی خدمت نہیں کی ہے بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔کیا ہم اپنی آپس کی سیاسی لڑائیوں میں ملک کی ساکھ کو بھی داؤ پر لگا سکتے ہیں؟ کیا ہماری آپس کی لڑائی میں ملک کا وقار اور عزت بھی داؤ پر لگا دیا جائے گا؟ کیا ہم اپنی آپسی اختلافات میں ملک کی خود مختاری کو بھی داؤ پر لگا دیں گے؟ ہم نے دیکھا ہے کہ عمران خان کو بھی لفظ نیوٹرل پسند نہیں آیا۔
انھوں نے نیوٹرل کو جانور سے تشبیہہ دی ہے،لیکن اب اپنے آزادی مارچ کے اعلان کے وقت وہ پاک فوج کو نیوٹرل رہنے کا ہی کہہ رہے تھے۔ حالانکہ کل جب وہ اقتدار میں تھے تو انھیں نیوٹرل ہونا پسند نہیں تھا۔ وقت وقت کی بات ہے۔
میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ سیاسی لڑائیوں میں قومی سلامتی کے اداروں کو ملوث نہیں کرنا چاہیے۔ان کی غیر سیاسی حیثیت کو برقر ار رکھنے میں ان کی مدد کرنی چاہیے۔ حالانکہ ہم انھیں مجبور کر رہے ہیں کہ وہ اپنی غیر سیاسی حیثیت ختم کر دیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ انھیں اس ساری صورتحال کے باوجود غیر سیاسی اور نیوٹرل ہی رہنا چاہیے۔
شیریں مزاری کی گرفتاری پر حکومت بھی ایکشن میں آئی اور وزیر اعلیٰ پنجاب نے بھی انھیں فوری رہا کرنے کا حکم دیا۔ ہم کہہ سکتے ہیں شیریں مزاری کو ریاست اور حکومت کی جانب سے خصوصی ریلیف دیا گیا ورنہ گزشتہ حکومت میں تو ارکان اسمبلی ایسے مقدمات میں گرفتار ہوتے تو ان کی کئی کئی ماہ ضمانت بھی نہیں ہوتی تھی۔ ویسے بھی کیا جن قواعد کے تحت شیریں مزاری کو ضمانت دی گئی ہے، وہ سہولت پاکستان کے عام شہری کو بھی حا صل ہو گی۔
شیریں مزاری کے خلاف ان کی اپنی حکومت کے دور میں ہی اینٹی کرپشن نے مقدمہ درج کیا تھا۔ یہ مقدمہ نئی حکومت نے درج نہیں کیا۔ اس مقدمہ کی تفتیش بھی شیریں مزاری کی اپنی حکومت میں ہی ہوئی۔ کیونکہ اینٹی کرپشن میں مقدمہ درج ہونے سے پہلے مکمل تفتیش ہوتی ہے، پھر مقدمہ درج ہوتا ہے۔ شیریں مزاری پر الزام ہے کہ ان کے پاس سیکڑوں کنال سرکای زمین ہے۔
اس ضمن میں سرکاری ریکارڈ میں ردو بدل کیا گیا ہے، اس پہلو سے دیکھا جائے تو یہ کوئی چھوٹا اور معمولی کیس نہیں ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کیس کے میرٹ پر بات ہی نہیں ہو رہی ۔ کوئی یہ نہیں پوچھ رہا کہ یہ کیس کتنا مضبوط ہے۔ اس کے حقائق کیا ہیں۔
کوئی تحریک انصاف کے دور میں تعینات ہونے والے ڈی جی اینٹی کرپشن رائے منظور سے بھی پوچھے کہ اس مقدمے کو درج کرنے کی پاداش میں انھیں کیسے ٹرانسفر کیا گیا۔ کوئی سابق ڈی جی اینٹی کرپشن گوہر نفیس سے پوچھے کہ انھوں نے اس انکوائری کو روکے تو رکھا لیکن ختم کیوں نہیں کر سکے؟ اب تو حالات یہ بنا دیے گئے ہیں کہ کرپشن یا فورجری کے اس غیرمعمولی مقدمے پر بات کرنا بھی جرم ہے۔
شیریں مزاری نے اپنی رہائی کے بعد حکومت اور ریاست پاکستان کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے ملک کے اداروں پر حملے کیے ہیں۔ انھوں نے اپنے وڈیو پیغام میں اپنی گرفتاری کا ذمے دار حساس اداروں کو ٹھہرایا ہے۔ اس سے پہلے ان کی بیٹی بھی اپنی والدہ کی گرفتاری کا ذمے دار اداروں ٹھہراتی رہیں۔ حیرانی تو اس بات پر ہے کہ کیا سرکاری ادارے اتنے بے بس ہو گئے ہیں کہ انھوں نے ایک کیس میں شیریں مزاری کو گرفتار کیا اور اسی رات رہائی بھی مل گئی۔
شاید شیریں مزاری خود بھی جانتی ہیں کہ ان کی گرفتاری میں حساس ادارے تو دور کی بات ہے، کسی سیاسی جماعت کا بھی کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ یہ سیدھی سادی قانونی کارروائی ہے اور مقدمہ بھی تحریک انصاف کے دور میں درج ہوا ، اب اس میں گرفتاری ہو گئی، ظاہر ہے جب کسی پر مقدمہ درج ہوتا ہے تو گرفتاری بھی ہوتی ہے۔اس پر ہاہاکار مچانے کی کیا تک ہے۔ کیا یہ مقدمہ ان کی اپنی حکومت میں حساس اداروں نے درج کرایا تھا۔
کیا چالیس ہزار کنال اراضی کا یہ اسکینڈل پچاس سال سے نہیں چل رہا۔ شیریں مزاری اور ان کے خاندان والے پچاس سال سے ا س معاملہ کو منطقی انجام تک نہیں پہنچنے دے رہیں۔ جب وہ اپنے مخالفین کو یہ کہتی ہیں کہ اگر آپ کا دامن صاف ہے تو عدالتوں میں پیش ہوں۔ مقدمات کا سامنے کریں۔ آج وہ اپنے خلاف مقدمے کا سامناکرنے کے لیے خود کیوں تیار نہیں ہیں؟ میری سمجھ کے مطابق تو معزز عدالت کو انھیں مقدمے میں شامل ہونے کا بھی حکم صادر کرنا چاہیے تاکہ انصاف ہوسکے۔
بہر حال شیریں مزاری کی جانب سے حساس اداروں اور پاک فوج پر بہتان تراشی کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ انھیں تو سب کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ جب پاک فوج اور تمام ریاستی داروں نے واضح کر دیا ہے کہ وہ مکمل غیرسیاسی ہیں توپھر اس طرح کے معاملات میں انھیں ملوث کرنے کی کوشش کرنا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ وہ غیر سیاسی ہیں تو انھیں غیر سیاسی ہی رہنے دیں۔ اگر وہ نیوٹرل نہ ہوتے تو شاید شیریں مزاری کو بھی ریلیف نہیں مل سکتا تھا۔
آپ دیکھیں ایک طرف تحریک انصاف نے 25 مئی سے آزادی مارچ کا اعلان کیا ہے۔ وہ ملک میں مبینہ بیرونی مداخلت پر احتجاج کر رہے ہیں۔ ایک طرف تحریک انصاف کا یہ موقف ہے کہ ملک میں بیرونی مداخلت ہوئی ہے ۔ کسی بھی دوسرے ملک کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی کوئی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے اس کو بیرون ملک سے کوئی ڈکٹیشن نہیں لینی چاہیے لیکن دوسری طرف تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری نے توہین مذہب کے مقدمات کے درج ہونے کے خلاف اقوام متحدہ کو خط لکھ دیا۔ میں ان مقدمات کے سچے اور جھوٹے ہونے کی بحث میں نہیں جانا چاہتا۔ اگر مقدمات جھوٹے بھی ہیں تو پاکستان میں نظام انصاف اور آئین موجود ہے۔
اسلا م آباد ہائی کورٹ نے ایسے تمام مقدمات میں گرفتاریاں روک دی ہوئی ہیں۔ اس معاملے پر بھی چھٹی والے دن عدالتیں کھول کر ریلیف دیا گیا۔ ایسے میں سوال یہ بھی بنتا ہے کیا شیریں مزاری کا اقوام متحدہ کو پاکستان کے اندرونی معاملات کے بارے میں خط لکھنا جائز ہے ؟ وہ چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھ سکتی تھیں۔
شیریں مزاری نے اقوام متحدہ کو خط لکھ کر پاکستان کی کوئی خدمت نہیں کی ہے بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔کیا ہم اپنی آپس کی سیاسی لڑائیوں میں ملک کی ساکھ کو بھی داؤ پر لگا سکتے ہیں؟ کیا ہماری آپس کی لڑائی میں ملک کا وقار اور عزت بھی داؤ پر لگا دیا جائے گا؟ کیا ہم اپنی آپسی اختلافات میں ملک کی خود مختاری کو بھی داؤ پر لگا دیں گے؟ ہم نے دیکھا ہے کہ عمران خان کو بھی لفظ نیوٹرل پسند نہیں آیا۔
انھوں نے نیوٹرل کو جانور سے تشبیہہ دی ہے،لیکن اب اپنے آزادی مارچ کے اعلان کے وقت وہ پاک فوج کو نیوٹرل رہنے کا ہی کہہ رہے تھے۔ حالانکہ کل جب وہ اقتدار میں تھے تو انھیں نیوٹرل ہونا پسند نہیں تھا۔ وقت وقت کی بات ہے۔
میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ سیاسی لڑائیوں میں قومی سلامتی کے اداروں کو ملوث نہیں کرنا چاہیے۔ان کی غیر سیاسی حیثیت کو برقر ار رکھنے میں ان کی مدد کرنی چاہیے۔ حالانکہ ہم انھیں مجبور کر رہے ہیں کہ وہ اپنی غیر سیاسی حیثیت ختم کر دیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ انھیں اس ساری صورتحال کے باوجود غیر سیاسی اور نیوٹرل ہی رہنا چاہیے۔