پاکستان بحران سے کیسے نکل سکتا ہے
اب وقت آگیا ہے کہ انتہاپسند بیانیے کی پیداوار قوتوں کو اقتدار کے سرکل سے الگ کردیا جائے
پاکستان کا معاشی بحران پوری آب و تاب سے جاری و ساری ہے' یہ بحران کیوں پیدا ہوا؟ اب اسے کیسے ٹالا جا سکتا ہے' اس کے بارے میں بھی ریاست کے تمام اسٹیک ہولڈرز پوری طرح آگاہ ہیں لیکن ملک کو درپیش خطرات کے ادراک کے باوجود بحران کو مزید گہرا کیا جارہا ہے۔ ملک کی معیشت زمین بوس ہوچکی ہے۔
سیاسی منظر نامہ گمبھیر سے گمبھیر ہوتا جارہا ہے، اب آئینی و قانونی مقدمات نے معاملات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے، ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں گورنر تک نہیں ہے، صدر مملکت کے کنڈکٹ کے خلاف قومی اسمبلی میں قرارداد منظور ہوچکی ہے۔ ملک کا انتظامی ڈھانچہ مفلوج ہو گیا ہے' ایسے حالات میں موجودہ اتحادی حکومت بھی امور مملکت کی انجام دہی خصوصاً معاشی بحران سے نبٹنے میں اس سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی ہے جس کی ضرورت ہے۔ سیاسی عدم استحکام اور آئینی الجھنوں کے باعث ملکی معیشت کا چلنا تقریباً ممکن نہیں رہا ہے۔
ملکی معیشت وینٹی لیٹرز پر پڑی ہے، معیشت کی یہ حالت کس نے کی ہے، اس سے عام پاکستانی سے لے کر پالیسی ساز اور تمام اسٹیک ہولڈرز بخوبی واقف ہیں،لیکن ہوش مندی اور تدبر کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا۔ جب معیشت تباہی کے دہانے پر ہو، ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا جا رہا ہو، صنعتی پہیہ رک چکا ہو یا عوام کے مسائل میں بے پناہ اضافہ ہوتا جا رہا ہو، مہنگائی میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہورہا ہو، تو کیا ایسے سنگین حالات میں ملک کے اسٹیک ہولڈرز کو حب الوطنی اور ہوش مندی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔
ابھی تک حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان کوئی حتمی معاہدہ طے نہیں پایا ہے' اس کی وجہ بھی سیاسی عدم استحکام ہے ۔میڈیا کی خبر کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے پہلے راؤنڈ کے دوران ہمارے اکنامک مینجرز وزیر اعظم شہباز شریف کی منظوری کے منتظر رہے ہیں' یہ منظوری آئی ایم ایف کے ساتھ اختلافی معاملات کو طے کرنے کے لیے انتہائی اہم ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ ملک کے موجودہ سیاسی حالات ہی مذاکرات کی قسمت کا تعین کریں گے۔
موجودہ غیر یقینی حالات میں حکمران جماعت اور اتحادی مشکل معاشی فیصلے کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں ۔ یہ آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں کہ سخت فیصلے کرنے کے بجائے فوری انتخابات کی طرف جایا جائے۔ دوحہ میں بدھ سے شروع ہونے والی تکنیکی سطح پر بات چیت کے دوران آئی ایم ایف اور پاکستانی حکام میکرو اکنامک فریم ورک پر اتفاق رائے پیدا نہیں کر سکے۔ فریقین میں بجٹ خسارے، محصولات کے ہدف، بجلی کی سبسڈی واپس لینے کے منصوبے، اخراجات کو ریشنلائز کرنے اور مہنگائی و اقتصادی ترقی کے تخمینوں پر اختلاف پایا جاتا ہے۔
یہ اختلاف صرف اسی صورت میں دور ہوسکتے ہیں جب فیول پر سبسڈی اور اگلے مالی سال کے ٹیکس اقدامات کے بارے میں صورتحال واضح ہو جائے۔ یہ مذاکرات 25 مئی تک جاری رہیں گے جس کا اہم فائنل راؤنڈ آج ہی شروع ہوگا۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ پاشا فائنل راؤنڈ مذاکرات میں حصہ لیں گے۔ ڈاکٹر عائشہ پاشا نے کہا کہ ہم دوحہ جانے سے پہلے بڑی منظوری کا انتظار کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وزارت خزانہ نے دو منظرنامے تیار کیے ہیں۔
پہلے منصوبے کا انحصار مشکل فیصلوں کو نافذ کرنے کے لیے قیادت سے اجازت ملنے پر ہے جب کہ منظوری نہ ملنے کی صورت میں دوسرا پلان ہوگا لیکن ایک بیک اپ پلان ہے، پالیسی کی سطح پر بات چیت کے دوران آئی ایم ایف کے سامنے دونوں خاکے پیش کریں گے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے مذاکرات آگے بڑھ رہے ہیں۔ بجٹ فریم ورک کو حتمی شکل دینے میں تاخیر کے سوال پر عائشہ پاشا نے کہا کہ دیگر امور پر مکمل وضاحت کے بعد فریم ورک پر اتفاق رائے ہو جائے گا۔
مفتاح اسماعیل نے کراچی سے دوحہ کے لیے روانہ ہونا تھا لیکن وہ ہفتے کو لاہور آئے تاکہ وزیر اعظم کو ایک بار پھر زیر التوا فیصلے لینے کے لیے قائل کیا جا سکے۔ لاہور ہی میں وزیراعظم شہبازشریف اور آصف زرداری کی ملاقات ہوئی جس میں سیاسی اور معاشی معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ پچھلے ماہ وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کی اعلیٰ انتظامیہ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ یکم مئی سے ایندھن پر دی جانے والی سبسڈی واپس لینا شروع کر دیں گے لیکن ڈاکٹر حفیظ شیخ اور شوکت ترین کی طرح وہ بھی یہ وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہے جس سے فریقین میں اعتماد کا فقدان مزید بڑھا۔
ادھر مسلم لیگ ن کے اہم رہنما اور وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے ہفتے کو کہا تھا کہ اگر کسی نے حکومت کو فرائض کی ادائیگی سے روکا اور پارٹی کی کارکردگی پر شک کیا تو وہ عمران خان کے چھوڑے گئے گند کی ذمے داری قبول نہیں کریں گے بلکہ انتخابات کے لیے اتحادیوں سے مشورہ کریں گے۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے بھی کہا کہ نواز شریف اور شہباز شریف ایندھن اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے ہچکچا رہے ہیں کیونکہ اگر قیمتیں بڑھیں تو لوگوں کو بھوک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اگر پاکستان آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے تو اسے سعودی عرب، چین اور دیگر ممالک سے امداد حاصل کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، اس کے علاوہ زرمبادلہ کے ذخائر کو برقرار رکھنے اور روپے کی قدر میں زبردست گراوٹ کو روکنے میں مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے 15 فروری کو ایندھن کی قیمتیں چار ماہ کے لیے منجمد کر دی تھیں جس کے بعد اب نئی حکومت کے ہاتھ بندھ گئے ہیں۔
شہباز شریف کو قیمتوں میں اضافے اور عوام کے ردعمل کا سامنا کرنے یا سبسڈی دیتے رہنے اور ملک کی معاشی آزادی کو خطرے میں ڈالنے کے انتخاب کا سامنا ہے، ذرایع کا کہنا ہے کہ سیاسی قیادت سے منظوری ملنے میں تاخیر کی وجہ سے وزارت خزانہ کو بجٹ خسارے کے اعداد و شمار پر اتفاق کرنا مشکل ہو رہا ہے جس کا براہ راست انحصار بجلی اور ایندھن کی سبسڈی کے بارے میں کسی بھی فیصلے پر ہے۔
موجودہ معاشی صورت حال کے نتیجے میں ملک عنقریب شدید معاشی مشکلات کا شکار ہونے جارہا ہے ؟ کیا موجودہ حکومت اس مسئلے کا کوئی صائب حل تلاش کرنے میں کامیاب ہوپائے گی۔ یہ ملین ڈالر سوال ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ سابقہ اپوزیشن اور موجودہ حزبِ اقتدار کے لیے معیشت پھولوں کی سیج ثابت نہیں ہوئی ہے ، پاکستان میں جب بھی انتقالِ اقتدار ہوتا ہے تو معیشت کو کم و بیش اسی قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔پاکستان میں حکومت کی تبدیلی نے جہاں بڑے پیمانے پر سیاسی، آئینی اور قانونی بحث کو جنم دیا،وہیں معاشی بحران بھی گہرا ہوگیا ہے۔
اقتدار کے ایوانوں میں ہونے والی سرگرمیوں اور گروہی و ذاتی مفادات کی جنگ نے پاکستان سے معاشی ابتری کا خاتمہ نہیں ہونے دیا۔ موقع پرست حکمران ملک کو خود انحصاری کے بجائے نئے سے نئے بحران میں پھنساتے چلے گئے ہیں۔آج بھی صورتحال میں کوئی فرق نہیں ہے۔ریاست کے اسٹیک ہولڈرز حالات کی سنگینی اور نزاکت کی پروا کیے بغیر ملک کو سیاسی عدم استحکام کی نذر کرنے پر تلے بیٹھے ہیں اور ملک کا باشعور طبقہ بے بسی کی تصویر بنا سب کچھ دیکھ رہا لیکن اس کے پاس یہ طاقت اور اختیار نہیں کہ ملک کا خون چوسنے والی جونکوں کو انجام تک پہنچا سکے۔
ادھر ملک میں سیاسی عدم استحکام ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے پورے ملک میں روزانہ کی بنیاد پر احتجاجی جلسوں سے خطاب کررہے ہیں ، وہ جلد اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کرنے والے ہیں ، برسراقتدار قیادت بھی گرما گرم بیانات جاری کر رہی ہے جب کہ آئینی و قانونی محاذ پر اقتدار کی جنگ لڑی جارہی ہے۔
ایک آئینی مقدمے یا ریفرنس کا فیصلہ آتا ہے تو دوسری پیٹیشن دائر ہوجاتی ہے ،اس وقت بھی مختلف قسم کی آئینی و قانونی معاملات پر عدالتی کارروائیاں جاری ہیں، ایسا لگ رہا ہے کہ ملک میں کوئی بھی حکومت نہیں ہے، ریاست کے سارے ستون من مانی کررہے ہیں، ملک میں غیریقینی کے بادل چھائے ہوئے ہیں، معاشی بحران بے قابو ہونے کی دیر ہے ، پھر انارکی اور انتشار کو پھیلنے سے روکنا کسی کے بس میں نہیں رہے گا۔
پاکستان ابتری اور خرابی کی اس انتہا تک کیوں پہنچا ، اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے تاہم اب وقت آگیا ہے کہ انتہاپسند بیانیے کی پیداوار قوتوں کو اقتدار کے سرکل سے الگ کردیا جائے، یہ بیانیہ کمیونزم اور کپیٹل ازم کے درمیان سرد جنگ کے دور میں قابل استعمال تھا، اب اس کی ضرورت ختم ہوچکی ہے، پاکستان میں سرد جنگ کے بیانیے کی وجہ سے جو طبقہ ریاستی وسائل کی بندر بانٹ اور سرکاری مراعات سے مستفید ہوکر امیر بنا ہے، وہ تاحال اس بیانیے کی حاکمیت قائم رکھنے پر تلا ہوا ہے لیکن دنیا تبدیل ہوچکی ہے، پاکستان کو آگے بڑھنے کے لیے اس بیانیے کی بنا پر طاقت و اختیار حاصل کرنے والے طبقے مارجنلائز کرنا پڑے گا۔
سیاسی منظر نامہ گمبھیر سے گمبھیر ہوتا جارہا ہے، اب آئینی و قانونی مقدمات نے معاملات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے، ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں گورنر تک نہیں ہے، صدر مملکت کے کنڈکٹ کے خلاف قومی اسمبلی میں قرارداد منظور ہوچکی ہے۔ ملک کا انتظامی ڈھانچہ مفلوج ہو گیا ہے' ایسے حالات میں موجودہ اتحادی حکومت بھی امور مملکت کی انجام دہی خصوصاً معاشی بحران سے نبٹنے میں اس سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی ہے جس کی ضرورت ہے۔ سیاسی عدم استحکام اور آئینی الجھنوں کے باعث ملکی معیشت کا چلنا تقریباً ممکن نہیں رہا ہے۔
ملکی معیشت وینٹی لیٹرز پر پڑی ہے، معیشت کی یہ حالت کس نے کی ہے، اس سے عام پاکستانی سے لے کر پالیسی ساز اور تمام اسٹیک ہولڈرز بخوبی واقف ہیں،لیکن ہوش مندی اور تدبر کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا۔ جب معیشت تباہی کے دہانے پر ہو، ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا جا رہا ہو، صنعتی پہیہ رک چکا ہو یا عوام کے مسائل میں بے پناہ اضافہ ہوتا جا رہا ہو، مہنگائی میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہورہا ہو، تو کیا ایسے سنگین حالات میں ملک کے اسٹیک ہولڈرز کو حب الوطنی اور ہوش مندی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔
ابھی تک حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان کوئی حتمی معاہدہ طے نہیں پایا ہے' اس کی وجہ بھی سیاسی عدم استحکام ہے ۔میڈیا کی خبر کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے پہلے راؤنڈ کے دوران ہمارے اکنامک مینجرز وزیر اعظم شہباز شریف کی منظوری کے منتظر رہے ہیں' یہ منظوری آئی ایم ایف کے ساتھ اختلافی معاملات کو طے کرنے کے لیے انتہائی اہم ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ ملک کے موجودہ سیاسی حالات ہی مذاکرات کی قسمت کا تعین کریں گے۔
موجودہ غیر یقینی حالات میں حکمران جماعت اور اتحادی مشکل معاشی فیصلے کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں ۔ یہ آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں کہ سخت فیصلے کرنے کے بجائے فوری انتخابات کی طرف جایا جائے۔ دوحہ میں بدھ سے شروع ہونے والی تکنیکی سطح پر بات چیت کے دوران آئی ایم ایف اور پاکستانی حکام میکرو اکنامک فریم ورک پر اتفاق رائے پیدا نہیں کر سکے۔ فریقین میں بجٹ خسارے، محصولات کے ہدف، بجلی کی سبسڈی واپس لینے کے منصوبے، اخراجات کو ریشنلائز کرنے اور مہنگائی و اقتصادی ترقی کے تخمینوں پر اختلاف پایا جاتا ہے۔
یہ اختلاف صرف اسی صورت میں دور ہوسکتے ہیں جب فیول پر سبسڈی اور اگلے مالی سال کے ٹیکس اقدامات کے بارے میں صورتحال واضح ہو جائے۔ یہ مذاکرات 25 مئی تک جاری رہیں گے جس کا اہم فائنل راؤنڈ آج ہی شروع ہوگا۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ پاشا فائنل راؤنڈ مذاکرات میں حصہ لیں گے۔ ڈاکٹر عائشہ پاشا نے کہا کہ ہم دوحہ جانے سے پہلے بڑی منظوری کا انتظار کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وزارت خزانہ نے دو منظرنامے تیار کیے ہیں۔
پہلے منصوبے کا انحصار مشکل فیصلوں کو نافذ کرنے کے لیے قیادت سے اجازت ملنے پر ہے جب کہ منظوری نہ ملنے کی صورت میں دوسرا پلان ہوگا لیکن ایک بیک اپ پلان ہے، پالیسی کی سطح پر بات چیت کے دوران آئی ایم ایف کے سامنے دونوں خاکے پیش کریں گے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے مذاکرات آگے بڑھ رہے ہیں۔ بجٹ فریم ورک کو حتمی شکل دینے میں تاخیر کے سوال پر عائشہ پاشا نے کہا کہ دیگر امور پر مکمل وضاحت کے بعد فریم ورک پر اتفاق رائے ہو جائے گا۔
مفتاح اسماعیل نے کراچی سے دوحہ کے لیے روانہ ہونا تھا لیکن وہ ہفتے کو لاہور آئے تاکہ وزیر اعظم کو ایک بار پھر زیر التوا فیصلے لینے کے لیے قائل کیا جا سکے۔ لاہور ہی میں وزیراعظم شہبازشریف اور آصف زرداری کی ملاقات ہوئی جس میں سیاسی اور معاشی معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ پچھلے ماہ وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کی اعلیٰ انتظامیہ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ یکم مئی سے ایندھن پر دی جانے والی سبسڈی واپس لینا شروع کر دیں گے لیکن ڈاکٹر حفیظ شیخ اور شوکت ترین کی طرح وہ بھی یہ وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہے جس سے فریقین میں اعتماد کا فقدان مزید بڑھا۔
ادھر مسلم لیگ ن کے اہم رہنما اور وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے ہفتے کو کہا تھا کہ اگر کسی نے حکومت کو فرائض کی ادائیگی سے روکا اور پارٹی کی کارکردگی پر شک کیا تو وہ عمران خان کے چھوڑے گئے گند کی ذمے داری قبول نہیں کریں گے بلکہ انتخابات کے لیے اتحادیوں سے مشورہ کریں گے۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے بھی کہا کہ نواز شریف اور شہباز شریف ایندھن اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے ہچکچا رہے ہیں کیونکہ اگر قیمتیں بڑھیں تو لوگوں کو بھوک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اگر پاکستان آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے تو اسے سعودی عرب، چین اور دیگر ممالک سے امداد حاصل کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، اس کے علاوہ زرمبادلہ کے ذخائر کو برقرار رکھنے اور روپے کی قدر میں زبردست گراوٹ کو روکنے میں مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے 15 فروری کو ایندھن کی قیمتیں چار ماہ کے لیے منجمد کر دی تھیں جس کے بعد اب نئی حکومت کے ہاتھ بندھ گئے ہیں۔
شہباز شریف کو قیمتوں میں اضافے اور عوام کے ردعمل کا سامنا کرنے یا سبسڈی دیتے رہنے اور ملک کی معاشی آزادی کو خطرے میں ڈالنے کے انتخاب کا سامنا ہے، ذرایع کا کہنا ہے کہ سیاسی قیادت سے منظوری ملنے میں تاخیر کی وجہ سے وزارت خزانہ کو بجٹ خسارے کے اعداد و شمار پر اتفاق کرنا مشکل ہو رہا ہے جس کا براہ راست انحصار بجلی اور ایندھن کی سبسڈی کے بارے میں کسی بھی فیصلے پر ہے۔
موجودہ معاشی صورت حال کے نتیجے میں ملک عنقریب شدید معاشی مشکلات کا شکار ہونے جارہا ہے ؟ کیا موجودہ حکومت اس مسئلے کا کوئی صائب حل تلاش کرنے میں کامیاب ہوپائے گی۔ یہ ملین ڈالر سوال ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ سابقہ اپوزیشن اور موجودہ حزبِ اقتدار کے لیے معیشت پھولوں کی سیج ثابت نہیں ہوئی ہے ، پاکستان میں جب بھی انتقالِ اقتدار ہوتا ہے تو معیشت کو کم و بیش اسی قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔پاکستان میں حکومت کی تبدیلی نے جہاں بڑے پیمانے پر سیاسی، آئینی اور قانونی بحث کو جنم دیا،وہیں معاشی بحران بھی گہرا ہوگیا ہے۔
اقتدار کے ایوانوں میں ہونے والی سرگرمیوں اور گروہی و ذاتی مفادات کی جنگ نے پاکستان سے معاشی ابتری کا خاتمہ نہیں ہونے دیا۔ موقع پرست حکمران ملک کو خود انحصاری کے بجائے نئے سے نئے بحران میں پھنساتے چلے گئے ہیں۔آج بھی صورتحال میں کوئی فرق نہیں ہے۔ریاست کے اسٹیک ہولڈرز حالات کی سنگینی اور نزاکت کی پروا کیے بغیر ملک کو سیاسی عدم استحکام کی نذر کرنے پر تلے بیٹھے ہیں اور ملک کا باشعور طبقہ بے بسی کی تصویر بنا سب کچھ دیکھ رہا لیکن اس کے پاس یہ طاقت اور اختیار نہیں کہ ملک کا خون چوسنے والی جونکوں کو انجام تک پہنچا سکے۔
ادھر ملک میں سیاسی عدم استحکام ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے پورے ملک میں روزانہ کی بنیاد پر احتجاجی جلسوں سے خطاب کررہے ہیں ، وہ جلد اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کرنے والے ہیں ، برسراقتدار قیادت بھی گرما گرم بیانات جاری کر رہی ہے جب کہ آئینی و قانونی محاذ پر اقتدار کی جنگ لڑی جارہی ہے۔
ایک آئینی مقدمے یا ریفرنس کا فیصلہ آتا ہے تو دوسری پیٹیشن دائر ہوجاتی ہے ،اس وقت بھی مختلف قسم کی آئینی و قانونی معاملات پر عدالتی کارروائیاں جاری ہیں، ایسا لگ رہا ہے کہ ملک میں کوئی بھی حکومت نہیں ہے، ریاست کے سارے ستون من مانی کررہے ہیں، ملک میں غیریقینی کے بادل چھائے ہوئے ہیں، معاشی بحران بے قابو ہونے کی دیر ہے ، پھر انارکی اور انتشار کو پھیلنے سے روکنا کسی کے بس میں نہیں رہے گا۔
پاکستان ابتری اور خرابی کی اس انتہا تک کیوں پہنچا ، اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے تاہم اب وقت آگیا ہے کہ انتہاپسند بیانیے کی پیداوار قوتوں کو اقتدار کے سرکل سے الگ کردیا جائے، یہ بیانیہ کمیونزم اور کپیٹل ازم کے درمیان سرد جنگ کے دور میں قابل استعمال تھا، اب اس کی ضرورت ختم ہوچکی ہے، پاکستان میں سرد جنگ کے بیانیے کی وجہ سے جو طبقہ ریاستی وسائل کی بندر بانٹ اور سرکاری مراعات سے مستفید ہوکر امیر بنا ہے، وہ تاحال اس بیانیے کی حاکمیت قائم رکھنے پر تلا ہوا ہے لیکن دنیا تبدیل ہوچکی ہے، پاکستان کو آگے بڑھنے کے لیے اس بیانیے کی بنا پر طاقت و اختیار حاصل کرنے والے طبقے مارجنلائز کرنا پڑے گا۔