سانحہ کراچی ملک کی تاریخ کی ہولناک آگ نے 258گھروں میں صف ماتم بچھادیا

173لاشیں شناخت ، پانی بھرجانے کے باعث امدادی کارروائیاں معطل،لاشوں کو رکھنے کے لیے مردہ خانوں میں جگہ کم پڑگئی


Staff Reporter September 13, 2012
کراچی:بلدیہ ٹائون کے قریب گارمنٹس فیکٹری میں آتشزدگی کے باعث جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین اسپتالوں اور فیکٹری کے باہر شدت غم سے نڈھال ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں لگنے والی ملکی تاریخ کی بھیانک ترین آگ نے خواتین سمیت 258 افراد کو زندگی سے محروم کر دیا۔

دن بھر فیکٹری سے لاشوں کو نکالنے کا سلسلہ جاری رہا ، فائر بریگیڈ کا عملہ دیواریں اور گرلیں توڑ کر فیکٹری میں داخل ہوا اور سخت جدوجہد کے بعد سوختہ لاشوں کو باہر نکالا ، عمارت مخدوش ہونے اور بیسمنٹ میں پانی بھر جانے کی وجہ سے امدادی کارروائیوں کو روک دیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق بلدیہ ٹاؤن حب ریور روڈ پر واقع گارمنٹس فیکٹری علی انٹر پرائزز میں منگل کی شام ساڑھے چھ بجے کے قریب لگنے والی ملکی تاریخ کی بھیانک ترین آگ نے 258 افراد کو زندگی سے محروم کر دیا۔

فیکٹری کی عمارت میں پھنس کر بے بسی کی موت مرنے والے فیکٹری کے ملازمین میں خواتین بھی شامل ہیں، گارمنٹس فیکٹری میں لگنے والی آگ پر بدھ کی شام تک مکمل طور پر قابو پایا جاسکا اور اس دوران فائر بریگیڈ کا عملہ 2 اسنار کل اور فائر بریگیڈ کی درجنوں گاڑیوں کے ساتھ آگ پر قابو پانے میں مصروف رہے اور سخت جدوجہد کے بعد فیکٹری کی عمارت میں داخل ہو کر جھلس کر ہلاک ہونے والے محنت کشوں کی لاشیں نکال کر سول اسپتال لے جائی گئیں۔

جہاں 92 لاشوں میں سے 8 خواتین سمیت 57 افراد کی شناخت زیتوں بی بی، پروین، زرینہ خاتون، صائمہ غنی، رقیہ، ہما اور ثنا کے علاوہ فرحان، انیل، عبدالطیف، محمد طاہر، خلیل احمد، جنید ملک، دلدار، ساجد، سراج عرف اسرار، محمد شہباز، اویس، ارسلان ، محمد جہانزیب گل ، فرمان ظہیر ، محمد تنویر ، محمد فیصل ، محمد ندیم ، ساجد الرحمٰن ، عمران ، عبداﷲ ، رفاقت ، محمد فاروق ، تاج محمد ، محمد جاوید ، اسرار عرف افسر ، اﷲ نواز ، جاوید علی حسین ، عطا اﷲ ، عمران خان، تنویر احمد، اشفاق خان، محمد وسیم ، عیسیٰ ، محمد وسیم ، عطا محمد عرف عطار ، فاروق احمد ، جہانگیر ، عبدالقیوم ، عادل احمد ، محمد عامر ، علی حسن ، محمد عاطف ، محمد حسنین ، محمد ندیم ، ساجد حسین ، انوار حسن ، حامد ، محمد عامر اور وقار حسین کی لاشیں شناخت کے بعد پولیس نے ضابطے کی کارروائی کے بعد ورثا کے حوالے کر دیں ، جناح اسپتال میں لائی جانے والی 71 لاشوں میں سے 25 لاشوں کو شناخت کے بعد ورثا کے حوالے کر دیا گیا۔

جبکہ عباسی شہید اسپتال میں لائی جانے والی 95 لاشوں میں سے نظام الدین اس کا بڑا بھائی کمال الدین، محمد اشفاق ، شفقت محمود ، محمد وقاص ، ایاز ، محمد رفیق ، سعید ، محمد پرویز اور 25 سالہ عادل اور ایک خاتون سمیت 30 افراد کو شناخت کر کے لاشیں ورثا کے حوالے کر دی گئیں، کمشنر کراچی روشن شیخ کی جانب سے فیکٹری میں جاں بحق ہونے والوں کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ ہلاکتوں کی تعداد 289 ہوگئی ہے تاہم بعدازاں ان سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ ہلاکتوں کی تعداد 258 ہے جس میں 173 افراد کی لاشوں کو شناخت کے بعد ورثا کے حوالے کر دیا گیا جس میں خواتین کی لاشیں بھی شامل تھیں جبکہ 85 افراد کی لاشوں کو ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد ورثا کے حوالے کیا جائے گا۔

انھوں نے بتایا کہ لاشیں سوختہ ہوجانے کے باعث لاشوں کی جنس کا تعین بھی نہیں ہوسکا جس کے باعث ایسی لاشیں جو ناقابل شناخت تھیں یا ان کی فوری طور پر شناخت نہیں ہوسکی تھی انھیں ایدھی سرد خانے میں رکھوا دیا گیا ہے ، کمشنر کراچی نے بتایا کہ سول اسپتال میں لائی جانے والی لاشوں کی تعداد 92 ، عباسی شہید اسپتال میں لائی جانے والی لاشوں کی تعداد 95 جبکہ جناح اسپتال میں لائی جانے والی لاشوں کی تعداد71 تھی۔

چیف فائر آفیسر احتشام الدین نے بتایا کہ فیکٹری کی بیسمنٹ میں بوائلر پھٹنے کی وجہ سے آگ لگی تھی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے شدت اختیار کرلی اور فیکٹری مں ہنگامی اخراج کا نہ ہونا ہلاکتوں میں اضافے کا سبب بنا ، فیکٹری کی عمارت میں لگی ہوئی آگ کو بجھانے کے دوران فیکٹری کی بیسمنٹ میں پانی جمع ہونے اور خوفناک آتشزدگی کے باعث عمارت مخدوش ہونے کی وجہ سے ریسکیو کا عمل روک دیا گیا ہے جبکہ امدادی جماعتوں کے رضا کاروں نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے فیکٹری کی بیسمنٹ جمع ہونے والے پانی میں لاشوں کو تیرتا ہوا دیکھا ہے تاہم عمارت کے زمین بوس ہوجانے کے خدشے سے امدادی کام کو روک دیا گیا۔

موقع پر موجود ایس ایس پی ویسٹ عامر فاروقی نے بتایا کہ جس وقت فیکٹری میں آگ لگی تھی 400 سے زائد افراد وہاں پر تھے جس میں کچھ نے تو کھڑکیوں اور دیگر مقامات سے کود کر جان بچالی۔ انھوں نے بتایا کہ فیکٹری میں آتشزدگی کے حوالے سے ہر پہلو پر باریک بینی سے تفتیش کی جائیگی جس میں تخریب کاری کے عنصر پر بھی تفتیش کی جائے گی کہ اچانک لگنے والی آگ نے اتنی جلدی پوری عمارت کو نہ صرف کیسے اپنی لپیٹ میں لے لیا بلکہ ڈھائی سے سو زائد افراد کو بھی زندگی سے محروم کر دیا۔دریں اثنا بلدیہ ٹاؤن میں گارمنٹس فیکٹری میں محنت کشوں کو تنخواہیں دینے کے لیے آنے والے کیشئر جعفر رسول کا بھی تاحال کچھ پتہ نہیں چل سکا یہ بات ان کے بھائی جاوید رسول نے بتائی جو اپنے بھائی کو بے تابی سے تلاش کر رہا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ وہ بلدیہ ٹاؤن مہاجر چوک کا رہائشی ہے ،جھلس کراوردم گھٹنے سے بڑی تعدادمیں ہونیوالی ہلاکتوں کے باعث سول،جناح اور عباسی اسپتال کے مردہ خانوں میں جگہ کم پڑگئی اورلاشوں کوزمین پر رکھاگیا،بڑی تعدادمیں ہلاکتوں اورسوختہ لاشوںکی وجہ سے مردہ خانوں میںکھڑے ہونامحال ہوگیاتھااورشناخت کیلیے آنے والے لواحقین کو شدیدمشکلات کاسامناکرناپڑا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں