خواتین پر رکیک حملے
عمران خان کے افسوس ناک بیانات اور خواتین سیاست دانوں کے خلاف کارروائیاں سیاسی منظر نامہ کو مزید پراگندہ کر رہی ہیں
'' مریم میرا نام بار بار ایسے جذبہ جنون سے نہ لیا کرو ،کہیں تمہارا خاوند ناراض نہ ہوجائے۔ '' عمران خان نے ملتان کے جلسے میں یہ عامیانہ الفاظ استعمال کر کے اپنے موجودہ ساتھی شیخ رشید کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔
عمران خان کی ہر طرف سے مذمت ہو رہی ہے۔ تحریک انصاف کی معزز رکن ڈاکٹر شیریں مزاری نے اپنے قائد کے اس بیان پر خاموشی اختیار کر لی ہے۔ صدر ڈاکٹر عارف علوی جن کے خاندان کی وضع داری اور روایات کے حوالے دیے جاتے ہیں، وہ ایوان صدر میں یقیناً اپنے قائد کے اس بیان پر رنجیدہ ہوںگے۔
گزشتہ 30 برسوں سے سیاسی منظر نامے میں سیاست دانوں کی کردار کشی ، خواتین کی توہین اور تہذیب سے گرے ہوئے جملوں کا جمعہ بازار نظر آیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو جب وزیر اعظم تھے اور امریکا کے دورے پر تھے تو واشنگٹن میں ایک ڈپلومیٹک ڈنر میں بیگم بھٹو اور اس وقت کے امریکی صدر فورڈ کی تصاویر کو 1977 اور 1988کے انتخابات میں منفی کیپشن کے ساتھ تقسیم کیا گیا۔ دائیں بازو کے ایک نامور صحافی کے ہفت روزہ رسالے میں بیگم بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی جعلی تصاویر شایع ہوئیں۔
پیپلز پارٹی کی دونوں حکومتوں میں شیخ رشید بے نظیر بھٹو کے بارے میں غیر اخلاقی جملے استعمال کرتے رہے۔ ایک زمانہ میں رانا ثناء اﷲ بھی پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف غیراخلاقی زبان استعمال کرتے رہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے ڈاکٹر شیریں مزاری کو '' ٹریکٹر ٹرالی'' کا خطاب دیا جس کی تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی خواتین نے مذمت کی۔ مگر اسمبلی میں مسلم لیگ ن کی خواتین شرمندہ تو ہوئیں البتہ اپنے سینئر وزیر کی مذمت نہ کرسکیں۔
وزیر اعظم نواز شریف لندن گئے جہاں ان کی اوپن ہارٹ سرجری ہوئی۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے یہ مہم شروع کی کہ وہ پاناما اسکینڈل کے افشا ہونے پر لندن کے اسپتال میں رو پوش ہیں۔ اس مہم میں بیرسٹر اعتزاز احسن بھی شامل ہوئے، جب بیگم کلثوم نواز علاج کے لیے لندن کے کینسر اسپتال میں داخل ہوئیں تو تحریک انصاف والوں نے سوشل میڈیا پر ثابت کرنا شروع کیا کہ یہ سب جعلی کام ہے اور کلثوم نواز کا لندن کے اسپتال میں کینسر کا علاج نہیں ہو رہا۔
اعتزاز احسن بھی یہی راگ الاپنے لگے۔ اسلام آباد کے بعض باخبر صحافی کہتے تھے کہ کلثوم نواز کے بارے میں یہ بیانیہ کہیں اور تیارکیا گیا تھا اور تحریک انصاف کے رہنماؤں کورس میں یہ بیانیہ گاتے تھے۔ خود کو تعلیم یافتہ اور مہذب کہلانے والے بہت سے افراد اس مہم سے متاثر ہوئے اور کہتے رہے کہ اب برطانیہ کے ڈاکٹر بھی پیسوں کی خاطر یہ کام کرنے لگے ہیں۔ بیگم کلثوم نواز کا انتقال ہوا تو صرف اعتزاز احسن نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا ، باقی رہنماؤں کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ بھی غلطی کا اعتراف کریں۔
عمران خان نے مسلسل جارحانہ بیانیہ اختیارکیا ہوا ہے، وہ اپنے مخالف سیاست دانوں کو غیر اخلاقی القابات سے پکارتے ہیں اور جنون کی فضاء پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض اوقات تو محسوس ہوتا ہے کہ اپنے سامعین کی تسکین کے لیے اسی طرح رکیک جملے ادا کر رہے ہوتے ہیں جس طرح بھارت میں کامیڈین اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے جنسی استعارے استعمال کرتے ہیں۔
اس ساری صورتحال کے نقصانات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ہجوم اور جلسے کے شرکاء کی نفسیات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ زیادہ افراد کو جمع کرنے کے لیے ان کے ذہنی معیار سے پست حملے اور ڈائیلاگ ادا کیے جاتے ہیں، یوں ہجوم اور جلسہ کے شرکاء کے دماغوں میں کرنٹ جیسی صورتحال پیدا ہوتی ہے اور وہ اپنے رہنما کی ہر بات ماننے پر تیار ہوجاتے ہیں۔
یہ صورتحال تاریخ میں کئی مواقع پر زیادہ خطرناک ثابت ہوئی ہے، جب رہنما ہجوم کو گرمانے کے لیے گھٹیا جملے استعمال کرے گا تو وہ اپنے سننے والوں میں جذباتی کیفیت پیدا کرتا ہے تاکہ یہ لوگ اس کی بات مانیں مگر بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ رہنما کی مرضی نہ ہونے کے باوجود سامعین میں سے کسی نے مخالف کو نقصان پہنچانے کا نعرہ لگادیا تو پھر ہجوم اور جلسہ کے سامعین بے قابو ہوئے، یوں شہر میں فساد بھی ہوئے اور قیمتی جانوں کا نقصان بھی ہوا۔ عمران خان اپنے جلسوں میں سامعین کو متحرک رکھنے کے لیے یا اپنی تسکین کے لیے یہ سب کچھ کر رہے ہیں مگر یہ ایک خطرناک کھیل کا آغاز ہے۔
پورے ملک میں کشیدگی کی فضاء پیدا ہوگئی ہے اور تاریخ کے طالب علموں نے کہنا شروع کیا ہے کہ جرمنی کے آمر ہٹلر کا بھی یہی بیانیہ تھا اور اس نے نازی ازم کے ذریعہ جرمنی کی ریاست پر قبضہ کیا۔ جرمن نسل پرستی کا نعرہ لگایا اور اپنے مخالفین کا صفایا کیا۔ ہٹلر کی ان پالیسیوں کے نتیجے میں دنیا دوسری جنگ عظیم کا شکار ہوئی۔ یورپ میں ایک کروڑ کے قریب افراد جنگ کا شکار ہوئے اور جرمنی مکمل طور پر تباہ ہوگیا تھا ۔
برصغیر میں جلسے جلوسوں کی ایک تاریخ ہے۔ یہ تاریخ مولانا محمد علی جوہر سے شروع ہوتی ہے۔ مولانا محمد علی جوہر اور مہاتما گاندھی نے خلافت تحریک کو منظم کرنے کے لیے بڑے بڑے جلسوں سے خطا ب کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس زمانہ میں مقررین جتنی طویل تقاریرکرتے تھے سامعین اتنا ہی زیادہ متاثر ہوتے تھے۔ بعض اوقات رات سے پہلے شروع ہونے والے جلسے طلوع سحر پر اختتام پزیر ہوتے تھے مگر تمام مقررین کا لہجہ شائستہ ہوتا تھا۔
کچھ مقررین جذباتی تقاریر کرتے تھے مگر مخالفین کو منفی القابات نہیں دیے جاتے تھے نہ کوئی غیر قانونی راستہ دکھایا جاتا تھا۔ اسی طرح مولانا ابو الکلام آزاد کی سیاسی تقاریر بھی منطق پر مبنی ہوتی تھیں۔ ان تقاریر میں سامعین کی تربیت کا پہلو ہوتا تھا۔ سید الاحرار مولانا عطاء اﷲ شاہ بخاری کا شمار شعلہ بیاں مقررین میں ہوتا تھا ۔ وہ عشاء کے بعد تقریر شروع کرتے تھے اور فجر کے وقت ان کی تقریر کا اختتام ہوتا تھا۔ اسی طرح پنڈت جواہر لعل نہرو اور بیرسٹر محمد علی جناح کی تقاریر میں شائستہ الفاظ استعمال ہوتے تھے۔
عمران خان تو ہمیشہ برطانیہ کی مثالیں دیتے تھے ، چند سال قبل قدامت پرست ٹوری پارٹی میں وزیر اعظم کے امیدواروں میں ایک خاتون بھی شامل تھیں۔ دوسرے امیدوار نے ان پر یہ طنز کیا کہ '' یہ خاتون بانجھ ہے، یہ اس ملک کو کیا دے گی'' تو اس ایک جملے پر اس امیدوارکا سیاسی کیریئر ہمیشہ ختم ہوگیا تھا۔
انسانی حقوق کی آگہی کی سب سے بڑی تنظیم ایچ آر سی پی نے مطالبہ کیا ہے کہ عمران خان مریم نواز سے متعلق اپنے ریمارکس پر معافی مانگیں۔ میڈیا خواتین کے بارے میں تحقیق اور آگہی کی مہم چلانے والی غیر سرکاری تنظیم عکس کی سربراہ تسنیم احمر نے لکھا ہے کہ ہمیشہ سے سیاست دان 48 فیصد آبادی کے بارے میں گھٹیا جملے استعمال کر رہے ہیں۔
ابھی عمران خان کی مریم نواز کے بار ے میں توہین آمیز گفتگو کی مذمت ہو ہی رہی تھی کہ ایک اور خاتون ڈاکٹر شیریں مزاری کی گرفتاری کا واقعہ ہوا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اﷲ نے گزشتہ ہفتہ آدھی رات کو ان کی رہائی کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر کی اجازت کے بغیر ڈاکٹر مزاری کی گرفتاری غیر قانونی ہے۔ معزز چیف جسٹس نے شیریں مزاری سے کہا کہ '' آپ کے دور میں بھی اس طرح کی کئی وارداتیں ہوئی تھیں۔'' اخباری خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز اس گرفتاری سے لاعلم تھے۔
شاید ان کی گرفتاری کا فیصلہ پس پردہ قوتوں کا ہوسکتا ہے، ویسے بھی ڈاکٹر مزاری مسلسل اداروں کے بارے میں خاصے سخت بیانات دیتی رہیں۔ عمران خان کے افسوس ناک بیانات اور خواتین سیاست دانوں کے خلاف کارروائیاں سیاسی منظر نامہ کو مزید پراگندہ کر رہی ہیں۔ صدر عارف علوی اور ڈاکٹر شیریں مزاری کو خاص طور پر مجوزہ لانگ مارچ میں ہونے والی تقاریر کے بارے میں ضرور توجہ دینی چاہیے تاکہ سیاسی کشیدگی ذاتی دشمنیوں میں تبدیل نہ ہو۔
عمران خان کی ہر طرف سے مذمت ہو رہی ہے۔ تحریک انصاف کی معزز رکن ڈاکٹر شیریں مزاری نے اپنے قائد کے اس بیان پر خاموشی اختیار کر لی ہے۔ صدر ڈاکٹر عارف علوی جن کے خاندان کی وضع داری اور روایات کے حوالے دیے جاتے ہیں، وہ ایوان صدر میں یقیناً اپنے قائد کے اس بیان پر رنجیدہ ہوںگے۔
گزشتہ 30 برسوں سے سیاسی منظر نامے میں سیاست دانوں کی کردار کشی ، خواتین کی توہین اور تہذیب سے گرے ہوئے جملوں کا جمعہ بازار نظر آیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو جب وزیر اعظم تھے اور امریکا کے دورے پر تھے تو واشنگٹن میں ایک ڈپلومیٹک ڈنر میں بیگم بھٹو اور اس وقت کے امریکی صدر فورڈ کی تصاویر کو 1977 اور 1988کے انتخابات میں منفی کیپشن کے ساتھ تقسیم کیا گیا۔ دائیں بازو کے ایک نامور صحافی کے ہفت روزہ رسالے میں بیگم بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی جعلی تصاویر شایع ہوئیں۔
پیپلز پارٹی کی دونوں حکومتوں میں شیخ رشید بے نظیر بھٹو کے بارے میں غیر اخلاقی جملے استعمال کرتے رہے۔ ایک زمانہ میں رانا ثناء اﷲ بھی پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف غیراخلاقی زبان استعمال کرتے رہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے ڈاکٹر شیریں مزاری کو '' ٹریکٹر ٹرالی'' کا خطاب دیا جس کی تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی خواتین نے مذمت کی۔ مگر اسمبلی میں مسلم لیگ ن کی خواتین شرمندہ تو ہوئیں البتہ اپنے سینئر وزیر کی مذمت نہ کرسکیں۔
وزیر اعظم نواز شریف لندن گئے جہاں ان کی اوپن ہارٹ سرجری ہوئی۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے یہ مہم شروع کی کہ وہ پاناما اسکینڈل کے افشا ہونے پر لندن کے اسپتال میں رو پوش ہیں۔ اس مہم میں بیرسٹر اعتزاز احسن بھی شامل ہوئے، جب بیگم کلثوم نواز علاج کے لیے لندن کے کینسر اسپتال میں داخل ہوئیں تو تحریک انصاف والوں نے سوشل میڈیا پر ثابت کرنا شروع کیا کہ یہ سب جعلی کام ہے اور کلثوم نواز کا لندن کے اسپتال میں کینسر کا علاج نہیں ہو رہا۔
اعتزاز احسن بھی یہی راگ الاپنے لگے۔ اسلام آباد کے بعض باخبر صحافی کہتے تھے کہ کلثوم نواز کے بارے میں یہ بیانیہ کہیں اور تیارکیا گیا تھا اور تحریک انصاف کے رہنماؤں کورس میں یہ بیانیہ گاتے تھے۔ خود کو تعلیم یافتہ اور مہذب کہلانے والے بہت سے افراد اس مہم سے متاثر ہوئے اور کہتے رہے کہ اب برطانیہ کے ڈاکٹر بھی پیسوں کی خاطر یہ کام کرنے لگے ہیں۔ بیگم کلثوم نواز کا انتقال ہوا تو صرف اعتزاز احسن نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا ، باقی رہنماؤں کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ بھی غلطی کا اعتراف کریں۔
عمران خان نے مسلسل جارحانہ بیانیہ اختیارکیا ہوا ہے، وہ اپنے مخالف سیاست دانوں کو غیر اخلاقی القابات سے پکارتے ہیں اور جنون کی فضاء پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض اوقات تو محسوس ہوتا ہے کہ اپنے سامعین کی تسکین کے لیے اسی طرح رکیک جملے ادا کر رہے ہوتے ہیں جس طرح بھارت میں کامیڈین اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے جنسی استعارے استعمال کرتے ہیں۔
اس ساری صورتحال کے نقصانات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ہجوم اور جلسے کے شرکاء کی نفسیات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ زیادہ افراد کو جمع کرنے کے لیے ان کے ذہنی معیار سے پست حملے اور ڈائیلاگ ادا کیے جاتے ہیں، یوں ہجوم اور جلسہ کے شرکاء کے دماغوں میں کرنٹ جیسی صورتحال پیدا ہوتی ہے اور وہ اپنے رہنما کی ہر بات ماننے پر تیار ہوجاتے ہیں۔
یہ صورتحال تاریخ میں کئی مواقع پر زیادہ خطرناک ثابت ہوئی ہے، جب رہنما ہجوم کو گرمانے کے لیے گھٹیا جملے استعمال کرے گا تو وہ اپنے سننے والوں میں جذباتی کیفیت پیدا کرتا ہے تاکہ یہ لوگ اس کی بات مانیں مگر بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ رہنما کی مرضی نہ ہونے کے باوجود سامعین میں سے کسی نے مخالف کو نقصان پہنچانے کا نعرہ لگادیا تو پھر ہجوم اور جلسہ کے سامعین بے قابو ہوئے، یوں شہر میں فساد بھی ہوئے اور قیمتی جانوں کا نقصان بھی ہوا۔ عمران خان اپنے جلسوں میں سامعین کو متحرک رکھنے کے لیے یا اپنی تسکین کے لیے یہ سب کچھ کر رہے ہیں مگر یہ ایک خطرناک کھیل کا آغاز ہے۔
پورے ملک میں کشیدگی کی فضاء پیدا ہوگئی ہے اور تاریخ کے طالب علموں نے کہنا شروع کیا ہے کہ جرمنی کے آمر ہٹلر کا بھی یہی بیانیہ تھا اور اس نے نازی ازم کے ذریعہ جرمنی کی ریاست پر قبضہ کیا۔ جرمن نسل پرستی کا نعرہ لگایا اور اپنے مخالفین کا صفایا کیا۔ ہٹلر کی ان پالیسیوں کے نتیجے میں دنیا دوسری جنگ عظیم کا شکار ہوئی۔ یورپ میں ایک کروڑ کے قریب افراد جنگ کا شکار ہوئے اور جرمنی مکمل طور پر تباہ ہوگیا تھا ۔
برصغیر میں جلسے جلوسوں کی ایک تاریخ ہے۔ یہ تاریخ مولانا محمد علی جوہر سے شروع ہوتی ہے۔ مولانا محمد علی جوہر اور مہاتما گاندھی نے خلافت تحریک کو منظم کرنے کے لیے بڑے بڑے جلسوں سے خطا ب کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس زمانہ میں مقررین جتنی طویل تقاریرکرتے تھے سامعین اتنا ہی زیادہ متاثر ہوتے تھے۔ بعض اوقات رات سے پہلے شروع ہونے والے جلسے طلوع سحر پر اختتام پزیر ہوتے تھے مگر تمام مقررین کا لہجہ شائستہ ہوتا تھا۔
کچھ مقررین جذباتی تقاریر کرتے تھے مگر مخالفین کو منفی القابات نہیں دیے جاتے تھے نہ کوئی غیر قانونی راستہ دکھایا جاتا تھا۔ اسی طرح مولانا ابو الکلام آزاد کی سیاسی تقاریر بھی منطق پر مبنی ہوتی تھیں۔ ان تقاریر میں سامعین کی تربیت کا پہلو ہوتا تھا۔ سید الاحرار مولانا عطاء اﷲ شاہ بخاری کا شمار شعلہ بیاں مقررین میں ہوتا تھا ۔ وہ عشاء کے بعد تقریر شروع کرتے تھے اور فجر کے وقت ان کی تقریر کا اختتام ہوتا تھا۔ اسی طرح پنڈت جواہر لعل نہرو اور بیرسٹر محمد علی جناح کی تقاریر میں شائستہ الفاظ استعمال ہوتے تھے۔
عمران خان تو ہمیشہ برطانیہ کی مثالیں دیتے تھے ، چند سال قبل قدامت پرست ٹوری پارٹی میں وزیر اعظم کے امیدواروں میں ایک خاتون بھی شامل تھیں۔ دوسرے امیدوار نے ان پر یہ طنز کیا کہ '' یہ خاتون بانجھ ہے، یہ اس ملک کو کیا دے گی'' تو اس ایک جملے پر اس امیدوارکا سیاسی کیریئر ہمیشہ ختم ہوگیا تھا۔
انسانی حقوق کی آگہی کی سب سے بڑی تنظیم ایچ آر سی پی نے مطالبہ کیا ہے کہ عمران خان مریم نواز سے متعلق اپنے ریمارکس پر معافی مانگیں۔ میڈیا خواتین کے بارے میں تحقیق اور آگہی کی مہم چلانے والی غیر سرکاری تنظیم عکس کی سربراہ تسنیم احمر نے لکھا ہے کہ ہمیشہ سے سیاست دان 48 فیصد آبادی کے بارے میں گھٹیا جملے استعمال کر رہے ہیں۔
ابھی عمران خان کی مریم نواز کے بار ے میں توہین آمیز گفتگو کی مذمت ہو ہی رہی تھی کہ ایک اور خاتون ڈاکٹر شیریں مزاری کی گرفتاری کا واقعہ ہوا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اﷲ نے گزشتہ ہفتہ آدھی رات کو ان کی رہائی کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر کی اجازت کے بغیر ڈاکٹر مزاری کی گرفتاری غیر قانونی ہے۔ معزز چیف جسٹس نے شیریں مزاری سے کہا کہ '' آپ کے دور میں بھی اس طرح کی کئی وارداتیں ہوئی تھیں۔'' اخباری خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز اس گرفتاری سے لاعلم تھے۔
شاید ان کی گرفتاری کا فیصلہ پس پردہ قوتوں کا ہوسکتا ہے، ویسے بھی ڈاکٹر مزاری مسلسل اداروں کے بارے میں خاصے سخت بیانات دیتی رہیں۔ عمران خان کے افسوس ناک بیانات اور خواتین سیاست دانوں کے خلاف کارروائیاں سیاسی منظر نامہ کو مزید پراگندہ کر رہی ہیں۔ صدر عارف علوی اور ڈاکٹر شیریں مزاری کو خاص طور پر مجوزہ لانگ مارچ میں ہونے والی تقاریر کے بارے میں ضرور توجہ دینی چاہیے تاکہ سیاسی کشیدگی ذاتی دشمنیوں میں تبدیل نہ ہو۔