تعلیم اور انتخابات
سندھ کی حکومت امتحان کے روایتی طریقہ کو تبدیل کرنے پر سوچنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے
سندھ حکومت نے شعبہ تعلیم کو بھی ایمپلائمنٹ ایکسچینج میں تبدیل کردیا ہے۔ صوبائی حکومت نے اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کا آسان فارمولہ حاصل کر لیا۔ اس فارمولہ کے تحت اساتذہ بھرتی کی شرائط میں تبدیلی کردی گئی۔
اب صوبہ میں ہزاروں غیر فعال اسکولوں کے اساتذہ کی تقرریوں کے لیے آئی بی اے سکھر کے انٹری ٹیسٹ میں پچاس فیصد حاصل کرنے والے مسلمان مرد ، خواتین و اقلیتی امیدواروں کے لیے چالیس فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پہلے یہ معیار مسلمان مردوں کے لیے 55 فیصد خواتین و اقلیتی مردوں کے لیے 50 فیصد تھا۔
سندھ کے وزیر تعلیم جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ تعلیمی مسائل میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں اور انھوں نے فخر سے یہ اعلان کیا کہ پہلے بھرتی پالیسی یونین کونسل کی سطح پر تشکیل دی گئی تھی ، اس پالیسی کو تعلقہ کی سطح پرکردیا جائے گا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس پالیسی کا بنیادی مقصد اسکولوں میں اساتذہ کی کمی دورکرنا اور تعلیمی نظام کو زوال سے بچانا ہے۔
سندھ میں اساتذہ کی کمی اور دیگر وجوہات کی بناء پر ہزاروں اسکول غیر فعال ہیں۔ محکمہ تعلیم سے دستیاب شدہ اعداد و شمارکے مطابق 54 ہزار آسامیاں خالی ہیں جن میں 36 ہزار پرائمری اسکولوں میں 18ہزار جونیئر اساتذہ کی آسامیاں خالی ہیں۔ وزیر تعلیم نے صحافیوں کے سامنے یہ اقرارکیا کہ صوبہ میں اساتذہ کی موجودہ بھرتیوں کی بناء پر 2 ہزار 535 اسکول دوبارہ کھل گئے ہیں مگر پھر بھی 4 ہزار سے زائد اسکول غیر فعال ہیں۔
نئی پالیسی کے تحت معذور افراد اور دور دراز علاقوں میں اساتذہ کے تقررکے لیے معیار 33 فیصد ہی رہے گا۔ سندھ حکومت اساتذہ تقررکے معیار میں پہلے ہی بنیادی تبدیلیاں کرچکی ہیں۔
اب اساتذہ کے لیے بی ایڈ کی ڈگری حاصل کرنا ضروری نہیں ہے۔ میٹرک ، انٹرمیڈیٹ کرنے والے اساتذہ سی ٹی اور بی ٹی کا کورس کرچکے ہونگے، وہ ملازمت سے پہلے ہی ملازمت کے لیے اہل قرار دیے گئے ہیں۔ باقی تین صوبوں میں کسی فرد کا بغیر بی ایڈ کیے استاد کی آسامی پر تقرر نہیں ہوتا۔ نئی نسل کی تربیت اور ملکی ترقی کا انحصار تعلیم پر ہے۔ تعلیم کے عمل میں اساتذہ بنیادی سہولتوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کی چودہ سالہ تاریخ کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو صرف تلخ حقائق سامنے آتے ہیں۔ جب 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھ کی حکومت سنبھالی تو شعبہ تعلیم میں اساتذہ کی تقرریوں کے معیارکو نظراندازکیا گیا۔
ایسے ہزاروں افراد کو اساتذہ کے نام پر بھرتی کیا گیا ، جو استاد کی بنیادی شرائط سے خاصے فاصلہ پر تھے۔ ان اساتذہ کو انٹری ٹیسٹ کے بغیر ملازمتوں کے لیے بھرتی کیا گیا تھا۔ سندھ میں اسکولوں کو متحرک رکھنے کے لیے عالمی بینک گرانٹ دیتا ہے۔ اساتذہ کے انٹری ٹیسٹ کی شرط بھی عالمی بینک کے دباؤ پر عائد ہوئی تھی اور اس سے پہلے والی حکومتوں نے اس شرط پر عمل درآمد کیا تھا۔ عالمی بینک نے اس وقت یہ دھمکی دی کہ اگر اہلیت کی شرائط پر عملدرآمد نہ ہوا تو سندھ کے لیے دی جانے والی گرانٹ بند کردی جائے گی۔
جب عالمی بینک کی رپورٹ اس وقت حکومت تک پہنچی تو انھیں صورت حال کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔ محکمہ تعلیم کا نیا سیکریٹری مقررکیا گیا اورکئی ہزار اساتذہ کو برطرفی کے خط دے دیے گئے۔ ا
ن افراد نے احتجاج کرنا شروع کیا۔کراچی ، حیدرآباد اور سکھر میں پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ لگ گئے۔ ان میں سے بہت سے افراد یہ واویلا کر رہے تھے کہ انھوں نے کئی لاکھ روپے دے کر تقرر نامے حاصل کیے تھے اور اس مقصد کے لیے اپنی قیمتی اشیاء فروخت کی تھیں۔
ان افراد کا احتجاج کئی سال تک جاری رہا۔ کراچی پریس کلب کے سامنے یہ افراد جمع ہوکر وزیر اعلیٰ ہاؤس جانے کی کوششیں کرتے، پولیس لاٹھی چارج کرتی اور آنسو گیس ہوتا ، ٹی وی چینلز اس منظرکو براہِ راست دکھاتے ، نیب کی توجہ اس طرف ہوئی۔ سابق وزیر تعلیم اور محکمہ تعلیم کے کئی افسران گرفتار ہوئے ،کچھ لوگ عدالتوں میں گئے۔ ایک دو تکنیکی وجوہات کی بناء پر شاید بحال بھی ہوئے۔
حکومت سندھ نے کراچی کے کالجوں میں کمپیوٹر سائنس کا بی ایس پروگرام اس تعلیمی سال سے بند کردیا ہے۔ اب صاحبِ حیثیت والدین کے بچے تو نجی تعلیمی اداروں میں اس جدید سائنس کی تعلیم حاصل کرلیں گے لیکن غریبوں کے بچوں کے لیے اب یہ ممکن نہ ہوگا۔ انگریز حکومت نے 40ء کی دہائی میں تعلیم کے مضمون کی تدریس کے لیے بی ٹی کا کورس رائج کیا تھا ، جو پاکستان میں پھر بی ایڈ کہلایا اور تمام صوبوں میں یہ ضابطہ نافذ ہوا تھا کہ بی ایڈ کرنے والے افراد ہی اسکولوں میں پڑھانے کے اہل ہونگے اور اب تو باقاعدہ بی ایڈ کا پانچ سالہ کورس رائج ہوچکا ہے۔
ان تبدیلیوں کا بنیادی مقصد جدید مضامین کی تدریس کے لیے اساتذہ کو تیار کرنا ہے۔ حکومت سندھ نے اس شرط کو ختم کرکے غیر تربیت یافتہ اساتذہ کے تقرر کا ر استہ کھول دیا ہے۔ سندھ میں شعبہ تعلیم سے واقف صحافی حکومت سندھ کے اس بیانیہ سے اختلاف کرتے ہیں کہ محض اساتذہ کی کمی کی بناء پر 6 ہزار اسکول غیر فعال ہیں۔
سندھ میں اسکولوں کے حالات کے بارے میں شائع ہونے والی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ ان اسکولوں کے غیر فعال ہونے میں اساتذہ کی کمی کے علاوہ اسکولوں کی عمارتوں میں اوطاق کا بننا، بعض گوٹھوں میں ان عمارتوں کو جانوروں کی محفوظ پناہ گاہوں کے طور پر استعمال ہونا ، اسکولوں میں فرنیچر کی کمی ، بجلی ، پانی اور بیت الخلاء کا نہ ہونا اور بہت سے گرلز اسکولوں میں چار دیواری نہ ہونے کی بناء پر بھی یہ اسکول غیر فعال ہوئے۔
زیرک صحافیوں کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ اتنی بڑی تعداد میں اساتذہ کا اس لیے بھی تقررکرنا چاہتی ہے کہ یہی اساتذہ انتخابات میں فرائض انجام دیں گے ، یوں ایک طرف تو حکومت سندھ اپنے ووٹروں کو مطمئن کرنا چاہتی ہے اور دوسری طرف وہ انتخابات میں بھی دھاندلی کے لیے ان اساتذہ کو استعمال کرنا چاہتی ہے۔ تعلیم کی رپورٹنگ کرنے والے رپورٹروں کا کہنا ہے کہ محکمہ تعلیم مکمل طور پر ایڈھاک بنیادوں پر چلایا جاتا ہے۔
اہم آسامیوں پر جونیئر افسروں اور جونیئر اساتذہ کی تقرری ہوئی ہے۔ سندھ کے مختلف محکموں کی رپورٹنگ کرنے والے بعض رپورٹروں کا کہنا ہے کہ اب محکمہ تعلیم میں رشوت کے ریٹ دیگر محکموں سے کم نہیں ہیں۔ اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کو اپنے ہر چھوٹے بڑے کام کے لیے نذرانے دینا لازمی ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ حج ، عمرہ اور زیارتوں کے لیے جانے کے لیے بھی این او سی کا حصول ایک مخصوص رقم ادا کرنے کے بعد ممکن ہے ، پھر ریٹائر ہونے والے اساتذہ اور غیر تدریس عملہ جب تک مقررہ رقم طے نہ کرے ، پنشن کے کاغذات مکمل نہیں ہوتے۔ یہ رقم پنشن کی رقم کے تناسب سے طے ہوتی ہے۔
ہر سال کی طرح اس سال بھی میٹرک کے امتحانات میں روزانہ امتحانی پرچوں کے آؤٹ ہونے اور طلبہ کو ایڈمٹ کارڈ وقت پر جاری نہ ہونے کی خبریں عام ہیں۔ گرمی میں امتحانی مراکز پر بجلی اور پانی کی نایابی اور گرمی کی شدت سے طلبہ کے بے ہوش ہونے کی خبریں آرہی ہیں۔ حکومت امتحان شروع ہونے سے پہلے زور دار دعوے کرتی ہے مگر عملی طور پر کچھ نہیں ہو رہا ہے۔
سندھ کی حکومت امتحان کے روایتی طریقہ کو تبدیل کرنے پر سوچنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے آنے کے بعد جہاں نقل کرنے میں آسانیاں پیدا ہوئی ہیں ، وہاں اس ٹیکنالوجی کو مکمل طور پر استعمال کرکے اور امتحانات کے جدید طریقوں پر عمل درآمد کر کے نقل کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل کیا جاسکتا ہے۔
18ویں ترمیم میں قومی مالیاتی ایوارڈ کی تشکیل ہوئی اور ایک نیا فارمولہ تیار ہوا۔ صوبوں کی آمدنیوں میں خاطرخواہ اضافہ ہوا۔ عالمی بینک اور غیر ریاستی ملکی ادارے شعبہ تعلیم میں بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں، یوں حکومت کے پاس تعلیم کے لیے فنڈز کم ہونے کا کوئی جواز نہیں۔ پیپلز پارٹی کے اکابرین کو سوچنا چاہیے کہ سندھ میں تعلیم کا معیارکم ہوگا ، تو اس کے کتنے خطرناک نتائج برآمد ہونگے۔