دونوں ہاتھوں کی پیوندکاری کا پہلا تجربہ کامیاب
48 سالہ اسٹیون ایک جلد کی بیماری کا شکار تھے جس میں ان کی انگلیوں نے مُڑ کر ایک مستقل مٹھی کی صورت اختیار کرلی تھی
ISLAMABAD:
برطانیہ میں جلد کی بیماری کے سبب ناکارہ ہوجانے والے ہاتھوں کے حامل شخص کو دوبارہ تندرست ہاتھ لگایئے گئے ہیں۔ اس ٹرانسپلانٹ کو دنیا کی پہلی دوہرے ہاتھوں والی پیوندکاری قرار دیا جا رہا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق 48 سالہ اسٹیون گیلیغر اسکلیرو ڈرما نامی جلد کی بیماری کا شکار تھے جس کی وجہ سے ان کی جلد عدم لچک کی وجہ سے کھینچنے لگی تھی اور ان کی انگلیوں نے مُڑ کر ایک مستقل مٹھی کی صورت اختیار کر لی تھی۔
اسٹیون کو یہ بیماری 13 برس قبل گال اور ناک پر غیر معمولی خراشیں لگنے اور دائیں بازو میں تکلیف ہونے کے بعد ہوئی۔
اس حالت سے ان کی ناک، منہ اور ہاتھ متاثر ہوئے اور تقریباً سات سال قبل ان کی انگلیاں مُڑنا شروع ہوئی اور تب تک مڑتی رہیں جب تک ان کے ہاتھ نے مٹھی کی صورت اختیار نہیں کر لی۔ اس صورت حال کے دوران وہ شدید اذیت میں مبتلا رہے۔
جب ماہرین نے انہیں دونوں ہاتھوں کے پیوندکاری کے متعلق بتایا تو پہلے تو انہوں نے یہ خیال ہنس کر مسترد کردیا لیکن بعد ازاں خطرات کے باوجود اس خیال پر عمل کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے خبررساں ادارے کو بتایا کہ ان کے ہاتھ ناکارہ ہوچکے تھے، وہ چیزوں کو اٹھانے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ جب گلاسگو کے ایک پروفیسر نے انہیں دونوں ہاتھوں کے پیوندکاری کے متعلق بتایا تو پہلے انہوں اس پر کان نہ دھرے لیکن بعد میں اپنی اہلیہ سے مشورہ کرنے کے بعد اس عمل کے لیے رضامند ہوئے۔
گزشتہ سال دسمبر میں کیے گئے آپریشن کو پانچ ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے بعد ان کی حالت بہتر ہو رہی ہے اگرچہ وہ اب بھی شرٹ کے بٹن لگانے جیسے پیچیدہ عمل نہیں کرسکتے لیکن نل کھولنا اور گلاس بھرنا جیسے کام کر سکتے ہیں۔
اس پیوندکاری کے لیے کی جانے والی سرجری میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے 30 زبردست ماہرین کی ٹیم نے حصہ لیا۔
لِیڈز ٹیچنگ ہاسپیٹلز این ایچ ایس ٹرسٹ کے پروفیسر سائمن کے کا کہنا تھا کہ یہ آپریشن ایک بہت بڑی مجموعی کاوش ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہاتھ کی پیوندکاری، گردے یا دیگر عضو کی پیوند کاری سے بہت مختلف ہوتی ہے کیوں کہ ہم ہاتھوں کو روزانہ دیکھتے ہیں اور کئی طریقوں سے استعمال کرتے ہیں۔
برطانیہ میں جلد کی بیماری کے سبب ناکارہ ہوجانے والے ہاتھوں کے حامل شخص کو دوبارہ تندرست ہاتھ لگایئے گئے ہیں۔ اس ٹرانسپلانٹ کو دنیا کی پہلی دوہرے ہاتھوں والی پیوندکاری قرار دیا جا رہا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق 48 سالہ اسٹیون گیلیغر اسکلیرو ڈرما نامی جلد کی بیماری کا شکار تھے جس کی وجہ سے ان کی جلد عدم لچک کی وجہ سے کھینچنے لگی تھی اور ان کی انگلیوں نے مُڑ کر ایک مستقل مٹھی کی صورت اختیار کر لی تھی۔
اسٹیون کو یہ بیماری 13 برس قبل گال اور ناک پر غیر معمولی خراشیں لگنے اور دائیں بازو میں تکلیف ہونے کے بعد ہوئی۔
اس حالت سے ان کی ناک، منہ اور ہاتھ متاثر ہوئے اور تقریباً سات سال قبل ان کی انگلیاں مُڑنا شروع ہوئی اور تب تک مڑتی رہیں جب تک ان کے ہاتھ نے مٹھی کی صورت اختیار نہیں کر لی۔ اس صورت حال کے دوران وہ شدید اذیت میں مبتلا رہے۔
جب ماہرین نے انہیں دونوں ہاتھوں کے پیوندکاری کے متعلق بتایا تو پہلے تو انہوں نے یہ خیال ہنس کر مسترد کردیا لیکن بعد ازاں خطرات کے باوجود اس خیال پر عمل کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے خبررساں ادارے کو بتایا کہ ان کے ہاتھ ناکارہ ہوچکے تھے، وہ چیزوں کو اٹھانے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ جب گلاسگو کے ایک پروفیسر نے انہیں دونوں ہاتھوں کے پیوندکاری کے متعلق بتایا تو پہلے انہوں اس پر کان نہ دھرے لیکن بعد میں اپنی اہلیہ سے مشورہ کرنے کے بعد اس عمل کے لیے رضامند ہوئے۔
گزشتہ سال دسمبر میں کیے گئے آپریشن کو پانچ ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے بعد ان کی حالت بہتر ہو رہی ہے اگرچہ وہ اب بھی شرٹ کے بٹن لگانے جیسے پیچیدہ عمل نہیں کرسکتے لیکن نل کھولنا اور گلاس بھرنا جیسے کام کر سکتے ہیں۔
اس پیوندکاری کے لیے کی جانے والی سرجری میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے 30 زبردست ماہرین کی ٹیم نے حصہ لیا۔
لِیڈز ٹیچنگ ہاسپیٹلز این ایچ ایس ٹرسٹ کے پروفیسر سائمن کے کا کہنا تھا کہ یہ آپریشن ایک بہت بڑی مجموعی کاوش ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہاتھ کی پیوندکاری، گردے یا دیگر عضو کی پیوند کاری سے بہت مختلف ہوتی ہے کیوں کہ ہم ہاتھوں کو روزانہ دیکھتے ہیں اور کئی طریقوں سے استعمال کرتے ہیں۔