سیاسی لڑائی کا حل الیکشن ہیں
حکومت وقت کو چاہیے کہ وہ تحریک انصاف کی قیادت سے بات چیت کرے
لاہور:
لیں جی! ملک میں ایک بار پھر ''بڑوں'' کی لڑائی کا کھیل شروع ہوگیا، تاریخ گواہ ہے کہ یہ لڑائی جب جب لڑی گئی بڑوں کو تو شاید کچھ نہیں ہوا مگر ریاست مزید کمزور ہوئی ہے۔
سقوط ڈھاکا ہو، قومی اتحاد کی احتجاجی تحریک ہو، جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء ہو، 1985کے غیر جماعتی الیکشن ہوں، 90کی دہائی کی سیاست ہو، 99ء کا مارشل لاء ہو، بے نظیر کی شہادت ہو، 2013کا دھاندلی زدہ الیکشن ہو، 2014-16کے دھرنے ہوں، ڈان لیکس ہو، 2018 کا متنازعہ الیکشن ہو، تحریک لبیک کے دھرنے ہوں یا 9اپریل کی کامیاب تحریک عدم اعتماد ہو یا عمران خان کا پرتشدد اور آتشی لانگ مارچ ہو، جب جب بھی بڑوں کی لڑائی ہوئی ''گھر'' کا ستیاناس ہوگیا۔ آج عمران خان اپنی مرضی کے مطالبات اٹھا کر سڑکوں پر ہیں جب کہ حکومت کی ساری توجہ لانگ مارچ روکتی رہی۔
ملک پہلے ہی نہیں چل رہا، معیشت وینٹی لیٹر پر ہے، کاروبار تباہ ہوچکے ہیں، آئی ایم ایف سے اگلی قسط ریلیز کرانی ہے، ڈالر ڈبل سنچری پوری کرکے مزید بڑھتا جا رہا ہے، اس کی سنگینی کا پتہ سابق وزیراعظم عمران خان، اسد عمر اور شوکت ترین اور دیگر بقراطوں کو بھی ہے لیکن سو چوہے کھا کر حج پر چلے کی طرح یہ سب لوگ ملک اور عوام کی محبت میں ٹسوے بہا رہے اور اسلام آباد پر خیبر پختونخوا حکومت کے وسائل سے اسلام آباد پر چڑھائی کر رہے ہیں۔
خیر یہ تو الگ بحث ہے مگر حکومت وقت کو چاہیے کہ وہ تحریک انصاف کی قیادت سے بات چیت کرے، اور عمران خان کو چاہیے کہ دھونس اور دھمکیوں سے انھیں کچھ حاصل نہیں ہوگا، انھوں نے بھی اپنی سیاست اور پارٹی بچانی ہے تو حکومت کے ساتھ بات چیت کا دروازہ کھولیں۔
خیر اگر ہم بات کریں کہ اس وقت تحریک انصاف کی حالیہ تحریک اور مطالبات کی، تو اُن کا سب سے بڑا اور اہم مطالبہ ہے کہ فوری طور پر الیکشن کا انعقاد کرایا جائے، تحریک انصاف یہ بڑا مطالبہ اس لیے بھی کر رہی ہے کہ اُسے علم ہے کہ اس وقت اُسے ہمدردی کا ووٹ حاصل ہوگا، اور اس وقت اُس کی مقبولیت کا گراف جو دوران حکومت بہت زیادہ نیچے گر گیا تھا، اب خاصا بڑھ چکا ہے۔
جب کہ موجودہ حکومت اسمبلیوں کی مدت پوری کرکے اگلے سال الیکشن کرانا چاہتی، کیوں کہ حکومت کبھی نہیں چاہے گی کہ اس وقت الیکشن کروائے جائیں جب عمران خان کی مقبولیت کا گراف اوپر ہو۔ جب کہ ان دونوں کے علاوہ فیصلہ کرنے والی قوتیں بھی اس پوری صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں، بادی النظر میں وہ فکر مند بھی ہیں اور فیصلے کرنے کی پوزیشن میں بھی۔ ادھر ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر شوشل میڈیا پر سیاست سیاست کھیلنے والے خامخواہ دانشور یہ خیالی پلاو بھی پکا رہے ہیں کہ شاید چند ''ایکسپرٹ'' افراد پر مشتمل ایک ٹیکنوکریٹ حکومت قائم کر دی جائے۔
لیکن یہاں ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ٹیکنو کریٹس عوام کے مسائل کو کبھی نہیں سمجھ سکتے اور نہ انھیں ضرورت ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں یہ تجربہ کہیں بھی کامیاب نہیں رہا، بلکہ یہ ٹیکنوکریٹس چونکہ پہلے ہی احسانات تلے دبے ہوتے ہیں اس لیے بعض قوتیں انھیں اپنے لیے استعمال کرتی ہیں۔
جیسے بنگلہ دیش میں کرپشن ختم کرنے کے نام پر جنوری2007 میں دو سال کے لیے ٹیکنو کریٹس کی حکومت قائم کی گئی تھی۔ بنگلہ دیشی اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا کہ وہ عوام میں مقبول لیڈر شپ کو کرپٹ کہہ کرکے ان سے جان چھڑا لیں گے۔ اس وقت بنگلہ دیش کی دو مقبول سیاسی پارٹیاں عوامی لیگ اور نیشنل پارٹی تھیں اور ان کی قیادت شیخ حسینہ اور بیگم خالدہ ضیاء کر رہی تھیں۔ اس وقت بنگلہ دیش کے آرمی چیف معین الدین احمد تھے۔
جنھوں نے ''Two Minus'' کا کھیل کھیلا اور اس کے لیے سپریم کورٹ کا کندھا استعمال کیا اور دو سال کے لیے ٹیکنو کریٹس کی حکومت قائم ہوگئی۔ ٹیکنوکریٹس کی اس حکومت نے دو سال بنگلہ دیش میں خوب ادھم مچایا، کام کاج کیا کرنا تھا، بس اپنا دو سال کا وقت سیاست دانوں کو کرپٹ کہنے میں گزار دیا۔ غیر آئینی ٹیکنوکریٹ وزیر اعظم فخرالدین احمد نے آرمی چیف معین الدین احمد کو مدت ملازمت میں توسیع بھی دی۔ دو سال بعد جب جنوری 2009 میں الیکشن کرائے گئے تو جرنیلوں اور سپریم کورٹ کی طاقت عوام نے ادھیڑ کر رکھ دی اورعوام نے عوامی سیاست دانوں شیخ حسینہ اور بیگم خالدہ ضیاء کو ہی ووٹ دیے۔
بنگلہ دیش ٹیکنو کریٹ ماڈل چاروں شانے چت ہو گیا اور یہ بات ثابت ہو گئی کہ عوام اپنے منتخب کردہ سیاست دانوں کو ہی پسند کرتے ہیں۔ بنگلہ دیش کے بعد رومانیہ نے بھی حال ہی میں ٹیکنو کریٹ حکومت کا ناکام تجربہ کیا۔ نومبر 2015 میں ایک سیاسی بحران کے بعد یورپین یونین میں رومانیہ سے تعلق رکھنے والے زرعی کمشنر ڈاسیان سیالوس کو دارالحکومت بخارسٹ امپورٹ کیا گیا۔
جنھوں نے 21رکنی ''کرپشن فری'' ٹیکنوکریٹ حکومت بنائی لیکن اس حکومت نے ایک سال بعد ہی ہاتھ کھڑے کر دیے اور الیکشن کرا کر بھاگنے میں ہی عافیت جانی۔ جنوری 2017 میں ایک بار پھر عوام کے منتخب نمایندوں نے حکومت سنبھالی اور ٹیکنو کریٹ تجربہ کا وقت سے پہلے ہی اسقاط ہوگیا۔ اس وقت رومانیہ کی منتخب حکومت کو عوام کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ لہٰذایہ تجربہ نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہوگا کیوں کہ پاکستان اب دوبارہ کسی بڑی مصیبت کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
لہٰذا اب رہی بات دوبارہ الیکشن کرانے کی تو صاف سی بات ہے کہ دنیا بھر میں جب بھی کہیں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو یہ جمہوری عمل ہوتا ہے، اسے قبول کیا جانا چاہیے۔ پاکستان میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی ہے تو کیا ہوگیا ہے ۔ جو بھی حکومت ہوگی، اسے جانا الیکشن کی طرف ہی پڑے گا،آج نہیں تو کل ... اس لیے حقائق تسلیم کرکے سیاست کرنی چاہیے۔ خدارا ہوش کے ناخن لیں اور نظام کوچلنے دیں۔
لیں جی! ملک میں ایک بار پھر ''بڑوں'' کی لڑائی کا کھیل شروع ہوگیا، تاریخ گواہ ہے کہ یہ لڑائی جب جب لڑی گئی بڑوں کو تو شاید کچھ نہیں ہوا مگر ریاست مزید کمزور ہوئی ہے۔
سقوط ڈھاکا ہو، قومی اتحاد کی احتجاجی تحریک ہو، جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء ہو، 1985کے غیر جماعتی الیکشن ہوں، 90کی دہائی کی سیاست ہو، 99ء کا مارشل لاء ہو، بے نظیر کی شہادت ہو، 2013کا دھاندلی زدہ الیکشن ہو، 2014-16کے دھرنے ہوں، ڈان لیکس ہو، 2018 کا متنازعہ الیکشن ہو، تحریک لبیک کے دھرنے ہوں یا 9اپریل کی کامیاب تحریک عدم اعتماد ہو یا عمران خان کا پرتشدد اور آتشی لانگ مارچ ہو، جب جب بھی بڑوں کی لڑائی ہوئی ''گھر'' کا ستیاناس ہوگیا۔ آج عمران خان اپنی مرضی کے مطالبات اٹھا کر سڑکوں پر ہیں جب کہ حکومت کی ساری توجہ لانگ مارچ روکتی رہی۔
ملک پہلے ہی نہیں چل رہا، معیشت وینٹی لیٹر پر ہے، کاروبار تباہ ہوچکے ہیں، آئی ایم ایف سے اگلی قسط ریلیز کرانی ہے، ڈالر ڈبل سنچری پوری کرکے مزید بڑھتا جا رہا ہے، اس کی سنگینی کا پتہ سابق وزیراعظم عمران خان، اسد عمر اور شوکت ترین اور دیگر بقراطوں کو بھی ہے لیکن سو چوہے کھا کر حج پر چلے کی طرح یہ سب لوگ ملک اور عوام کی محبت میں ٹسوے بہا رہے اور اسلام آباد پر خیبر پختونخوا حکومت کے وسائل سے اسلام آباد پر چڑھائی کر رہے ہیں۔
خیر یہ تو الگ بحث ہے مگر حکومت وقت کو چاہیے کہ وہ تحریک انصاف کی قیادت سے بات چیت کرے، اور عمران خان کو چاہیے کہ دھونس اور دھمکیوں سے انھیں کچھ حاصل نہیں ہوگا، انھوں نے بھی اپنی سیاست اور پارٹی بچانی ہے تو حکومت کے ساتھ بات چیت کا دروازہ کھولیں۔
خیر اگر ہم بات کریں کہ اس وقت تحریک انصاف کی حالیہ تحریک اور مطالبات کی، تو اُن کا سب سے بڑا اور اہم مطالبہ ہے کہ فوری طور پر الیکشن کا انعقاد کرایا جائے، تحریک انصاف یہ بڑا مطالبہ اس لیے بھی کر رہی ہے کہ اُسے علم ہے کہ اس وقت اُسے ہمدردی کا ووٹ حاصل ہوگا، اور اس وقت اُس کی مقبولیت کا گراف جو دوران حکومت بہت زیادہ نیچے گر گیا تھا، اب خاصا بڑھ چکا ہے۔
جب کہ موجودہ حکومت اسمبلیوں کی مدت پوری کرکے اگلے سال الیکشن کرانا چاہتی، کیوں کہ حکومت کبھی نہیں چاہے گی کہ اس وقت الیکشن کروائے جائیں جب عمران خان کی مقبولیت کا گراف اوپر ہو۔ جب کہ ان دونوں کے علاوہ فیصلہ کرنے والی قوتیں بھی اس پوری صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں، بادی النظر میں وہ فکر مند بھی ہیں اور فیصلے کرنے کی پوزیشن میں بھی۔ ادھر ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر شوشل میڈیا پر سیاست سیاست کھیلنے والے خامخواہ دانشور یہ خیالی پلاو بھی پکا رہے ہیں کہ شاید چند ''ایکسپرٹ'' افراد پر مشتمل ایک ٹیکنوکریٹ حکومت قائم کر دی جائے۔
لیکن یہاں ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ٹیکنو کریٹس عوام کے مسائل کو کبھی نہیں سمجھ سکتے اور نہ انھیں ضرورت ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں یہ تجربہ کہیں بھی کامیاب نہیں رہا، بلکہ یہ ٹیکنوکریٹس چونکہ پہلے ہی احسانات تلے دبے ہوتے ہیں اس لیے بعض قوتیں انھیں اپنے لیے استعمال کرتی ہیں۔
جیسے بنگلہ دیش میں کرپشن ختم کرنے کے نام پر جنوری2007 میں دو سال کے لیے ٹیکنو کریٹس کی حکومت قائم کی گئی تھی۔ بنگلہ دیشی اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا کہ وہ عوام میں مقبول لیڈر شپ کو کرپٹ کہہ کرکے ان سے جان چھڑا لیں گے۔ اس وقت بنگلہ دیش کی دو مقبول سیاسی پارٹیاں عوامی لیگ اور نیشنل پارٹی تھیں اور ان کی قیادت شیخ حسینہ اور بیگم خالدہ ضیاء کر رہی تھیں۔ اس وقت بنگلہ دیش کے آرمی چیف معین الدین احمد تھے۔
جنھوں نے ''Two Minus'' کا کھیل کھیلا اور اس کے لیے سپریم کورٹ کا کندھا استعمال کیا اور دو سال کے لیے ٹیکنو کریٹس کی حکومت قائم ہوگئی۔ ٹیکنوکریٹس کی اس حکومت نے دو سال بنگلہ دیش میں خوب ادھم مچایا، کام کاج کیا کرنا تھا، بس اپنا دو سال کا وقت سیاست دانوں کو کرپٹ کہنے میں گزار دیا۔ غیر آئینی ٹیکنوکریٹ وزیر اعظم فخرالدین احمد نے آرمی چیف معین الدین احمد کو مدت ملازمت میں توسیع بھی دی۔ دو سال بعد جب جنوری 2009 میں الیکشن کرائے گئے تو جرنیلوں اور سپریم کورٹ کی طاقت عوام نے ادھیڑ کر رکھ دی اورعوام نے عوامی سیاست دانوں شیخ حسینہ اور بیگم خالدہ ضیاء کو ہی ووٹ دیے۔
بنگلہ دیش ٹیکنو کریٹ ماڈل چاروں شانے چت ہو گیا اور یہ بات ثابت ہو گئی کہ عوام اپنے منتخب کردہ سیاست دانوں کو ہی پسند کرتے ہیں۔ بنگلہ دیش کے بعد رومانیہ نے بھی حال ہی میں ٹیکنو کریٹ حکومت کا ناکام تجربہ کیا۔ نومبر 2015 میں ایک سیاسی بحران کے بعد یورپین یونین میں رومانیہ سے تعلق رکھنے والے زرعی کمشنر ڈاسیان سیالوس کو دارالحکومت بخارسٹ امپورٹ کیا گیا۔
جنھوں نے 21رکنی ''کرپشن فری'' ٹیکنوکریٹ حکومت بنائی لیکن اس حکومت نے ایک سال بعد ہی ہاتھ کھڑے کر دیے اور الیکشن کرا کر بھاگنے میں ہی عافیت جانی۔ جنوری 2017 میں ایک بار پھر عوام کے منتخب نمایندوں نے حکومت سنبھالی اور ٹیکنو کریٹ تجربہ کا وقت سے پہلے ہی اسقاط ہوگیا۔ اس وقت رومانیہ کی منتخب حکومت کو عوام کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ لہٰذایہ تجربہ نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہوگا کیوں کہ پاکستان اب دوبارہ کسی بڑی مصیبت کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
لہٰذا اب رہی بات دوبارہ الیکشن کرانے کی تو صاف سی بات ہے کہ دنیا بھر میں جب بھی کہیں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو یہ جمہوری عمل ہوتا ہے، اسے قبول کیا جانا چاہیے۔ پاکستان میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی ہے تو کیا ہوگیا ہے ۔ جو بھی حکومت ہوگی، اسے جانا الیکشن کی طرف ہی پڑے گا،آج نہیں تو کل ... اس لیے حقائق تسلیم کرکے سیاست کرنی چاہیے۔ خدارا ہوش کے ناخن لیں اور نظام کوچلنے دیں۔