بہتر سکیورٹی کے لئے اداروں کا باہمی تعاون ضروری
اس وقت سندھ میں ایک اعصاب شکن صورت حال ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے مرکز میں جو پالیسیاں بن رہی ہیں ، ان کے سندھ پر براہ راست اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
سندھ کا دار الحکومت کراچی گزشتہ تین عشروں سے بدترین دہشت گردی اور بد امنی کا شکار ہے ۔ ملک کے دیگر حصوں میں ہونے والی دہشت گردی کا اثر نہ صرف کراچی پر ہوتا ہے بلکہ کراچی کے حالات سے پورا ملک بھی متاثر ہوتا ہے کیونکہ دہشت گرد تنظیموں کا ایک دوسرے سے گٹھ جوڑ ہے ۔ طالبان کے ساتھ جب مذاکرات ہو رہے تھے اور حکومت اور طالبان کی طرف سے جنگ بندی کا اعلان بھی ہوگیا تھا ، تب بھی کراچی میں پولیس کے قافلے پر دہشت گردوںکا حملہ ہوا اور اس کی ذمہ داری طالبان کی طرف سے قبول کی گئی تھی۔
اسی اثناء میں ایف سی کے اہلکاروں کے قتل کی ویڈیو بھی جاری ہوگئی ، جس کی وجہ سے حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات ختم ہو گئے اور طالبان کے خلاف فوجی کارروائی شروع کردی گئی۔ فوجی کارروائی کے ممکنہ ردعمل کا جائزہ لینے کے لیے وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے گزشتہ ہفتے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلیٰ حکام کے ساتھ ایک ہنگامی اجلاس منعقد کیا۔ اس اجلاس میں دو باتوں کا خدشہ ظاہر کیا گیا۔
پہلی بات یہ تھی کہ فوجی ایکشن کا جواب دینے کے لیے طالبان کراچی سمیت پورے سندھ میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر سکتے ہیں ۔ عام خیال یہی ہے کہ کراچی میں طالبان کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں ۔ ایک غیر ملکی اخبار نے تو یہ رپورٹ بھی شائع کی ہے کہ کراچی کی تین یونین کونسلز کے علاقوں میں طالبان کا کنٹرول ہے، جہاں ان کی اپنی عدالتیں کام کرتی ہیں اور جہاں پولیس نہیں جا سکتی ہے ۔ اس حوالے سے متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کے ایک رکن سندھ اسمبلی نے گزشتہ ہفتے سندھ اسمبلی میں یہ مسئلہ اٹھایا تھا اور وزیر بلدیات و اطلاعات شرجیل انعام میمن نے ایم کیو ایم کے اس مؤقف کی تائید کی تھی کہ طالبان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہئے۔
شرجیل انعام میمن کا یہ بھی کہنا تھا کہ طالبان لاتوں کے بھوت ہیں ، جو باتوں سے نہیں مانتے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کے اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ طالبان کے ممکنہ ردعمل کو مد نظر رکھتے ہوئے سکیورٹی کے انتظامات سخت کر دیئے جائیں ۔ سندھ میں اہم سرکاری دفاتر ، تنصیبات ، سفارتخانوں ، عبادت گاہوں اور دیگر حساس جگہوں پر سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔
اس وقت سندھ میں ایک اعصاب شکن صورت حال ہے۔ انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹس کے مطابق دیگر دہشت گرد گروہ نہ صرف طالبان کی پشت پناہی کر رہے ہیں بلکہ حالات کو دوسرا رخ دینے کے لیے طالبان کی آڑ میں کارروائیاں بھی کر سکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایک انتہائی پیچیدہ صورت حال کا سامنا ہے ۔ انہیں ہر طرف نظر رکھنی پڑتی ہے ۔ ہائی الرٹ کی وجہ سے سکیورٹی فورسز کی توجہ حساس مقامات پر مرکوز ہو گئی ہے ۔ اس کے نتیجے میں کراچی میں پہلے سے سرگرم گروہوں کو اپنی کارروائیاں کرنے میں زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ شہر میں ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ ہو گیا ہے ۔ روزانہ تقریباً 10 سے 12 افراد دہشت گردی کا شکار ہو رہے ہیں اور پہلے کی طرح ہی یہ قتل عام بھی نامعلوم افراد کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں دوسرا یہ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ شمالی علاقہ جات میں فوجی ایکشن سے نقل مکانی ہو گی اور وہاں سے زیادہ تر لوگ کراچی کا رخ کریں گے ۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ شمالی علاقہ جات کے لوگ پہلے ہی کراچی میں موجود ہیں ۔ نقل مکانی کرکے آنے والے لوگ یہاں اپنے رشتے داروں کے ہاں پناہ لیتے ہیں اور کراچی میں روزگار بھی مل جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ نقل مکانی کرنے والے حقیقی متاثرہ لوگوں کی آڑ میں افغان پناہ گزینوں اور انتہا پسند عناصر کی سندھ میں یلغار ہو سکتی ہے ۔ اس یلغار سے صوبے میں مزید بد امنی کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
اجلاس میں یہ رپورٹ بھی دی گئی کہ حیدرآباد میں افغان پناہ گزین نہ صرف سرکاری زمینوں پر قابض ہو رہے ہیں بلکہ وہ وہاں غیر قانونی کاروبار بھی کر رہے ہیں ۔ یہ افغان باشندے پشتو سمیت پاکستان کی کوئی بھی زبان نہیں بول سکتے۔ اس رپورٹ کا نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے ڈی آئی جی پولیس حیدرآباد کو ہدایت کی کہ ان غیر قانونی تارکین وطن کو ایک ہفتے کے اندر اندر سندھ کی حدود سے باہر نکال دیا جائے ۔ وزیر اعلیٰ نے یہ بھی ہدایت کی کہ کوئی پاکستانی باشندہ اس کارروائی سے متاثر نہ ہو ۔ صرف غیر قانونی تارکین وطن کو ہی سندھ سے بے دخل کیا جائے۔
اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ سندھ و پنجاب اور سندھ و بلوچستان کی سرحدوں پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے جائیں اور وہاں چیکنگ کے لیے جدید آلات نصب کئے جائیں ۔ اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ داخلی اور خارجی راستوں پر تمام گاڑیوں کی چیکنگ ہو گی اور انتظامیہ و پولیس اس بات کی ذمہ دار ہو گی کہ غیر قانونی تارکین وطن سندھ میں داخل نہ ہو ں ۔ غیر قانونی تارکین وطن کی سندھ میں ممکنہ آمد کے خلاف قوم پرست حلقے بھی سخت تشویش کا اظہار کر رہے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اس آمد کو روکے کیونکہ سندھ اب مزید خونریزی اور بدامنی کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔ حکومت سندھ اپنے طور پر بہت کوشش کر رہی ہے کہ سندھ میں پہلے سے جاری دہشت گردی اور اس میں اضافے کے امکانات کا تدارک کرے لیکن معاملات انتہائی پیچیدہ ہیں۔
وفاقی حکومت کے اداروں اور صوبائی حکومت کے اداروں کے درمیان رابطوں کا فقدان ہے۔ کسٹمز ، ایف آئی اے ، بحری راستوں کی نگرانی کرنے والے اداروں اور دیگر وفاقی اداروں کی کارکردگی کراچی بدامنی کیس میں واضح ہو گئی ہے ۔ یہ بات سپریم کورٹ میں بھی کہی گئی ہے کہ جب تک یہ وفاقی ادارے اپنی کارکردگی کو درست نہیں کرتے، سندھ خصوصاً کراچی میں امن قائم نہیں ہو سکتا ہے۔ طالبان سے نمٹنے کی جو حکمت عملی وفاقی حکومت طے کرتی ہے، اس میں بڑے اسٹیک ہولڈرز یعنی صوبوں کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا ہے۔ اس پیچیدہ صورت حال میں سندھ کے لوگوں میں زبردست بے یقینی اور خوف کا احساس پایا جاتا ہے۔
سندھ کا دار الحکومت کراچی گزشتہ تین عشروں سے بدترین دہشت گردی اور بد امنی کا شکار ہے ۔ ملک کے دیگر حصوں میں ہونے والی دہشت گردی کا اثر نہ صرف کراچی پر ہوتا ہے بلکہ کراچی کے حالات سے پورا ملک بھی متاثر ہوتا ہے کیونکہ دہشت گرد تنظیموں کا ایک دوسرے سے گٹھ جوڑ ہے ۔ طالبان کے ساتھ جب مذاکرات ہو رہے تھے اور حکومت اور طالبان کی طرف سے جنگ بندی کا اعلان بھی ہوگیا تھا ، تب بھی کراچی میں پولیس کے قافلے پر دہشت گردوںکا حملہ ہوا اور اس کی ذمہ داری طالبان کی طرف سے قبول کی گئی تھی۔
اسی اثناء میں ایف سی کے اہلکاروں کے قتل کی ویڈیو بھی جاری ہوگئی ، جس کی وجہ سے حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات ختم ہو گئے اور طالبان کے خلاف فوجی کارروائی شروع کردی گئی۔ فوجی کارروائی کے ممکنہ ردعمل کا جائزہ لینے کے لیے وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے گزشتہ ہفتے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلیٰ حکام کے ساتھ ایک ہنگامی اجلاس منعقد کیا۔ اس اجلاس میں دو باتوں کا خدشہ ظاہر کیا گیا۔
پہلی بات یہ تھی کہ فوجی ایکشن کا جواب دینے کے لیے طالبان کراچی سمیت پورے سندھ میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر سکتے ہیں ۔ عام خیال یہی ہے کہ کراچی میں طالبان کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں ۔ ایک غیر ملکی اخبار نے تو یہ رپورٹ بھی شائع کی ہے کہ کراچی کی تین یونین کونسلز کے علاقوں میں طالبان کا کنٹرول ہے، جہاں ان کی اپنی عدالتیں کام کرتی ہیں اور جہاں پولیس نہیں جا سکتی ہے ۔ اس حوالے سے متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کے ایک رکن سندھ اسمبلی نے گزشتہ ہفتے سندھ اسمبلی میں یہ مسئلہ اٹھایا تھا اور وزیر بلدیات و اطلاعات شرجیل انعام میمن نے ایم کیو ایم کے اس مؤقف کی تائید کی تھی کہ طالبان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہئے۔
شرجیل انعام میمن کا یہ بھی کہنا تھا کہ طالبان لاتوں کے بھوت ہیں ، جو باتوں سے نہیں مانتے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کے اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ طالبان کے ممکنہ ردعمل کو مد نظر رکھتے ہوئے سکیورٹی کے انتظامات سخت کر دیئے جائیں ۔ سندھ میں اہم سرکاری دفاتر ، تنصیبات ، سفارتخانوں ، عبادت گاہوں اور دیگر حساس جگہوں پر سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔
اس وقت سندھ میں ایک اعصاب شکن صورت حال ہے۔ انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹس کے مطابق دیگر دہشت گرد گروہ نہ صرف طالبان کی پشت پناہی کر رہے ہیں بلکہ حالات کو دوسرا رخ دینے کے لیے طالبان کی آڑ میں کارروائیاں بھی کر سکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایک انتہائی پیچیدہ صورت حال کا سامنا ہے ۔ انہیں ہر طرف نظر رکھنی پڑتی ہے ۔ ہائی الرٹ کی وجہ سے سکیورٹی فورسز کی توجہ حساس مقامات پر مرکوز ہو گئی ہے ۔ اس کے نتیجے میں کراچی میں پہلے سے سرگرم گروہوں کو اپنی کارروائیاں کرنے میں زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ شہر میں ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ ہو گیا ہے ۔ روزانہ تقریباً 10 سے 12 افراد دہشت گردی کا شکار ہو رہے ہیں اور پہلے کی طرح ہی یہ قتل عام بھی نامعلوم افراد کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں دوسرا یہ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ شمالی علاقہ جات میں فوجی ایکشن سے نقل مکانی ہو گی اور وہاں سے زیادہ تر لوگ کراچی کا رخ کریں گے ۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ شمالی علاقہ جات کے لوگ پہلے ہی کراچی میں موجود ہیں ۔ نقل مکانی کرکے آنے والے لوگ یہاں اپنے رشتے داروں کے ہاں پناہ لیتے ہیں اور کراچی میں روزگار بھی مل جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ نقل مکانی کرنے والے حقیقی متاثرہ لوگوں کی آڑ میں افغان پناہ گزینوں اور انتہا پسند عناصر کی سندھ میں یلغار ہو سکتی ہے ۔ اس یلغار سے صوبے میں مزید بد امنی کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
اجلاس میں یہ رپورٹ بھی دی گئی کہ حیدرآباد میں افغان پناہ گزین نہ صرف سرکاری زمینوں پر قابض ہو رہے ہیں بلکہ وہ وہاں غیر قانونی کاروبار بھی کر رہے ہیں ۔ یہ افغان باشندے پشتو سمیت پاکستان کی کوئی بھی زبان نہیں بول سکتے۔ اس رپورٹ کا نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے ڈی آئی جی پولیس حیدرآباد کو ہدایت کی کہ ان غیر قانونی تارکین وطن کو ایک ہفتے کے اندر اندر سندھ کی حدود سے باہر نکال دیا جائے ۔ وزیر اعلیٰ نے یہ بھی ہدایت کی کہ کوئی پاکستانی باشندہ اس کارروائی سے متاثر نہ ہو ۔ صرف غیر قانونی تارکین وطن کو ہی سندھ سے بے دخل کیا جائے۔
اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ سندھ و پنجاب اور سندھ و بلوچستان کی سرحدوں پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے جائیں اور وہاں چیکنگ کے لیے جدید آلات نصب کئے جائیں ۔ اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ داخلی اور خارجی راستوں پر تمام گاڑیوں کی چیکنگ ہو گی اور انتظامیہ و پولیس اس بات کی ذمہ دار ہو گی کہ غیر قانونی تارکین وطن سندھ میں داخل نہ ہو ں ۔ غیر قانونی تارکین وطن کی سندھ میں ممکنہ آمد کے خلاف قوم پرست حلقے بھی سخت تشویش کا اظہار کر رہے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اس آمد کو روکے کیونکہ سندھ اب مزید خونریزی اور بدامنی کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔ حکومت سندھ اپنے طور پر بہت کوشش کر رہی ہے کہ سندھ میں پہلے سے جاری دہشت گردی اور اس میں اضافے کے امکانات کا تدارک کرے لیکن معاملات انتہائی پیچیدہ ہیں۔
وفاقی حکومت کے اداروں اور صوبائی حکومت کے اداروں کے درمیان رابطوں کا فقدان ہے۔ کسٹمز ، ایف آئی اے ، بحری راستوں کی نگرانی کرنے والے اداروں اور دیگر وفاقی اداروں کی کارکردگی کراچی بدامنی کیس میں واضح ہو گئی ہے ۔ یہ بات سپریم کورٹ میں بھی کہی گئی ہے کہ جب تک یہ وفاقی ادارے اپنی کارکردگی کو درست نہیں کرتے، سندھ خصوصاً کراچی میں امن قائم نہیں ہو سکتا ہے۔ طالبان سے نمٹنے کی جو حکمت عملی وفاقی حکومت طے کرتی ہے، اس میں بڑے اسٹیک ہولڈرز یعنی صوبوں کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا ہے۔ اس پیچیدہ صورت حال میں سندھ کے لوگوں میں زبردست بے یقینی اور خوف کا احساس پایا جاتا ہے۔