قومی اسمبلی میں نئے بل منظور
پاکستان میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو باقاعدہ ایک خود مختار ادارے کی حیثیت دی جائے اور اس کو وسیع اختیارات دیے جائیں
BRAZIL:
قومی اسمبلی نے گزشتہ روز الیکشن ایکٹ 2017 میں کی گئی ترامیم کے تحت اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کے حوالے سے سابق حکومت کی ترامیم کو مسترد کردیا ہے ، جب کہ حلقہ بندیوں اور پولنگ کے نظام کے حوالے سے مزید قانون سازی بھی انتخابی اصلاحات کمیٹی کے ذریعے لائی جائے گی۔
اس موقع پر ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے یہ تاثر مسترد کردیا کہ اس ترمیم کا مقصد بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ان کے حق رائے دہی سے محروم کرنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں اور حکومت ان کا ووٹ کا حق چھیننے پر یقین نہیں رکھتی۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے ای وی ایم مشین پر اعتراضات کا سلسلہ اس وقت سے چل رہا تھا جب سے سابقہ پی ٹی آئی حکومت نے اگلے الیکشن الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے کرانے کی منظوری قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت کے بل بوتے پر حاصل کی تھی۔ اسی تناظر میں سب سے پہلا اعتراض الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے کیا گیا تھا ، جس کے مطابق بڑے پیمانے پر الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی پروکیورمنٹ بھی ایک مشکل کام ہے۔
اتنی قلیل مدت میں ای وی ایم کا استعمال بھی ممکن نظر نہیں آ رہا تھا ، جب کہ اپوزیشن کا کہناتھا کہ2018 کے انتخابات میں جب آر ٹی ایس سسٹم یکدم بیٹھ سکتا ہے اور پھر نتائج بدل دیے جاتے ہیں تو پھر کیونکر الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا کوئی تجربہ کیے بغیر کیسے اس کے نتائج پر انحصار، اعتماد اور یقین کیا جاسکتا ہے۔ یہ مسئلہ بلاشبہ وجہ تنازع تھا اور اب بھی ہے۔ ویسے اس وقت دنیا کے 31 ممالک ایسے ہیں جہاں ای وی ایم کا استعمال ہوتا ہے یا ہوچکا ہے۔
ان میں بھارت ، برازیل ،بیلجئیم ، امریکا ، اسپین ، کینیڈا ، سوئٹزر لینڈ ، بنگلہ دیش، آسٹریلیا ، فرانس، ایران ، عراق ، جنوبی کوریا ، میکسیکو ، نیوزی لینڈ ، بھوٹان اور نائیجیریا سمیت دیگر ممالک شامل ہیں۔ فن لینڈ میں 2008 میں ووٹنگ مشینوں کا تجربہ کیا گیا تاہم 17-2016میں انٹر نیٹ ووٹنگ کے خلاف خطرات بڑھنے پر اس کو مسترد کر دیا گیا،14 ملکوں میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال کیا جا رہا ہے جب کہ 11 ممالک کے کچھ حصوں میں اس مشین کا تجربہ کیا جارہا ہے،5 ممالک میں اس مشین کے پائلٹ منصوبوں پر کام جاری ہے،
8ممالک میں پائلٹ پروجیکٹس کے بعد ای وی ایم کو استعمال نہیں کیا جا رہا ، جب کہ جرمنی ،ہالینڈ ،اٹلی ،فرانس ،آئرلینڈ ،فن لینڈ ، قازقستان اور ناروے میں ای وی ایم کا استعمال روک دیا گیا ، بھارت میں تجرباتی طور پر1998 اور قومی سطح پر2004سے ای وی ایم کا استعمال جاری ہے، بھارتی الیکشن کمیشن نے مرحلہ وار ووٹنگ سسٹم کو منتخب حلقوں میں استعمال کیا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھارت میں الیکٹرانک ووٹنگ کے نظام اور مشینوں میں بہتری لائی گئی جب کہ بھارت میں 2019 کے عام انتخابات میں اپوزیشن نے مودی سرکار پر بڑے پیمانے پر الیکٹرانک مشینوں میں فراڈ کے الزامات لگائے۔
ماہرین کے مطابق الیکشن میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی بات اپنی جگہ لیکن جرمنی ، فرانس سمیت دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال روک چکے ہیں، بھارت میں بھی ای وی ایم پر ہونے والے انتخابات الزامات کی زد میں رہے۔ دوسرا موقف یہ ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے بارے میں یہ فرض کرنا کہ یہ مشینیں دنیا بھر میں کہیں استعمال نہیں کی جاتیں سرے سے غلط ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ان مشینوں کا اصل فائدہ ان ممالک میں ہے جہاں آبادی بہت زیادہ ہے اور وہاں پر جمہوری نظام بھی رائج ہے اور حقیقت یہ ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں اس وقت بھی دنیا کے تقریبا تمام بڑے جمہوری ممالک میں زیر استعمال ہیں۔ ہم خوب جانتے ہیں کہ پورے ملک میں انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں ہے ، بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ بھی اپنی جگہ موجود ہے ، جب تک الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا باقاعدہ ٹیسٹ ضمنی انتخابات میں نہیں کیا جاتا ، اس وقت تک کوئی اس سے مطمئن نہیں ہوگا ، اور نہ ہی اس مشین کے نقائص سامنے آسکیں گے ۔
حرف آخر ، ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو باقاعدہ ایک خود مختار ادارے کی حیثیت دی جائے اور اس کو وسیع اختیارات دیے جائیں تاکہ وہ ملک میں شفاف انتخابی عمل کو یقینی بنانے میں اپنا اہم ترین کردار بحسن و خوبی ادا کرسکے۔
قومی اسمبلی نے گزشتہ روز الیکشن ایکٹ 2017 میں کی گئی ترامیم کے تحت اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کے حوالے سے سابق حکومت کی ترامیم کو مسترد کردیا ہے ، جب کہ حلقہ بندیوں اور پولنگ کے نظام کے حوالے سے مزید قانون سازی بھی انتخابی اصلاحات کمیٹی کے ذریعے لائی جائے گی۔
اس موقع پر ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے یہ تاثر مسترد کردیا کہ اس ترمیم کا مقصد بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ان کے حق رائے دہی سے محروم کرنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں اور حکومت ان کا ووٹ کا حق چھیننے پر یقین نہیں رکھتی۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے ای وی ایم مشین پر اعتراضات کا سلسلہ اس وقت سے چل رہا تھا جب سے سابقہ پی ٹی آئی حکومت نے اگلے الیکشن الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے کرانے کی منظوری قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت کے بل بوتے پر حاصل کی تھی۔ اسی تناظر میں سب سے پہلا اعتراض الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے کیا گیا تھا ، جس کے مطابق بڑے پیمانے پر الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی پروکیورمنٹ بھی ایک مشکل کام ہے۔
اتنی قلیل مدت میں ای وی ایم کا استعمال بھی ممکن نظر نہیں آ رہا تھا ، جب کہ اپوزیشن کا کہناتھا کہ2018 کے انتخابات میں جب آر ٹی ایس سسٹم یکدم بیٹھ سکتا ہے اور پھر نتائج بدل دیے جاتے ہیں تو پھر کیونکر الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا کوئی تجربہ کیے بغیر کیسے اس کے نتائج پر انحصار، اعتماد اور یقین کیا جاسکتا ہے۔ یہ مسئلہ بلاشبہ وجہ تنازع تھا اور اب بھی ہے۔ ویسے اس وقت دنیا کے 31 ممالک ایسے ہیں جہاں ای وی ایم کا استعمال ہوتا ہے یا ہوچکا ہے۔
ان میں بھارت ، برازیل ،بیلجئیم ، امریکا ، اسپین ، کینیڈا ، سوئٹزر لینڈ ، بنگلہ دیش، آسٹریلیا ، فرانس، ایران ، عراق ، جنوبی کوریا ، میکسیکو ، نیوزی لینڈ ، بھوٹان اور نائیجیریا سمیت دیگر ممالک شامل ہیں۔ فن لینڈ میں 2008 میں ووٹنگ مشینوں کا تجربہ کیا گیا تاہم 17-2016میں انٹر نیٹ ووٹنگ کے خلاف خطرات بڑھنے پر اس کو مسترد کر دیا گیا،14 ملکوں میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال کیا جا رہا ہے جب کہ 11 ممالک کے کچھ حصوں میں اس مشین کا تجربہ کیا جارہا ہے،5 ممالک میں اس مشین کے پائلٹ منصوبوں پر کام جاری ہے،
8ممالک میں پائلٹ پروجیکٹس کے بعد ای وی ایم کو استعمال نہیں کیا جا رہا ، جب کہ جرمنی ،ہالینڈ ،اٹلی ،فرانس ،آئرلینڈ ،فن لینڈ ، قازقستان اور ناروے میں ای وی ایم کا استعمال روک دیا گیا ، بھارت میں تجرباتی طور پر1998 اور قومی سطح پر2004سے ای وی ایم کا استعمال جاری ہے، بھارتی الیکشن کمیشن نے مرحلہ وار ووٹنگ سسٹم کو منتخب حلقوں میں استعمال کیا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھارت میں الیکٹرانک ووٹنگ کے نظام اور مشینوں میں بہتری لائی گئی جب کہ بھارت میں 2019 کے عام انتخابات میں اپوزیشن نے مودی سرکار پر بڑے پیمانے پر الیکٹرانک مشینوں میں فراڈ کے الزامات لگائے۔
ماہرین کے مطابق الیکشن میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی بات اپنی جگہ لیکن جرمنی ، فرانس سمیت دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال روک چکے ہیں، بھارت میں بھی ای وی ایم پر ہونے والے انتخابات الزامات کی زد میں رہے۔ دوسرا موقف یہ ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے بارے میں یہ فرض کرنا کہ یہ مشینیں دنیا بھر میں کہیں استعمال نہیں کی جاتیں سرے سے غلط ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ان مشینوں کا اصل فائدہ ان ممالک میں ہے جہاں آبادی بہت زیادہ ہے اور وہاں پر جمہوری نظام بھی رائج ہے اور حقیقت یہ ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں اس وقت بھی دنیا کے تقریبا تمام بڑے جمہوری ممالک میں زیر استعمال ہیں۔ ہم خوب جانتے ہیں کہ پورے ملک میں انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں ہے ، بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ بھی اپنی جگہ موجود ہے ، جب تک الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا باقاعدہ ٹیسٹ ضمنی انتخابات میں نہیں کیا جاتا ، اس وقت تک کوئی اس سے مطمئن نہیں ہوگا ، اور نہ ہی اس مشین کے نقائص سامنے آسکیں گے ۔
حرف آخر ، ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو باقاعدہ ایک خود مختار ادارے کی حیثیت دی جائے اور اس کو وسیع اختیارات دیے جائیں تاکہ وہ ملک میں شفاف انتخابی عمل کو یقینی بنانے میں اپنا اہم ترین کردار بحسن و خوبی ادا کرسکے۔