پھر دھرنا …
یہ رہنما آخری وقت تک یہ راگ الاپتے رہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت ایک صفحہ پر ہے
DOHA:
عمران خان اپنے لانگ مارچ اور دھرنے کے لیے 20 لاکھ افراد جمع نہ کرسکے۔ عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی کی گئی ، کارکن ریڈ زون میں داخل ہوئے ، عمران خان نے حکومت کو چھ دن کا الٹی میٹم دیا اور بنی گالا چلے گئے۔
انتخابات کی تاریخ نہ ملی اور یوٹرن لے لیا۔ پولیس ایکشن کی بناء پر چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال ہوا۔ اس دفعہ تحریک انصاف کے کارکنوں نے پولیس کی گاڑیوں کو نذرِ آتش کرنے کے علاوہ درخت اور گرین بیلٹ کو بھی نذرِ آتش کرکے اپنے قائد کی کروڑوں درخت لگانے کی مہم کو کامیاب کر دیا۔ اس دفعہ بھی صحافیوں پر حملے ہوئے اور کچھ دفاتر پر پتھراؤ ہوا ، خواتین صحافیوں کی بے عزتی کی گئی۔
عمران خان دھرنا کے ذریعے ایک قانونی حکومت کو مجبور کر کے وزیر اعظم ہاؤس میں قیام کرنا چاہتے تھے ، وہ گزشتہ تین ماہ سے یہ الزام لگا رہے ہیں کہ امریکا کی حکومت کی سازش کی بناء پر ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور ہوئی۔ گزشتہ مہینہ سے ہر ہفتہ پنجاب اور خیبر پختون خوا کے ہر شہر میں لوگوں کے سامنے یہ بیانیہ رکھ رہے ہیں کہ میر جعفر اور میر صادق کو وہ معاف نہیں کریں گے اور ان کے خلاف سازش کرنے والوں کے جنازے نہیں اٹھیں گے۔ اس سے قبل انھوں نے یہ بھی فرمایا کہ تحریک انصاف کے منحرفین کے بچوں کو رشتے نہیں ملیں گے۔
انھوں نے سی این این کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکی حکومت سے میرا مطالبہ ہے کہ وہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے افسر ڈونلڈ لو کو برطرف کردے۔ مسٹر لو اب بھی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے جنوبی اور وسطی ایشیاء کے انچارج ہیں۔ واشنگٹن میں پاکستان کے سابق سفیر نے امریکا سے رخصت سے پہلے ایک کیفے میں ظہرانہ پر مسٹر لو کو مدعو کیا تھا۔ اس لنچ میں واشنگٹن کے پاکستانی سفارت خانہ میں تعینات پاکستان کے ایک اتاشی بھی موجود تھے۔
اس لنچ میں ہونے والی گفتگو پر مشتمل کیبل پاکستانی سفیر نے اسلام آباد کو بھیجا تھا۔ دو دن بعد یہ کیبل وزیر اعظم عمران خان کو پیش کیا گیا تھا اور انھوں نے بیس دن بعد امریکی سازش کا انکشاف کیا تھا مگر ان کا امریکی حکومت سے مسٹر لو کی برطرفی کے مطالبے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ صرف مسٹر لو کو اس سازش کا ذمے دار سمجھتے ہیں اور امریکا کی حکومت اس سازش میں ملوث نہیں ہے۔ عمران خان نے اس انٹرویو میں ساری ذمے داری مسٹر لو پر ڈالی تو پھر یو ٹرن لیا ہے جس کے وہ عادی ہیں۔
2013 کے انتخابات کے بعد میاں نواز شریف اقتدار میں آئے تو انھوں نے قریبی ممالک سے تعلقات کو بہتر بنانے کی پالیسی اختیار کی۔ میاں نواز شریف نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے رابطہ کیا اور دو طرفہ تعلقات خاص طور پر تجارت کو بڑھانے پر زور دیا گیا۔ میاں نواز شریف نے افغانستان کے صدر اشرف غنی کے ساتھ بھی خوشگوار تعلقات کے لیے پیش رفت کی تھی اور افغانستان کی شکایات پر توجہ دینے کی یقین دہانی کرائی۔ اس وقت کے صدر ممنون حسین نے افغانستان کا دورہ کیا تھا اور صدر ممنون حسین کے اس دورہ میں افغانستان اور پاکستان کے تاجروں کے درمیان کئی مفاہمتی یادداشتوں (M.O.Us) پر اتفاق ہوا۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی نواسی کی مہندی میں شرکت کے لیے بغیر پیشگی اعلان کے لاہور آئے اور جاتی امراء گئے ، ایران کے اس وقت کے صدر نے بھی پاکستان کا دورہ کیا تھا۔
میاں صاحب کی آزاد خارجہ پالیسی خاص طور پر پڑوسی ممالک سے معمول کے تعلقات کی پالیسی آسمانوں سے بجلیاں گرانے والی قوتوں کو پسند نہ آئیں، اچانک مختلف جماعتوں سے لوگ تحریک انصاف میں شامل ہونے لگے۔ اس ہجرت سے فوری طور پر مسلم لیگ ق متاثر ہوئی تھی۔
پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے تو میڈیا کے سامنے شکوہ کیا تھا کہ ان کے اراکین کو تحریک انصاف میں لے جایا گیا ہے۔ عمران خان نے لاہور سے لانگ مارچ کا فیصلہ کیا۔ بڑے بڑے سرمایہ داروں کی مالیاتی مدد عمران خان کو حاصل تھی ، یوں صاحب ثروت افراد کی اربوں روپے کی مالیاتی اعانت سے عمران خان کا کارواں اسلام آباد کی طرف بڑھا تھا ۔ بی بی سی کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف نے اس دھرنے کے لیے 50لاکھ جھنڈے تیار کرائے تھے اور ہر جھنڈے پر 280 روپے لاگت آئی۔
دھرنا پر ہونے والے اخراجات کی یہ رقم کس نے فراہم کی اس پر خاموشی ہے۔ اس وقت مسلم لیگ ن کی حکومت نے مارچ پر کسی قسم کی قدغن نہیں لگائی تھی، یوں عمران خان کا مارچ اسلام آباد میں ریڈ زون میں داخل ہوا۔ دھرنے والے پارلیمنٹ ہاؤس، ایوان صدر اور سپریم کورٹ کے سامنے چھ ماہ تک مقیم رہے۔ دھرنا میں شریک ہونے والے افراد اپنے کپڑے دھوکر سپریم کورٹ کی عمارت کی دیواروں پر لٹکاتے تھے۔ دھرنا کے شرکاء نے ایک دن پاکستانی ٹیلی وژن کی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی۔ ایک نجی ٹی وی چینل ، عمران خان کے کارکنوں کے غضب کا شکار ہوا تھا۔
اس دھرنا کو کور کرنے والے بعض صحافی کہتے تھے کہ اس وقت عمران خان اور دیگر رہنماؤں سے بڑے افسروں کے مسلسل رابطے تھے۔ نیشنل پارٹی کے سابق صدر اور سابق وفاقی وزیر حاصل بزنجو اس وفد میں شامل تھے جو عمران خان سے دھرنا ختم کرنے کے لیے مذاکرات کر رہے تھے۔ حاصل بزنجو مرحوم نے بتایا کہ کنٹینر پر جب وہ عمران خان سے پہلی دفعہ ملے تو عمران خان ان افسروں کو برا بھلا کہہ رہے تھے جنہوں نے عمران خان کو دھرنا دینے کا مشورہ دیا تھا۔ اس وقت سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس پر مشتمل ایک کمیشن نے عمران خان کے مطالبے پر 2013ء کے انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات کی تحقیقات کی تھی۔ کمیشن نے عمران خان کے الزامات کو غلط قرار دیا تھا۔
وزیر اعظم شہباز شریف گزشتہ ہفتہ کراچی آئے تھے۔ انھوں نے تاجروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان کی حکومت کو جتنی حمایت اسٹیبلشمنٹ سے ملی اتنی حمایت کسی اور حکومت کو نہیں ملی، اگر باقی حکومتوں کو بھی یہ حمایت مل جاتی تو ملک بے پناہ ترقی کرتا۔ شہباز شریف کے اس بیان کی گزشتہ چار برسوں کے دوران وزیر اعظم عمران خان اور وزیر داخلہ شیخ رشید کے بیانات سے تصدیق ہوتی ہے۔
یہ رہنما آخری وقت تک یہ راگ الاپتے رہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت ایک صفحہ پر ہے۔ شیخ رشید تو یہ تک کہتے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی برسوں کے لیے ہوتی ہے مگر جب متحدہ حزب اختلاف نے تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں پیش کی تو عمران خان نے جلسوں میں ہی مختلف بیانیہ اختیار کیا اور اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں مداخلت کی دعوت دی تھی۔
پاکستان کے سیاسی نظام کے کمزور ہونے کی بنیادی وجہ بھی اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت رہی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ تحریک انصاف کے سنجیدہ رہنماؤں کو صورتحال کا ادراک کرنا چاہیے اور تمام سیاسی جماعتوں کو جمہوریت اور معیشت کے بارے میں ایک نئے میثاق پر بحث و مباحثہ شروع کرنا چاہیے۔
عمران خان اپنے لانگ مارچ اور دھرنے کے لیے 20 لاکھ افراد جمع نہ کرسکے۔ عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی کی گئی ، کارکن ریڈ زون میں داخل ہوئے ، عمران خان نے حکومت کو چھ دن کا الٹی میٹم دیا اور بنی گالا چلے گئے۔
انتخابات کی تاریخ نہ ملی اور یوٹرن لے لیا۔ پولیس ایکشن کی بناء پر چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال ہوا۔ اس دفعہ تحریک انصاف کے کارکنوں نے پولیس کی گاڑیوں کو نذرِ آتش کرنے کے علاوہ درخت اور گرین بیلٹ کو بھی نذرِ آتش کرکے اپنے قائد کی کروڑوں درخت لگانے کی مہم کو کامیاب کر دیا۔ اس دفعہ بھی صحافیوں پر حملے ہوئے اور کچھ دفاتر پر پتھراؤ ہوا ، خواتین صحافیوں کی بے عزتی کی گئی۔
عمران خان دھرنا کے ذریعے ایک قانونی حکومت کو مجبور کر کے وزیر اعظم ہاؤس میں قیام کرنا چاہتے تھے ، وہ گزشتہ تین ماہ سے یہ الزام لگا رہے ہیں کہ امریکا کی حکومت کی سازش کی بناء پر ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور ہوئی۔ گزشتہ مہینہ سے ہر ہفتہ پنجاب اور خیبر پختون خوا کے ہر شہر میں لوگوں کے سامنے یہ بیانیہ رکھ رہے ہیں کہ میر جعفر اور میر صادق کو وہ معاف نہیں کریں گے اور ان کے خلاف سازش کرنے والوں کے جنازے نہیں اٹھیں گے۔ اس سے قبل انھوں نے یہ بھی فرمایا کہ تحریک انصاف کے منحرفین کے بچوں کو رشتے نہیں ملیں گے۔
انھوں نے سی این این کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکی حکومت سے میرا مطالبہ ہے کہ وہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے افسر ڈونلڈ لو کو برطرف کردے۔ مسٹر لو اب بھی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے جنوبی اور وسطی ایشیاء کے انچارج ہیں۔ واشنگٹن میں پاکستان کے سابق سفیر نے امریکا سے رخصت سے پہلے ایک کیفے میں ظہرانہ پر مسٹر لو کو مدعو کیا تھا۔ اس لنچ میں واشنگٹن کے پاکستانی سفارت خانہ میں تعینات پاکستان کے ایک اتاشی بھی موجود تھے۔
اس لنچ میں ہونے والی گفتگو پر مشتمل کیبل پاکستانی سفیر نے اسلام آباد کو بھیجا تھا۔ دو دن بعد یہ کیبل وزیر اعظم عمران خان کو پیش کیا گیا تھا اور انھوں نے بیس دن بعد امریکی سازش کا انکشاف کیا تھا مگر ان کا امریکی حکومت سے مسٹر لو کی برطرفی کے مطالبے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ صرف مسٹر لو کو اس سازش کا ذمے دار سمجھتے ہیں اور امریکا کی حکومت اس سازش میں ملوث نہیں ہے۔ عمران خان نے اس انٹرویو میں ساری ذمے داری مسٹر لو پر ڈالی تو پھر یو ٹرن لیا ہے جس کے وہ عادی ہیں۔
2013 کے انتخابات کے بعد میاں نواز شریف اقتدار میں آئے تو انھوں نے قریبی ممالک سے تعلقات کو بہتر بنانے کی پالیسی اختیار کی۔ میاں نواز شریف نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے رابطہ کیا اور دو طرفہ تعلقات خاص طور پر تجارت کو بڑھانے پر زور دیا گیا۔ میاں نواز شریف نے افغانستان کے صدر اشرف غنی کے ساتھ بھی خوشگوار تعلقات کے لیے پیش رفت کی تھی اور افغانستان کی شکایات پر توجہ دینے کی یقین دہانی کرائی۔ اس وقت کے صدر ممنون حسین نے افغانستان کا دورہ کیا تھا اور صدر ممنون حسین کے اس دورہ میں افغانستان اور پاکستان کے تاجروں کے درمیان کئی مفاہمتی یادداشتوں (M.O.Us) پر اتفاق ہوا۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی نواسی کی مہندی میں شرکت کے لیے بغیر پیشگی اعلان کے لاہور آئے اور جاتی امراء گئے ، ایران کے اس وقت کے صدر نے بھی پاکستان کا دورہ کیا تھا۔
میاں صاحب کی آزاد خارجہ پالیسی خاص طور پر پڑوسی ممالک سے معمول کے تعلقات کی پالیسی آسمانوں سے بجلیاں گرانے والی قوتوں کو پسند نہ آئیں، اچانک مختلف جماعتوں سے لوگ تحریک انصاف میں شامل ہونے لگے۔ اس ہجرت سے فوری طور پر مسلم لیگ ق متاثر ہوئی تھی۔
پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے تو میڈیا کے سامنے شکوہ کیا تھا کہ ان کے اراکین کو تحریک انصاف میں لے جایا گیا ہے۔ عمران خان نے لاہور سے لانگ مارچ کا فیصلہ کیا۔ بڑے بڑے سرمایہ داروں کی مالیاتی مدد عمران خان کو حاصل تھی ، یوں صاحب ثروت افراد کی اربوں روپے کی مالیاتی اعانت سے عمران خان کا کارواں اسلام آباد کی طرف بڑھا تھا ۔ بی بی سی کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف نے اس دھرنے کے لیے 50لاکھ جھنڈے تیار کرائے تھے اور ہر جھنڈے پر 280 روپے لاگت آئی۔
دھرنا پر ہونے والے اخراجات کی یہ رقم کس نے فراہم کی اس پر خاموشی ہے۔ اس وقت مسلم لیگ ن کی حکومت نے مارچ پر کسی قسم کی قدغن نہیں لگائی تھی، یوں عمران خان کا مارچ اسلام آباد میں ریڈ زون میں داخل ہوا۔ دھرنے والے پارلیمنٹ ہاؤس، ایوان صدر اور سپریم کورٹ کے سامنے چھ ماہ تک مقیم رہے۔ دھرنا میں شریک ہونے والے افراد اپنے کپڑے دھوکر سپریم کورٹ کی عمارت کی دیواروں پر لٹکاتے تھے۔ دھرنا کے شرکاء نے ایک دن پاکستانی ٹیلی وژن کی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی۔ ایک نجی ٹی وی چینل ، عمران خان کے کارکنوں کے غضب کا شکار ہوا تھا۔
اس دھرنا کو کور کرنے والے بعض صحافی کہتے تھے کہ اس وقت عمران خان اور دیگر رہنماؤں سے بڑے افسروں کے مسلسل رابطے تھے۔ نیشنل پارٹی کے سابق صدر اور سابق وفاقی وزیر حاصل بزنجو اس وفد میں شامل تھے جو عمران خان سے دھرنا ختم کرنے کے لیے مذاکرات کر رہے تھے۔ حاصل بزنجو مرحوم نے بتایا کہ کنٹینر پر جب وہ عمران خان سے پہلی دفعہ ملے تو عمران خان ان افسروں کو برا بھلا کہہ رہے تھے جنہوں نے عمران خان کو دھرنا دینے کا مشورہ دیا تھا۔ اس وقت سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس پر مشتمل ایک کمیشن نے عمران خان کے مطالبے پر 2013ء کے انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات کی تحقیقات کی تھی۔ کمیشن نے عمران خان کے الزامات کو غلط قرار دیا تھا۔
وزیر اعظم شہباز شریف گزشتہ ہفتہ کراچی آئے تھے۔ انھوں نے تاجروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان کی حکومت کو جتنی حمایت اسٹیبلشمنٹ سے ملی اتنی حمایت کسی اور حکومت کو نہیں ملی، اگر باقی حکومتوں کو بھی یہ حمایت مل جاتی تو ملک بے پناہ ترقی کرتا۔ شہباز شریف کے اس بیان کی گزشتہ چار برسوں کے دوران وزیر اعظم عمران خان اور وزیر داخلہ شیخ رشید کے بیانات سے تصدیق ہوتی ہے۔
یہ رہنما آخری وقت تک یہ راگ الاپتے رہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت ایک صفحہ پر ہے۔ شیخ رشید تو یہ تک کہتے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی برسوں کے لیے ہوتی ہے مگر جب متحدہ حزب اختلاف نے تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں پیش کی تو عمران خان نے جلسوں میں ہی مختلف بیانیہ اختیار کیا اور اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں مداخلت کی دعوت دی تھی۔
پاکستان کے سیاسی نظام کے کمزور ہونے کی بنیادی وجہ بھی اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت رہی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ تحریک انصاف کے سنجیدہ رہنماؤں کو صورتحال کا ادراک کرنا چاہیے اور تمام سیاسی جماعتوں کو جمہوریت اور معیشت کے بارے میں ایک نئے میثاق پر بحث و مباحثہ شروع کرنا چاہیے۔