نہ روکی جا سکنے والی کلنگ
کراچی میں کوئی محفوظ نہیں ہے اور شہریوں کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار اور رینجرز خود محفوظ نہیں ہیں
سماجی رہنما حامد خان جمعے کی نماز پڑھنے مسجد میں حسب معمول آئے تو انھیں علم نہیں تھا کہ مسجد کے باہر کھڑے نامعلوم قاتل ان کی تاک میں ہیں۔ سیکڑوں افراد کی موجودگی میں دو موٹر سائیکلوں پر سوار چار افراد نے گولیاں برسا دیں۔ فائرنگ سے بھگدڑ مچی، حامد اور ان کے ساتھی لمحوں میں فائرنگ کا نشانہ بن کر بے جان ہو کر گرے اور ملزمان فرار ہو گئے۔ کچھ نمازیوں نے ملزموں کا راستہ روکنے کی کوشش کی مگر قاتلوں کی ہوائی فائرنگ سے خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹ گئے اور نامعلوم قاتل دن دہاڑے گنجان علاقے میں دو افراد کو قتل اور ایک کو زخمی کر کے کامیابی سے فرار ہو چکے تھے۔ گزشتہ جمعے کو ڈپٹی کمشنر ایسٹ کے دفتر کے برابر مسجد کے لیے مختص سڑک کنارے جگہ پر سیکڑوں افراد نے نماز کی ادائیگی کے بعد سلام پھیرا تو حیران رہ گئے کہ فٹ پاتھ پر درجن کے قریب مسلح کمانڈوز کھڑے تھے جو ان نمازیوں کی حفاظت کے لیے نہیں بلکہ اپنے صاحب کی حفاظت کے لیے آئے تھے اور صاحب کے نماز جمعہ ادا کرتے ہی انھیں اپنی حفاظت میں لے کر چلے گئے۔
کسی ایک وی آئی پی کی حفاظت پر مامور درجن بھر کمانڈو متعین کیے جاتے ہیں تو کہیں ہزاروں اور سیکڑوں کی تعداد میں نماز پڑھنے والوں کے لیے ایک سپاہی بھی تعینات نہیں کیا جاتا۔ ہزاروں افراد کو لاوارث چھوڑ دیا جاتا ہے خود تھانوں یا اپنے دفاتر میں حفاظتی اسکواڈ میں محصور رہنے والے عوام کے ٹیکسوں سے نہ صرف تنخواہیں وصول کرتے ہیں بلکہ ان کی حفاظت پر مامور اہلکاروں کی مجموعی تنخواہ ان کے افسر کی تنخواہ سے بھی کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ ٹیکس دینے والے عوام دہشت گردوں کے رحم و کرم پر ہیں، صرف عید اور بقر عید پر نماز عید کے وقت کچھ اہلکار عوام کی حفاظت کے لیے ضرور تعینات کر دیے جاتے ہیں مگر نماز جمعہ کے اجتماعات میں صرف ان جگہوں پر ہی پولیس اہلکار تعینات کیے جاتے ہیں جہاں کسی وی آئی پی نے نماز ادا کرنی ہوتی ہے۔
کراچی میں امن و امان کی بہتری کے لیے جو ٹارگٹڈ آپریشن گزشتہ 6 ماہ سے جاری ہے اس کے وہ نتائج برآمد نہیں ہوئے جس کی عوامی اور سیاسی طور پر توقع کی جا رہی تھی۔ صرف سندھ حکومت کے کرتا دھرتا ہی اس آپریشن سے مطمئن ہیں جن کے آپریشن کی حمایت میں بیانات میڈیا پر نظر آتے ہیں جب کہ حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ تاجر اغوا ہو کر تاوان ادا کر کے ہی واپس آ رہے ہیں۔ بھتہ خوری میں عارضی کمی آئی تھی وہ اب بھی پہلے کی طرح کامیابی سے جاری ہے۔ آپریشن میں پولیس کا جانی نقصان جتنا ہوا ہے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ ٹارگٹڈ کلنگ درجن کے لگ بھگ چلی آ رہی ہے کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب شہر میں کوئی قتل نہ ہوتا ہو۔ سرکاری اہلکاروں کے جانی نقصان پر حکومت معاوضے کا اعلان کر دیتی ہے مگر عام لوگوں کی جانوں کی قیمت حکومت کے نزدیک کچھ ہے ہی نہیں اور حکومت ان کے لیے کسی امداد کا اعلان نہیں کرتی۔ سیاسی اور فرقہ پرستی کی بنیاد پر بھی قتل کی وارداتوں کو روکا نہیں جا سکا ہے اور شہر بھر میں یہ تاثر عام ہو چکا ہے کہ کراچی میں کوئی محفوظ نہیں ہے اور شہریوں کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار اور رینجرز خود محفوظ نہیں ہیں اور انھوں نے اپنی حفاظت کے لیے ہر ممکن انتظامات کیے ہوئے ہیں مگر اس کے باوجود دہشت گرد انھیں موقع ملتے ہی نشانہ بنا لیتے ہیں۔
کراچی بدامنی کیس میں سپریم کورٹ میں سماعت کے موقعے پر گرفتاریوں کے جو اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں ان پر ججوں نے جو تاثرات اور ریمارکس دیے وہ اس آپریشن پر سوالیہ نشان ہیں۔ دس ہزار سے زائد ملزموں کی گرفتاری ظاہر کی گئی ہے جن میں دو سو سے کم ملزمان دہشت گردی کی عدالتوں میں چالان ہوئے مگر سزا کسی کو نہیں ہوئی اور الزام عدلیہ پر تھوپ دیا جاتا ہے کہ وہ ملزموں کو ضمانت پر چھوڑ رہی ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کراچی کی صورتحال کے بارے میں جو سخت ریمارکس دیے وہ بھی کراچی انتظامیہ اور صوبائی حکومت کی آنکھیں نہیں کھول سکے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے خود کو محفوظ بنانے کے بعد کراچی کے شہریوں کو محفوظ بنانے پر توجہ نہیں دے رہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کہہ چکے ہیں کہ کراچی پر مختلف مافیاز اور دہشت گردوں کا قبضہ ہے جہاں چلنے والی آدھی سے زیادہ گاڑیاں غیر رجسٹرڈ اور غیر قانونی طور پر چل رہی ہیں۔ سپریم کورٹ نے کراچی کی صورتحال پر سابق چیف جسٹس کے دور میں جو توجہ دی تھی وہ برقرار ہے اور نئے چیف جسٹس نے بھی کراچی کی صورتحال کو تشویشناک قرار دے کر مختلف محکموں سے جواب طلب کیے ہیں مگر سندھ حکومت کراچی کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی اور محض بیان بازیوں سے کام چلا رہی ہے۔
کراچی کے لوگ پولیس کے بعد اب رینجرز کے کردار سے بھی مطمئن نہیں ہیں اور کراچی میں رینجرز کے ہاتھوں ایک اور شہری کی ہلاکت نے رینجرز کی ذمے داری پر بھی سوال اٹھا دیے ہیں۔ رینجرز خصوصی اختیارات ملنے کے باوجود وہ کارکردگی نہیں دکھا سکی جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ ستمبر میں وزیر اعظم کے دورہ کراچی میں انھیں جرائم میں کمی واقع ہونے کی بریفنگ دی گئی تھی جب کہ نئے سال کے پہلے دو ماہ میں جرائم میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔
شہر بھر میں شاہراہوں پر پولیس چیکنگ اور رینجرز کے گشت کے باوجود نامعلوم قاتل کامیابی سے وارداتیں کر کے فرار ہو رہے ہیں اور گرفت میں نہیں آ رہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے شہریوں کو تحفظ فراہم نہیں کر پائے اور نامعلوم قاتل دن دہاڑے گنجان علاقوں اور سیکڑوں نمازیوں کے سامنے اپنے ٹارگٹ کو ہدف بنا کر کامیاب رہتے ہیں اور ٹارگٹڈ آپریشن کرنے والے ان کا کچھ نہیں بگاڑ پائے۔ شیعہ عالم دین کی ٹارگٹڈ کلنگ حکومت اور متعلقہ اداروں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ کیوں ناکام ہیں اور ان کے اقدامات اور فیصلے شہریوں کو محفوظ کیوں نہیں بنا پا رہے؟
کسی ایک وی آئی پی کی حفاظت پر مامور درجن بھر کمانڈو متعین کیے جاتے ہیں تو کہیں ہزاروں اور سیکڑوں کی تعداد میں نماز پڑھنے والوں کے لیے ایک سپاہی بھی تعینات نہیں کیا جاتا۔ ہزاروں افراد کو لاوارث چھوڑ دیا جاتا ہے خود تھانوں یا اپنے دفاتر میں حفاظتی اسکواڈ میں محصور رہنے والے عوام کے ٹیکسوں سے نہ صرف تنخواہیں وصول کرتے ہیں بلکہ ان کی حفاظت پر مامور اہلکاروں کی مجموعی تنخواہ ان کے افسر کی تنخواہ سے بھی کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ ٹیکس دینے والے عوام دہشت گردوں کے رحم و کرم پر ہیں، صرف عید اور بقر عید پر نماز عید کے وقت کچھ اہلکار عوام کی حفاظت کے لیے ضرور تعینات کر دیے جاتے ہیں مگر نماز جمعہ کے اجتماعات میں صرف ان جگہوں پر ہی پولیس اہلکار تعینات کیے جاتے ہیں جہاں کسی وی آئی پی نے نماز ادا کرنی ہوتی ہے۔
کراچی میں امن و امان کی بہتری کے لیے جو ٹارگٹڈ آپریشن گزشتہ 6 ماہ سے جاری ہے اس کے وہ نتائج برآمد نہیں ہوئے جس کی عوامی اور سیاسی طور پر توقع کی جا رہی تھی۔ صرف سندھ حکومت کے کرتا دھرتا ہی اس آپریشن سے مطمئن ہیں جن کے آپریشن کی حمایت میں بیانات میڈیا پر نظر آتے ہیں جب کہ حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ تاجر اغوا ہو کر تاوان ادا کر کے ہی واپس آ رہے ہیں۔ بھتہ خوری میں عارضی کمی آئی تھی وہ اب بھی پہلے کی طرح کامیابی سے جاری ہے۔ آپریشن میں پولیس کا جانی نقصان جتنا ہوا ہے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ ٹارگٹڈ کلنگ درجن کے لگ بھگ چلی آ رہی ہے کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب شہر میں کوئی قتل نہ ہوتا ہو۔ سرکاری اہلکاروں کے جانی نقصان پر حکومت معاوضے کا اعلان کر دیتی ہے مگر عام لوگوں کی جانوں کی قیمت حکومت کے نزدیک کچھ ہے ہی نہیں اور حکومت ان کے لیے کسی امداد کا اعلان نہیں کرتی۔ سیاسی اور فرقہ پرستی کی بنیاد پر بھی قتل کی وارداتوں کو روکا نہیں جا سکا ہے اور شہر بھر میں یہ تاثر عام ہو چکا ہے کہ کراچی میں کوئی محفوظ نہیں ہے اور شہریوں کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار اور رینجرز خود محفوظ نہیں ہیں اور انھوں نے اپنی حفاظت کے لیے ہر ممکن انتظامات کیے ہوئے ہیں مگر اس کے باوجود دہشت گرد انھیں موقع ملتے ہی نشانہ بنا لیتے ہیں۔
کراچی بدامنی کیس میں سپریم کورٹ میں سماعت کے موقعے پر گرفتاریوں کے جو اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں ان پر ججوں نے جو تاثرات اور ریمارکس دیے وہ اس آپریشن پر سوالیہ نشان ہیں۔ دس ہزار سے زائد ملزموں کی گرفتاری ظاہر کی گئی ہے جن میں دو سو سے کم ملزمان دہشت گردی کی عدالتوں میں چالان ہوئے مگر سزا کسی کو نہیں ہوئی اور الزام عدلیہ پر تھوپ دیا جاتا ہے کہ وہ ملزموں کو ضمانت پر چھوڑ رہی ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کراچی کی صورتحال کے بارے میں جو سخت ریمارکس دیے وہ بھی کراچی انتظامیہ اور صوبائی حکومت کی آنکھیں نہیں کھول سکے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے خود کو محفوظ بنانے کے بعد کراچی کے شہریوں کو محفوظ بنانے پر توجہ نہیں دے رہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کہہ چکے ہیں کہ کراچی پر مختلف مافیاز اور دہشت گردوں کا قبضہ ہے جہاں چلنے والی آدھی سے زیادہ گاڑیاں غیر رجسٹرڈ اور غیر قانونی طور پر چل رہی ہیں۔ سپریم کورٹ نے کراچی کی صورتحال پر سابق چیف جسٹس کے دور میں جو توجہ دی تھی وہ برقرار ہے اور نئے چیف جسٹس نے بھی کراچی کی صورتحال کو تشویشناک قرار دے کر مختلف محکموں سے جواب طلب کیے ہیں مگر سندھ حکومت کراچی کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی اور محض بیان بازیوں سے کام چلا رہی ہے۔
کراچی کے لوگ پولیس کے بعد اب رینجرز کے کردار سے بھی مطمئن نہیں ہیں اور کراچی میں رینجرز کے ہاتھوں ایک اور شہری کی ہلاکت نے رینجرز کی ذمے داری پر بھی سوال اٹھا دیے ہیں۔ رینجرز خصوصی اختیارات ملنے کے باوجود وہ کارکردگی نہیں دکھا سکی جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ ستمبر میں وزیر اعظم کے دورہ کراچی میں انھیں جرائم میں کمی واقع ہونے کی بریفنگ دی گئی تھی جب کہ نئے سال کے پہلے دو ماہ میں جرائم میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔
شہر بھر میں شاہراہوں پر پولیس چیکنگ اور رینجرز کے گشت کے باوجود نامعلوم قاتل کامیابی سے وارداتیں کر کے فرار ہو رہے ہیں اور گرفت میں نہیں آ رہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے شہریوں کو تحفظ فراہم نہیں کر پائے اور نامعلوم قاتل دن دہاڑے گنجان علاقوں اور سیکڑوں نمازیوں کے سامنے اپنے ٹارگٹ کو ہدف بنا کر کامیاب رہتے ہیں اور ٹارگٹڈ آپریشن کرنے والے ان کا کچھ نہیں بگاڑ پائے۔ شیعہ عالم دین کی ٹارگٹڈ کلنگ حکومت اور متعلقہ اداروں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ کیوں ناکام ہیں اور ان کے اقدامات اور فیصلے شہریوں کو محفوظ کیوں نہیں بنا پا رہے؟